مجاہدآزادی ورہبرقوم وملت بیرسٹرمحمد شفیع .حالات اور کارنامے

ماہ وسال کے آئینہ میں

۱۸۸۸ء میں یکہتہ کے ایک خوش حال گھرانہ میں پیداہوئے۔
۱۹۰۷ئ میں تعلیم کے لئے انگلینڈگئے،جہاں یونیورسٹی آف لیڈس سے ٹیننگ انجینئرنگ اور مڈل ٹمپل سے بار ایٹ لاء کیا۔
۱۹۱۴ء انگلینڈسے بذریعہ بحری جہازوطن لوٹے۔
۱۹۲۰ء میں مہاتما گاندھی سے ملاقات ہوئی۔
ڈسٹرکٹ بورڈکے وائس چیرمین منتخب ہوئے۔
۱۹۳۱ئ گورنرکائونسل کے ممبرکی حیثیت سے بٹائی داری قانون میں غیرسرکاری ترمیمی بل  پیش کیا۔
۱۹۳۲ئ مہاراجہ دربھنگہ نے دربھنگہ میڈیکل اسکول(جواب ڈی ایم سی ایچ کے نام سے کالج ہے)قائم کیا ، آپ بھی اس کے بنیادی ممبربنائے گئے۔
۱۹۳۲ء میں مسلم ہائی اسکول دربھنگہ کے قیام میں شامل رہے،اوراس کے بانی  سکریٹری منتخب ہوئے۔
۱۹۳۴ء وائس چیرمین دربھنگہ ڈسٹرکٹ بورڈ کی حیثیت سے گائوں کے لئے مڈل اسکول منظورکروایا۔
۱۹۳۴ء میںدربھنگہ زلزلہ کے متاثرین کی امداد اور بازآبادکاری میں بڑے پیمانہ پر رضاکارانہ خدمات دی ۔
 ۱۹۳۴ء پنڈت جواہرلعل نہرو اورمہاتما گاندھی سے ملاقات ہوئی۔
۱۹۳۵ء میں ڈسٹرکٹ بورڈ سے سسوار کے لئے سرکاری ہاسپیٹل منظورکروایا۔
۱۹۴۸ء میں اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ مسلم لیگ چھوڑکرانڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوئے۔
۱۹۵۲ء میں بینی پٹی سے کانگریس کے ٹکٹ پراسمبلی انتخاب میں کامیابی حاصل کی اوروزیر تعمیرات عامہ بنائے گئے۔
۱۱؍فروری۱۹۵۵ئ کوپٹنہ میں اپنے سرکاری رہائش گاہ پرزندگی کی آخری سانس لی۔
ملی وتعلیمی اداروں کے قیام میں شرکت:
مسلم ہائی اسکول دربھنگہ کے بانی سکریٹری
مدرسہ حمیدیہ کے نائب صدراورپھرصدر
دربھنگہ میڈیکل اسکول کے ممبر
چنددھاری متھلاکالج کے ممبرمجلس منتظمہ
سی ایم کالج کے قیام میں شرکت
یتیم خانہ دربھنگہ کے رکن
سیاسی عہدے اورمناصب:
احرارپارٹی کے نائب ریاستی صدر
خلافت کمیٹی دربھنگہ کے صدر
دربھنگہ مسلم لیگ کے صدراورریاستی مسلم لیگ کے نائب صدر
ڈسٹرکٹ بورڈ دربھنگہ کے وائس چیرمین
ممبراسمبلی ووزیرتعمیرات عامہ بہار
ترہت کمشنرس بورڈکے ممبر(سب ڈپٹی کلکٹرکی بحالی کے لئے)
آپ کی طرف منسوب ادارے:
شفیع مسلم ہائی اسکول دربھنگہ شفیع اردولائبریری یکہتہ شفیع روڈ بینی پٹی

سوانحی خاکہ

 خوش رو،کشادہ جبیں،سادگی پسند،بلنداخلاق،ہمدردقوم وملت،اخلاق ووضع داری کا پیکر،علم دوست وعلماء نواز،غریب پروری میں بے مثال،متشرع،پابندصوم وصلاۃ،امانت و دیانت اورتقوی وطہارت کے پاس دار،قوم وملت کے قافلہ سالار،ملی بصیرت اورقومی خدمت کے جذبہ سے سرشار،جہدمسلسل اورعلم پیہم کی مثال…انہی اوصاف وکمالات کے حامل تھے ہمارے ممدوح، محسن قوم وملت جناب بیرسٹرمحمد شفیع صاحبؒ،جواپنی ملی وقومی جذبات ، اوراپنی ہمہ جہت خدمات کے لئے ہمیشہ یادرکھے جائیں گے۔
خاندانی پس منظر
قصبہ یکہتہ کاایک خوشحال خانوادہ جوتعلیم اورفہم وشعورمیں ایک عرصہ سے ممتاز رہاہے، اورجہاں گذشتہ کئی دہائیوں سے سماجی قیادت اورقومی رہبری کا تسلسل بھی چلاآرہاتھا،اسی خانوادہ میں ۱۸۸۸ء میںمحمدشفیع صاحب نے آنکھیں کھولیں،داداخدا بخش ؒپورے علاقہ کے تحصیلدارتھے،اورقصبہ کے سماجی سربراہ بھی،جبکہ والدمحترم رحمن بخش زمینداروں میں سے تھے،رحمن بخش کے صاحبزادگان میں شفیع صاحب کے علاوہ محی الدین،محمد عقیل احمد عقیل اور عبد الغفاربابوشامل ہیں،یہ چاروں بھائی اپنے زمانہ میں معروف رہے ہیں،اور انہیںاپنے اپنے میدان میں بڑی نیک نامی حاصل رہی،شفیع صاحب کے چچازادبھائی حاجی عبدالحق صاحب بڑے اقبال مندتھے،پورے علاقہ میں ان کی بڑی شہرت تھی،اور سماجی انصاف،حق پسندی، دینداری اورذکاوت وذہانت میں بے مثل تھے،ایسے خاندان میں شفیع صاحب کی پرورش وپرداخت ہو ئی،اورپروان چڑھے ۔
تعلیم وتربیت
خاندانی امتیاز اورسیاسی وسماجی تفوق کے نتیجہ میں اس خاندان میں تعلیم کے اعتبارسے ہمیشہ بڑی بیداری رہی ہے،اس زمانہ میں گائوں میں عصری تعلیم کاکوئی مناسب انتظام نہیں تھا ،چنانچہ رحمن بخشؒ نے اپنے بچوں کو دربھنگہ میں رکھ کرتعلیم دینا شروع کیا، ضلع ہونے کی وجہ سے یہاں تعلیم کااچھاانتظام تھا،پھریہی علم وادب اورتہذیب وسیاست کامرکز بھی تھا،یہ تینوں بھائی (محی الدین،محمدشفیع اورمحمدعقیل)قلعہ گھاٹ میں ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے اور دربھنگہ راج ہائی اسکول میں پڑھتے تھے،شفیع صاحب نے انٹرنس(میٹرک) تک یہاں تعلیم حاصل کی،اس کے بعدان کاستارہ اقبال بلندہونا شروع ہوا، جو بلندسے بلندترہوتا چلاگیا۔
انگلینڈکے لئے روانگی
جس زمانہ میں یہ تینوںبھائی دربھنگہ میں زیر تعلیم تھے، اسی زمانہ میں ان کے والدرحمن بخش ؒکی کسی زمین کا ایک مقدمہ جو راج دربھنگہ سے متعلق تھا،ہائی کورٹ میں چل رہاتھا،اسی مقدمہ کے سلسلہ میں ان کارابطہ انگریزوں اور بطورخاص امام فیملی سے ہوا،رحمن بخشؒ اس فیملی سے بڑے متاثرہوئے اوران کو دیکھ کردل میں امنگ پیداہوئی کہ کاش میرا بیٹابھی اس طرح ہوتا!دل سے نکلی دعاء بارگاہ ایزدی میں مقبول ہوئی،اوریہ خیال عملی پیکر اختیار کرگیا، امام خاندان کے توسط سے شفیع صاحب کے انگلینڈ جانے کے مراحل طے ہوئے اوراس طرح ۱۹۰۷ء میںآپ اعلی تعلیم کے لئے انگلینڈکے لئے روانہ ہوئے۔ 
انگلینڈ میں آپ نے تقریباًسات سال کاعرصہ گزارا،یہاں سینئرکیمبرج کے بعد Univercity Of Leadsسے Tanning EngineeringاورپھرMiddle Temple Londonسے Bar at Law(بیرسٹری)کی ڈگری حاصل کی،۱۹۱۴ء میں بحری جہاز سے کلکتہ کے راستہ وطن واپس پہونچے۔
انگلینڈمیں آپ نے یہ عرصہ کس طرح گذارا،وہاں کن کن چیزوں سے متاثر ہوئے، دل ودماغ نے کن شخصیات اورکن افکاروتمدن کے اثرات کوقبول کیاان کی تفصیل تومشکل ہے، البتہ آپ کی دوراندیشی،فہم وبصیرت،بلندحوصلگی اوربلندخیالی میں انگلینڈکاکچھ نہ کچھ حصہ ضرورہوگا،جس سے انکارنہیں کیاجاسکتا،دوسری اہم چیز یہ کہ مغرب میں ایک عرصہ گزارنے اوراعلی تعلیم سے بہرہ مندہونے کے باوجودآپ کادل مشرقی ہی رہا،علامہ اقبال کی طرح ’نہ چھوٹی مجھ سے لندن میںبھی آداب سحرگاہی‘کا دعوی تونہیں کرسکتے لیکن یہ کہنا بالکل بجاہوگا کہ آپ کی اسلامی قدروں میں کمی نہیں آئی،آپ کا خلوص،ریااورتصنع کی آمیزش سے پاک رہا۔
مولاناممتاز علی مظاہری دامت برکاتہم بتاتے ہیں کہ جب آپ کے انگلینڈجانے کا پروگرام بن گیاتوخاندان کے لوگوں کوخیال ہواکہ وہاں کے حالات سے متاثرہوکرکہیں وہاں شادی نہ کرلیں،مگر’’وہ مسلمان بن کرگئے اورمسلمان باقی رہ کرواپس آئے‘‘انگلینڈجانے سے پہلے آپ کی شادی حافظ سراج الدین صاحب کی بڑی صاحبزادی صغری خاتون سے ہوئی۔
وکالت کی شروعات
انگلینڈسے واپسی کے بعدآپ کوجلدہی کلکتہ کی ایک برٹش کمپنی میں ملازمت مل گئی، اور آپ نے ملازمت شروع کردی،اس وقت ملک میں آزادی کی تحریک شباب پرتھی،آپ بھی اس تحریک سے متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکے،نتیجتاًملازمت ترک کرکے واپس آگئے،پہلے مظفرپورمیں وکالت شروع کی،جوکہ اس وقت ڈسٹرک کورٹ تھا،پھرجب دربھنگہ ڈسٹرک کورٹ بناتویہاں وکالت کرنے لگے۔
آپ بیرسٹر تھے،وکالت کی ایک بڑی ڈگری حاصل تھی،آپ چاہتے تواس کے ذریعہ بڑی دولت حاصل کرسکتے تھے،مگر آپ نے اسے خدمت کا ذریعہ بنایا،جس کے نتیجہ میں اللہ نے آپ کو بڑی شہرت عطاکی،یہ بات تواترکی حدتک مشہورہے کہ آپ غلط کیس نہیں لیتے تھے ،مدعی ومدعاعلیہ کے درمیان صلح کی تحریک کرتے تھے،غریبوں کی پیروی بلامعاوضہ بھی کرتے تھے،آپ نے انصاف کے ساتھ کبھی ناانصافی نہیں کی،بلکہ آپ کے نزدیک ایمانداری اور انصاف کے ساتھ سمجھوتا جرم کے مترادف تھا،آپ کی ایمان داری اورحق پرستی کے سب ہی قائل اورمعترف تھے،ظہیرنوشاد نے بالکل صحیح کہاہے کہ:
شفیع صاحب حقیقی معنوں میں قوم کے مخلص بیرسٹرتھے،چنانچہ انہوں نے وکالت کے پیشہ کوکبھی اپنی مالی منفعت اورذاتی مفادکا ذریعہ نہیں بنایا، مرحوم کا نظریہ یہ تھا کہ قانون کے سوداگربن جانے سے انصاف کی محافظت ممکن نہیں ہوسکتی،چنانچہ انہوں نے عملًاثابت کردکھایاکہ قانون داں کوکس طرح سے مظلوموں کی مددکرنی چاہیے۔ 
(دربھنگہ میں اردو ،ص:۶۹)
 سیاست کے میدان میں
اس وقت دربھنگہ ضلع ہونے کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی تھا،چنانچہ آپ  وکالت کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینے لگے،آزادی کی لڑائی میں آپ اس تندہی سے شریک ہوئے کہ ولایتی شان وتمکنت سب بھول گئے،خان بہادرکاخطاب واپس کردیا، غیرملکی سامان کا استعمال ترک کردیااورسادگی کوشعارزندگی بنالیا،جسے اخیردم تک قائم رکھا۔
آپ مختلف پارٹیوں میں شریک رہے،مختلف عہدوں پرفائزرہے،ہرجگہ اورہمیشہ آپ کا مقصداورنصب العین وطن کی خدمت اوروطن باسیوں کی رہنمائی کرنارہا،آپ کے دل میں ملت کا دردکوٹ کوٹ کربھراہوا تھا،آپ مسلمانوں کے سچے ہمدرداوران کے بہی خواہ تھے،ملک اورملت کی خدمت ہی آپ کے فکروعمل کا اصل محورتھا،اسی کے گردآپ کی پوری زندگی گھومتی نظرآتی ہے۔
بلاشبہ آپ نے ملک اورملت دونوں کے لئے بڑی خدمات انجام دیں،یہ خدمت پوری طرح بے لوث اورمخلصانہ تھی،آپ ملک اورملت دونوں کے لئے مخلص تھے،آپ سیاست کے بلند مرتبہ تک پہونچے،رکن اسمبلی اوروزیربنے،مگرآپ کی ایمانداری،وفاشعاری اسی طرح قائم رہی،اورجس طرح آپ کے ذریعہ وکالت کے پیشہ کووقارحاصل ہوااسی طرح سیاست میں بھی آپ نے ایک مثال قائم کی،مثال ایک ایماندارسیاست داں کی،ایک سچے محب وطن کی،اور ملت کے ایک مخلص ہمدردکی ۔
ملی دردمندی اورسیاسی بصیرت
ملی درداورقیادت کی خوبوآپ کوخاندانی وراثت میں ملی،اعلیٰ تعلیم اورتحریک آزادی کی فضانے اسے دوآتشتہ بلکہ سہ آتشتہ کردیا،چنانچہ جب آپ اس خارداروادی میں اترے تو پوری بصیرت کے ساتھ اترے،آپ جہاں ماضی سے باخبرتھے وہیں مستقبل پربھی نظر تھی،آپ کی نگاہیں خوب دیکھ رہی تھیں کہ آنے والے دنوں میں ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا،چنانچہ وقت کے تقاضے کودیکھتے ہوئے آپ نے ایک دانشمندانہ فیصلہ کیا،قوم کی رہنمائی اورملی رہبری آسان کام نہیں،یہ دراصل کارگہ شیشہ گری ہے،لیکن آپ نے قومی وملی خدمت کا جوبیڑااٹھایا اسے منزل سے ہمکنارکیا،مسلمانوں میں سیاسی بیداری اورنازک حالات میں بھی قوم کی صحیح رہنمائی آپ کانمایاں کام ہے،جناب ظہیرنوشادصاحب نے آپ کی سیاسی بصیرت کواپنے خاص انداز میں خراج عقیدت پیش کیاہے،جس میں قال کے ساتھ ان کا حال بھی شامل ہے،ہم یہاں ان کا اقتباس مستعارلیتے ہیں،آپ لکھتے ہیں:
شفیع مرحوم حقیقی معنوں میں باشعور رہنما تھے،انہوںنے سیاسی تغیرات کو ملت کے حق میں فال نیک سمجھا،ان کا عقید ہ تھا کہ مسلمان تغیرات کے ہاتھوں میں ایک بے بس کھلونا نہیں ہوسکتا ہے،تغیر سے زندگی کی نئی راہیں کھلتی ہیں،اورقومیں بلند منزل کی طرف گامزن ہوتی ہیں،انہوں نے ملت کے افراد میں ایک نئی اور بہتر زندگی کی تعمیر کا شوق پیدا کیا،اور برادران وطن کے سامنے شرماکے سرجھکانے کے بجائے سراٹھاکر چلنے کا راستہ دکھایا،اہل سیاست کو سچ بولناسکھایااور سیاست کے میدان میں اپنی عملی وفاداریوں کا عمر بھر ثبوت پیش کیا،شفیع مرحوم جیسے باوقار اوروزن رکھنے والے اگر اس دیس میں پیدا ہوتے رہے تو اقلیت کو سراسیمہ اور خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
(دربھنگہ میں اردو،ص:۶۸)
آپ کے شعورنے اس کاادراک کیا کہ مسلمانوں کی پسماندگی کوختم کرنے کا صحیح علاج صرف تعلیم ہے،یہی ان کے دردکی دوااوران کے زخم کامرہم ہے،چنانچہ آپ نے ایک طرف مسلمانوں کوتعلیم کی طرف متوجہ کیا،تودوسری طرف تعلیمی ادارے بھی قائم کئے،متعددتعلیمی اداروں کے قیام میں شریک رہے،تاکہ آئندہ کی نسل تعلیم سے محروم نہ رہے ،اوربطورخاص مسلمانوں کی پیشانی سے ناخواندگی کاداغ ہمیشہ کے لئے مٹ جائے، مولانا ممتازعلی مظاہری صاحب بیان کرتے ہیں:
 آپ ہمیشہ تعلیم پرزور دیاکرتے تھے،اپنی تقریرکی ابتدااکثر ’’اذاقال ربک للملائکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ‘‘سے کیاکرتے،آپ کہتے تھے کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم کومسجودملائک صرف علم کی بنیاد پر بنایا تھا، لہٰذا علم حاصل کرو، آپ جلسوں میں انہی موضوعات پربات کیاکرتے تھے۔ 
ملی خدمات
شفیع صاحبؒ کی پوری زندگی ملت کے لئے وقف تھی،تعلیم اورسیاست آپ کی کاوشوں اورسرگرمیوں کے دواہم عنوان ہیں،ان دونوں کامقصدمسلمانوں کی ترقی تھا،آپ مسلمانوں کو ہر میدان میں آگے دیکھناچاہتے تھے،آپ نے اس راہ میں اپنی پوری قوت صرف کردی ، اور بلاشبہ آپ نے مسلمانوںکوسراٹھاکرجینے کا ہنرسکھایا،تعلیمی ادارے قائم کرکے مسلمان بچوں کے لئے حصول تعلیم کوآسان بنایا،اسی کے ساتھ فلاحی کاموں میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہے، سیاسی اعتبارسے آپ جس پارٹی میں بھی رہے،آپ کانصب العین ہمیشہ ایک ہی رہایعنی قوم اورملت کی بے لوث خدمت،اوریہی آپ کی امتیازی شناخت ہے ۔،جناب ا نیس احمد صاحب بیان کرتے ہیں :
 مسلمانوں کی دینی وملی حالت کی اتنی فکر تھی کہ شفیع صاحب ؒجب دربھنگہ سے گائوں آتے تواکثرمدرسہ حمیدیہ کے مولانا مقبول احمد صدیقی صاحب یاان کے علاوہ دوسرے علماء کوساتھ لاتے،رات میں یہاں ان کاپروگرام کر واتے ، پھرصبح یا دوسرے دن ان کواپنے ساتھ لے کرواپس ہوجاتے ۔
ایک یادگارتحریر
خلافت تحریک سے وابستگی کے زمانہ کاآپ کاایک خط مدرسہ امدادیہ دربھنگہ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے جو مدرسہ کے ذمہ داران کے نام ہے ،اس خط میں انگورہ کے لئے تعاون جمع کرنے کی اپیل کی گئی ہے،خط پر تاریخ ۱۹؍جنوری ۱۹۲۲ء کی ہے،اس تحریر کو بطور یادگارنقل کرتے ہیں،خط کا متن اس طرح ہے:
آپ حضرات سے التماس ہے کہ کل بتاریخ ۲۰؍جنوری۱۹۲۲ء ہندوستان کے ہرگائوں اورہر شہر میں انگورہ فنڈ وصول کیا جائے گا،اس لئے آپ لوگ بھی دین کے خاطر اس کارخیر میں مستعدی سے شرکت کریںگے، اور ثواب دارین حاصل کریں گے،آج کل خلافت کی حالت بہت ہی نازک ہورہی ہے،ہر مسلمان کا فرض ہے کہ کل اپنے محلہ میں ہر مسلمان سے کچھ نہ کچھ انگورہ فنڈ کے لئے جمع کریں،امید کی جاتی ہے کہ آ پ حضرات کل کا دن مذہب کی خدمت میں صرف کریں گے۔فقط
(دستخط)محمد شفیع
نائب سکریٹری خلافت کمیٹی ،دربھنگہ
خط کے اوپر خلافت کمیٹی لہریا سرائے دربھنگہ کی مہر ثبت ہے۔(۱)
(مدرسہ امدادیہ دربھنگہ، تاریخ کے آئینہ میںص:۱۵۶)
۱۹۳۴ میں دربھنگہ میں بڑا زلزلہ آیا،جس نے بڑی تباہی مچائی،اس موقعہ پرآپ نے بڑے پیمانہ پر رفاہی خدمات انجام دیں۔
تعلیمی خدمات
تعلیم کے باب میں شفیع صاحبؒ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں،دراصل آپ کے دل میں ملت کی ترقی کابے پناہ جذبہ موجزن تھا،اسی درداور کسک نے آپ کوہمیشہ سرگرم عمل رکھا، مسلمانو ںکی زبوںحالی اورپسماندگی کی فکرآپ کے ذہن ودل میں پوری طرح سوارتھی، ہمیشہ اس کے لئے بے چین رہتے،اورجب جوممکن ہوتاکرگزرتے ۔
اس سلسلہ کی سب سے بڑی خدمت جسے کارکے بجائے کارنامہ کہناصحیح ہوگا،مسلم ہائی اسکول کاقیام ہے،عصری تعلیم کے لئے یہ ادارہ آپ نے اپنے دوستوں کے ساتھ قائم کیا، اس اسکول کے قیام کی مختصررودادکچھ اس طرح ہے:
۳؍اگست ۱۹۳۲ء کوانجمن اسلامیہ دربھنگہ میںمسلمانوں کا جلسہ عام ہوا، جس میںیہ طے پایاکہ مسلمان بچوں کی اعلی تعلیم کے لئے ایک مسلم ہائی اسکول کی ضرورت ہے،جس کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی،۵؍ فروری ۱۹۳۳ء کوہائی اسکول کادستوربنانے کے لئے دربھنگہ کے اہل علم واہل دانش کی نشست انجمن اسلامیہ میں ہوئی،جس میں اسکول کے مالی اورانتظامی امورکے لئے پانچ افردپر مشتمل مجلس امناء کی تشکیل ہوئی، جس کے صدرمولانا مقبول احمد خاں صاحب قرار پائے،دیگرحضرات میں جناب شفیع صاحب،ڈاکٹرمحمد فرید صاحب،مولوی عبدالودود صاحب اورمولوی عبدالنعیم صاحب شامل تھے، ۱۵؍دسمبر۱۹۳۳ء کی ایک میٹنگ میں جناب ڈاکٹرسیدمحمد فرید کو صدر اورمحمد شفیع صاحب کو سکریٹری لکھا گیا ہے، ممکن ہے بعدمیں ذمہ داری تقسیم ہوئی ہو،اس وقت یہ اسکول انجمن اسلامیہ کے احاطے میں شروع ہوا،چندبرسوں بعدیہ اپنی جگہ منتقل ہوا،مگرکسی وجہ سے حکومت نے وہ زمین ایکوائر کرلی، اس کے بدلے بیتامیں زمین الاٹ کی گئی،کچھ مسلم اہالیان دربھنگہ نے بانی سکریٹری جناب محمد شفیع صاحب کی قیادت میں کچھ اوراراضی حاصل کی،اوراس طرح یہ اسکول یہاں منتقل ہوا،شمالی حصہ پرموجودبلڈنگ اسی عہد رفتہ کی یادگار ہے ۔
       (مجلہ شفیع، جولائی ۲۰۰۱ئ، ’منارہ علم وارتقاء شفیع مسلم ہائی اسکول‘،از عطاء الرحمن رضوی )
 اس اسکول کی ابتداء سے لے کراس کی تعمیروترقی تک تمام کوششوں اوراس کی تمام سرگرمیوں میں شفیع صاحب شریک رہے،اوراپنے خون جگرسے اس منارۂ علم کوسینچتے اور پروان چڑھاتے رہے،اسکول کے قیام اورترقی میں یقینادربھنگہ کے تمام ارباب علم ودانش کا حصہ ہے ، یہ سبھوں کا مشترکہ سرمایہ ہے، ملت کے ان محسنین کے اسماء گرامی تاریخ میں ہمیشہ جلی حرفوںسے لکھاجائے گا،اس فہرست میںمحمد شفیع صاحبؒ کانام ضرورسرفہرست ہوگا،ان تمام حضرات کی کوششوں سے اخلاص اورہمدردی سے لگایاہواعلم وعرفان کایہ پوداآج ایک شجرسایہ دار کی شکل اختیار کرچکاہے،جس کوبعض اہل نظرنے ’’دربھنگہ کا علی گڑھ‘‘بھی کہا ہے ۔ 
مسلمانوں کے تعلیمی فروغ میں اس اسکول کا بڑانمایاںکرداررہاہے،اس زمانہ میں ہائی اسکول کی بڑی حیثیت تھی،یہی اس وقت اعلیٰ تعلیم شمارکی جاتی تھی،اوراس کی بنیادپر بہت سی ملازمتیں ملتی تھیں،اس سے ہزاروں مسلم بچے فیض یاب ہوئے،یہاں سے علم کی روشنی حاصل کرکے اپنی زندگیاں روشن کیں،سماج میں روشنی کے علمبرداربنے،قوم کے مصلح بنے،ملی و سیاسی قائداوررہنمابنے،ایک بڑی تعدادحکومت کے بلندمناصب پرفائز ہوکر اپنا اور اپنے ادارہ کا نام روشن کرتے رہے،علم وادب کا یہ چشمہ اب بھی جاری ہے، عہدرفتہ کی یہ علمی یادگار ہمارے اسلاف کی خدمات وہ زندہ جاویدتصویریں ہیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔
بانی سکریٹری کی خدمات کوسچی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اسکول کے انتظامیہ نے اسکول کوجناب محمد شفیع کی طرف منسوب کرنے کا لائق تحسین قدم اٹھایاہے،اب یہ ’’ شفیع مسلم ہائی اسکول‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔
دوسراادارہ جوآپ کی کوششوں کارہین منت ہے وہ گائوں کا مڈل اسکول ہے،جسے آپ نے ۱۹۳۴ء میں اس وقت حکومت سے منظورکروایاجب آپ ضلع کے وائس چیرمین تھے،اس اسکول کابھی تعلیم کے فروغ میں بڑاحصہ ہے،ان کے علاوہ دربھنگہ میڈیکل اسکول کے قیام میں آپ شریک رہے،جسے ۱۹۳۲ء میں مہاراجہ دربھنگہ نے قائم کیاتھا،مدرسہ حمیدیہ کے نائب صدراورپھرصدررہے،چنددھاری متھلاکالج کے ممبرمجلس منتظمہ رہے،سی ایم کالج کے قیام میں بھی شریک رہے،مدرسہ رحمانیہ بھی آپ کے فیض سے محروم نہیں رہا،آپ نے ہی اس کا الحاق کرایا،ان کے علاوہ کئی اردوورناکولرمڈل اسکول بھی ڈسٹرک بورڈ سے کھلوائے،یہ وہ ادارے ہیں جن کے قیام یا جن کی ترقی میں کہیں نہ کہیں مرحوم کا خون جگر ضرورنظرآتاہے۔
آپ مسلم بچیوں کوبھی تعلیم سے آراستہ دیکھنا چاہتے تھے،ان کے لئے گرلس اسکول کے قیام کے لئے فکرمندتھے،مگر زندگی نے وفانہیں کی،اور یہ آرزوپوری نہیں ہوسکی،اسی طرح ایک کالج بھی قائم کرنا چاہتے تھے ،مگریہ خواب بھی شرمندہ تعبیرنہیں ہوسکا۔
(دربھنگہ میں اردو،ص:۷۱)
گائوں میں بھی لڑکیو ںکی تعلیم کے لئے آپ نے کوشش کی،لڑکیوں کے لئے خاص ایک مکتب (حافظ نورصاحب والا)آپ کی توجہ کی مثال ہے۔
یہ تواداروں کی بات تھی،تعلیم سے آپ کی فکرمندی کا اندازہ اس سے کیاجاسکتا ہے کہ بہت سے ہونہارطلبہ کی فیس آپ خوداداکرتے تھے،آپ کومعلوم ہوتا کہ فلاں طالب علم میں تعلیم کاشوق ہے مگرمعاشی حالت اس قابل نہیں ہے،یااس طرح کا کوئی بھی آپ سے ملتا تو آپ اس کی ذمہ داری اپنے سرلے لیتے،متعددلوگوں نے بتایا کہ آپ ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ رکھ لیتے،یاان سے کہتے کہ داخلہ کی رسیدمیرے پاس بھیج دینا،تم کوفیس مل جایاکرے گی، اور واقعی ان کوفیس ملتی رہی،یہ خاموش خدمت نہ معلوم کتنے لوگوں کی کرتے رہے، اس طرح آپ کے تعاون سے بہت سے لوگو ں نے اعلی ڈگریاں حاصل کیں،کتنے ڈاکٹر اور انجینئر بنے ، ملت کی خدمت کایہ طریقہ واقعی ایک مثا ل ہے،یہی لوگ ملت کے محسن اور معمار کہلانے کے صحیح مستحق ہیں،یہ قوم کے وہ محسن تھے جن کی ساری تگ ودواللہ کوراضی کرنے کے لئے ہوتی تھی، شفیع صاحب کی یہ خاموش خدمت متعددخاندانوں کی ترقی کا سبب توبنی ہی ساتھ ہی خود ان کے لئے کتنابڑاذخیرہ آخرت بن گیا،ڈاکٹررحمت اللہ صاحب اس کی بہترین مثال ہیں، آپ نے اپنے بھتیجوں،بھانجوں کے علاوہ برادری وغیربرادری کے کئی لڑکو ں کواپنے پاس رکھ کر پڑھایا ۔
سیاسی خدمات
دربھنگہ میں وکالت کے دوران آپ نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیناشروع کیا،یہیں سے آپ کے سیاسی سفرکاآغازہوتا ہے،اس وقت آزادی کی تحریک پورے زوروشور کے ساتھ ملک میں چل رہی تھی،آپ بھی اس تحریک میں شامل ہوئے اورجلدہی اپنی تدبر،دور اندیشی، اورجہدمسلسل کے ذریعہ میرکارواں کامقام حاصل کرلیا،خلافت کمیٹی،احرار پارٹی اور مسلم لیگ کاجنگ آزادی میںجوکرداررہا ہے وہ اہل علم سے مخفی نہیں،آپ ان تحریکوں میں شامل رہے، شروع میں خلافت تحریک سے جڑے،خلافت کمیٹی دربھنگہ کے نائب سکریٹری،سکریٹری اور پھرصدربھی رہے،احرارپارٹی سے بھی آپ کا تعلق رہا ، اس کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوئے اورپوری گرم جوشی کے ساتھ اس کی سرگرمیاں انجام دیتے رہے، آپ مسلم لیگ کے ریاستی نائب صدراوردربھنگہ ضلع کے صدرعہدہ پرفائز رہے ، ملک کی آزادی اورتقسیم کے بعد۱۹۴۸ء میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوئے اوراخیروقت تک اس سے تعلق باقی رہا،پٹنہ کے بیرسٹرعزیز،بیرسٹریونس وغیرہ سے رفاقت اسی تحریک آزادی کے حوالہ سے تھی۔
اس طرح شفیع صاحب ایک طویل عرصہ تک میدان سیاست میں سرگرم عمل رہے، ابتدائی دورمیں اپنے معززپیشہ وکالت کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے،لیکن بعدمیں یہی سرگرمیاں ان کی زندگی کا اصل محوربن گئیں،اورصحیح لفظوں میں کہاجائے تووہ خود سرگرمیوں کاایک حصہ بن گئے،آپ ان پارٹیوں میں بلندمناصب پرفائز رہے،مسلم لیگ کا ریاستی نائب صدربنناخودایک اعزاز کی بات ہے ،ملک کی آزادی سے پہلے اورآزادی کے بعدمسلم لیگ کی جوحیثیت تھی،اس کاصحیح اندازہ اِس وقت کیابھی نہیں جاسکتا،مگراس کے باوجودآپ کی اصول پسندی ،ایمانداری ،سادگی اورغریب پروری میں کوئی فرق نہیں آیا۔
سیاست کے حوالے سے آپ کی ایک بڑی خدمت جوہمیشہ یادرکھی جائے گی یہ ہے کہ ۱۹۳۱ء میںجب آپ گورنرکائونسل کے رکن تھے،آپ کے ذریعہ بٹاداری قانون سے متعلق ایک ایکٹNon Official Amendment Bill پیش ہوا،یہ قانون غریبوں کے حق میں تھا،اس وقت مہاراج دھیراج دربھنگہ نے آپ کواس بل کوپیش کرنے سے روکنے کی پوری کوشش کی،آپ کی خدمت میں اپنے مخصوص قاصد کے ذریعہ سونے کی تھالی میں دعوت نامہ بھیجا،مگرآپ نے ان کی دعوت کوٹھکرادیااوران کے تحائف واپس کردئے ، یہ آ پ کے کردارکی بلندی کی ایک مثا ل ہے۔
آپ کی سیاسی بصیرت اوردوراندیشی اس وقت بھی سامنے آئی جب ملک کی تقسیم کا اعلان ہوا،یہ آپ کی فکراورقوت ِارادی کاگویاایک امتحان تھا،مسلم لیگ سے ذہنی اورعملی لگائو ہونے کی وجہ ایک طرف مسلم لیگ کافیصلہ مسلمانوں کے پاکستان منتقل ہونے کاتھا،دوسری طرف ہندوستانی مسلمانو ں کے حالات تھے،پھرآپ کا تعلق محمدعلی جناح اور سردار عبد الرب نشتروغیرہ سے براہ راست تھا،اس لحاظ سے پاکستان میں آپ کی ترقی کے مواقع زیادہ تھے، آپ وہاں بلندعہدے اور مناصب حاصل کرسکتے تھے،اس نازک حالات میں آپ نے نہ صرف ایک اہم فیصلہ کیا بلکہ پوری قوم کی صحیح رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیا،جس میں آپ کی دور اندیشی جھلک رہی تھی،یہ فیصلہ ہندوستان میں رہنے کاتھا،آپ نے ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا،اورمسلمانو ں کوبھی یہیں رہنے پرآمادہ کیا،یہ ایک دوراندیشانہ فیصلہ تھا،بعدکے حالات نے جس پرمہر تصدیق ثبت کردی۔
تقسیم ملک کے بعدآپ نے کانگریس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیااور۱۹۴۸ء میں آپ اپنے ہزاروں رضاکاروں کے ساتھ انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوگئے،۱۹۵۲ء میں بسفی حلقہ سے کانگریس کے پرچم تلے اسمبلی الیکشن کے امیدواربنے اورکامیابی حاصل کی، ڈاکٹر شری کرشن سنہانے آپ کی عوامی مقبولیت،سیاسی سوجھ بوجھ اورقومی وملی خدمات کودیکھتے ہوئے اپنی کابینہ میں شامل کیااورتعمیرات عامہ کا وزیربنایا۔
 بعض لوگوں کی طرف سے آپ کووزیرتعمیرات عامہ بنائے جانے کی مخالفت بھی کی گئی، اوریہ بات پارٹی کے ہائی کمان تک پہونچی مگرپنڈت جواہرلال نہرونے آپ کووزارت میں شامل کرنے کی منطوری دے کردوراندیشی کا ثبوت دیا،آپ نے اپنی خدمات کے ذریعہ ثابت کردیا کہ واقعی آپ اس وزارت کے اہل تھے۔
آپ نے اپنی وزارت سے عوامی ترقی کے بہت سے کام کروائے،وسائل کی کمی کے باوجودسڑکو ں کاجال بچھایا،بہت سے پل بنوائے،بہارکی بہت سی سڑکیں آپ کی رہین منت ہیں،جن میں بطور خاص دربھنگہ۔شکری،جھنجھارپور۔پھلپراس،کھٹونہ۔لوکہا،دربھنگہ۔جئے نگر اوررہیکا۔بینی پٹی شاہراہیں شامل ہیں،آپ کی ان کوششوں سے بہارمیں آمدورفت کی جو سہولت ہوئی اسے کبھی بھلایانہیں جاسکتا۔
آپ کاسیاسی تصورقومی یکجہتی اورسیکولرزم کی بنیادوں پرقائم تھا،برادران وطن کے ساتھ آپ کے بڑے خوش گوارتعلقات تھے،سب کوساتھ لے کرچلنے کاہنرخوب جانتے تھے،آپ کے رضاکاروں میں ہندومسلم دونوں طبقہ کے افرادتھے،اوردونوں میں یکساں محبوب بھی تھے، آپ کا خیال تھا کہ مسلمانوں کوبرداران وطن کے ساتھ ملک کی خدمت کے لئے آگے آنا چاہیے،سیاست میں داخل ہوکرہی ہم اپنا حق لے سکیں گے۔
اہل علم ودانش سے تعلق
سیاست سے آپ کا تعلق ضرورتھا مگرآپ روایتی سیاست داں نہیں تھے،سیاست کی دنیامیں رہتے ہوئے بھی علم اوراہل علم سے آپ کا ربط وتعلق بدستورقائم رہا،مولانا قمر اعظمی، مولانامقبول احمد خاں،مولانا عبدالعلیم آسی،الحاج عبدالخالق خلیق،خان بہادر عبد الجلیل،پنڈت جانکی نندن مشر ، شری گریندرموہن مشر،رام نندمشر،پروفیسر عبدالمنان بیدل، مولانا شفیع دائودی، مفکردین مولانا آزاد سبحانی،مجاہد آزادی سید محمود بیرسٹر،مطیع الرحمن،بیرسٹرمحمد یونس سابق وزیر اعظم بہار،یہ وہ شخصیات ہیں جن کے علم ودانش کے بارے میں کچھ کہنا سورج کوچراغ دکھا نے کے مترادف ہے، ان حضرات سے آپ کا ربط وتعلق تھا،بعض سے یارانہ تھا توبعض آپ کے احباب خاص تھے، وزارت کے دورمیں جسٹس خلیل،کرنل اسحاق،سیدنذیرحیدر،محترمہ انیسہ امام اورجسٹس نقی امام اکثر شام کوآپ کے ساتھ بیٹھ کرعلمی وملی موضوعات پرسیرحاصل گفتگوکرتے تھے،معروف مجاہدآزادی اورسابق نائب وزیرحکومت ہند ڈاکٹرسیدمحمودنے ایک بارمہینوں آپ کے یہاں قیام کیاتھا۔
 معاصرین ومعاونین
اوپرجن اصحاب علم وفضل کا تذکرہ ہوایہ سب آپ کے معاصرین میں ہیں،ان کے علاوہ جواحباب اوررفقاء کارآپ کومیسررہے ان میں ڈاکٹرسیدفرید،مولوی عبدالودود، عبدالحمید خاں وکیل،مولانا مقبول احمد،خانصاحب ڈیوڑھی،ڈاکٹرسیدفرید،پیارے صاحب رجسٹرار وغیرہ کا تذکرہ نہ کرنا بڑی ناانصافی ہوگی،عبدالحمیدخاں صاحب سے آپ کی رفاقت کی روداد بیان کرتے ہوئے جناب ظہیرنوشادلکھتے ہیں:
ہادی قوم وملت شفیع مرحوم کے ساتھ اپنے خون سے وضوکرکے نماز قوم وملت ادا کرنے والوں میں مولوی حمیدخاں کانام ہمیشہ یادرہے گا، کیونکہ ان دونوں مخلص رہنمائوں کے درمیان چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ،ان دومحسنین ملک وقوم نے ایک ساتھ مل کرسیاسی زندگی کو متحرک اور فعال بنانے میں اجتماعی کارنامے انجام دئے،شروع شروع میں شفیع مرحوم دربھنگہ ضلع مسلم لیگ پارٹی کے صدراورحمیدخاں صاحب سکریٹری تھے،پھر اس کے بعدمسلم ہائی اسکول لہیریاسرائے کی بنیادڈالنے میں بھی برابرشریک رہے۔
(در بھنگہ میں اردو،ص:۷۵)
ان کے علاوہ اوربھی بہت سے نام ہیں جنہیں آ پ کے رفقاء اورمعاونین کی فہرست میں شامل کیاجانا چاہیے،مگربعدزمانہ اورکچھ اپنوں کی بے توجہی کی وجہ سے ان مخلصین کے نام محفوظ نہیں رہ سکے،بہرحال جن حضرات نے قوم وملت کی جوبھی خدمت انجام دی ان کوخواہ قوم بھلابھی دے مگروہ اللہ کے رجسٹرمیں موجودرہیں گے،اوراپنے عمل کے بقدرانعامات سے سرفراز ہوں گے، اگرہم ان کویادرکھتے ہیں تویہ ان کااعزاز نہیں بلکہ اپنے ذوق اورصالح فکر کاثبوت دیتے ہیں ۔
خصوصی اوصاف وکمالات
جناب محمد شفیع مرحوم ایک مثالی شخصیت کے مالک تھے،آپ جس میدان میں بھی رہے ہرجگہ آپ کاکردارمثالی رہا،آپ گفتارکے نہیں کردارکے غازی تھے،آپ کی زندگی سراپا حرکت وعمل کا نام ہے،جس میں قوم وملت کے لئے بڑا پیغام پوشیدہ ہے۔
ایمانداری،اصول پسندی،غریبوں سے محبت،قومی ترقی کے لئے جہدوعمل،آپ کے نمایاں اوصاف ہیں،اخلاق وتواضع اورشرافت آپ کے خمیرمیں شامل تھا،حق کے لئے لڑنا  اورحق بات کہناآپ کی زندگی کا مقصدتھا،توسیاست کوقومی وملی خدمت سمجھناآپ کا ایمان تھا، ہندومسلم اتحادکے داعی تھے،مسلمانوں کی بیداری اوران میں تعلیمی فروغ آپ کا نصب العین تھا، جس سے کبھی انحراف نہیں کیا،اس کے لئے اخیردم تک کوشاں رہے۔
سادگی کایہ حال تھاکہ تقریبا۳۵؍برسوں تک دربھنگہ میں کرایہ کے ایک مکان میں رہے، پارٹی کے ریاستی نائب صدرسے لے کروزارت تک کی کرسی پرمتمکن رہے، مگر شہر میں ایک گز زمین نہیں خریدسکے،جوتنخواہ ملتی تھی مہینہ کے اخیرتک ختم ہوجاتی تھی،اس میں رشتہ داروں کی کفالت اور محتاجوں کی امدادکابڑاحصہ ہواکرتاتھا،کبھی بینک میں کھاتانہیں کھولا،کوئی رقم جمع نہیں کی ، وراثت میں ملی زمین کے علاوہ کوئی ملکیت حاصل نہیں کی،آخری وقت میں صرف چھ سو روپئے جیب میں تھے،اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
دینداری کایہ عالم تھاکہ خالص عصری تعلیم یافتہ اورولایت پلٹ تھے،مگربقول مولانا ممتاز علی مظاہری صاحب’’متشرع تھے،شکل سے مولوی لگتے تھے، داڑھی رکھتے تھے‘‘۔
جناب نیاز صاحب بتاتے ہیں کہ آپ ایک مرتبہ حضرت مولانابشارت کریمؒ سے ملنے گھڑول شریف پہونچے،جب آپ حضرت کی خدمت میں پہونچے توحضرت فوراًباہرتشریف لائے اورآپ کوسینے سے لگایا۔
اہل علم سے تعلق،ان کے ساتھ حسن سلوک،اوروضع داری میں مشہورتھے۔
امانت کا اتناخیال تھا کہ اپنے ذاتی کاموں کے لئے سرکاری سواری استعمال نہیں کرتے تھے۔
ایسے مخلص قائد،ملت کے محسن اورقوم کے رہبرچراغ رخ زیب لے کرڈھونڈنے سے بھی کہاں ملیں گے  ع
اب ڈھونڈانہیں چراغ رخ زیبالے کر
انتقال
۱۱؍فروری ۱۹۵۵ء کوملک اس بے لوث اورمخلص رہنما سے محروم ہوگیا،وزارت کے دوران اپنے سرکاری رہائش گاہ پٹنہ میں آپ کا انتقال ہوا،نعش وطن لائی گئی،وزیراعلی بہار ڈاکٹرشری کرشن سنہاخراج عقیدت کے لئے دربھنگہ آئے،پٹنہ سے پھلہراگھاٹ تک اسپیشل پانی جہاز سے،وہاں سے گھوگھڈیااسپیشل ٹرین سے اورپھروہاں سے گائوںتک موٹرگاڑی سے آپ کاجسد خاکی لایاگیا،پہلی نماز جنازہ انجمن اسلامیہ پٹنہ میں ہوئی،دوسری دربھنگہ میں اور تیسری گائوں میں،اوریہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین عمل میں آئی۔
مسلمانوں میں بہت رہنماپیداہوئے اورآئندہ بھی پیداہوتے رہیں گے،مگرشفیع صاحبؒ جیسے مخلص رہنماصدیوں میں پیداہوتے ہیں،اب تویہی کہاجاتارہے گا کہ  ع
ایساکہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے