حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی: تاریخ داں ہی نہیں، ایک تاریخ ساز شخصیت


مولانا امین الدین شجاع الدین
{سابق استاذدارالعلوم ندوۃ العلماء ،لکھنو}
مفکر اسلام حضرت مولان پر کچھ لکھنا اور وہ بھی صفحہ دو صفحے میں! ایک ہشت پہلو نگینہ، ایک داعی، ایک مصنف ایک مفکر، ایک مدبر اور اس کے علاوہ مرشد روحانی ایسے موقعوں پر مشکل یہ پیش آتی ہے کہ کس پہلو کو اجاگر کیا جائے اور کس سے احتراز کیا جائے، بہرحال، چل مرے خامہ بسم اللہ!
ہمارے ایک ندوی فاضل عزیز الحق کوثر ندوی ہوا کرتے تھے، وہ تو بہت پہلے داغ مفارقت دے چکے، ان کے ایک عزیز نے ایک  واقعہ بتایا کہ حضرت مولانا کی ایک مجلس میں جناب کوثر ندوی کی کسی صاحب نے کچھ بدگوئی کردی، مجلس بدمزگی کا شکار ہوگئی، حضرت مولانا بظاہر تو خاموش رہے لیکن اس کے بعد ایک پوسٹ کارڈ حضرت کوثر ندوی کو لکھا کہ ایک مجلس میں یہ حادثہ پیش آیا، سوء قسمت کہ میں بھی اس میں موجود تھا اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ خط لکھ کر آپ سے معافی طلب کرلوں کہاں یہ واقعہ اور احتیاط کا پہلو اور کہاں آج کا دور! اس اعلی ظرفی اور اس سے بڑھ کر خدا خوفی ہی تھی جس نے حضرت مولانا کو بے چین ومضطرب کردیا ہوگا، ورنہ آج عالم تو یہ ہے کہ عوام تو عوام خواص تک کی مجلسیں عیب جوئی ونکتہ چینی سے خالی نہیں ہوا کرتیں، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب تک نے اس کمزوری وبے احتیاطی پرخامہ فرسائی کی ہے۔
میں نے حضرت مولانا کو پہلی مرتبہ اس وقت دیکھا اور سنا جب ایمرجنسی نافذ تھی، اور مولانا براہ ممبئی سعودی عرب جارہے تھے، ہندوستانی مسجد بھیونڈی میں جمعہ کی نماز کے معاً بعد ایک پروگرام کا اعلان ہوا، باہر سڑکوں پر دور دور تک چٹائیاں بچھادی گئیں، جمعہ کا دن تھا بھیونڈی تشریف لائے، سہ منزلہ ہندوستانی مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، ایمرجنسی کا زمانہ تھا، نس بندی اور خاندانی منصوبہ بندی کا شور وغوغا تھا، ظاہر ہے کہ ان حالات میں حضرت مولانا براہ راست کیا فرما تے، ورنہ حکومت تو بیان کوتوڑ مروڑ کر اسے بھی اپنے مقاصد اور مفاد میںا ستعمال کرلیتی، لیکن عوام کی فکرمندی وبے چینی کا حضرت مولانا کو اندازہ تھا، چنانچہ حضرت مولانا نے قرآن سے جنت کے متعلق ایک آیت کی تلاوت کی ’’وسارعوا الیٰ مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضھا کعرض السماوات والأرض‘‘ اور دور دور تک مسجد کے باہر بھی شاہراہ پر ادائیگی جمعہ کے لئے آئے ہوئے مسلمانوں کے ازدحام کی مثال دی، خلاصہ تقریر یہ تھا کہ انسان کے اندازے کبھی صحیح نہیں ہوپاتے، یہ سہ منزلہ عمارت ہی دیکھئے کہ کتنی وسیع وعریض ہے، لیکن جن لوگوں نے مسجد کی تعمیر اور توسیع کی، اس وقت ان کو قطعا اندازہ نہ رہا ہوگا کہ اس توسیع کے باوجود مسجد جمعہ وعیدین کے موقعوں پر تنگ پڑے گی، تو انسانی اندازے غلط ثابت ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے، لیکن اللہ مالک الملک ہے، قادر مطلق ہے، اسے انسانی آبادی کا اور ان کے سامان زندگی کی پوری پوری فکر ہے، ہم سب کھلی آنکھوں دیکھتے ہیں کہ کتنی جگہیں ہیں جو خالی پڑی ہیں اور نہ معلوم کتنے معدنیات ہیں جن کی انسان اب تک تحققیق نہ کرسکا، اس کے بعد حضرت مولانا جنت کی طرف آگئے، تقریر کا خلاصہ یہی تھا کہ انسانی اندازے غلط ثابت ہوتے رہتے ہیں، لیکن قدرت کا اندازہ کبھی غلط ثابت نہیں ہوسکتا۔
اکثر کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویاان پر حال طاری ہو جب کہ حضرت مولانا بھی مفکر تھے لیکن ان میں توازن تھا اور اسی کے ساتھ تواضع، ان کے پاس علم تھا لیکن قدرت نے انہیں حلم بھی عطا فرمایا تھا، تفکر کی قوت خدا نے انہیں بخشی تھی، لیکن اسی کے ساتھ مزاح کا پہلو بھی ان میں دیکھنے کو ملتا تھا، بھیونڈی میں ہمارے ایک بزرگ جناب شبیر احمد راہی ہوا کرتے تھے ایک دفعہ بھیونڈی جانے پر انہوں نے مجھ سے حضرت مولانا کے گوش گزار کرنے کے لئے فرمایا کہ میں نے انہیں ایک خط لکھا ہے، جس کا جواب موصول نہیں ہوا، ندوہ واپسی پر میں نے حضر ت مولانا سے اس بات کا تذکرہ کیا تو مولانا نے مزاحاً فرمایا، ان سے پوچھئے کہ کیا انہوں نے میرے نام خط ارسال کرنے کا کہیں خواب تو نہیں دیکھا ہے۔
 جب میں ندوہ تعلیم کی غرض سے آیا، تو ایک بار یوں ہوا کہ بقرعید کی تعطیلات کے بعد میں حضرت مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا اور اطلاع دی کہ عین بقرعید کے دن معروف اہل حدیث عالم دین اور محدث حضرت مولانا عبد الصمد صاحب شرف الدین علیہ الرحمہ دنیا سے رخصت ہوگئے، حضرت مولانا نے فرمایا کہ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے ایک محدث اور ایک مبلغ کے انتقال کی خبردی عبد الصمد شرف الدین کے بھائی خلیل شرف الدین صاحب مرحوم کا تذکرہ کرتے رہے، مولانا عبد الصمد شرف الد ین    (۱۳؍جلدوں میں ان کی ایڈٹ شدہ ضخیم کتابیں ہیں اور دیگر لٹریچر بھی) سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کیا اور اظہار افسوس ودعائے مغفرت فرمائی۔
عصر بعد مولانا کی مجلس مہمان خانہ کے احاطہ میں ہوا کرتی بڑی بڑی شخصیتوں کو میں نے وہیں دیکھا، کس قدر نیاز مندانہ طریقہ سے وہ لوگ ملا کرتے تھے جب کبھی مجھے بے چینی یا مایوسی وافسردگی کا احساس ہوتا تو میں بھی عصر بعد اس مجلس میں ایسی جگہ بیٹھتا جہاں میرے حصہ میں دور کا جلوہ ہی آئے لیکن حضرت مولانا ہی پر میری نگاہ رہتی، کوئی کچھ پوچھتا تو جواب دے دیتے ورنہ خاموشی۔ محسوس ہوتا کہ میں ایک چمن میں بیٹھا ہوں اور ایک شجر سایہ دار کے پھولوں کی مہک پارہا ہوں، جلوت میں خلوت کا سماں ہوتا، دل کیفیات سے معولہ ہوا کرتا جیسے کوئی پاور ہاؤس ہو جس سے حرارت ایمانی کا احساس ہورہا ہو۔
آبادی کی تو کثرت ہے لیکن یہ کثرت آدمیوں کی ہے، انسانوں کی نہیں حضرت مولانا ایسے انسان تھے جنہیں اب کوئی چراغ رخ زیبا لے کر ڈھونڈے، وہ تو زمین اوڑھ کر سوگئے موت بھی قابل رشک پائی، مہینہ رمضان کا، وقت نماز جمعہ کا، غسل کرکے دھلے دھلائے کپڑے پہن کر اللہ کی کتاب قرآن سے یٰسین پڑھنے کے دوران ہی پروانہ مراجعت آگیا، لوگوں کی طرف سے چیخ وپکار، آہ وبکا سب کچھ سنا گیا، لیکن ان شاء اللہ مولانا مرحوم نے فرشتوں کے ذریعہ حکم ربانی سنا ہوگا، یا ایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی إلی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی في عبادی وادخلی جنتي۔
حضرت مولانا نے پیام انسانیت قائم کیا تھا تاکہ برادران وطن نفرت کے بجائے محبت کے گیت گائیں، لیکن یہ کام بڑا نازک اس لحاظ سے تھا اور ہے کہ مولانا کے پیش نظر تو اسلام کی پیش کردہ انسانیت کے وحدت تھی نہ کہ وحدت ادیان۔
حضرت مولانا کی شخصیت ایک ہمہ جہت شخصیت تھی کتابوں کی اشاعت کے لئے مجلس تحقیقات ونشریات اسلام قائم کی، کاش مجلس ایسے قلم کار اور صحیح الفکر طلبہ کو تیار کرنے کا بیڑا اٹھالیتی اور حضرت مولانا کے مشن کو جاری رکھتی۔
مولانا نہیں رہے، ہر ایک کو ایک نہ ایک دن جانا ہے مگر مولانا فقط ایک شخصیت لے کر نہیں گئے ایک انجمن کی انجمن سونی کرگئے، وہ نسخۂ آدمیت تھے، زندگی کے آخری برسوں میں ان پر اصلاح معاشرہ اور نسل نو کے عقیدہ کی فکر غالب تھی اور اس نام سے کوئی دعوت دینے آتا تو مولانا اپنی صحت ومصروفیت کی بھی پرواہ نہ کرتے اور وقت ضرور عنایت فرمادیتے، مدرسہ مظہر الاسلام بلوچپورہ کے سالانہ جلسہ میں میںنے سنا اس میں وہی یعقوب علیہ السلام کا اپنے بیٹوں سے سوال تھا کہ ’’ماتعبدون من بعدي‘‘ کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے۔ اس موقع پر ابتدائی کلمات میں ہی تسلسل پر زور دیا تھااور اس کی اہمیت جتلائی تھی، تسلسل سے ہی زندگی ہے، ایمان وعقیدہ نسل در نسل منتقل ہو، یہ فریضہ فکر چاہتا ہے، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دور پر فتن میں نسل نو کے ایمان وعقیدہ کی فکر اور تدبیریں کی جائیں، غرض یہ سب باتیں اس وقت کی ہیں کہ ع
شہ گل تھے بلکہ عالم اسلام کے گُل سر سبد تھے
تاریخ قوموں کا حافظہ ہے، اس کا دامن پاک باز و پاک طینت شخصیتوں اور ان کے تذکروں سے مالا مال ہے، ان میں ایسی شخصیات بھی ہیں جن کا نام تاریخ نے مؤرخ کی حیثیت سے محفوظ کرلیا ہے لیکن ایسی شخصیتیں جو صرف مؤرخ ہی نہیں بلکہ تاریخ ساز بھی ہوں، خال خال ہی ملتی ہیں…… حضرت مولانا علی میاں ندویؒ ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیت کا نام تھا، تقریباً ۸۵؍ سال کی بھرپور زندگی گزار کر چمن کا یہ دیدہ ور نئے ہزارہ کے آغاز سے ایک روز قبل ۳۱؍ دسمبر ۱۹۹۹ء کو اپنے رب سے جاملا جس کی آمد کے لئے ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روئی ہوگی… اناللہ و اناالیہ راجعون… انہوں نے زندگی بھی گزاری تو اس وقار کے ساتھ کہ خود ’زندگی‘ بھی ناز کرے اور آدمیوں کی بھیڑ میں ایک ’’انسان‘‘ اور انسانوں کے مجمع میں ایک ’’فرشتہ‘‘ کے ہونے کا گمان ہونے لگے…! اور اس دنیائے فانی سے رخصت بھی ہوئے تو اس شان سے کہ ’’بندگی‘‘ بھی جھوم اٹھے اور موت کو بھی رشک آجائے…! مہینہ رمضان کا اور اس کا بھی آخری عشرہ، پھر آخری عشرہ میں بھی جمعہ کا دن، اور جمعہ کے دن بھی اذان جمعہ سے کچھ پہلے کا وقت…!! غسل و وضو سے فارغ ہوکر یٰسین شریف کی تلاوت از خود ہی شروع کردی اور جب اس آیت پر پہونچے فبشرہ بمغفرۃ و اجر کریم تو بارگاہ رب العزت سے مراجعت کا پروانہ مل گیا… اللہ اللہ! کون ہے جو ایسی موت پر رشک نہ کرے اور کون سا دل ہے جو اس ’’مرتبہ بلند‘‘ کی تمنا نہ کرے!! مگر ہاں! یہ شاندار موت (طاب میتا) بھی خوش گوار زندگی (طاب حیا) کی شاید رسید اور Acknowledgement ہے! موت آئی بھی تو حالت روزہ میں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے زندگی بھر ہی کا روزہ رکھا تھا۔ حضرتؒ کے حسن خاتمہ پر حضرت ہی کے ایک مضمون ’’دو روزے‘‘ کا یہ اقتباس پڑھئے اور سر دھنئے کہ یہ تحریر خود اس کے لکھنے والے پر اور اس کے دم واپسیں پر کس طرح صادق آئی کہ انسان تو انسان ملائکہ بھی انشاء اللہ عش عش کر اٹھے ہو ںگے، لکھتے ہیں۔ ’’بڑا روزہ ہے اسلام کا روزہ، اسلام خود ایک روزہ ہے اور یہ سب روزے اور عیدین بھی بلکہ روزہ نماز یہاں تک کہ جنت بھی جو اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا وہ سب اسی کے طفیل ہی ہے، اصل بڑا روزہ اسلام کا روزہ ہے… رمضان کا روزہ اور نفلی روزہ تو غروب آفتاب پر ختم ہوجاتا ہے مگر اسلام کا یہ روزہ تو آفتاب عمر کے غروب ہونے پر ختم ہوگا… رمضان کے روزے و نفلی روزہ کا افطار کیا ہے؟ آپ عمدہ سے عمدہ مشروب اور لذیذ سے لذیذ غذا سے افطار کرسکتے ہیں، وہ روزہ زمزم سے کھلتا ہے، وہ روزہ ٹھنڈے پانی سے کھلتا ہے اور زندگی کا یہ طویل و مسلسل روزہ کس سے کھلے گا، حضرت محمد رسول اللہ، محبوب رب العالمین شفیع المذنبین، سید المرسلینؐ کے دست مبارک سے جام طہور سے، جام کوثر سے کھلے گا… اس کی ضیافت کیا ہے؟ وہ ہے جس کی ضیافت پر آدمی اپنی جان دے دے……!!‘‘
جس شخصیت کو یہ ’’مرتبہ بلند‘‘ حاصل ہوتا ہے اس کا خمیر بھی جن عناصر سے تیار ہوتا ہے، وہ طاہر و مطہر ہوتے ہیں… حضرت کا خانوادہ بھی سید احمد شہیدؒ کا، علم و تقویٰ اور اسلام کی سربلندی و سرفرازی کی آرزو و تمنا بھی گویا ورثہ میں ملی، مربی بھی سب کے سب جلیل القدر اور ان میں سرخیل ان کے برادر معظم ڈاکٹر عبدالعلی جن  کے لئے کسی اور نے نہیں، فلسفہ میں یگانہ روزگار اور مرشد تھانوی کے مسترشد مولانا عبدالباری ندوی نے ان ہذا الاملک کریم کی تعبیر استعمال کی، ان کے اساتذہ پر نگاہ ڈالئے تو ایک چمکتی دمکتی کہکشاں بلکہ اپنے اپنے فن میں سب آفتاب و ماہتاب! اللہ کے لئے تواضع اختیار کرنے والے کے لئے رب العزت نے رفع درجات کے بھی ایسے دروازے کھولے کہ ان کے بڑوں نے بھی انہیں اپنی آنکھوں کا تارہ سمجھا اور چھوٹوں نے بھی ان کے لئے اپنی آنکھیں بچھائیں…… کیا مدارس اور کیا خانقاہیں، کیا اہل علم و اہل قلم اور کیا صاحبان جبہ و دستار، کیا عوام و خواص اور کیا شاہ و گدا… سب نے سینہ سے لگایا اور ان کی یادوں کو دلوں میں بسایا، چشم فلک نے ایسی محبوبیت و مقبولیت اور اس کے ساتھ ایسی جامعیت و ہمہ گیریت کم ہی دیکھی ہوگی۔ محبت کے ساتھ ساتھ عزت و تکریم اور اکرام و التفات بھی… آخر دور میں تو اس کے کچھ مظاہر ایوارڈز کی صورت میں بھی دیکھنے کو ملے مگر دنیا جانتی ہے کہ اس سے ایوارڈز لینے والے کی نہیں بلکہ خود ایوارڈز کی قدر و منزلت بڑھی کعبہ کی کلید برداری کا اعزاز بھی اللہ نے بخشا اور بعد از مرگ بھی یہ اعزاز نصیب ہوا کہ ۲۷؍ رمضان کو حرمین شریفین میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔
علمی خانوادہ میں جن کی آنکھیں کھلی ہوں ان کی سرگرمیوں کے میدان اور اطمینان کے لئے مسند علم وار شاد اور قلم و قرطاس ہی کافی ہوسکتا تھا لیکن ان کے لئے مقدر تھا کہ وہ ایک مردم ساز اور اس سے آگے بڑھ کر تاریخ ساز و عہد ساز شخصیت ہوں۔ چنانچہ قدرت نے ان کے خمیر میں سوز بھی شامل کردیا… ان کے پہلو میں دھڑکتا ہوا دل تھا جس کے سوزدروں نے انہیں ہمہ وقت بے چین و مضطرب اور فعال و سرگرم رکھا… چنانچہ یہی وہ سوز تھا کہ ایک معلم کی حیثیت سے ’’آئین نو سے ڈرنے اور طرز کہن پہ اڑنے‘‘ کے بجائے انہوں نے عجم والوں کے لئے زبان عربی کے سیکھنے سکھانے کی نئی، آسان اور خوشگوار راہیں نکالیں، جس کے اپنانے والوں کو محمد عربیؐ کی زبان عربی کی شیرینی و حلاوت کا تجربہ ہوا، روحانی تربیت نے ان کے جذب دروں کو جلا بخشی۔ چنانچہ وہ دعوت اور اصلاح معاشرہ کے فریضہ کی انجام دہی کے لئے بھی آگے بڑھے، فکری زوال و ادبار پر باندھ باندھنے کے لئے انہوں نے مجلس تحقیقات و نشریات اسلام کی بناء ڈالی اور اس ایک آدمی نے وہ کام کردکھایا جو اکادمی کرتی ہے، سیرت سید احمد شہید کی تصنیف سے انہوں نے ایک ایسی شخصیت کی سوانح نگاری کا فریضہ انجام دیا جو ان کے نزدیک ایک آئیڈیل شخصیت رہی اور جن کی جامع فکر ان کی فکر کا محور رہی، صحافت کے میدان کارزار میں بھی انہوں نے گل کاریاں کیں اور ’’الضیائ‘‘، ’’الندوہ‘‘ ’المسلمون‘ جیسے پرچوں کی ادارت سنبھالی، اقبال کی نظموں کا زبانِ عربی میں ترجمہ کیا تاکہ اقبال شناسی کے ذریعہ عربوں کے ادبار کو اقبال کی راہ پر ڈالا جاسکے، ڈاکٹر امبیڈکر کو اسلام کی دعوت پیش کی تاکہ ان کے سماج کو وہ عزت مل سکے جو اس دنیا تک محدود نہیں بلکہ آخرت میں بھی جس کا وعدہ ہے، ماذاخسر العالم لکھ کر انہوں نے انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کے اثرات کو واضح کیا تاکہ مسلمان ایک بار پھر زوال سے عروج کی طرف سفر کے لئے آمادہ ہوں… جب مادر وطن ہندوستان کی پیشانی ہندو مسلم فسادات سے خون آلود ہونے لگی تو ان کا سوز ہی تھا جس نے ’’پیام انسانیت‘‘ کے نام سے اس درد کا درماں ڈھونڈا اور برادران وطن کے دلوں کی خلیج کو پاٹنے کی فکر کی… ندوہ نے مدت دراز پہلے ’جدید نافع و قدیم صالح‘ کی صدا لگائی تھی، ان کی تحریروں اور تقریروں سے یہ صدا چار دانگ عالم میں پھیلی اور ندوہ کا لگایا ہوا یہ پودا ان کے دَور میں ایسا تناور درخت بنا کہ آکسفورڈ اور لگومبرگ میں تعلیمی ادارے بھی اسی کی گھنیری چھائوں میں قائم ہوئے… انہوں نے خود عربوں کو محمد عربی کا پیغام سنایا اور انہیں ان کا اپنا اصل کام و مقام بتایا، رابطہ عالم اسلامی کے قیام کے بانی رکن کی حیثیت سے انہوں نے عالم اسلام کے شیرازہ کو متحد کرتے ہوئے اسے اپنا قائدانہ رول سمجھایا اور جب ادب کے نام پر بے ادبی اور بے اعتدالی اور اس سے آگے بڑھ کر فحاشی و ذہنی عیاشی کا بازار گرم ہوا تو رابطہ ادب اسلامی کی بناء ڈالی اور قلمکاروں کو سمجھایا اور بتایا کہ زیر قلمت ہزار جان است۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہو یا دینی تعلیمی کونسل، ہر پلیٹ فارم سے انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو مثبت طرز فکر اپنانے کی دعوت دی اور ماحول کی برہمی کے باوجود اپنی نافعیت ثابت کرتے رہنے کی بات کی، وقت پڑنے پر اپنے عقیدہ کے سلسلے میں لااعبد ماتعبدون کا نعرئہ مستانہ بلند کرنے کا بھی پیغام دیا کہ یہی اس ملت کی شناخت اور اس کے وجود و بقاء کا ضامن ہے، مولانا نعمانی کی وفات پر اپنے رفیق محترم کے متعلق حضرت نے جو کچھ فرمایا تھا وہ بدرجہ اتم خود ان کی حیات و خدمات پر صادق آتا ہے کہ ’’مولانا مرحوم نے اس حقیقت کو سمجھا کہ یہ ملک مسلمانوں کے لئے دوسرا اسپین نہ بن جائے…‘‘
افسوس کہ ملت کی کشتی کا یہ کھیون ہار ایسے وقت میں ہم سے جدا ہوگیا جبکہ کشتی منجدھار میں ہے۔ ضرورت ہے کہ اجتماعیت اور اتحاد کے ان کے بتائے ہوئے ر استے پر چل کر ہم یہ ثابت کردیں کہ ان کی زندگی کے مشن کو ہم نے بھلایا نہیں ہے۔
}ماخوذ از: '"""ملنے کے نہیں نایاب ہم}

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے