مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی



از:مولاناامین الدین شجاع الدین
ایک دینی و ملی خسارہ
دو تین برسوں سے جس سانحہ کا کھٹکا لگا ہوا تھا، وہ بالآخر پیش آکر رہا، دنیا ہی فانی ہے اور اک دن جان سب کی جانی ہے، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی (۱۹۳۶ئ۔ ۲۰۰۲ئ) بھی وہاں چلے گئے جہاں ایک نہ ایک روز سب کو جانا ہے اور زمین اوڑھ کر سو جانا ہے۔ آج وہ، کل ہماری باری ہے۔ لیکن قاضی صاحب کی موت ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک فرد فرید کی موت ہے، ایک فقیہ کی موت ہے، ایسا فقیہ جو صرف لغوی اعتبار سے ہی فقیہ نہیں تھا بلکہ معنوی لحاظ بھی واقعتاً فقیہ تھا، قسام ازل نے جس کو بیدار مغز ہی نہیں بخشا تھا بلکہ اس کے سینہ میں دل دردمند بھی رکھا تھا اور جسے تڑپنے پھڑکنے کی توفیق بھی بخشی تھی۔
قاضی صاحب بنیادی طور سے ایک عالم دین تھے، مدرسہ کی چٹائی پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے والوں میں سے ایک تھے، خدا کی دین اور عطا ہے، وہ جسے چاہے بخش دے۔ قاضی صاحب کے نصیبہ میں دین کی سوجھ بوجھ آئی وہ تفقہ کہ جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا:’’من یرید اللہ بہ خیراً یفقہ فی الدین‘‘ 
اللہ رب العزت جس کے بارے میں خیر کا معاملہ کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا کردیتے ہیں۔ تو یہ نعمت قاضی صاحب کے حصہ میں آئی گویا خیر کے سرچشمہ سے اکتساب فیض کا فیصلہ ہوا۔ یہ شریعت اسلامی کا سرچشمہ ہے اور شریعت اسلامی کا ایسا سرچشمہ ہے جہاں پہونچنے والا محض پیتا نہیں، پلاتا بھی ہے اور لٹاتا بھی ہے۔ قاضی صاحب شریعت مطہرہ کے اس سرچشمہ سے نہ صرف خود سیراب ہوئے بلکہ ساقی بن گئے اور فصل گل کی تمنا میں مے دلفروز پلاتے چلے گئے۔
کسی بھی شخصیت کا مطالعہ کرتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی شخصیت سازی کے عناصر ترکیبی کیا تھے، ان کے والد ماجد مولانا عبدالاحد قاسمی حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے شاگرد رشید تھے، عالم ربانی شیخ الہندؒ کے شاگرد نے رات کی تنہائیوں میں بھی اپنے لخت جگر کے لئے یقینا خدا کے حضور ہاتھ پھیلائے ہوں گے، قاضی صاحب کے دامن میں فقہی فراست و بصیرت اور ملی درد و کرب کے کھلے ہوئے گل و لالہ ایسی مناجاتوں کا اشارہ دیتے ہیں، ان کی تعلیم دارالعلوم دیوبند میں بھی ہوئی جو محض ایک دارالعلوم کانہیں ایک مشن اور تحریک کا نام تھا اور جس کی بنیاد ان خدا ترس ہاتھوں نے ان ارادوں سے رکھی تھی کہ سرزمین ہند میں اسلام کے چراغ کی لَو مدھم نہ پڑنے پائے بلکہ تیز سے تیزتر ہوتی چلی جائے۔ قاضی صاحب کو امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی جیسے شخصیت ساز بزرگ کا سایہ نصیب ہوا۔ ماضی قریب کی وہ شخصیتیں جنہوں نے افراد سازی جیسے پتہ ماری اور جگر کاوی کا کام کیا ان میں ایک نمایاں نام حضرت امیر شریعت کا بھی ہے، وہ جوہری تھے چنانچہ ان کی جوہر شناس نگاہ نے دیکھا کہ مجاہد الاسلام میں اسلام کا واقعی ایک مجاہد چھپا ہوا ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ صلاحیتوں کے پروان چڑھنے اور ان کے برگ و بار لانے کے لئے فضا درکار ہوتی ہے، میدان درکار ہوتا ہے، قدرت کو قاضی صاحبؒ سے کام لینا مقصود تھا۔ چنانچہ یہ مواقع بھی انہیں ودیعت کئے جاتے رہے۔ وہ مسند درس پر بھی بیٹھے اور امارت شرعیہ پھلواری شریف میں قاضی کے منصب پر بھی فائز ہوئے مگر قاضی کا یہ منصب پھولوں کی نہیں کانٹوں کی سیج ہوا کرتا ہے۔ یہاں زندگی کے حقائق بے لباس ہوکر آتے ہیں۔ ہمہ وقت مسائل کا سامنا ہوتا ہے، تلخیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اور پھر مسائل بھی بہار جیسے پسماندہ صوبہ کے…… قاضی صاحب چاہتے تو مدرسہ کی چہاردیواری میں اپنے لئے گوشہ عافیت ڈھونڈ لیتے، مدارس بھی انہیں آنکھوںپر بٹھاتے، تدریس میں شاہانہ مزاج کی تسکین کا پورا سامان بھی ہے، کہاجاتا ہے کہ شاہ جہاں کو جب نظر بند کردیا گیا تو اس نے بھی چند شاگردوں کے جلو میں رہنے کی تمنا ظاہر کی تھی مگر قاضی صاحب نے سہولت پسند طبیعت نہیں پائی تھی بلکہ موج حوادث سے گزرنے میں ہی انہیں لذت ملتی تھی۔ چنانچہ کئی دہائیوں تک وہ قاضی کے فرائض انجام دیتے رہے اور اس وجہ سے انہیں ملت کے دینی و معاشرتی حقیقی صورتِ حال کا اندازہ ہوتا رہا۔ قاضی کے منصب کے سرد و گرم کو جھیل کر انہوں نے نہ صرف قضا کے اس عہدہ کے ساتھ انصاف کیا بلکہ زیادہ سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے خود اپنے ساتھ اور ملت کے ساتھ بھی انصاف سے کام لیا۔ امارت شرعیہ میں قاضی کا یہ منصب ان کے لئے ایک ایسی بھٹی ثابت ہوا جہاں سے تپ کر وہ کندن بن کر نکلے، مسائل کی آنچ نے ان میں وہ پختگی پیدا کردی جو ایک مجاہد کی شان اور اس کا نشان ہوا کرتی ہے۔
پھر ملت پر وہ وقت آیا جب اس کے پرسنل لاء پر نظریں اٹھیں اور یکساں سول کوڈ کے نام پر اس کے ملی تشخص کو پامال کردینے کی کوششیں ہوئیں۔ دین کا حق تھا کہ اس کے علماء اس موقع پر بے قرار ہو اٹھیںا ور اس سرمایہ کی پاسبانی کے لئے اٹھ کھڑے ہوں، چنانچہ علماء عالمانہ شان و مجاہدانہ آن بان کے ساتھ اٹھے اور آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ دیکھنے میں آیا کہ بلاتفریق مسلک و مشرب ملت کے علماء و دانشور تحفظ شریعت کے لئے شانہ بشانہ کھڑے تھے بیدار مغز علماء کے اس کارواں کے ایک فرد فرید مولانا مجاہد الاسلام قاسمی بھی تھے۔
امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی، مفکر اسلام مولانا علی میاں ندوی اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب اور دوسرے اکابر کا انہیں اعتماد حاصل رہا۔ قاضی صاحب کو خدا کی عطا کردہ فقہی فراست و بصیرت ملت کے کام آئی اور فقہ اسلامی بلکہ اسلامی تعلیم کی عظمت و برتری کا سکہ ماہرین قانون اور عصری تعلیم یافتہ طبقہ کے دلوں پر بھی ثبت اور نقش ہوتا چلا گیا۔
ملی کونسل کے پلیٹ فارم سے انہوں نے اتحاد ملت کے اپنے اسی درس کو پوری قوت سے دہرایا جس درس کو انہوں نے امارت شرعیہ سے سیکھا تھا اور جس کو مولانا ابوالمحاسن سجاد کی کتاب زندگی سے سیکھا تھا، انہوں نے چاہا کہ بحیثیت خیر امت اس ملک میں مسلمانوں کو کلمہ کی بنیاد پر کھڑا کرنا ہے اور جوڑنا ہے۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ ’’ملت کا سب سے بڑا مسئلہ شعور ذات کا مسئلہ ہے۔ یہ امت اپنے کو پہچانے، اپنے منصب کو پہچانے اور اس کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کرے جس وقت یہ امت اپنے کو پہچان لے گی اور دنیا کو یہ باور کرادے گی کہ اس کا سودا محال ہے، اس وقت امت کا مسئلہ قابو میں آئے گا۔‘‘
قاضی صاحب کا موضوع فقہ تھا، ان کی فقاہت کو دنیا نے تسلیم کیا، اس لحاظ سے وہ جس مقام و مرتبہ کے حامل تھے۔ اس کا حق تھا کہ جدید شرعی اور فقہی مسائل میں امت کی رہبری و رہنمائی کے لئے وہ کوئی قدم اٹھاتے، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا قیام قاضی صاحب کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ اس پلیٹ فارم کی ندرت یہ ہے کہ جدید مسائل کا شرعی حل تلاش کرنے کے لئے علماء اور اصحاب افتاء کے شانہ بشانہ علوم عصریہ کے ماہرین بھی دکھائی پڑتے ہیں، فقہ اکیڈمی نے علماء اور طلباء میں بحث و تحقیق کا مزاج پیدا کیا اور اس کے سیمیناروں میں مسائل پر جس طرح بحثیں ہوئیں اس نے مدارس میں تبدیلی پیدا کی، فقہ کی طرف ذہن راغب ہوا اور نئی نسل میں بھی یہ احساس جاگا کہ کس طرح ہمارے قدیم علماء و اصحاب افتاء کس قدر محنت، جگر کاوی اور اخلاص و لگن سے جدید پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرتے تھے۔ فقہ اکیڈمی کی صدا نے اس سناٹے پر ضرب لگائی۔ مورخ جب علمی و فقہی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو وہ فقہ اکیڈمی کی خدمات کو فراموش نہیں کرسکے گا۔ ان کی ادارت میں نکلنے و الے مجلہ بحث و نظر نے علمی و فقہی دنیا میں اپنی ایک شناخت قائم کرلی۔ بات ادارت کی آئی ہے تو قاضی صاحب کی تالیفات و تصنیفات کا بھی تذکرہ ضروری ہوگیا ہے، اگرچہ یہ موضوع اہل علم اور اصحاب افتاء کا ہے لیکن دیکھنے اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ قاضی صاحب مردِ میدان تھے، ا ن کے مشاغل کی نوعیت تحریکی بھی تھی، وہ اپنی تالیفات و تصنیفات اور تحقیقی کاموں کا ایک خزینہ چھوڑ گئے۔ فقہ اسلامی کے علاوہ انہوں نے مولانا ابو المحاسن سجاد کے علوم و افکار پر بھی اپنی تصنیفات چھوڑیں۔
قاضی صاحب مولانا ابوالمحاسن سجاد کو اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے، ان کی آئیڈیل شخصیتوں میں ایک نمایاں نام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کا بھی ہے۔ حضرت مولانا کی ذات والا صفات سے انہیں شروع ہی سے والہانہ لگائو اور شیفتگی رہی، یہاں تک کہ اپنی طالب علمی کے زمانہ میں سجاد لائبریری کے ذمہ دار کی حیثیت سے انہوں نے حضرت مولانا کو دیوبند مدعو کیا ’’طالبانِ علوم نبوت اور اس کے عالی مقام حاملین‘‘ حضرت مولانا کی وہ تقریر ہے جو اسی موقع کی یادگار ہے، قاضی صاحب کو ندوہ اور اس کی فکر سے بھی گہری مناسبت تھی جس کا ایک عملی ثبوت ہے کہ انہوں نے اپنے کاموں کے لئے ندوی فضلاء کو منتخب کیا اور ان پر اعتماد کیا۔ حضرت مولانا کی فکر کا انہوں نے نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ عملی سطح پر اسے برت کر دکھایا بھی۔ حضرت مولانا کے افکار قاضی صاحب کے فکر و عمل پر مرتب ہوئے بغیر نہیں رہے۔
وہ قدرت کی طرف سے دل دردمند، ذہن ارجمند اور زبان ہوش مند لے کر آئے تھے، انہوں نے اپنی ان تمام تر توانائیوں کو دین و ملت کے لئے وقف کردیا۔ وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر بھی ہوئے، یہ وہ دَور تھا جب ان کی علالت شدت اختیار کرچکی تھی اور ان کی زندگی کی طرف سے مایوسی ہونے لگی تھی لیکن قاضی صاحب کی لغت میں مایوسی کا لفظ نہیں تھا، ایک طرف ملت سخت آزمائشوں سے دوچار تھی تو دوسری طرف قاضی صاحب بیماریوں و آزاریوں سے نڈھال۔ لیکن ا ن کے سینہ میں ایک مجاہد کا جگر تھا اور وہ مجاہد ہی کیا جو زندگی کے آخری سانس تک لڑنے کا فیصلہ نہ کرے۔ ان کے دور میں مجموعہ قوانین اسلامی کے مسودہ کی اشاعت عمل میں آئی اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی منظر عام پر آیا جسے ان کے دَورِ صدارت کا ایک عظیم تحفہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
افسوس کہ قاضی صاحب کی وہ ذات جو ملت کے حق میں نعمت اور تحفہ تھی اب نہیں رہی۔ ؎
فاضل جفا کشان محبت کی موت کیا
جب تھک گئے تو سوگئے آرام کے لئے
البتہ ا ن کی خوبیاں باقی اور نیکیاں زندہ رہیں گی۔ غیرمعمولی ذہانت کے ساتھ اخلاص و بے نفسی ان کا سرمایہ تھا۔ خوئے دلنوازی کی ادا نے ان سے افراد سازی کا بڑا کام لے لیا، وہ تیز و تند ہوائوں میں بھی چراغ جلائے رکھنے کے ہنر سے واقف تھے، اللہ پر توکل ان کا زادِ سفر تھا، تفہیم کی غیرمعمولی صلاحیت پائی تھی، رسوخ فی العلم اور تفقہ فی الدین کی دولت ان کو نصیب ہوئی تھی جس سے ا نکے لئے نئے زمانے میں نئے حالات کے مطابق دین کی ترجمانی کا مشکل کام آسان ہوگیا۔ اجتماعیت ان کی گھٹی میں پڑی تھی، اختلاف رائے کو وہ نہ صرف انگیز کرتے تھے بلکہ اسے پسند بھی فرماتے تھے۔
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
بہرحال ایک نعمت تھی جو اٹھالی گئی اور ایک تحفہ تھا جسے ہم نے کھودیا مگر قاضی صاحب دنیا کی آلائشوں اور غم و آلام سے آزاد ہوکر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے، اللہ کی کریم ذات سے دعا بھی ہے اور امید بھی کہ ربانی دسترخوان پر ا ن کے لئے نعمتیں چنی گئی ہوں گی اور ملت کی کشتی کا کھیون ہار اپنی مراد کو پہونچ گیا ہوگا یعنی ان کا رب ان سے راضی ہوگیا ہوگا۔
ملت کو ایک بار پھر آزمائش کی گھڑی کا سامنا ہے اور قاضی صاحب کی روح علماء سے پوچھ رہی ہے  ؎
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
{ماخوز از:ملنے کے نہیں نایاب ہیں}

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے