محسن ملت مولانا ممتاز علی مظاہری ۔حیات و خدمات


محسن ملت
مولانا ممتاز علی مظاہری دامت برکاتہم 
حیات و خدمات


ماہ وسال کے آئینہ میں

۱۹۲۲ء میں پیدا ہوئے۔
۱۹۳۵ء میں مڈل پاس کیا۔
۱۹۳۶ء میں مدرسہ عزیزیہ بہارشریف گئے۔
۱۹۴۶ئ میں مدرسہ عزیزیہ سے عالمیت مکمل کی۔
۱۹۴۶ء میں مدرسہ رحمانیہ میں پہلی باراستادبنے۔
۱۹۴۸ء میں مونگیرمیں ر ہ کرپرائیویٹ سے میٹرک کا امتحان دیا اورکامیاب ہوئے۔
۱۹۴۹ء میں مظاہرعلوم سہارنپورپہونچے،جہاںمتفق علیہ درجہ میں داخلہ ہوا۔
۱۹۵۰ء میں مظاہرعلوم سے دورٔحدیث کی تکمیل کی۔
۱۹۵۰ئ میں دوبارہ مدرسہ رحمانیہ میں تدریس کی ذمہ داری سنبھالی۔
۱۹۵۸ئ میں مسلم ہائی اسکول دربھنگہ میں اردووفارسی استادکی حیثیت سے ملازمت ملی۔
۱۹۹۰ئ میں’ بیسٹ ٹیچرنیشنل ایوارڈ‘کے لئے آپ کاانتخاب ہوا۔
۵؍ستمبر۱۹۹۱ء  کواس ایوارڈسے نوازے گئے۔
۱۹۹۴ء میں مدرسہ رحمانیہ سے سبکدوش ہوئے۔
۱۹۹۶ء میں معہدالبنات یعقوبیہ کے نام سے لڑکیوں کا ایک ادارہ قائم کیا۔



سوانحی خاکہ

انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں آزادی وطن کی جو تحریک شروع ہوئی وہ انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز تک پورے ملک میں پھیل چکی تھی،ہر جگہ آزادی کے مستانے،وطن کے جیالے انگریزوں سے ٹکر لے رہے تھے،جنگ کے مختلف محاذقائم تھے، اورہر محاذپر غلامی کی زنجیر کو توڑنے اورانگریزوں کو شکست دینے کی کوششیں جاری تھیں،ان حریت پسندوں میں بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی،جن کی قیادت مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی،حکیم اجمل خان،مولاناابوالکلام آزاد،ڈاکٹر ذاکر حسین،مولانامظہر الحق اور دوسرے رہنما کر رہے تھے ،ان قائدین کی آواز شہروں سے ہوتے ہوئے قصبات،اور گاؤں دیہات تک پہونچ چکی تھی،اورہر جگہ آزادی کے چرچے تھے ،انگریزوں کے ظلم وستم کی داستانیں تھیں، زبان پر آزادی کے ترانے تھے اور دلوں میں آزادی کا خواب تھا ۔
 شہروں کے ساتھ قصبات اور دیہاتو ں کا بھی یہی حال تھا،بلکہ کسان انگریزوں کے ظلم و ستم کانشانہ زیادہ بنتے تھے،اس لئے ان کے درمیان یہ تذکر ہ زیادہ رہتا،وہ بھی ان سرگرمیوںکے سننے کے مشتاق ہوتے،کسی کو کوئی خبر ملتی تو اکثر اسی کا چرچہ رہتا،اپنی سطح کے مطابق وہ بھی ان موضوعات پر اظہار خیال کرتے،اس طرح سارے لوگ اپنی آنکھوںمیں آزادی کا خواب سجائے نئی صبح کا انتظار کررہے تھے ۔
پیدائش اور ابتدائی تعلیم
یہی وہ زمانہ تھا جب غالباً۱۹۲۲ء میں قصبہ یکہتہ کے ایک دینی گھرانے میں مولانا ممتاز علی صاحب کی پیدائش ہوئی ،آپ کے والد محترم کا نام محمد سلیم ؒاور والدہ کا نام خاتون ؒہے ، قصبہ کے عام لوگوں کی طرح آپ کے خاندان کے افراد بھی کھیتی کرتے تھے،آپ کے چچاحافظ محمد یعقوب صاحبؒ اچھے حافظ تھے اور تدریس میں مشغول تھے،ابھی عمر چھ سال کو ہی پہونچی تھی کہ والدکاسایۂ شفقت سر سے اٹھ گیا،والدہ اور چچا کے ہاتھوں آپ کی پرورش و پرداخت ہوئی ،اورانہی دونوں کی نگرانی میں آپ کی ابتدائی تعلیم کاآغاز ہوا،حافظ محمد یعقوب صاحبؒ مدرس کے ساتھ اچھے مربی بھی تھے،انہوں نے آپ کی تربیت پر خاص توجہ دی، وہ تعلیم کی پوری نگرانی کرتے،ان کی خواہش تھی کہ آپ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں،چنانچہ گھریلوحالات کے سازگار نہ ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی کوشش سے آپ کی تعلیم کا نظم کیا،آپ کی اعلیٰ تعلیم دراصل انہی کی رہین منت ہے،ان کے علاوہ دوسرے چچاحافظ عبد الرزاق صاحب بھی آپ پر توجہ دیتے،مولانا خود بیان کرتے ہیں:
 ایک مرتبہ ہم محلہ کے لڑکوں کے ساتھ کھیت چلے گئے،اس دوران چچاعبد الرزاق کی نظر پڑگئی،انہوں نے اس بات پر ہمیں بہت عار دلایا ،اس توجہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ پھر کبھی ہم مدرسہ سے غائب نہیں ہوئے ۔
اس وقت گاؤں میں دو تعلیمی ادارے تھے،مدرسہ رحمانیہ جو دینی تعلیم کا مرکز تھا اور مڈل اسکول جہاں عصری تعلیم دی جاتی تھی،ناظرہ قرآن ختم کرنے کے بعد آپ نے مدرسہ میں حفظ قرآن شروع کیا،ساتھ ہی اسکول بھی جاتے تھے،اس وقت کے اساتذہ میں حافظ حبیب اللہ ؒ اورحافظ محمد حنیفؒ وغیرہ قابل ذکرہیں،آپ نے ان دونوں سے قرآن کریم اور مولانا زین الدین صاحبؒ سے ’فارسی کی پہلی‘ اور’ آمد نامہ‘ پڑھی ۔
مولانادامت برکاتہم اپنے اساتذہ میں مولانازین الدین صاحب کاخاص طور پر ذکر کرتے ہیں،میں نے ایک مرتبہ اس کتاب کی فہرست دکھائی توخاص طورپرفرمایاکہ میر ے نام سے پہلے مولاناکاذکر کیجئے،وہ اس کے زیادہ حقدارہیں،اس سے اندازہ ہوتاہے کہ آپ نے اپنے استادمحترم کابہت زیادہ اثرقبول کیاہے۔
مدرسہ عزیزیہ بہارشریف میں 
آپ حفظ مکمل نہیں کرسکے،البتہ ۱۹۳۵ء میں مڈل پاس کرلیا،اس کے بعد مزید تعلیم کے لئے قصبہ سے باہر جانے کی امنگ پیدا ہوئی،اس وقت بہار میں مدرسہ امدادیہ دربھنگہ،مدرسہ شمس الہدی پٹنہ،مدرسہ عزیزیہ بہار شریف،جامعہ رحمانی مونگیر اور دوسرے ادارے مشہورو معروف تھے ،ان اداروں کا بڑا نام تھا،اور طلبہ کا بڑا ہجوم تھا،قصبہ کے دوسرے لڑکے مدرسہ عزیزیہ میں پڑھتے تھے،چنانچہ آپ کے سلسلہ میں بھی وہیں جانے کافیصلہ ہوا،۱۹۳۶ء میں آپ بہار شریف پہونچے،اور مدرسہ میں داخلہ لے کر پڑھنا شروع کیا،یہاں آپ نے دس سال تک تعلیم حاصل کی اور۴۶ء میں عالمیت کانصاب مکمل کیا ،یہاں علاقہ کے سینئرطلبہ میں حافظ محمد رفیق ململیؒ جیسے مربی ملے،جن کی نگرانی وتربیت سے بڑا فائدہ پہونچا،اوربہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، ان کے علاوہ مولانا محمد حنیفؒ اور دوسرے اساتذہ سے قریبی تعلق رہا،یہ سب آپ پر شفقت فرماتے تھے ۔
بہار شریف میں ابھی آپ مزیدتعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے ،مگر ملک کے حالات خراب ہوگئے،جس کی وجہ سے آپ بہار شریف نہیں جاسکے ،مگر آپ نے ہمت نہیں ہاری،مونگیر کا رخ کیا،اوروہاں رہ کر پرائیوٹ سے میڑک کی تیاری شروع کی،۱۹۴۸ء میں میڑک کاامتحان دیا اورکامیاب ہوئے،آپ کا طائر شوق اب بھی بلند آشیانہ کی تلاش میں تھا،عالمیت مکمل ہوچکی تھی ، آپ دورۂ حدیث کسی بڑے ادارہ میں کرنا چاہتے تھے،اور یہ جذبہ شوق کی حد تک پہونچا ہوا تھا ،مگر قدرت کو ابھی منظور نہیں تھا،چنانچہ مونگیر سے واپس وطن لوٹے،یہاں مدرسہ رحمانیہ کی مسندتدریس واہتمام آپ کی منتظر تھی،چنانچہ مدرسہ کے ذمہ داروں کے اصرار پرآپ نے مسند تدریس کو زینت بخشی ،اور تدریس کا آغار کیا ۔
مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں 
مدرسہ رحمانیہ میںابھی ایک یادوسال پڑھایا ہوگا کہ شوق نے پھر کروٹ لی،دیوبندیا سہارنپور سے دورۂ حدیث کرنے کی خواہش جوچنگاری کی شکل میں دبی ہوئی تھی شعلہ بن گئی، تقاضہ بڑھنے لگا،ادھر حالات خراب ہونے کی وجہ سے گھر والوں نے سفر سے روکا ،مشفق چچا نے حالات کا حوالہ دیا کہ ابھی حیدرآباد کی جنگ چل رہی ہے،فضاخراب ہے،مگر آپ نے ایک نہ مانا،اور رخت سفر باندھ لیا،بالآخر دیوبند پہونچے،یہاں ہم وطنوں میں مولانا صابر صاحب ؒاور مولانا عبد الباقی ململیؒ ملے،انہوں نے سہارنپور جانے کامشورہ دیا، کہ وہاں امتحان آسان ہوتاہے،داخلہ آسانی سے ہوجائے گا،چنانچہ آپ سہارنپور پہونچے،آگے کا واقعہ مولاناخود بیان کرتے ہیں :
داخلہ کے ممتحن حضرت مولانا منظور احمد سہارنپوری تھے ،انہوں نے مجھ سے عبارت پڑھنے کو کہا،میں نے اعلم کے بعد ان ّبالکسر پڑھا،مولانانے کہا آپ کاامتحان ہوگیا،داخلہ موقوف علیہ میں ہوگا،دورہ میں نہیں،میں نے یہ عذر کیا کہ میرے گارجین نے صرف ایک سال کے لئے اجازت دی ہے،مولا نا نے فرمایایہیں رہیں،موقوف علیہ کہ بعد دورہ کریں،پھرمولانا نے کتابیں بھی تجویز کردی ،جو اس طرح تھیں،جلالین،مشکوۃ شریف،ہدایہ اولین،رسم المفتی اورسراجی،میں نے مولانا کے فیصلہ کو بسروچشم قبول کیااورتعلیم شروع کردی۔
یہاں آپ کو مشہور ومعروف اساتذہ سے پڑھنے کاموقع ملا ،ان میں بطور خاص مولانا عبد اللطیفؒ،شیخ الحدیث مولانامحمد زکریاؒاور مفتی محمود الحسن ؒسے استفادہ کیا،بخاری شریف حضرت شیخ الحدیثؒ سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی،ان حضرات کے علاوہ حضرت تھانوی کے خلیفہ حضرت مولانا اسعد اللہ صاحبؒ کی شفقتیں بھی آپ کومیسر آئیں، حضرت آ پ پر خاص توجہ فرمایا کرتے تھے ،مولانا نے بھی ان کی خوب خوب خدمت کی ،اور بھر پوراستفادہ کیا ، سونے کے وقت بطور خاص حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے اور پاؤں دباتے،حضرت اس وقت طلبہ کو مستفید فرمایاکرتے تھے ،کبھی نصیحت کرتے،کبھی حماسہ اور کبھی متنبی کے اشعار سناتے ۔
دورہ کی تکمیل کے سال ہی شعبان میں حضرت شیخ الحدیثؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کی درخواست کی ،حضرت نے اسے منظو ر فرمایا اور بیعت کی۔
مدرسہ رحمانیہ میں دوبار ہ تدریس 
مظاہر علوم سہارنپور سے دورۂ حدیث کی تکمیل اور وہاں کے اساتذہ اور مشائخ سے دو سال استفادہ کرنے کے بعد ۱۹۵۰ء میں وطن واپس آئے،اورسابقہ مشغولیت یعنی مدرسہ رحمانیہ میں تدریس شروع کی،جس وقت آپ تشریف لائے اس وقت مدرسہ میں ابتدائی تعلیم ہوتی تھی،دوتین اساتذہ مصروف ِتدریس تھے ،مدرسہ کے سکریٹری سمیع الدین بابوؒتھے ۔
آپ نے آتے ہی تعلیم سے پوری دلچسپی لینا شروع کردی،بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت پر توجہ دی،مدرسہ کے حالات کو سنبھالا،تدریس کے ساتھ انتظامی امور بھی دیکھتے،اس طرح تدریس اوراہتمام دونوں کی ذمہ داریاں سنبھالنے لگے،آپ کی شب وروز محنت اور پیہم کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدرسہ کے تعلیمی معیار میں خواطر خواہ ترقی ہونے لگی ، مدرسہ کی حالت پہلے سے اچھی ہوگئی،اسی درمیان بیرسٹر محمدشفیع ؒ نے ۱۹۵۲ء میں مدرسہ کاالحاق اکزامیشن بورڈ پٹنہ سے وسطانیہ تک کرایا ۔
تدریس کے ساتھ عصری تعلیم 
آپ میٹرک کا امتحان پہلے پاس کرچکے تھے،تدریس کے زمانہ میں بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا،فاضل حدیث ،فاضل تفسیرکے ساتھ عصری تعلیم میں آئی اے(I.A)اوربی اواے(B.O.A)کے امتحانات دئے اورکامیابی حاصل کی۔ 
مسلم ہائی اسکول دربھنگہ میں ملازمت 
آپ کی کوششوں سے مدرسہ ترقی کی راہ پر گامزن تھاکہ ۱۹۵۸ء میں فارسی واردو کے مدرس کی حیثیت سے مسلم ہائی اسکول دربھنگہ(جو بانی سکریٹری کی طرف منسوب ہوکر ’’شفیع مسلم ہائی اسکول‘‘ کے نام سے مشہور ہے)میں آپ کاتقرر ہوگیا،چنانچہ آپ مدرسہ چھوڑ کر یہاں کی تدریس میں مشغول ہوگئے،ابھی یہاں صرف چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ مدرسہ میں آپ کی کمی محسوس ہونے لگی، آپ کے مدرسہ سے چلے جانے کی وجہ سے وہاں کی تعلیم متاثر ہونے لگی۔
 آپ کے جانے سے مدرسہ پرکیااثرپڑا؟اس کا اندازہ کاروائی رجسٹرکی ایک تحریرسے لگایاجاسکتاہے، مولانا نے دربھنگہ جانے کے لئے دوسال کی رخصت لی تھی،اس سلسلہ میں ۲۸؍مارچ ۵۹ء کو مجلس منتظمہ کی میٹنگ کی کاروائی اس طرح ہے:
مولانا ممتاز علی صاحب کی درخواست منظورشدہ دوسالہ بلامشاہرہ پرسکریٹری نے حسب ذیل باتوں پرروشنی ڈالتے ہوئے اراکین مدرسہ سے پرزورانداز میں کہا کہ ان کی درخواست کومستردکرکے جلدازجلدان کواپنی جگہ پرواپس لے آئیں،ان کی عدم موجودگی کے باعث مدرسہ کے کاموں میں اقتصادی اورتعلیمی لحاظ سے بہت نقصان ہوا اورہوتارہے گا،اوربہت ممکن ہے کہ ان کی غیبوبت کے باعث مدرسہ کاوجودہی ختم ہوجائے،ان کے چلے جانے سے میرے اوپرکاموں کا بوجھ بہت زیادہ ہوگیا ہے،اگروہ نہیں بلائے جاتے ہیں تومیں اپنااستعفیٰ پیش کرتاہوں۔ (کاروائی رجسٹر)
چنانچہ ذمہ داران نے اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا،اور یہ طے پایا کہ مولانا کوپھر مدرسہ بلایا جائے،اس وقت مدرسہ کے سکریٹری محب الحسن صاحبؒ تھے ،مولانا کو بلانے پر ان کا اصرار سب سے زیادہ تھا،چنانچہ اراکین مدرسہ کی تجویز پر جناب حاجی عبد الرئوفؒ و حاجی منیر الدینؒ دربھنگہ پہونچے،آپ سے ملاقات کی،مدرسہ کی صورتحال سے آگاہ کیا اور سکریٹری صاحب کا پیغام سنایا،مولانا نے جب یہ صورتحال دیکھی تو بڑے متردد ہوئے،گہرائی سے سوچا، بعض احباب سے مشورہ بھی کیا،آپ کے بعض احباب کی رائے تھی کہ آپ اسکول کو نہ چھوڑیں، کیونکہ یہ سرکاری ملازمت ہے اور جملہ سہولیات موجود ہیں،جبکہ دوسرے احباب کی رائے تھی کہ مولانا مدرسہ واپس جائیں،اس وقت مدرسہ کو مولاناکی ضرورت ہے،اور مدرسہ کے اراکین بلانے بھی آئے ہیں،لہٰذا مدرسہ کو سنبھالنا زیادہ ضروری ہے،مولانا نے بالآخر دوسری رائے پر فیصلہ کیا اور ایک مہینہ کی تنخواہ چھوڑ کر مدرسہ آگئے ۔
مدرسہ رحمانیہ میں تیسری بارآمداورتعلیمی عروج
آپ جب گائوں پہونچے تو لوگوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا،آپ کی آمدسے مدرسہ میں گویا بہار آگئی،نوخیز کلی جو مرجھانے لگی تھی،شبنم کے قطرے پاکر تازہ ہوگئی،آپ نے پہلے سے زیادہ محنت شرو ع کی،تعلیم پر توجہ دی،اور مدرسہ کوپھرسے آگے بڑھانے کی فکر میں لگ گئے ۔
ایک طرف آپ کو اساتذہ کاپورا تعاون ملا،دوسری طرف مدرسہ کے اراکین نے ہر اعتبار سے آپ کو حوصلہ دیا اور بھرپور مدد کی،اس طرح ان سب کے مشترکہ تعاون سے تعلیم میں بڑی تیزی سے ترقی ہونے لگی ،نئی عمارت بننے لگی،نئے نئے درجات کھلتے گئے،یہاں تک کہ وہ مبارک دن بھی آیا جب ۷۲۔۱۹۷۳ء میں تعلیم فاضل تک پہونچ گئی ۔
یہ موقع نہ صرف مدرسہ بلکہ پورے علاقہ کی تاریخ میں یادگار کی حیثیت رکھتا ہے،یہ مدرسہ کا نقطۂ عروج تھا،مدرسہ رحمانیہ علاقہ کے طلبہ کے لئے تعلیم کا ایسا مرکز قرار پایا جہاں ابتداء سے فاضل تک کی تعلیم کا نظم تھا،جس کی فضا ء میں قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں گونجتی تھیں،بڑی تعداد میں دوردراز سے طلبہ مدرسہ کارخ کررہے تھے،بڑی عمر کے طلبہ دارالاقامہ میں رہتے تھے،پڑھائی کاخاص ماحول تھا، طلبہ اپنی پڑھائی میں مگن اور اساتذہ تربیت وافادہ میں مصروف ۔
مدرسہ کی اس تاریخی کامیابی کاسہرا یقینا مولانا ممتاز علی مظاہری کے سر جاتاہے،کہ اس کامیابی کے پیچھے آپ کی بڑی محنتیں تھیں،پھر اس وقت آپ ہی پرنسپل تھے،یہ دراصل آپ کا ایک خواب تھا،جو آج شرمندہ تعبیر ہورہا تھا،کتنی خوشی ہوئی ہوگی اس وقت !اور کیسے احساسات رہے ہوں گے آپ کے !!
مدرسہ رحمانیہ میں تعلیم کو عروج تک پہونچانے میں مولانا کے ساتھ وہ اساتذہ بھی شامل ہیں جنہوں نے کندہ ناتراش کو قیمتی موتی بنانے اور ذرہ بے کار کو گوہر آبدار کرنے میں اپنا خون جگر جلایا،مدرسہ کے وہ اراکین و محسنین اورمعاونین جو مولانا کی آواز پر لبیک کہنے کو ہر وقت تیار رہتے،جو ہر کام میں مولانا کے دست وبازو بنتے اور دوش بدوش چلتے،اورجن کے نقشِ پا مولانا کے نقش پا کے ساتھ مدرسہ کی چہار دیواری میں آج بھی دل کی آنکھوں سے دیکھے جاسکتے ہیں،یقینا یہ سارے حضرات مولانا کے ساتھ اس کامیابی میں برابر درجہ کے شریک ہیں ،ان سب کی خدمات قابل صد افتخار اور ہماری تحسین کے مستحق ہیں ۔
 اس انداز سے سوچتے ہوئے پیچھے مڑیے اور ذرا تاریخ کے صفحات کو پلٹئے:اساتذہ کی فہرست میںکچھ معروف نام نظر آئیں گے،اور آگے بڑھئے ،کچھ غیر معروف بلکہ گمنام نام نظر آئیں گے ،اور آگے بڑھئے،ہوسکتا ہے نام نظر نہیں آئیں، ان کے صرف کام نظر آئے گے،یہ وہ بنیاد کے پتھر ہیں،جنہوں نے خودکو دفن کرکے دوسروں کے ناموں کوزندہ کیا ہے ،اب دوسری فہرست بھی دیکھئے،یہ مدرسہ کے معاونین اور محسنین کی فہرست ہے،اس فہرست میں بھی کچھ معروف ،کچھ غیر معروف اور بہت سی گمنام شخصیتیں شامل ہیں،ان کی بڑی خدمات ہیں، مدرسہ کی تعمیر وترقی میں ان کے ہاتھ سب سے اونچے نظر آئیں گے ،اس فہرست میں ان کے علاوہ بھی کچھ نام ہوں گے،جن کانام آج کسی کو یاد نہیں ،لیکن ان کا تعاون سب سے زیادہ مخلصانہ رہا ہوگا ،ہوسکتا ہے اخلاص سے دیا ہوا ایک آنہ لاکھوں روپئے کے مقبول ہونے کا ذریعہ بن گیاہو۔
کاش یہ ماضی کی تاریخ نہیں،حال کاواقعہ ہوتا،تاریخ تھم جاتی،اورہماری آنکھیں بھی اس بام ودر کو ایک بار دیکھ لیتی،جہاں درویش صفت اساتذہ بوریوں پر بیٹھے ہوتے،سامنے مستقبل کے معمار،طالبانِ علومِ نبوت کی صفیں ہوتیں،مشکوۃ اور ترمذی کے صفحات کھلے ہوتے ، مگر ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ 
اسے قصہ ٔپارینہ لکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ناچتے ہوئے مور کو اچانک اپنا پیر نظر آ گیاہو،بہر حال حقیقت خواہ کتنی تلخ کیوں نہ ہو ،حقیقت ہوتی ہے،حقیقت سے آنکھیں چرا نہیں سکتے،اسے ماننا ہی پڑتاہے،مدرسہ کہاں سے کہاں پہونچ چکاہے ،اس کے اظہار کی ضرورت نہیں ، یہ صورتحال مدرسہ کے ذمہ داران کے ساتھ قصبہ کے باشعور افراد کے لئے بھی لمحۂ فکریہ ہے،اسباب خواہ کچھ بھی ہوں، قومی ورثہ کی حفاظت تمام لوگوں پر فرض ہوتی ہے، اسباب ومشکلات بتاکر اس سے دامن بچانا دنیا میں آسان ہوتوہو،آخرت میں شایدآسان نہ ہوگا ۔
اساتذہ کی تقرری کانظام
اس وقت اساتذہ کی تقرری کے سلسلہ میں نظام یہ تھا کہ حضرت مولانامنت ا للہ رحمانیؒ کے مشورہ سے ہی یہ کام ہوتا تھا ،گویا آپ ہی مدرسہ کے سرپرست اور تعلیمی امور کے نگراں تھے ،مدرسہ کے دیگر مسائل ومعاملات میں بھی آپ سے مشورہ کیاجاتاتھا ،حضرت بھی مدرسہ پر خاص توجہ فرماتے ،اور یہاں کے نظام اور تعلیمی امور سے دلچسپی لیتے تھے۔
آپ کے بھیجے ہوئے اساتذہ میں مولاناقاضی یعقوب قاسمی صاحبؒ(سمستی پوری)  جو بعد میں جامع العلوم چلے گئے ،اوروہاں صدر مدرس اور قاضی مقرر ہوئے ،اور مولانا ہارون رشید صاحب جمالپوری تھے،جویہاں سے جانے کے بعد مدرسہ رحمانیہ افضلہ سوپول میں پرنسپل کے عہدہ پر فائز ہوئے ۔
نظام کی پابندی 
مولانا کی ایک خاص صفت یہ ہے کہ آپ نظام کی پابندی کرتے ہیں،کہیں جانا طے ہے، تو وقت سے پہلے پہونچنے کی کوشش کرتے ہیں ،کسی کو وقت دیا ہے ،تو متعین وقت سے پہلے ہی تیار رہیںگے ،یہ چیزیں آج بھی موجود ہیں ،جوانی کے ایام میں یہ صفت اور نمایاں تھی،ہمیشہ وقت سے پہلے مدرسہ حاضر ہوتے،اساتذہ کی حاضری پر خاص دھیا ن دیتے، اوردیرحاضری پربازپرس کرتے،جو کام جس طرح طے پاتا،اس کو اسی طرح کرنے یا کروانے کی کوشش کرتے۔
اس زمانہ میں آپ کے رعب کا یہ حال تھا کہ طلبہ کے علاوہ اساتذہ بھی آپ سے ڈرتے تھے،سب وقت پر حاضر رہتے،یہاں تک کہ موسلا دھار بارش یا خراب سے خراب موسم میں بھی دیکھا گیا کہ آپ سب سے پہلے مدرسہ پہونچ رہے ہیں ،آپ کی پابندی کی وجہ سے اساتذہ اور ملازمین بھی پابند تھے ،نظام چوکس تھا اور سارے کام اچھے انداز میں انجام پاتے تھے۔
تعمیری کاموں سے دلچسپی 
تعلیمی ترقی کے ساتھ آپ نے تعمیری کاموں پر بھی توجہ دی،اورجس طرح آپ کی کوششوں سے تعلیم اپنی منزل تک پہونچی،اسی طرح تعمیری ترقی بھی خوب ہوئی،مدرسہ خس پوش اور کھپریل کمروں سے نکل کربلند وبالا عمارتوں میں تبدیل ہوگیا،مدرسہ کی یہ بلندی بھی آپ ہی کی رہین منت ہے ،مدرسہ کی موجودہ عمارت آپ کی یاد گار ہے ،حیرت کی بات ہے کہ یہ سارا تعمیری کام اس وقت انجام پایا جب سرمایہ کی فراوانی نہیں تھی،اس سے اندازہ ہوتاہے کہ آپ نے مدرسہ کے لئے کتنی محنت کی ہوگی ،کس طرح تنکا تنکا جوڑکر یہ آشیانہ بنایا ہوگا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا نے مدرسہ کے لئے بڑی محنتیں کیں،گائوں گائوں جانا، مالیات کی فراہمی ،مدرسہ کے داخلی مسائل سے نبردآزما ہونا ،یہ سب دل گردے کا کام ہوتا ہے، آپ نے یہ سب کردکھا یا ،مدرسہ کو اپنی اولا د کی طرح پالا،اور اپنے خون جگر سے اس کی آبیاری کی،مدرسہ کی ایک ایک اینٹ آپ کی اس قربانی کی گواہ ہے ،یہ سب اس لئے کیا کہ یہی آپ کی امیدوں کا مرکز،اور آپ کا نخل آرزو تھا،اس محنت کے پیچھے ایک جذبہ کارفرما تھا ،ایک جوش تھاجوحالات کے سردوگرم کو جھیلنے کا حوصلہ دے رہا تھا،یہ جذبہ کیا تھا ،پورے علاقہ میں دینی تعلیم کا فروغ،دینی بیداری،مدرسہ کا تعارف۔
آپ کی فکر تھی کہ مدرسہ پورے علاقہ کے لئے ایک دینی اور تعلیمی مرکز بنے،اس سے علاقہ کی ضرورت پوری ہو،اس کی حیثیت روشنی کے مینا ر کی سی ہو، جس کی روشنی دور دور تک پہونچے،اسی مقصد کے لئے آپ نے اس باغ کو خون جگر سے سینچ کرپروان چڑھایا ،مدرسہ کا دور ماضی اور اس کے فارغین یقینا آپ کی محنتوں کا حقیقی ثمرہ ہیں ۔
عاجزؔ نے شایداسی پس منظرمیں کہا ہوگا:
یہ تو ہے ممتاز کی آخرت کا اہتمام 
دولت ارض وسما ہے مدرسہ رحمانیہ
مدرسہ کے سالانہ جلسے
جلسہ اور دینی پروگرام مدارس کی زندگی میں خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں،ا سکا اصل مقصد توعلاقہ میں تعلیمی بیداری پیدا کرنا ہوتا ہے ،عوام الناس تک دین کی تعلیمات پہونچانے، ان کے اندر شریعت پر چلنے کا جذبہ پید اکرنے اورغلط رسومات کی اصلاح کا یہ بہترین موقع فراہم کرتا ہے،لیکن اسی کے ساتھ یہ مدرسہ کے تعارف کا ذریعہ بھی ہوتا ہے،ادارہ کی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کی جاتی ہے ،جلسہ کے نام پر اطراف واکناف بلکہ دور دورسے لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں،دیر رات اور پوری پوری رات جاگ کر مقررین اور علماء کرام کی باتیں سنتے ہیں،اور جلسہ ختم ہونے کے بعد ایک پیغام کے ساتھ ،کچھ کرنے کے ارادہ کے ساتھ اور نئے جوش وولولہ کے ساتھ اپنے گھروں کوواپس ہوتے ہیں۔
مدرسہ رحمانیہ میں بھی سالانہ جلسوں کی روایت رہی ہے ،ہمارے ممدوح مولانا ممتاز علی مظاہری دامت برکاتہم اپنے زمانہ میں بڑے اہتمام اور محنت سے یہ جلسے کرایا کرتے تھے، ایک اندازہ کے مطابق تقربیا ًآٹھ بڑے جلسے آپ کی نگرانی میں ہوئے،ان جلسوں کا عنوان عموما ’’جلسہ ٔدستار بندی‘‘ ہواکرتا تھا،صدارت کے لئے حضرت مولانا منت اللہ رحمانی ؒ کو دعوت دی جاتی،وہ صدر محفل ہوتے،ان کے علاوہ جو مشاہیر اس بزم کی رونق ہوتے،اور زینت محفل بنتے،ان میں سے چندکے اسماء گرامی یہ ہیں:
حضرت مولانا منور حسین صاحبؒ (کٹیہار )
حضرت مولانا قریش صاحبؒ (مفسر قرآن ،کلکتہ )
مولانا محمد عثمان صاحبؒ( مہتمم مدرسہ سوپول )
مولانا فصیح صاحبؒ(استھاواں)
مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ(قاضی شریعت امارت شرعیہ بہار )
مولانا شمس الہدی صاحبؒ(مہتمم مدرسہ رحمانیہ سوپول ) وغیرہ۔
مولانا سیدنظام الدین صاحب (امیرشریعت بہار)
مولانا محمد ولی رحمانی صاحب(خانقاہ رحمانی مونگیر)
مولانا محمد قاسم مظفرپوری صاحب(قاضی شریعت امارت شرعیہ)
یہ ان بزرگوں کے نام نامی ہیں،جن کے تعارف کی ضرورت نہیں،یہ اپنے وقت کے آفتاب وماہ تاب تھے ،سرزمین یکہتہ کی خوش نصیبی کہنا چاہیے کہ ا ن جیسی شحضیات نے اس علاقہ کو شرف بخشا،اور یہاں کے باشندے ان عظیم ہستیوں کی ضیافت،ملاقات اور ان کی زیارت سے فیضیاب ہوئے ،ان بزرگوں کی آمد،اور ان کی دعائیں بھی اس علاقہ کی ترقی میں شامل ہیں ۔
یہ جلسے عموماً چند سالوں کے وقفہ سے منعقد ہوتے،اس دوران حفظ قرآن کی سعادت حاصل کرنے والے حفاظ کے سروں پر دستار رکھی جاتی،دستاربندی کا منظر بڑا دلکش اور خوشنما ہوتا،جلسہ میں موجود بزرگان اور علمائے کرام کے ذریعہ حفاظ کی دستاربندی ہورہی ہے ، تکمیل حفظ قرآن کی سعادت پانے والوں میں بعض نوجوان ہیں،کچھ نوخیزہیں،کچھ تو ابھی بالکل چھوٹے ہیں،مگر ان سب کے دل قرآن کی دولت سے مالا مال ہیں،ان کے چہروں سے خوشیاں عیاں ہیں،یہ ننھے منے بچے اپنے سروں پر عمامہ باندھے ،دستار سجائے ادھر ادھر گزر تے ہیں،تو دیکھنے والے خود بخود متوجہ ہوجاتے ہیں،یہ منظر جہاں ان کوبھلامحسوس ہوتاہے، وہیں ایک سرد آہ بھی دل کے کسی گوشہ سے نکلتی ہے ،کاش !ان بچوں میں ہمارا بھی کوئی لخت جگر ہوتا،آج یہ سعادت ہمارے بھی نصیب آتی !!
مسجد رحمانی کی تعمیر 
مسجد مسلم معاشرہ کی سب سے بڑی علامت ہوتی ہے ،یہ ان کاسب سے بڑادینی مرکز ہوتاہے ،اخیر زمانہ میں مولانا کو یہ احساس ہوا کہ مدرسہ کی چہار دیواری میں ایک مسجد بھی ہونی چاہیے،اب تک طلبہ کسی کمرہ یا ہال میں نماز ادا کرتے تھے،باضابطہ مسجدنہیں تھی ، چنا نچہ مولانا نے سوچا کہ اگر یہاں مسجد بن جاتی تو طلبہ واساتذہ کے لئے نہ صرف سہولت ہوتی بلکہ ا س کو حفظ کی تعلیم کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا،اس کے علاوہ یہ مدرسہ کی تکمیل ہے ،مسجد کے بغیر  مدرسہ ناقص ہوتا ہے ،مولاناکے ذہن نے اسے سوچااورپھر کام کا پروگرام بنالیا ۔
مدرسہ کے اراکین اس کے لئے تیار نہیں تھے ،ان حضرات کی رائے تھی کہ مدرسہ گائوں سے باہر واقع ہے ،تعلیم کے زمانہ میں تو یہ آباد رہے گی،مگر چھٹیوں میں نمازیوں سے خالی ہوجائے گی،اوررمضان میں شاید یہاں نماز بھی نہ ہوپائے،اس لئے یہاں مسجد کی تعمیر مناسب نہیں ہے،یہاں بھی مولانا کی ہمت اور قوت ارادی سامنے آئی،آپ نے اراکین کے سامنے اپنی بات رکھی،اور پھر ان کی مخالفت کی پرواہ کئے بغیر تعمیر کا کام شروع کروادیا۔
۱۹۸۲ء میں حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کے ہاتھوں اس کی پہلی اینٹ رکھی گئی،مولانا نے شب وروز محنت شروع کی،سرمایہ جمع کرتے رہے،اور مسجد کی تعمیر ہوتی رہی،اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں مسجد تیار ہوگئی،یہ مسجدمولانامنت اللہ رحمانی کی طرف منسوب کرتے ہوئے ’’مسجد رحمانی ‘‘کہلاتی ہے ، مسجد کی تعمیر کے بعد آپ نے خود وہاں اعتکاف کیا اور لوگوں کو بھی اس پر آمادہ کیا،چنانچہ چند سالوں تک یہ مسجد رمضان میں بھی آباد رہی ۔
علاقہ میں تعلیمی فروغ کے لئے آپ کی کوششیں 
مولانا محترم نے مدرسہ کی تعلیمی ترقی کے ساتھ علاقہ کی تعلیم پر بھی توجہ دی ،قصبہ میں علم کی روشنی بھی تھی، مگر اطراف واکناف کے دیہات اور بطور خاص نیپال سے ملحق علاقے اب بھی جہالت کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے،غیر مسلموں کے ساتھ عرصہ سے رہنے کی وجہ سے ان کے تصورات اور رسم ورواج کی چھاپ مسلمانوں پر خاصی تھی،مختلف ہندوانہ رسومات مسلم معاشرہ میں انجام پاتے تھے،مولانااس صورت حال کو دیکھ کر فکر مند ہوتے،آپ نے ان علاقوں کا دورہ کرنا شروع کیا،اپنے ساتھ اساتذہ کو بھی لے جاتے،اور لوگوں کو دین وشریعت سے آگاہ کرتے،رسومات کو ختم کرنے کی تلقین کرتے،اور شریعت کے احکام بتاتے۔
ان علاقوں میں آپ لوگوں کوتعلیم کی طرف متوجہ کرتے،تعلیم کی اہمیت اور جہالت کے نقصانات سے لوگوں کو واقف کراتے،ا س طرح جب ان میں تعلیم کے تعلق سے کچھ بیداری آتی تو وہاں مکتب قائم کرواتے،مسجد بنانے کی طرف متوجہ کرتے،اس طرح کی کوششوں سے علاقہ میں تعلیمی بیداری عام ہوئی،دینی تعلیم کارجحان عام ہوا،اور پھر رفتہ رفتہ بہت سے مکاتب اورمدارس وجود میں آئے،اب صورت حال یہ ہے کہ اکثرگائوں میں مکاتب موجود ہیں، مساجد ہیں،بہت سے مدارس بھی قائم ہوچکے ہیں،ان مکاتب اور مدارس کے ذمہ داران یا اس کے بانیان میں اکثرکا تعلق مولانا سے اورمدرسہ سے رہاہے،یہ سب مدرسہ رحمانیہ کے فیض یافتہ ہیں،اور آپ سے شاگردی کا رشتہ رکھتے ہیں ۔
مدرسہ کی ۴۵سالہ خدمات پر ایک نظر 
۱۹۵۰ء میں مولانانے مدرسہ رحمانیہ سے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا،اور۱۹۹۱ء میں سبکدوش ہونے والے تھے،مگربیسٹ ٹیچر نیشنل ایوارڈکی وجہ سے ملازمت میں تین سال کی توسیع ہوگئی،جس کی وجہ سے ۱۹۹۴ء میں مدرسہ آپ کی خدمات سے محروم ہوا،اس طرح آپ نے تقریباًنصف صدی تک مسندِتدریس واہتمام کو زینت بخشی،نصف صدی سے زائد عرصہ تک مدرسہ کی خدمت کی۔
اس موقع پر یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ اس طویل مدت میں آپ سے مدرسہ اور علاقہ کو کیا فائدہ پہونچا،اسی طرح یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ا س مدت میں مدرسہ کن حالات اور کن مراحل سے گذرا ۔
اس میں کوئی شک نہیںکہ مدرسہ کے لئے آپ نے بڑی قربانیاں دی ہیں ،مدرسہ کی تعلیمی اور تعمیری دونوں ترقیاں آپ کی مرہون منت ہیں ۔
تعلیم کے اعتبار سے دیکھا جائے تو آپ جس وقت آئے ہیں اس وقت مکتب اورحفظ کی تعلیم ہوتی تھی،آپ نے خود بیان کیا ہے کہ اس وقت ابتدائی تعلیم تھی،دویاتین اساتذہ ہوا کرتے تھے ،آپ کے زمانہ میں فاضل تک تعلیم پہونچ گئی ،فاضل کا درجہ ختم ہونے کے بعد بھی بہت دنوں تک مشکوۃ کی تعلیم باقی رہی،ایک قصبہ میں فاضل اور مشکوۃ کی تعلیم!! شاید اس کا خواب بھی کبھی قصبہ والوں نے نہیں دیکھاہوگا ،مگرچشم فلک نے وہ دور بھی دیکھا،اس عظیم اور تاریخی کامیابی کاسہراآپ ہی کے سرزیب دیتاہے،اوراس منزل تک پہونچنے میں اراکین مدرسہ،اعیان یکہتہ اوراساتذہ کاتعاون شامل ہے،ان سب کے تعاون سے ہی یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوا ۔
آپ جب آئے تو مدرسہ چند کمروں پر مشتمل تھا،آپ کی محنت وخلوص،اساتذہ اور اعیان قصبہ کے تعاون سے پورا گلستان وجود میں آیا ،مدرسہ کی پر شکوہ عمارت،مسجد رحمانی کی تعمیر(۱۹۸۲ئ)اوربنات سیکشن کی تعمیرنو آپ کے دور کی یادگار ہیں ۔
تعلیم کے سلسلہ میں مدرسہ کا تعارف اور شہرہ دور دور تک پہونچا ،دور دراز کے طلبہ بھی اس چشمۂ علم وعرفان سے سیراب ہوئے،قصبہ کے لوگوں نے مدرسہ کو استحکام بخشا تو دوسری طرف مدرسہ کی نسبت سے قصبہ کے وقار میں اضافہ ہوا،اوراس ادارہ کی وجہ سے قصبہ کو علمی شناخت ملی،یہ ساری چیزیں مولانا کی محنت اور کاوش کا حصہ ہیں ۔
لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح مولانا کی زندگی میں مدرسہ ترقی کے بام عروج تک پہونچا،اسی طرح مدرسہ کا تعلیمی زوال بھی آپ کی زندگی میں شروع ہوگیا،ترقی کا خواب دیکھنے والی آنکھوں نے جہاں ترقی کے حسین مناظر دیکھے،انہی آنکھوں نے انحطاط وپستی کو حد سے گذرتے بھی دیکھا،مدرسہ اپنے عروج کوپہونچا ضرور، مگرکچھ عرصہ بعد ہی اسے گہن لگ گیا ،گلستاں میںبہار آئی مگرخزاں بھی ساتھ چلا آیا،عروج وزوال کی یہ داستان بڑی عجیب ہے ،اور باشعور قاری کو تھوڑی دیر کے لئے محو حیرت بنائے گا،وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ آخر ایسا کیوں ہوا، عروج کے بعد زوال ایک حقیقت ہے ،مگر یہاں سوال یہ ہے کہ مولانا کی محنت،آپ کا اخلاص او ردردمندی اور اعیان قصبہ کا تعاون اگر مدرسہ کی ترقی کا ذریعہ تھے، تو یہ ساری چیزیں اسے بعد کو بھی میسر رہیں ،مدرسہ کی شہرت اس پر مزید تھی ،مگر یہ سب اسے زوال پذیر ہونے سے روکنے کی ضمانت نہیں بن سکے،آخرایساکیوں ؟ 
اس سوال کا صحیح جواب تو وہی دے سکیں گے جن کی آنکھوں نے عروج وزوال کوقریب سے دیکھا ہے ، منجدھار میں پھنسے ناخدا ہی ملت کی کشتی کے ڈوبنے کے اسباب بتا سکتے تھے، مگر اب ایسے لوگ کہاں،ساحل کے تماشائی اپنے طور پر کچھ سوچ ہی سکتے ہیں،راقم نے عروج وزوال کے اسباب کا تجزیہ کیاہے،جس کی تفصیل مدرسہ رحمانیہ کے ذیل میں گزرچکی ہے۔
بیسٹ ٹیچر ایوارڈ 
تعلیم کے میدان میں مولانا نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ یقینا غیر معمولی اور قابل قدرہیں،آپ کی محنت ولگن ،اور مدرسہ وتعلیم کے تئیں خلوص وقربانی کے آثار واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں،اور یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ علاقہ میں جو تعلیمی بیداری آئی اور تعلیم کی طرف رجحان عام ہوا ،اور ہر سطح کے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لئے کوشاں ہیں ،ان سب کا سہرا بڑی حد تک مولاناکو جاتا ہے ،اس بیداری کا اثرآج بھی دیکھا اورمحسوس کیاجاسکتاہے ۔
مولانا کی کوششوں کا مقصد ظاہر ہے علاقہ میں تعلیم کا فروغ تھا،اور یہ دراصل اپنی ذمہ داری کی ادائیگی تھی جو شریعت کی طرف سے ہراہل علم وذی شعورپرعائد ہوتی ہے،اس کام کے بدلے جو نیک نامی اور شہرت وناموری حاصل ہووہ جزوی چیز ہے،اصل اللہ کی رضا ہے،اور ان کی طرف سے ملنے والا انعام جو قیامت میں ملے گا۔
حکومت ہند کی طرف سے ۱۹۹۰ء میں بیسٹ ٹیچرایوارڈ(نیشنل ایوارڈ)کے لئے آپ کا ا نتخاب ہوا،اور۵؍ستمبر۱۹۹۱ء کے ایک باوقار تقریب میں یہ ایوارڈ آپ کو پیش کیاگیا،یہ حکومت کی طرف سے گویاآپ کی خدمات کااعتراف تھا،شمالی بہار کی تاریخ میں وہ دن یقینا بڑا تاریخی دن تھا جب اس دور افتادہ علاقہ کے ایک فرد کو ا س قابل قرار دیا گیا کہ ان کی خدمات کو سراہا جائے ،اور انعاما ت سے نوازا جائے ۔
۵؍ستمبر۱۹۹۱ء کادن یقینا بڑاخوبصورت اور یادگار تھاجب تقسیم ایوارڈ کی بزم سجی،اس وقت کے صدر جمہوریہ آربنکٹ رمن بزم کے صدر نشین تھے ،جبکہ ارجن سنگھ وزیر تعلیم اوردیگر معززین،وزرائ،اعلی افسران اور تعلیم سے متعلق حضرات شریک پروگرام تھے،اس پروقار تقریب میں آپ کوایوارڈ دیا گیا، ایوارڈ کی خبرسے قصبہ اور علاقہ کے لوگ شاداں وفرحاں تھے،  جب آپ ایوارڈ لے کر لوٹے توہر طرف سے مبارکبادیاں پیش کی گئیں،قصبہ کی طرف سے باضابطہ تہنیتی تقریب منعقد ہوئی،متعلقین اور تلامذ ہ نے تہنیتی خطوط بھیجے،ا س ایوارڈ نے نہ صرف مولانا کا بلکہ مدرسہ ، قصبہ اور علاقہ سب کا نا م روشن کیا ۔
معہد البنات یعقوبیہ کاقیام 
مدرسہ رحمانیہ سے ریٹائر ہونے کے بعد امیرشریعت مولاناسید نظام الدین صاحب  نے آپ کو مشورہ دیا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ایک ادارہ قائم کریں،تاکہ ا س کے ذریعہ لڑکیوں کی تعلیم کا مناسب انتظام ہوسکے،مولانا محمد قاسم مظفر پوری نے نہ صرف ا س مشورہ کی تائید کی بلکہ مستقل اصرار کرتے رہے،تاآنکہ مولانا اس کے لئے تیار ہوگئے ،کسی ادارہ کا قیام ظاہر ہے بڑی جدوجہد کا طالب ہوتاہے،اور مولانا اب اس حال میں نہیں تھے،اس لئے مولانا کو اس سلسلہ میں تردد تھا،مگر ان دونوں بزرگوں کے مشورہ اور اصرار پر آپ نے بنام خدا اس راہ میں قدم بڑھا یااور۱۹۹۶ء میں معہدالبنات یعقوبیہ کے نام سے لڑکیوں کا ادارہ قائم کیا، جس میں فی الحال الفقہ المیسرتک لڑکیوں کی تعلیم ہورہی ہے،سلائی سکھانے کا بھی انتظام ہے، مولانا بذات خوداس کی نگرانی کرتے ہیں۔
علماء ومشائخ سے تعلق واستفادہ 
مولانادامت برکاتہم اپنے کاموں کے سلسلہ میں ہمیشہ بڑوں سے مشورہ کرتے رہتے ہیں، بچپن سے ا سکی عادت ہے،آپ زمانۂ طالب علمی سے اپنے اساتذہ سے قریب رہے،ان کی شفقتیںحاصل کیں،جب مدرسہ رحمانیہ سے وابستہ ہوئے تو بہار کے مؤقر علماء اور بطور خاص امارت شرعیہ کے ذمہ داران سے ربط وتعلق بڑھا،اور دھیرے دھیرے یہ تعلق قربت کی شکل اختیارکرتا گیا،مولانا ان بزرگوں کی خدمت میں وقتاً فوقتاً حاضر ہوتے رہتے،اور ان سے استفادہ کرتے،وہیں ان حضرات کے دل میں بھی مولانا کی قدر تھی،یہ حضرات آپ کے کاموں کی تحسین فرماتے ،اور آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ۔
 جن علماء سے زیادہ قربت رہی ان میں سرِ فہرست امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی ؒہیں،آپ کی درخواست پر حضرت امیر شریعت باربار مدرسہ تشریف لاتے رہے، اور قصبہ اور ا س پورے علاقہ کو فیض یاب کرتے رہے ،حضرت امیرشریعت کا آپ کے ساتھ مدرسہ اور اس قصبہ سے بھی بڑاگہرا تعلق تھا ،اس قصبہ میںیہاں حضرت کو اپنا ئیت سی محسوس ہوتی تھی ۔
 مولاناقاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کابھی یہی حال تھا،آپ بھی متعددبار تشریف لائے، اور ہمیشہ اس قصبہ کو اپنا گھر سمجھتے تھے،موجودہ امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب سے طویل عرصہ سے ربط وتعلق ہے،آپ ہی کے مشورہ پرمولانانے معہد البنات قائم کیا، حضرت امیر شریعت سے خود میں نے کئی بار آپ کا ذکر خیر سنا،مولانا محمد قاسم مظفر پوری اور مولانا محمد ولی رحمانی بھی ان لوگوں میں سے ہیں جن سے مولانا کو قربت رہی ہے ، ان کے علاوہ مولانا عثمان صاحب (مدرسہ افضلہ سوپول)،مولانا قریش صاحب(کلکتہ) ، ڈاکٹر عبد الحفیظ سلفی صاحب وغیرہ سے خصوصی تعلقات رہے ہیں،یہ وہ حضرات ہیں جو ملت  کے ارباب حل وعقد میں شمار کئے جاتے ہیں ۔
حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب ؒسے سہارنپور کے زمانہ قیام میںاستفادہ کیا،اورشیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ تو آپ کے مرشد اول تھے،ان حضرات سے تعلق ظاہر ہے ۔
جن اداروں سے آپ کا گہراتعلق رہاہے ان میں امارت شرعیہ بہار،خانقاہ رحمانی مونگیر، اور مسلم پرسنل لا بورڈ کانام آتا ہے،پرسنل لا بورڈ کے اجلاسِ بمبئی اوراحمد آباد میں بحیثیت مدعو خصوصی شریک ہوئے،سال گذشتہ۲۰۱۰ء میں لکھنؤمیں ہونے والے بورڈ کے اجلا س میں بھی آپ کودعوت ملی،اورآپ اپنی ضعف اور پیرانہ سالی کے باوجود شریک ہوئے،خانقاہ میں اکثر حاضری ہوتی رہتی ہے،امارت شرعیہ کی مجلس شوری کے رکن ہیں اور ایک طویل عرصہ سے اس سے وابستہ ہیں ۔
حضرت شیخ الحدیثؒ سے تعلق اور بیعت 
مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کا یہ امتیاز رہاہے کہ وہاں طلبہ دینی علوم کی تحصیل کے ساتھ باطنی علوم یعنی تصوف وسلوک کے مراحل بھی طے کرتے ہیں،عموماًطلبہ کا کسی نہ کسی شخصیت سے اس سلسلہ میں ربط و تعلق رہتاہے،جن کی رہنمائی میں اپنی تعلیم بھی جاری رکھتے ہیں او راپنے باطنی امراض کا علاج بھی کراتے ہیں،اس طرح وہاں کے استادکی حیثیت بیک وقت مربی، مرشداور معالج سب کی ہوتی ہے،اس علمی وروحانی فضا میں مولانا نے دوسال گزارے،جہاں قرآن وحدیث کے ساتھ بزرگوں کے تذکرے،تصوف کے مسائل،ذکر وشغل،مراقبہ،کشف وکرامات کی باتیں اکثر ہوتی رہتی تھیں،اسی ماحول کانتیجہ تھا کہ آپ کے ا ندر بھی کسی ایسے استاذ سے تعلق پیدا کرنے کی خواہش پیدا ہوئی جو مرشد بھی ہو او رمربی بھی،چنانچہ آپ حضرت مولانا اسعد اللہ صاحبؒ کی خدمت میں آنے جانے لگے،خالی اوقات میں حضرت سے استفادہ کرتے ۔
فراغت کا وقت جب قریب آیاتو خیال ہوا کہ یوں آزاد رہنا ٹھیک نہیں ہے ،اپنا ہاتھ کسی کے ہاتھ میں دے دینا چائیے،اور آئندہ کی تربیت کے لئے کسی کو اپنا مرشد بنا لینا چائیے،یہی سوچتے ہوئے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے،ان کے سامنے اپنا مدعا رکھا،حضرت نے بیعت لی اور ذکر واذکار کی نصیحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’مولوی ممتاز چٹائی پر بیٹھ کر علوم دینیہ کی خدمت کرو ‘‘۔
مدرسہ کی مصروفیات اور رمضان میں سرمایہ کی فراہمی کے لئے اسفار کی وجہ سے ابتدائی چندسالوں تک حضرت سے کوئی رابطہ نہیں رہا،مگر جلدہی حضرت سے دوبارہ رابطہ استوار کیا، اس جدید تعلق کو ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ حضرت شیخ الحدیث مدینہ ہجرت کرگئے،مولانا جب اپنے دوسرے حج میں مدینہ پہو نچے توحضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے،شیخ نے آپ کو مفتی محمود الحسن صاحب ؒ سے رابطہ رکھنے اور ان سے اکتساب فیض کرنے کا مشورہ دیا ۔
سفر حج سے واپسی پر مولانا نے حضرت شیخ الحدیث کے دوسرے خلیفہ مولانا منور حسینؒ سے تجدید بیعت کی درخواست کی،مگر انہوں نے انکار کیا،اور حضرت شیخ الحدیث کے مشورہ کے مطابق مفتی صاحب ؒسے رابطہ رکھنے کا حکم دیا،حضرت مفتی صاحب ؒکے وصال کے بعد آپ نے حضرت شیخ الحدیث کے صاحبزادے حضرت مولانا طلحہ صاحب دامت برکاتہم کے ہاتھوں پر تجدید بیعت کی ۔
اس کے بعد سے حضرت مولانا محمد طلحہ دامت برکاتہم سے تعلق ہے ،رمضان سہارنپور میںگزارنے کااہتمام کرتے ہیں،جہاں حضرت شیخ الحدیثؒ کے مریدوں اوران سے انتساب رکھنے والوں کا بڑااجتماع ہوتا ہے ،چند سال قبل مولانا محمد طلحہ صاحب دامت برکاتہم نے آپ کو بیعت کی اجازت مرحمت فرمادی ،اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
چندیادگارخطوط
مولاناکے مختلف اہل علم اورسیاسی رہنماؤںسے خصوصی مراسم اورقریبی تعلقات رہے ہیں،ان میں بہت سے لوگوں سے مراسلت بھی تھی،بطورخاص مولانا منت اللہ رحمانیؒ،مولانا مفتی محمودصاحبؒ،مولاناقریش صاحبؒ،مولاناقاری صدیق باندوی،ؒڈاکٹرجگن ناتھ مشرا سابق وزیراعلی بہار،دھنک لال منڈل سابق گورنرہریانہ وغیرہ سے اکثر مراسلت ہوتی رہی ہے،یہ خطوط محفوظ ہوتے تومولاناکے ان حضرات سے تعلقات کی کئی جہتیں سامنے آتیں، مگریہ سرمایہ محفوظ نہیں رہا،البتہ مدرسہ رحمانیہ کے ریکارڈمیں چنداہم خطوط ملے ،جنہیں یہاں درج کیا جاتاہے:
مولانا منت اللہ رحمانی کاگرامی نامہ جس پر۱؍مئی ۸۰ء درج ہے ،اس طرح ہے:
مکرم مولانا! وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا دعوت نامہ آج ڈاک لکھاتے وقت سامنے آیا،اس سے پہلے آپ سے ملاقات ہوئی تھی،اورمیں نے معذرت کردی تھی،آپ نے شایدتاریخ کا اعلان کردیا تھا،ستروپٹی سے دعوت نامہ آیا کہ یکہتہ آرہے ہیں،یہاں آئیں،آپ کا جواسٹیشن ہے وہاں سے بھی خط ا ٓیا کہ یہاں آئیں،پھرمعلوم ہوا کہ آپ نے اجلاس ملتوی کردیا،آپ کے کیامصالح تھے،اس کوآپ جانیں ع
رموز سلطنت خویش خسروان دانند
جیساکہ میں نے آپ سے نیپال میں کہا تھا بھاگل پوراجتماع سے پہلے اوراس کے بعد بہت بھیڑرہی،پچاسوں جماعتیں آئیں اورگئیں،حضرت مولانا انعام الحسن صاحبؒ اپنے تمام رفقاء کے ساتھ جس میں مولانا محمد عمرپالنپوری مولانا محمد عبیداللہ ،قاری محمد ظہیر،منشی بشیرصاحب وغیرہ وغیرہ خانقاہ تشریف لائے،اوریہاں سے دلی تشریف لے گئے،مولانا محمد عمرصاحب پالنپوری اورمولانا انعام الحسن صاحب کی تقریریں بھی یہاں ہوئیں،ان حضرات کا آنا بہترہی ہوا ،الحمدللہ ۔
خداکرے آپ اورتمام مدرسین بخیرہوں،آپ سے ملاقات بھاگلپورمیں کسی سے نہیں ہوئی،خداکرے بعافیت ہوں اورتمام مدرسین سے سلام مسنون فرمادیں۔
والسلام 
منت اللہ 
    خانقاہ رحمانی مونگیر
امیرشریعت کا دوسراخط جس میں تفصیل سے دیوبندکے حالات لکھے ہیں:
مکرم مولانا زادلطفہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی نامہ ملا،الحمدللہ اچھا ہوں،اوراس مبارک مہینہ کوصیام وقیام کے اہتمام کے ساتھ گزاررہاہوں،دعافرمائیں کہ اللہ تعالی قبول فرمائے۔
دیوبند میںاسٹرائک نہیں ہوئی ہے،باہرکے لوگوں کی ایماء اوراشارے سے بعض مدرسین اورکچھ طلبانے ۱۸؍مئی سے سازش اورہنگامہ شروع کیا،اس طرح کہ اسباق نہیں پڑھائے جارہے ہیں،اورہرصبح وشام خفیہ اورکھلے جلسے ہورہے ہیں۔
۷؍اور۸؍جولائی کومجلس شوری تھی،ان اللہ کے بندوں نے شوری کے جلسے نہ ہونے دئیے،ہم لوگ جمع ہوتے اوریہ لوگ سامنے آکرتقریرکررہے ہیں،اورلائوڈ اسپیکرلگاکر بول رہے ہیں،اگرکبھی ملاقات ہوتوتفصیلا ت بتائوں،اسٹرائک توطلبہ کی طرف سے ہوتی ہے،اور کچھ ان کے مطالبات ہوتے ہیں،ان کے منوانے پرزوردیا جاتاہے،نہ ماننے پراسٹرائک ہوتی ہے،ان میں سے کوئی بھی بات وہاں نہ تھی۔
میں نے ابھی دفترسے معلوم کرایا تومعلوم ہوا کہ حافظ مشتاق علی سلمہ کے طرف سے کوئی بھی درخواست نہیں آئی ہے،اورناظم تعلیمات کے آئے ہوئے خطوط کومنگواکرمیں نے دیکھا، آپ کاکوئی خط نہیں۔
جامعہ رحمانی پہلے ہی اعلان کرچکاہے کہ جودرخواستیں ۲۰؍رمضان سے پہلے آئینگی ان پر غورہوگا،اگرآپ اس خط میں مشتاق علی سلمہ کے متعلق تفصیلات لکھدیتے تومیں اسی کو درخواست بنادیتا۔
بہرحال آپ فوراًدرخواست بھیجیں،جس میں نام مع ولدیت،عمر،کہاں پڑھاہے،اورکیا پڑھاہے،اب کیا پڑھناچاہتے ہیں،داخلہ امدادی چاہتے ہیں یا غیرامدادی،یہ ساری تفصیلات لکھ کربھیجیں،اگرممکن ہوتوکسی شخص کے معرفت بھیج دیں،میں آپ کے اس خط کی بناء پر ایک جگہ رکوارہاہوں۔
اللہ تعالی آپ کی چچیری بھانجی کوشفاء عطافرمائے،رمضان کے بعداگرممکن ہوتومجھ سے تاریخ لے کروہ آجائیں،اوراگریہ ممکن نہ ہوتوکوئی صاحب ان کاچوبیس گھنٹہ پہناہوا کپڑااور ان کااوران کی والدہ کا نام لے کر۲۸؍اگست سے ۲؍ستمبرکے درمیان تک آویں،انشاء اللہ جو خدمت ممکن ہوگاکروں گا،سرِدست آپ ایسا کریں کہ نیچے لکھا ہوانقش چالیس پرچوں پر چاول کی روشنائی سے لکھ کران کے حوالہ کریں،اوروہ روزانہ صبح کورمضان کے زمانہ میں افطار کے وقت ایک نقش پانی میں دھوکرمع کاغذپی جایاکریں،میں آپ کواس نقش کولکھنے اورلوگوں کو دینے کی اجازت دیتا ہوں،اللہ فائدہ دے۔
اللہ آپ کی اہلیہ کوشفاء عطا فرمائے،تعویذ بھیج رہا ہوں،موم جامہ کرکے گلے میں ڈال دیں،اللہ انہیں شفاء عطافرمائے ۔
میراانہیں سلام کہہ دیں۔ والسلام
منت اللہ 
۱۵؍۹؍۱۴۰۰ھ
حضرت مفتی محمودحسن گنگوہیؒ کے گرامی نامے اس طرح ہیں:
محترمی زیداحترامہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماہ مبارک اپنی تاثیرات وکیفیات کے ساتھ ساتھ رخصت ہوا،نہ وہ حالات ہیں،نہ وہ کیفیات،جوشخص اس کے کچھ اجزاء واحوال کواپنالیتاہے اوران کااہتمام کرتا ہے تواس کوکچھ حصہ میسربھی آجاتاہے،جتنا کچھ آپ کے پاس باقی ہے اللہ تعالی اس کودائمی بنائے،اورجوباقی نہیں وہ عطا فرمائے۔
اولاد کوحسن تدبیرکے ساتھ اس کااحساس دلانا چاہیے کہ بالغ ہونے پراولاد ذکورکانفقہ باپ کے ذمہ واجب نہیں رہتابلکہ بعض صورتوں میں باپ کانفقہ ان کے ذمہ واجب ہوجاتا ہے،مگرتفہیم کاطریقہ ایسا نہ ہو کہ باپ اپنی اولادکوغیرسمجھ کرسرسے بوجھ اتارناچاہتاہے،اللہ تعالی ملاپ عطا فرمائے،خدائے پاک قلوب میں صلاحیت دے۔
املاہ العبدمحمود غفرلہ
چھتہ مسجد،دیوبند
حضرت مفتی صاحبؒ کا دوسرا خط :
محترمی زید احترامہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
لخت جگرسلمہ کی علالت سے بہت قلق ہے،اللہ تعالی ان پراورسارے گھرپراپنا فضل فرمائے،شفاء کامل عاجل مستمرعطا فرمائے،آپ کوصحت کلی دے،میراتعویذدیناعرصہ سے چھوٹ گیاہے،دعاء پراکتفاء کرتاہوں،یہی تعویذ کی بنیادبھی ہے،ہاں معمولات کی پابندی کا اہتمام کریں،پریشانی اورتکلیف میں تومعمولات کی زیادہ پابندی چاہیے۔
املاہ العبدمحمود گنگوہی
۲۸؍۳؍۱۴۱۲ھ
مولاناممتاز علی مظاہری دامت برکاتہم نے اپنے استادومرشدحضرت محمود حسن گنگوہی کی خدمت میں اپنے معمولات کے بارے میں لکھا،ساتھ ہی ایک ماہ آپ کی خدمت میں رہنے کی اجازت چاہی ،اس کے جواب میں حضرت مفتی صاحب کا یہ گرامی نامہ شرف صدورہوا:
مکرم ومحترم زیداحترامہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اگرآپ رمضان المبارک میں میرے پاس نہیں رہ سکے بلکہ حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب کے پاس رہے تویہ نعم البدل ہے،اللہ تعالی قبول فرمائے،اب اس کے قضا کے لئے مستقل ایک ماہ کی فرصت لے کریہاں آنے کی ضرورت نہیں،اورپھرجبکہ آپ صدرمدرس اورمہتمم بھی ہیں، ایک ماہ کی فرصت لینے میں امورمدرسہ کا حرج ضرورہوگا،خداکومنظورہواتوکسی دوسری تعطیل میں تشریف لے آئیں،اورجب آنے کا ارادہ ہو توپہلے معلوم کرلیں کہ اس وقت میراقیام کہاں ہے،اللہ تعالی آپ کوترقیات سے نوازے،اذکارواشغال کے انوارسے منورفرمائے۔
عشاء کے بعدسونے سے پہلے چاریاآٹھ رکعت نفل تہجدکی نیت سے پڑھ لیا کریں ، اور نیت یہ رکھیں کہ تہجدکے وقت اٹھوں گا اورتہجدپڑھوں گا،پھراگراٹھنے کا موقع مل جائے اس کو غنیمت سمجھیں،اورجس قدرہوسکے پڑھ لیں،ورنہ انشاء اللہ تعالی عشاء کے بعدکی رکعات تہجد کے قائم مقام ہوجائیں گی۔
فقط والسلام
     املاہ العبدمحمودغفرلہ
   چھتہ مسجد،دالعلوم دیوبند
۳۰؍۱؍۱۴۱۳ھ
محترمی زیداحترامہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ اولاد ذکورکونماز کے لئے جگادیتے ہیں،انشاء اللہ ایک دن آئے گا کہ وہ خودجاگیں گے،اورسوتے ہوئے کوجگائیں گے،ابھی قدرنہیں کرتے،لیکن انشاء اللہ جلد ہی قدرکرنے لگیں گے،اس کا ثواب آپ کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا،جب تک ساتھ رہ سکیں علیحدہ نہ کریں،صحیح یہ ہے کہ الگ کرنے سے آپ کویکسوئی ہوجائے گی،لیکن اجروثواب میں کمی ہوجائے گی،دعاکا زیادہ اہتمام رکھیں،کہ وہ لوگ دعاکے زیادہ مستحق ہیں۔
فقط واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
  املاہ العبدمحمودغفرلہ
  چھتہ مسجددیوبند
مشہورعالم ،صاحب طرزادیب وعربی انشاء پردازمولاناڈاکٹر عبداللہ عباس ندویؒ(معتمد  تعلیم ندوۃ العلمائ)سے بھی مولاناکی مراسلت تھی،یہ مراسلت عموماً مدرسہ رحمانیہ کے لئے رابطہ عالم اسلامی سے تعاون کی فراہمی سے متعلق ہوتی رہی،اس سلسلہ کے چندخطوط ہمیں دستیاب ہوئے ہیں،جواس طرح ہیں:
محترمی ومکرمی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی نامہ ملا،مدرسہ رحمانیہ کی خدمات کا علم ہوا،یقینامدرسہ اوراس کی ضروریات کا تقاضہ ہے کہ اس کے لئے مالی وسائل فراہم کرنے کی کوشش کی جائے،اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ آپ مدرسہ کا مختصرتعارف،اس کی ضروریات اورحضرت امیرشریعت کے تصدیق نامہ کی نقل درج ذیل پتہ پربراہ راست ارسال فرمادیں،میں وہاں زبانی بھی سفارش کردوں گا، کامیابی اللہ کے حکم پرموقوف ہے۔
عبداللہ عباس ندوی
۱۰؍۱۲؍۱۹۸۷ء
مکرمی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا مکتوب رجسٹرڈ موصول ہوا،میں اپنے خط میں رابطہ کے متعلق شعبہ سے درخواست کروں گا کہ وہ آپ کے مدرسہ کا معاملہ کسی قریبی جلسہ میں طے کردیں،خودمحرم سے پہلے چلاجائوں گا،اگراس وقت تک کچھ ہوسکاتوزبانی یاددہانی کرادونگا،رابطہ نے آپ کے خط کی کاپی جوآپ نے مجھے بھیجی ہے ،وہ محفوظ کرلی ہے۔
عبداللہ عباس ندوی
۱۴؍جون۱۹۸۹ء
تیسراخط مولانا کے نام اس طرح ہے:
محترمی ومکرمی زیدلطفہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی نامہ (رجسٹرڈ)ملا،میں مکہ مکرمہ ذی الحجہ میں گیاتھا،محرم کے وسط میں واپس آیا، ۲۰؍ذی الحجہ تک تمام دفاتربندتھے،اورجب رابطہ عالم اسلامی کا دفتر۲۱؍ذی الحجہ کوکھلاتومعلوم ہوا کہ بیرون ممالک کوامدادجس شعبہ کی سفارش پردی جاتی ہے اس کے مدیرڈیپوٹیشن پراسپین گئے ہوئے ہیں،اورواپسی صفرکے اخیرمیں ہوگی،لیکن یہ بھی معلوم ہواکہ اب کمیٹی ربیع الاول میں ہوگی،کیونکہ نیامالی سال اسی وقت شروع ہوگا۔
بہرحال میں یہاں سے خط لکھتاہوں جس میں منجملہ دوسری باتوں کے مدرسہ رحمانیہ کے متعلق یاددہانی کرائوں گا،آپ نے رابطہ سے آئے ہوئے خط کی جوکاپی دی تھی وہ متعلقہ شعبہ کے کلرک کودے آیاتھا،کہ فائل میں لگادیں۔
عبداللہ عباس ندوی
۲۳ستمبر۱۹۸۹ء
   لکھنؤ
ان میں بہت سے خطوط گرچہ ذاتی نوعیت کے ہیں،مگران سے مولانا کے ان بزرگوں سے تعلقات اور قربت کاپتہ چلتاہے،ساتھ ہی ان شخصیات کی جوشفقتیں مولانا کوحاصل رہی ہیں،اس کا عکس ان خطوط میں دیکھاجاسکتاہے۔
 امتیازی اوصاف 
مولانادامت برکاتہم نے دینی تعلیم حاصل کی،مختلف علماء ومشائخ سے استفادہ کیا،ان کی صحبتوں سے مستفید ہوئے،پھرپوری زندگی علم دین کی نشرواشاعت او ر اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنے میں گزاردی،ان خدمات کے ساتھ اللہ تعالی نے اخلاق حمیدہ کی دولت سے نوازاہے ،گذشتہ صفحات میں آپ کی خدمات اور کمالات کاجائزہ پیش کیا گیا ،یہاں آپ کے چند امتیازی اوصاف کو بیان کیا جاتا ہے ۔
محنت اورلگن 
محنت اور لگن دراصل آپ کی زندگی کاحاصل ہے ،آپ کی پوری زندگی ان دوصفات سے مرکب ہے ،اوریہی آپ کی کامیابیوں کا راز بھی ہے،جو کام کرنا ہے،اسے پوری لگن سے کرناہے،جو ذمہ داری ملی ہے، اسے اس انداز سے کرنا کہ گویا صرف ذمہ داری نہیںادا کر رہے ہیں،بلکہ اپنا شوق پورا کررہے ہیں، ہمت اس بلا کی کہ جو ٹھان لیا وہ کرکے ہی دم لیں گے،خواہ اس کی کیسی بھی مخالفت کی جائے ،اور دیکھنے والے کچھ بھی کہیں،آ پ نے کبھی لوگوں کے تبصروں اور طعن وتشنیع کی پرواہ نہیں کی،بلکہ جس کو صحیح سمجھااس کو کرکے دکھا دیا،اسی محنت و لگن اور جرأت وہمت نے آپ سے وہ کام کروائے جن کو انجام دینے کے لئے آج بھی لوگوں کو سوچنا پڑے گا ،منزل تک پہونچنے کے یہی دوشاہ کلید ہیں ،صحیح فیصلہ اور پھر اس پر عمل ۔
ہر مجلس میں دین کی باتیں 
آپ کاایک امتیازی وصف یہ ہے کہ آپ جہاں بھی رہیں،جس مجلس میں رہیں،ہر جگہ اورہر موقعہ پر دین کی بات کرتے ہیں،کوئی وقت دین کی باتوں سے خالی نہیں جانے دیتے، متعلقین کے بارے میںکسی کمی کاعلم ہوا،شریعت کے کسی عمل میں کوتاہی نظر آئی،تو ان کو اس کی طرف ضرور متوجہ کرتے ،اور انہیں مذکورہ عمل سے متعلق ہر ممکن آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
عوام کو بزرگوں سے جوڑنا 
آپ کا بڑا کمال یہ ہے کہ کسی سے متاثر کم ہوتے ہیں،اور ہر جگہ اپنی بات ضرور کہہ دیتے ہیں،خصوصاًبزرگوں کا تذکرہ کرنے،اوران کے واقعات سنانے کا عمل ہر جگہ جاری رہتاہے، پھر یہ تذکرہ اس انداز سے کرتے ہیں کہ سننے والوں کے دلوں پر ان بزرگوں کی محبت بیٹھ جاتی ہے،ان سے ملنے کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے،جب کوئی موقعہ ان بزرگوں سے ملنے کا آتا،کہیں ان کی آمد ہوتی ،تو لوگوں کو تشکیل کرکے لے جاتے ہیں،کوئی کہیں جانے کو کہے توان کے ساتھ جانے کے لئے فوراً تیار ہوجاتے ہیں ۔
حج کی تلقین 
مولاناہر طبقہ کے لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں،جو لوگ حج کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں مگر ابھی تک اس سعادت سے محروم ہیں،اوراب تک حج کا ارادہ نہیں کیاہے،ایسے لوگوں سے جب ملاقات ہوتی تو انہیں اس فریضہ کی ضرور یاد دلاتے ہیں،ا س کے لئے آمادہ کرتے ہیں ، فضائل وبرکات سناکر دیارِشوق کاشوق دلاتے ہیں،اور ممکن حد تک اصرار بھی کرتے ہیں، اس تحریک سے بہت سے لوگوں کو حج کی توفیق ہوئی،اوروہ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے، دیہاتوں میں آپ کے اس عمل کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا،اور اللہ نے بہت سے لوگوں کو آپ کے ذریعہ حج کی توفیق سے نوازا ۔
منازعات کا تصفیہ 
آپسی معاملات حل ہوجائیں،گھریلومسائل سلجھ جائیں،سب لوگ اتفاق اور محبت سے رہیں،مولانا کو اس کی بڑی فکررہتی ہے،اگر کہیں اختلاف وانتشارہے،دلوںمیں فاصلہ بڑھ رہاہے ،اداروں کے درمیان کشیدگی ہے ،اور مولانا کو خبر ملی توآپ اسے حل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں،ایسے لوگوں کے لئے وقت نکال کر ملتے ہیں،اوران کی پوری بات سن کر معاملہ ختم کرانے کی کوشش کرتے ہیں،اس سلسلہ میں کوئی جھجھک نہیں ہوتی،ا س طرح آپ کے ذریعہ بہت سے معاملات حل ہوئے ہیں ۔
ایک عظیم اور مثالی شخصیت 
اوپرجن خوبیوں کاتذکر ہ کیا گیا ہے ،وہ اکثر لوگو ں کے مشاہدہ میں ہے ،لیکن اب جو عنوان آپ نے پڑھا ہے وہ میرا ذاتی تاثر ہے،میں مولانا کو کئی حیثیتوں سے مثالی شخصیت مانتا ہوں،ایسی شخصیتیں کم پیدا ہوتی ہیں،کبھی شخصیت علاقہ کی شناخت ہوتی ہے،اور کبھی علاقہ سے افراد کی شناخت ہوتی ہے،مولاناکاشمار ان شخصیات میں سے ہے جن سے علاقہ کو شناخت ملی ہے،مولانایہاں کی شناخت ہیں،یہاںکی ایک عظیم ملی شخصیت جناب عبد الحق ؒنے اس علاقہ کو ایک شناخت دی،اور مسلمانوں کو سراٹھاکر چلنے کا سلیقہ سکھایا،اسی سرزمین کے ایک فرد ملی قائد مجاہد آزادی بیرسٹرمحمد شفیعؒ نے اس علاقہ کو شہرت وعظمت کا تاج پہنایاتومولانا ممتازعلی مظاہری دامت برکاتہم نے اس تاج میں ایک خوبصورت نگینہ کا اضافہ کیا۔
یہاں تعلیمی بیداری کے سلسلہ میں آپ کی کوششوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا،جب مواقع اور وسائل فراہم ہوں تو کا م کرناآسان ہوتاہے،مگر وسائل کی کمی کی صورت میں آسان کام بھی مشکل نظرآتا ہے،بنجر زمین کو لالہ زار بنانا جگرکاوی چاہتا ہے،یہ جگر کاوی اللہ نے آپ کے لئے مقدر کی تھی،ا سلئے آپ عظیم ہے ،مثالی ہیں،آپ کی حیثیت ایک روشن چراغ کی ہے، جس کی روشنی سے پوراعلاقہ جگمگارہاہے،اورجس کے بجھنے کے باوجودروشنی کی تابش باقی رہے گی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے