یکہتہ و اطراف: علماء و مشاہیر کی نظر میں


امیرشریعت حضرت مولانا سیدنظام الدین صاحب
امیرشریعت بہار،اڑیسہ وجھارکھنڈ
 شمالی بہارکے اضلاع میں دربھنگہ اورمدھوبنی تاریخ کے ہردورمیں علوم وفنون اورتہذیب وتمدن کا گہوارہ رہا ہے ، یہاں ماضی میں بڑ ے بڑے صاحب فضل وکمال علمائ،ماہرفن اساتذہ اورنامورسیاست داں پیداہوتے رہے ہیں،جن کی علمی وفکری ضیاء پاشیوں اورقائدانہ صلاحیتوں سے پوراملک فیضیاب ہوتارہاہے،ابھی حالیہ دورمیں دوایسی نامورشخصیات رہی ہیں جنہوں نے اس علاقہ کی علمی وراثت اورتاریخی روایتوں کومحفوظ رکھا،ان میں ایک جناب محمد شفیع بیرسٹرؒصاحب کی شخصیت تھی جوحضرت مولانا ابوالمحاسن سجادؒکے عہدکے لوگوں میں تھے، ایک عظیم مجاہدآزادی ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب دل انسان بھی تھے،انہوں نے تحریک آزادی میں بڑاقائدانہ کرداراداکیا،اللہ ان کی مجاہدانہ قربانیوں کو قبول فرمائے۔
موجودہ عہدکی دوسری شخصیت حضرت مولاناممتاز علی مظاہری کی ہے،اللہ تعالی انہیں سلامت رکھے،مولانا بڑے ہی صاحب تقوی عالم دین ہیں،انہوں نے پوری زندگی دینی علوم کی ترویج واشاعت میں گزاری،ریٹائرہونے کے بعدبھی درس وتدریس سے وابستہ رہے، اورسینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعدادمیں شاگردوں کوپیداکیا،ان سے میرے دیرینہ تعلقات رہے ہیں،امارت شرعیہ کی سالانہ مجلس شوری میں برابران سے ملاقات ہوتی رہی ہے،ہر ملاقات کے بعدیہ تاثر گہرا ہوجاتا ہے کہ مولانا ایک دوراندیش،دوربین اوربیدارمغزعالم دین ہیں،ان کی نگاہیں وہاں سے آگے بھی کام کرتی ہیں جہاں دوسروں کی آنکھیں کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں،مولانا معاشرتی اصلاح اوردعوت وتبلیغ کا بھی بڑاکام انجام دے رہے ہیں،اللہ ان کی عمرمیں برکت عطافرمائے۔
مجھے خوشی ہے کہ ان دونوںنامورشخصیات پرعزیزمحترم مولانامنورسلطان ندوی(استاذ دارالعلوم ندوۃ العلمائ،لکھنؤ)نے قلم اٹھایااوران دوشخصیات کے علاوہ علاقہ کی چنددوسری شخصیات کے خاندانی پس منظر،خدمات اورکارناموں پربھی عمدہ مواداورمعلومات جمع کردیا ہے،جس سے ان کے حسن انتخاب کی خوش سلیقگی کا اندازہ ہوتاہے،میں موصوف کواس عظیم مرقع اورخاکہ نگاری پرمبارک باددیتاہوں اورکتاب کی مقبولیت کی دعاکرتاہوں۔
 سیدنظام الدین
امیرشریعت بہار،اڑیسہ وجھارکھنڈ


مولانانذرالحفیظ ندوی ازہری
(عمیدکلیۃ اللغۃ ،دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ)

عزیز مکرم مولانامنورسلطان ندوی کی یہ کتاب جوضلع مدھوبنی کی مردم خیز بستی’یکہتہ‘سے متعلق ہے،گرانقدرمعلومات اورتحقیقات کاخزانہ ہے،اب تک توان کی دوفقہی کتابوں کی کامیاب تصنیف کی وجہ سے ہم فقیہ سمجھتے تھے،مگراس کتاب کے مطالعہ سے یہ ا نکشاف ہواکہ موصوف مؤرخ اورمحقق بھی ہیں،غالباًمؤرخ اورفقیہ کے درمیان قدرمشترک یہ ہے کہ دونوں دقائق وحقائق تک پہونچنے کی کوشش کرتے ہیں اوردلائل کی روشنی میں قارئین کوقائل کر دیتے ہیں،اس راقم کوتحقیقات کے خشک موضوع سے کوئی مناسبت نہیں،البتہ تاریخی واقعات وشخصیات سے مناسبت ہے،اس لئے یہ کتاب ہم نے دلچسپی سے پڑھی،اس لئے بھی کہ اس کا تعلق ہمارے ضلع کی ایک ایسی بستی سے ہے جہاں ہمارے خاندان کی بھی رشتہ داریاں ہیں، مصنف نے بڑی محنت اوردیدہ ریزی سے یہ کتاب مرتب کی ہے،ان کی معلومات کازیادہ تر انحصارایک زندہ اورمتحرک شخصیت مولاناممتازعلی مظاہری صاحب کی فراہم کردہ معلومات پر ہے،جن کی امانت ،دیانت متفق علیہ ہے۔
ہمارے خاندان کی رشتہ داری یکہتہ سے ہے،لیکن ململ سے قرب کے باوجوددوتین بارسے زیادہ وہاں جانے کی نوبت نہ آئی،اس لئے مصنف نے وہاں کی شخصیات،واقعات اور مقامات کے متعلق جوکچھ لکھاہے ان میں سے ایک فیصدسے کم لوگوں سے ہماری واقفیت ہے، وہ بھی منصف کی طرح سنی سنائی باتوں پرمبنی ہے،اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے بچپن کا بڑاحصہ والدصاحبؒ کے ساتھ پرتابگڈھ یوپی میں گزرا،پھرتعلیم کاپورازمانہ لکھنؤ میں بسرہوا،سالانہ تعطیلات میں ایک ماہ سے کم وطن میں گزارکرلکھنؤ واپسی ہوجاتی تھی،اس لئے خوداپنی بستی کے بارے میں معلومات صفرکے برابر ہیں ، دوسری وجہ یکہتہ زیادہ نہ جانے کی یہ ہے کہ اس زمانہ میں وہاں تک جانے کے دوراستے تھے،ایک راستہ بیل گاڑی سے طے کیاجاتا تھا،جس میںپورادن لگتاتھا،دوسراراستہ تھا ململ سے مدھوبنی تک کا راستہ بیل گاڑی سے طے کیا جاتا،پھرٹرین کے ذریعہ شکری نامی اسٹیشن پراترکر دوسری ٹرین تبدیل کرکے شام کے وقت گھوگڈیہایاریلوے اسٹیشن پراترکرپھربیل گاڑی سے رات بھر سفر کر کے یکہتہ تک رسائی حاصل کی جاتی،ان وجوہات کی بناء پریکہتہ ململ سے ایک ہاتھ قریب ہوتے ہوئے بھی تین بارسے زیادہ نہ جاسکا،یاللعجائب!!
عزیزی مولوی منورسلطان ندوی کا یہ حسن ظن ہے کہ وہ اپنی تحقیقی اورتاریخی کتاب سے متعلق کچھ لکھنے پراصرارکررہے ہیں----یہ چندسطریں اس امیدمیں لکھ رہاہوں کہ مولوی منورسلطان جیسا بلندہمت مؤرخ ہماری بستی ململ کوبھی نصیب ہوجائے،جواس سرزمین کی تاریخ اوروہاں کی شخصیات کا تعارف کراسکے،دوسری توقع اس علاقہ کے نوجوانوں سے کر رہاہوں کہ وہ اس کتاب کے مطالعہ سے فائدہ اٹھائیں،اوراپنے اسلاف کے کارناموں اورقوم کے محسنوں کو شکر گزاری کے جذبہ سے یادرکھیں گے۔
کچھ عرصہ قبل یہ بات معلوم کرکے مسرت ہوئی تھی کہ یکہتہ کے نوجوانوں نے اپنی بستی میں دینی وعلمی اوراصلاحی ودعوتی سرگرمیوں کا آغاز کیاہے،وہ شفیع لائبریری کی تنظیم نوکررہے ہیں،اوراس کے لئے اخبارات ورسائل بھی جاری کررہے ہیں،مولوی منورسلطان کی یہ کتاب اس سلسلہ میں اٹھایاگیااچھا قدم ہے،مقصدیہ ہے کہ نئی نسل اپنے محسنوں کویادرکھے،خاص طور سے اس حقیقت پرہمیشہ اس کی نظررہے کہ جب ان حضرات نے وسائل کے فقدان اور سہولتوں سے محرومی کے باوجودترقی کے مدارج طے کئے اورقوم کوبھی فائدہ پہونچایاتووسائل کی کثرت کے اس دورمیں ہمارے کیافرائض اورذمہ داریاں ہیں ۔ 
   نذرالحفیظ ندوی 
دارالعلوم ندوۃ العلمائ، لکھنؤ

  مفکراسلام حضرت مولانا محمدولی رحمانی
سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی، مونگیر  (بہار)

مقدمہ بازی نہ میرا مزاج ہے نہ مقدمہ لکھنا میرا ذوق!لیکن کبھی کبھی خلاف مزاج کرناپڑتاہے،خیال خاطر احباب چاہیے ہردم، میںنے احباب کم پالے ہیں،مگر عزیزوں سے چھٹکارا نہیںہے، اور ان کا خیال رکھنا اور ان کی ہمت افزائی کرنا نئی نسل کی آبیاری ہے، انہیںآمادہ ٔکاررکھنا او ربر سرپیکار کرنا، ہر عمر رسیدہ کی خوشگوار ذمہ داری ہے__ یہ تحریر اسی ذمہ داری کے احساس کی پختہ رسید ہے !
نہ جانے کیا بات ہوئی، پچھلے دس دنوں میں یہ تیسرا مقدمہ لکھا جارہا ہے__ اتنے کم وقت میںابتدائیہ لکھنے کایہ پہلا مرحلہ ہے،مقدمہ وغیرہ لکھنے سے گریز کرتا رہا ہوں، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے،کہ طبیعت ادھر نہیں آتی،دوسری وجہ یہ کہ اب مقدمہ اور تقریظ کے نام پر اصل کتاب سے پہلے پندرہ بیس صفحات اسی میںخرچ ہوجاتے ہیں،جو نہ صرف غیر ضروری بلکہ بد نما معلوم ہوتے ہیں، مگر عزیزمؤلفین مقدمہ پر مقدمہ اور تقریظ پر تقریظ لکھوائے چلے جاتے ہیں، اس کی وجہ یاتو اپنے آپ پر، اپنی تحریر پر اعتماد کی کمی ہے، یا پھر یہ لکھایا جاتا ہے بمد خوش کرنی !
میںنہیںجانتا،عزیزی مولانا منور سلطان ندوی کی میرے قلم سے مقدمہ لکھوانے کی خواہش ، ان دو وجہوںمیںسے کوئی ایک ہے، یا پھر کوئی تیسری وجہ  __میرے علم میںوہ ایک ضخیم کتاب کے کامیاب مصنف ہیں، انہوںنے علماء ندوہ کے فقہی ذوق ومزاج پر خاصے کی چیز مرتب کی ہے، عنوان بھی ایسا ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے بھی چونک پڑے تھے، میرے عزیز مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی، جو ایک فقیہ اور مربی کی حیثیت سے بہت معروف ہیں، انہیںکی نگرانی میں مولانا منور سلطان نے یہ خدمت انجام دی ہے۔ 
اب انہوں نے دو مشہور شخصیتوںپر کتاب لکھی ہے۔ جناب محمدشفیع بیرسٹر مرحوم اور حضرت مولانا ممتاز علی صاحب زید مجدھم __  بیرسٹر محمدشفیع صاحب جدو جہد آزادی کے آخری پندرہ برسوں میںنامور شخصیت کے مالک تھے، قابل، ذہین، مہذب، خوش لباس، خوش بیان ، قوم کی تعلیمی ترقی کے آرزو مند، شخصیت میںکشش تھی اور رچائو بھی تھا، عوام وخواص میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، پہلے مسلم لیگ کی سیاست میںسرگرم تھے، آزادی کے بعد وزیر ہوئے، اسمبلی میں اور سرکاری دفاتر میںبھی اپنا وزن اور اپنی قابلیت محسوس کرائی۔ 
حضرت مولاناممتاز علی صاحب مظاہری زید مجدھم بحمداللہ سلامت باکرامت ہیں، میرے علم کی حدتک بہار کے سب سے عمر رسیدہ عالم دین اور اگلے وقتوںکے گریجویٹ ہیں، سادگی،سادہ دلی، بے نفسی اور اپنے کام سے جنون کی حدتک پیار ان کی شناخت ہے، زندگی میںکبھی کسی کے لیے’’مسئلہ ‘ ‘ نہیں بنے، ہاں مسئلے سلجھاتے ضرور رہے، ہزاروں علماء آپ کے شاگر د ہیں، اور آپ کے ذریعہ اس ناکارہ کو بھی بڑی مشفقانہ عنایت ملتی رہتی ہے، سفروں میں ہم لوگ دس دس بارہ بارہ دن ساتھ رہے ، تو اندازہ ہو اکہ ’’بے نفسی‘‘ کا ایک نمونہ ہیں۔ 
مدرسہ رحمانیہ یکہتہ کے عرصہ تک وہ کرتا دھرتا رہے، مدرسہ یعقوبیہ بھی قائم کیا، اور خدمت کے جذبہ کا ’’تصدیق نامہ ‘‘کھڑا کردیا،حضرت مولانا کوخانقاہ رحمانی اور جامعہ رحمانی سے بھی غیرمعمولی تعلق ہے، جامعہ رحمانی کے لیے برابر فکر مند او راس کی ترقی کے لیے مشورہ سے لے کر مالی فراہمی تک کے لیے کوشاںرہاکئے ہیں،پورے ضلع پر ان کے گہرے اثرات ہیں، میں نے ان کا یہ جلوہ بھی دیکھا کہ جامعہ رحمانی کے لیے چندہ نہیںمانگتے، ٹیکس وصول کرتے ہیں، یہ صحیح ہے کہ ٹیکس ہلکا لگاتے ہیں، مگر کیا مجال کہ حضرت مولانا کے ٹیکس لگانے کے بعد کوئی لب کشائی کی جرأت کرے۔ 
خانقاہ رحمانی سے بھی آپ کی گہری وابستگی ہے، میں ان کی تشریف آوری کو پچاس سال سے دیکھ رہا ہوں، بلکہ اس سے زیادہ عرصہ سے ، اب بھی سال میںتین چار بارآنا ان کا معمول ہے، جب تشریف آوری ہوتی ہے، خاصی بڑی جماعت انکے ساتھ ہوتی ہے،سچی بات یہ ہے کہ وہ ساتھ کے تمام لوگوںکی خدمت اپنی زبان،اپنے انداز،اپنی شفقت اور سب سے بڑھ کر اپنی دعا سے کیا کرتے ہیں، کسی سے خدمت لیتے نہیں ہیں  ___  خانقاہ سے جو پیغام ملا،جو تحریک اٹھی ، اپنے ضلع میں اسے پوری طاقت سے پھیلادیا،خود کام کیا،دوسروں کو کام سے لگا دیا۔ 
اللہ تعالیٰ انہیںصحت وسلامتی کے ساتھ ہم سبھوں کی سرپرستی کاموقعہ دیتا رہے _آمین۔ مولانا منور سلطان ندوی نے بڑااچھاکیا، ان کا تذکرہ ان کی زندگی میں مرتب کردیا، اور کم از کم حضرت مولانا کی حد تک ’’مردہ نوازی‘‘ کی عادت سے نجات دلائی_ بیرسٹر صاحب اور حضرت مولانا زید مجدھم یکہتہ کی سرزمین کی بڑی قیمتی ہستیاںہیں، ایک مرحوم، دوسری موجود، اللہ تعالیٰ دونوں کے اگلے تمام مرحلوںکو آسان فرمائے، اور مولانا منور سلطان ندوی کے علم وقلم کی روشنی کو عام اور تام فرمائے، احسان شناسی کے جذبہ کو تروتازہ رکھے۔آمین یارب العالمین۔ محمدولی رحمانی
خانقاہ رحمانی، مونگیر










مولانامحمد قاسم مظفرپوری
قاضی شریعت امارت شرعیہ بہار

الحمد للہ الذی تتم بنعمتہ وقدرتہ وحسن توفیقہ و جلالتہ الصالحات،والصلاۃ والسلام علی سید الکائنات وعلی آلہ و اصحابہ و ازواجہ وذریاتہ الطیبات۔
اللہ رب العزت نے اپنے کلام مقدس میں انبیاء علیہم السلام کی دعوتی جدوجہداوران کی امتوں کے احوال وکوائف وعروج وزوال کا ذکرفرمایاہے،تاکہ ہردورمیں آنے والے انسان ان سے درس عبرت حاصل کریں،اللہ کی دی ہوئی زندگی کے اصل مقصدکوپہچانیں اورفکروعمل میں اعتدال رکھیں،بنی کریم ﷺ کی تعلیمات میں اقوام عالم کے عروج وزوال اوران کی ترقی و انحطاط کوبیان فرمایاگیاہے ،ان سب کا منشاومقصدتذکیرواصلاح ہے۔
دنیاکی تاریخ لکھنے والوں نے بھی مختلف حیثیتوں سے اقوام عالم کے مختلف ادوارکومرتب کیاہے،سب کا حاصل بنیادی طورپریہی ہے کہ ماضی کے واقعات وقصص کی روشنی میں انسان اپنے حال ومستقبل کی بہتری کے لئے کوشش کرے،اسی بناء پرکسی عربی شاعرنے کہاہے:
لیس بانسان و لا عاقل 
من لا یعی التاریخ فی صدرہ
ومن دری اخبار من کان قبلہ
اضاف اعمارا الی عمرہ
چنانچہ جولوگ اپنے علم ونظرکی دنیاکووسیع کرنا چاہتے ہیں انہیں ماضی کی شخصیات کا علم ، ان کے تذکرۂ حیات سے واقفیت حاصل کرنابھی ضروری ہے،نیز حدیث پاک میں بھی ارشاد فرمایاگیاکہ ’’اذکروا محاسن موتاکم وکفوا عن مساویہم‘‘(اپنے مردوںکی خوبیاں بیان کرواوران کی برائیوں کے تذکرہ سے بچو)۔۔۔انہی امورکے پیش نظراخی ومخلصی مولانامنورسلطان ندوی ۔الموفق من اللہ لکل خیر۔جوایک صالح اورباصلاحیت نوجوان فاضل ہیں،الحمد للہ اس کم سنی میں ’ابناء ندوہ کی فقہی خدمات‘اور‘خواتین کے شرعی مسائل ‘جیسی اہم اورمفیدکتابوں کے علاوہ بہت سے مقالات ومضامین ان کے قلم سے منصہ شہودپرآچکے ہیں،مولاناموصوف سے اس موضوع پرکئی باریہ مذاکرہ ہواکہ یکہتہ(قدیم دربھنگہ وجدیدمدھوبنی)جوشمالی بہارمیں مملکت نیپال سے قریب واقع ہے،جوصدیوں سے دینی وعصری تعلیم ،اسلامی تہذیب وثقافت ،دعوت الی اللہ،مشائخ واہل اللہ کے استقبال اور سیاسی زعماء اوراہل بصیرت کامرکز رہاہے۔۔۔اس کی ایک مختصرتاریخ جمع کردی جائے،تاکہ نئی نسل اپنے علاقہ کے اہل علم اوران کی زریں خدمات سے واقف ہوسکے،اوراس کی ر وشنی میں اپنے حال ومستقبل کی تعمیرکرسکے۔
میں مدرسہ رحمانیہ سوپول ضلع دربھنگہ بہارسے ایک بارداعی الی اللہ حضرت مولانامحمد عثمان صاحب ؒ مہتمم مدرسہ رحمانیہ سوپول کے ہمراہ مدرسہ رحمانیہ یکہتہ مدھوبنی کے ایک اصلاحی و دعوتی اجلاس میں شرکت کے لئے جارہاتھاتوحضرت مولاناعثمان صاحبؒنے مجھ سے مخاطب ہوکرفرمایاکہ یہ وہ قدیم علمی قصبہ ہے کہ جہاں کے علمائ،حفاظ،ائمہ مساجدنہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہندعرب ممالک میں بھی دین کی خدمت میں مشغول ہیں۔
اسی دن سے مجھے اس قصبہ کی علمی شخصیات کاحال معلوم کرنے کا داعیہ پیداہوا،جسے حضرت مولاناالحاج ممتازعلی صاحب دامت برکاتہم سے برابرمختلف مجلسوں میں پوچھتارہا ، اورمولانامختلف جہتوں سے اس آبادی کی خصوصیات کوبتاتے رہے۔
الحمدللہ کہ مولانامنورسلطان ندوی نے قصبہ یکہتہ کی تاریخی حیثیت ،یہاں رؤساء ،اہل علم ودانش،علماء ومشائخ،علوم عصریہ کے ماہرین اوربساط سیاست کے بزرگوں کے کارناموں کا حسین گلدستہ جمع کیا ہے،میں سمجھتاہوں کہ یہ مجموعہ اہل علم خصوصاًقصبہ کی نئی نسلوں کے لئے ایک بڑاسرمایہ ہے،اخیرمیں نوجوان اہل علم سے یہ عرض کروں گاکہ مدارس اسلامیہ،مکاتب قرآنیہ،عصری علوم کی درسگاہوں اوراہل اللہ ومشائخ کی صحبتوں سے وابستہ رہیں  ع
پیوستہ رہ شجرسے امیدبہاررکھ
مولاناموصوف کومیں دل کی گہرائیوں سے دعا دیتاہوں کہ انہوں نے ایک بڑے قرض کواپنافرض سمجھ کراداکیاہے،شاید یہ شعربے موقع نہ ہوگا:
اولئک آبائی فجئنی بمثلہم
اذاجمعتنا یا جریر المجامع
  محمدقاسم 
۱۵؍شوال ۱۴۳۳ھ   سابق استاذحدیث مدرسہ رحمانیہ سوپول،دربھنگہ
قاضی شریعت امارت شرعیہ بہار
ومعتمدمدرسہ طیبہ منت نگر،مادھوپور




     مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
   سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل بورڈ
ایک انسان کے لئے دوسرا انسان ہی نمونہ بن سکتاہے،اسی لئے اللہ تعالی نے انسانوں کے درمیان انہی میں سے برگزیدہ شخصیتوں کانبوت کے لئے انتخاب فرمایا،اوران کی ذات کو دوسروں کے لئے اسوہ قراردیا،انبیاء کی ذات توبہت بلندوبالاہے،اوروہ زمین پرخداکے نمائندہ ہواکرتے تھے،لیکن جب کوئی انسان اپنی زندگی کوانبیاء کے سانچے میں ڈھال لیتاہے اوران کے نقش قدم پرچلنے کی کوشش کرتاہے تووہ خودبھی دوسروں کے لئے نقش راہ بن جاتاہے ،اللہ کا شکرہے کہ اس نے اس امت کوسدابہاررکھا،اورہرعہد اورہرعلاقہ میں ایسی شخصیتیں پیدا ہوتی رہیں جنہوں نے معاشرہ کے اصلاح کی فکرکی،نئی نسل کی تعلیم وتربیت پرتوجہ دی،خلقِ خدا کی خدمت کواپنی کاوشوں کامحوربنایااوران کے ذریعہ بہت سے لوگوں نے زندگی کے لئے صحیح راہ پائی،اورگوہرمقصودکوحاصل کیا۔
بعض علاقوں میں ایسی شخصیتیں زیادہ پیداہوتی رہی ہیں،اوروہاں کاماحول پہلے سے موجوداہل علم اوراہل دین کی وجہ سے شخصیت کی تعمیرمیں زیادہ مفید ثابت ہواہے،ایسے ہی مقامات میں ایک بہارکے مدھوبنی ضلع کا ایک قصبہ ’یکہتہ ‘ہے،یہاں علمائ،عصری علوم کے ماہرین،ادباء ،شعرائ،اصحاب نسبت مشائخ اورسماجی کارکنوں کی ایک بڑی تعدادپیداہوئی ہیں ، اوراس نے لوگوں کے دلوں پراپنی محنت اورخدمت کے نقوش ثبت کئے ہیں۔
عزیز گرامی مولانا منورسلطان ندوی کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے،انہوں نے قصبہ کی تاریخ،یہاں سے اٹھنے والی شخصیات،اوریہاں کی دینی وتعلیمی اداروں پردقت نظرکے ساتھ روشنی ڈالی ہے،بالخصوص بیرسٹرمحمد شفیع صاحبؒ اورجناب مولانا ممتاز علی مظاہری دامت فیوضہم کے حالات کومرتب کیاہے،ایک گمنام قصبہ اوروہاں کی گمنام شخصیتوں کے حالات کوجمع کرناچونٹیو ںکے منہ سے شکرجمع کرنے کے مترادف ہے،ماشاء اللہ انہو ںنے اس سلسلہ میں بڑی محنت کی ہے،اورسلیقہ سے ان تمام معلومات کوجمع کردیاہے،امید ہے کہ مستقبل میں جب کوئی مؤرخ بہاراوربالخصوص اس علاقہ پرقلم اٹھائے گا اوروہ شہروں اورقصبات کی سیرکرتے ہوئے جب یکہتہ پہونچے گا تواسے آب لبائی کرنی نہیں پڑے گی اورایک مرتب مواد اس کے سامنے ہوگا۔
مؤلف کتاب عزیزی مولانا منورسلطان ندوی سلمہ اللہ تعالی کاعزم جواں اورحوصلہ بلند ہے،اوریہ لوح وقلم کے قلمرومیں مسلسل اپنا قدم آگے بڑھارہے ہیں،انہوں نے ندوۃ کی فقہی تاریخ پرقلم اٹھایااوراپنے مادرعلمی کے ایک ایسے گوشے سے لوگوں کوروشناس کرایاجو اندھیرے میں تھا،انہوں نے خواتین سے متعلق احکام ومسائل پرایک ایسی جامع کتاب مرتب کی جو ہر مسلمان عورت کے لئے قابل استفادہ ہے،اورانہوں نے مختلف دوسرے موضوعات پربھی اپنی قلمی کاوشیں پیش کی ہیں،امید ہے کہ ان کی یہ تازہ کاوش بھی قبولیت عام حاصل کرے گی، اوراس سے بزرگوں کے نقوشِ قدم تازہ ہوں گے،اورنئی نسل ان کے سہارے آگے بڑھے گی وباللہ التوفیق وہو المستعان۔
خالد سیف اللہ رحمانی
خادم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد
  


 پروفیسرڈاکٹرشاکرخلیق 
(سابق صدرشعبہ اردوللت نارائن متھلایونیورسیٹی،دربھنگہ)

نہایت ہی مسرت وانبساط کا مقام ہے کہ’شفیع اردولائبریری ‘یکہتہ مدھوبنی کے زیر اہتمام ایک نادرتاریخی کتاب’شمالی بہارکاایک مردم خیز قصبہ یکہتہ واطراف‘شائع کی جارہی ہے،جس میں یہاں کی دونامورشخصیات مجاہدآزادی ورہبرقوم وملت بیرسٹرمحمدشفیعؒ اورمحسن ملت مولاناممتاز علی مظاہری دامت برکاتہم کے علاوہ سینکڑوں لوگوں کے حالات وکوائف پرروشنی ڈالی گئی ہے،کتاب کے مؤلف جناب مولانامنورسلطان ندوی نے نہایت عرق ریزی سے کام لیتے ہوئے ہنرمندی کاثبوت پیش کیا ہے،ان کی محنت قابل مبارک بادہے۔
قصبہ کے اہل ذوق عمومی اورخانوادہ ٔ بیرسٹرمحمد شفیع ؒ کے افرادخصوصی طوپرمستحق مبارکباد ہیں،ان حضرات نے اس کتاب کی اشاعت کے ذریعہ گہرہائے گم شدہ کی بازیافت کرکے آئندہ آنے والی نسلوں پرایک احسان کیاہے،زندہ اورمردہ قوموں کے درمیان یہی فرق ہوتا ہے کہ زندہ قومیں اپنے اسلاف کے کارناموں کویادرکھتی ہیں اورمردہ قومیں انہیں فراموش کر کے قعرگمنامی میں کھوجاتی ہیں۔
آج کے دورمیں ذرائع ابلاغ کی وسعت وبرق رفتاری کے باوجوداظہارخیال کا وسیلہ ’قلم وقرطاس‘ اپنی معنویت کے اعتبارسے آج بھی اہمیت کا حامل ہے،معیاری تحریرکے ذریعہ کی گئی تصویرکشی امروزوفرداکے حدودسے ماورااورزمان ومکان کی قیدسے آزادہوتی ہے، گویا صفحۂ قرطاس پربکھری ہوئی تحریریں ماضی وحال کے درمیان رابطے کا پل ہوتی ہیں،جن کے ذریعہ مستقبل کی سرحدوں تک رسائی ممکن ہے۔
کتاب کاپورامسودہ میرے سامنے ہے،سرسری طورپرورق گردانی کرنے پرمؤلف موصوف کی فکراوران کی ابتدائی کوششوں کا علم ہوا،ان کی علمی کاوشوں کے پیش نظرملت کوان سے اوربھی توقعات ہیں،اس کتاب کے لئے مفکراسلام حضرت مولانامحمد ولی رحمانی دامت برکاتہم نے مقدمہ لکھ کراس کی اہمیت میں اضافہ کیاہے۔
کتاب مذکورکواگرایک داستان تصورکریں تواس کے مرکزی کردارکی حیثیت سے مرحوم بیرسٹرمحمد شفیع صاحب کا نام نامی اسم گرامی ابھرکرسامنے آتاہے۔
مرحوم شفیع بیرسٹرصاحب کا ذکرخیرمرحوم عبدالخالق خلیق نے اپنی کتاب ’تذکرہ آل تراب‘ میں کیاہے،وہ لکھتے ہیں کہ شفیع صاحب ۱۹۲۹ء میں آل انڈیامسلم کانفرنس کے ایک بڑے تاریخی جلسہ میں شرکت فرمانے کے لئے موضع نظرامحمدآبادتشریف لائے،یہ جلسہ مولاناشفیع دائودی کی ایماء پرعبدالخالق خلیق نے اپنی بستی کے تاریخی تالاب گھوڑدوڑکے کنارے منعقدکیا تھا،جس میں علاقہ اورضلع کے بیسیوں ہزارمسلمانوں نے شرکت کی تھی۔
محمد شفیع بیرسٹرؒ نے پرانے تعلقات کے پیش نظراصرارکرکے عبدالخالق خلیق کوحاجی پورہائی اسکول سے مسلم ہائی اسکول دربھنگہ کے لئے بلایا،مسلم ہائی اسکول کے پرنسپل کی حیثیت سے ان دنوں جناب محسن دربھنگوی کام کررہے تھے۔
یہ کتاب’یکہتہ واطراف‘معلومات کاخزانہ ہے،اس کتاب کے ذریعہ آنے والی نسلیں اپنے اسلاف سے باخبرہوسکیں گی،اوران کے نقوش پرچل کرروشن مستقبل کی تعمیرکریں گی، انشاء اللہ!
شاکرخلیق
۲۶؍ستمبر۲۰۱۲   دربھنگہ


کتاب اور مصنف کتاب
مولانانوشادعالم ندوی

جوقوم اپنے بزرگوں کی تاریخ یادرکھتی ہے وہی اپنے مستقبل کے لئے مضبوط اورٹھوس لائحہ عمل تیارکرسکتی ہے،ماضی کی اہم شخصیات اوران کے کارہائے نمایاں کی تفصیلات نیز ماضی میں پیش آنے والے اہم واقعات کویکجاکرنااورکامیابی وناکامی کے اسباب کا تنقیدی جائزہ لینا انتہائی مشکل عمل ہے،جوہرکس وناکس کے بس کی با ت نہیں،یہ کام وہی کرسکتاہے جوپختہ علمی استعدادکے ساتھ بالغ شعوررکھتاہو،خوبی وخامی کوپرکھ سکتاہو،شخصیات کے مابین صحیح توازن قائم کرسکتاہو،حوادث و واقعات کے تجزیہ کی صلاحیت رکھتاہو،مثبت فکرکے ساتھ تاریخ نویسی کا اعلی ذوق رکھتاہو،جس کا عزم جواں اورحوصلہ بلند ہو ۔ 
عزیز گرامی مولانامنورسلطان ندوی بلاشبہ ان تمام خوبیوں کے مالک ہیں،اس کم عمری میں انہوں نے جواہم علمی وتحقیقی کام کئے ہیں اورجس طرح علمی وتحقیقی حلقوں میں ان کی کتابوں کی پذیرائی ہوئی ہے وہ ایک مثال ہے،قلم وقرطاس کے میدان میں ابھی تازہ دم ہیں اوریکے بعددیگرے جس تسلسل کے ساتھ ان کی علمی کاوشیں منظرعام پرآرہی ہیں،وہ ان کے روشن مستقبل کی علامت ہیں۔
ہماراقصبہ’یکہتہ‘یوں توایک قصبہ ہے،جوشہرکی رونقوں اوراس کی ثقافتی سرگرمیوں سے دورواقع ہے،مگریہاں پیداہونے والی اہم شخصیات اوران کی دینی وتعلیمی اورسیاسی خدمات کے لحاظ سے یہ پورے صوبہ میں ایک شہرت رکھتاہے،اس لحاظ سے ہماری طرح یہاں کے ہراہل علم کے دل کی تمناتھی کہ کاش قصبہ کی تاریخ لکھی جاتی!کوئی اس سرزمین سے اٹھنے والی نامور شخصیات اوران کے کارناموں کوقلمبندکرتا،تاکہ یہ معلومات تاریخ کاحصہ بن جاتیں، ورنہ گردش ایام میں ماضی کی روشن تاریخ بھی دھندلی ہوتی چلی جائے گی،یہ سعادت اسی سرزمین کے ایک لائق وفائق فرزندکے حصہ میں آئی ،یہ کام ہمارے دوست اوررفیق مولانا  منورسلطان ندوی (رفیق دارالافتاء دارالعلوم ندوۃ العلمائ،لکھنؤ)کے لئے مقدر تھا ، اور واقعی وہی اس اہم کام کے لئے موزوں بھی تھے،یہ ان کے حوصلہ اورعزم وہمت کی بات تھی کہ انہوں نے اس مشقت طلب کام کے لئے خودکو یکسو کیااورمسلسل محنت اوربڑی جدوجہدکے بعد منتشر معلومات اور سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی روایات کو محفوظ ومرتب کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ 
اس کتاب میں انہو ںنے اپنے علاقہ کی سماجی،معاشی،دینی،تعلیمی اورسیاسی صورت حال کا جائزہ لیاہے،یہاں کی دینی وعصری تعلیم گاہوں کاتعارف کراتے ہوئے ان کے عروج وزوال کی داستانیں بھی رقم کی ہیں،قصبہ اوراطراف کی دینی،علمی ،روحانی،اورسیاسی وسماجی شخصیات کے حالات قلمبندکئے ہیں،اوران سب کے ساتھ یہاں کی معاشرتی زندگی، زبان و ثقافت،اورتہذیب وتمدن کی جھلکیاں بھی پیش کی ہیں،اس میں ماضی کے ساتھ حال کی سرگرمیوں کوبھی شامل کیاہے،اس طرح اس کتاب میں علاقہ کی تاریخ کے تمام پہلوآگئے ہیں،اور شایدہی کوئی گوشہ مصنف کی نظرسے اوجھل ہواہے۔
یہ کتاب دراصل یکہتہ واطراف کے ان تمام فرزند وں کے خوابوں کی حسین تعبیرہے جو علم وشعورکے ساتھ حرکت وعمل کا مبارک جذبہ رکھتے ہیں،جواپنے آباء واجدادکے اہم اور مثبت کارناموں کوبنیادبناکراپنی ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں،جومعاشرہ سے نفرت و تعصب،بھیدوبھائو،نچ نیچ اورکھینچ تان جیسی خطرناک جراثیم کوہمیشہ کے لئے نابودکرنا چاہتے ہیں،جوعلم وآگہی،الفت ومحبت،ایثاروہمددری ،عزت واحترام اوراخلاقی اقدار پرمعاشرہ کی تعمیرکرنا چاہتے ہیں،یہ کام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا،مگرنہ ہوسکا،یہ قصبہ کے تمام اہل علم پراپنے اسلاف کا ایک قرض تھا،جس کااحساس تمام ہی لوگوں کوتھا ،عزیز گرامی مولانا منورسلطان ندوی نے بقول مولانامحمد قاسم مظفرپوری’اس قرض کوفرض سمجھ کر پوراکیاہے‘یہ ان کا قصبہ کے نام وہ اہم خدمت ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیاجاسکے گا،قصبہ کے تمام اہل ذوق کوعزیز موصوف کا شکر گزار ہونا چاہیے اوراس اہم کوشش کی قدرکرنی چاہیے۔
اس کتاب میں علاقہ کے تمام مشاہیرکے حالات کومحفوظ کرنے کوشش کی گئی ہے،اس میں جن شخصیات کاتعارف شامل ہے،ان کی تعدادسوسے متجاوزہے،جناب محمدشفیع بیرسٹر ؒاور جناب مولاناممتاز علی مظاہری دامت برکاتہم کاخاص طورپراورتفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے،کہ قصبہ کے تعلیمی انقلاب کا سہرادراصل انہی دوشخصیات کے سرجاتاہے،ان کے علاوہ جوبھی کسی میدان میں شہرت رکھتے تھے یا رکھتے ہیں ان سب کا تعارف کسی نہ کسی انداز میں موجودہے، ممکن ہے کہ ان کے علاوہ اوربھی بعض شخصیات ایسی ہوں جنہیں شہرت تونہیں ملی،لیکن اس تعلیمی انقلاب میں ان کی خدمات دوسروں سے کہیں زیادہ ہوں ،ایسے افرادکی حیثیت بنیاد کے ان پتھروں کی ہے جولوگوں کونظرتونہیں آتے مگرعمارت کا ظاہری ڈھانچہ اوراس کی تمام تر زیب وزینت اسی بنیادکے پتھروں پرہوتی ہے۔
عزیز محترم ایک کاشتکارگھرانہ سے تعلق رکھتے ہیں،ان کے داداجان جناب ناظم حسینؒ گائوں کے معروف کاشتکارتھے،ان کے اندربڑی سادگی تھی،وہ گرچہ خودتعلیم سے بہرورنہ تھے ، مگرانہوں نے اپنے فرزندوں کوعصری تعلیم دلانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی،وہ خود بھی بزرگوں سے عقیدت رکھتے تھے،بہارکے معروف بزرگ حضرت مولانامنورحسین مظاہری ؒپورنوی جو حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریا صاحبؒسہارنپوری کے اجلہ خلفاء میں تھے،ان سے ناظم حسین صاحب کوبڑی عقیدت تھی،آپ نے اپنے اس پوتے کانام انہی کے نام پررکھا ، منورسلطان ندوی کے والدبزرگوارجناب ماسٹربشیراحمد صاحب عصری تعلیم یافتہ ہیں،انتہائی سادہ زندگی،دینی مزاج کے حامل،علم اوراہل علم سے عقیدت وتعلق رکھنے والے،سرکاری اسکول میں بحیثیت معلم خدمت انجام دیتے رہے،چندسال قبل ملازمت سے سبکدوش ہوئے ہیں،آپ بڑے اللہ والے ہیں،حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ سے بیعت وارادت کا تعلق رکھتے ہیں،اکثروبیشتررمضان المبارک میں اعتکاف کے لئے سہارنپورجایاکرتے تھے،اب چند سالوں سے حضرت شیخ الحدیث کے خلیفہ مولانااشتیاق صاحب مظفرپوری کی صحبت میں ماہ مبارک گزارتے ہیں۔
مولانامنورسلطان ندوی نے اپنی ابتدئی تعلیم کا آغازمدرسہ اسلامیہ طوفانپورسے کیا، یہاں وسطانیہ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعدمدرسہ چشمۂ فیض ململ میں داخلہ لیا،اورعالیہ اولی تک کی تعلیم مکمل کی،پھریہیں سے دارالعلوم ندوۃ العلماء کی وسیع علمی فضاء میں پہونچے،جہاں عالمیت اورفضیلت(اختصاص فقہ)کی سندحاصل کی،یہاں سے فراغت کے بعدمزیدعلمی وتحقیقی ذوق پیداکرنے کے لئے ایک مردم سازشخصیت حضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کی خدمت میں پہونچے،اورآپ کے تحقیقی ادارہ المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد میں افتاء وقضاء کی تربیت کے ساتھ بحث وتحقیق کا سلیقہ بھی سیکھا،اس دوران مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صاحب سے شخصی طورپر بھی خوب فائدہ اٹھایا،مولاناکے ساتھ رفاقت کی سعادت بھی میسرآئی،اورپھریہیں سے ان کے علمی وتحقیقی جوہرکھلنے شروع ہوئے۔
 مولاناخالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی نگرانی میں دواہم موضوعات پرکام کیا،پہلا’ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج اورابناء ندوہ کی فقہی خدمات‘ اوردوسر’اخواتین کے شرعی مسائل‘،یہ دونوں کتابیں شائع ہوکراہل علم سے خراج تحسین وصول کرچکی ہیں،ان کتابوں کوملکی سطح پربڑی پذیرائی حاصل ہوئی،ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج ندوہ کے حلقہ میں بے حدمقبول ہوئی،دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم مولاناڈاکٹرسعیدالرحمن اعظمی ندوی دامت برکاتہم نے اس کتاب کو’ ندوہ کی تاریخ میں ایک درخشاں باب کا اضافہ ‘قراردیاتوحضرت مولاناسیدمحمد واضح رشیدحسنی ندوی (معتمدتعلیم ندوۃ العلمائ)نے اس کتاب کو’ندوۃ العلماء کے زریں تاج کاایک خوبصورت نگینہ‘ سے تعبیرکیا،دوسری کتاب خواتین کے شرعی مسائل کے لئے یہ اعزاز کیا کم ہے کہ لڑکیوں کے بعض اہم جامعات کے نصاب میں یہ کتاب داخل ہوچکی ہے،مبصرین نے اس کتاب کو موجودہ دورکا بہشتی زیورکہاہے۔
المعہدالعالی حیدرآبادسے فراغت کے بعدہی ان کاتقرردارالعلوم ندوۃ العلماء کے دارالافتاء میں بحیثیت مرتب فتاوی ہوا،پھرفقہ کی بعض اہم کتابوں کی تدریس بھی ملی،اس وقت فتاوی ندوۃ العلماء کی ترتیب وتحقیق کا اہم کام انجام دے رہے ہیں،فتاوی کی پہلی جلدشائع بھی ہوچکی ہے۔
ان دوکتابوں کے علاوہ انہوں نے اورمتعددکتابیں مرتب کیں ہیں جن میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے سابق استاذجناب امین الدین شجاع الدین کی ادبی تحریروں کے دو مجموعے ’ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘اور’روبرو‘خاص طور پر قابل ذکرہیں،ان کے علاوہ مختلف جرائد ورسائل میں مسلسل علمی مضامین لکھتے رہتے ہیں،اب تک متعددعلمی سیمیناروں میں مقالات پیش کرچکے ہیں،اس طرح عزیز موصوف کی علمی زندگی جہدمسلسل سے عبارت ہے،اوران کے خاص مربی کی دعاکہ’ ان کا قلم تھکن ناآشنارہے‘کی تعبیرسامنے آرہی ہے،اس کم عمری میں اپنی علمی اورتحقیقی کاوشوں سے علمی حلقہ میں پہچان بناچکے ہیں،اوراکثراکابراہل علم کی توجہ حاصل کرچکے ہیں۔
مجھے آج بھی خوب یادہے کہ عزیز ی سلمہ جب دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے تواس وقت میں پہلے سے وہاں زیرتعلیم تھا،غالبامیراعالمیت کا آخری سال تھا،قصبہ اوراطراف کے اوربھی طلبہ وہاں تھے،مگرمنورسلطان ندوی کی انفرادی شان تھی،وہ اس زمانہ میں بھی اصلاحی اورتربیتی مضامین لکھاکرتے تھے،جوعموماًماہنامہ رضوان میں شائع ہوتے،وہ کچھ بھی لکھتے توپہلے مجھے دکھالیاکرتے تھے،ان کواس کی ضرورت تونہیں تھی،مگرمیں ان سے بڑا تھااور سینئربھی،اس لئے وہ میرااحترام کرتے تھے،وہ اس وقت عمرمیں چھوٹے تھے،مگرشعورکا یہ حال تھاکہ جب بھی ہمارے ساتھ ہوتے توعلاقہ سے متعلق کچھ نہ کچھ گفتگوضرورکرتے ۔
اس زمانہ میں ندوہ میں قصبہ کے متعددطلبہ زیرتعلیم تھے،ہم لوگ جمع ہوتے توگائوں کے حالات پرکچھ نہ کچھ بات ضرورہوتی،ہم لوگ اپنے علاقہ کے لئے منصوبہ بناتے،بہت سے خاکے بنتے اوربگڑتے،مگرکسی میں اقدام کی ہمت نہیں ہوتی،پھرایک وقت ایسا بھی آیاکہ ہمارے احباب کی ایک تنظیم تشکیل پائی،جس کے پلیٹ فارم سے مسابقہ قرآن،اورخطابت و کوئزکے مقابلے یکہتہ کی سرزمین پرمنعقدہوئے،اورپھردیکھتے ہی دیکھتے کئی اہم تعلیمی وثقافتی پروگرام ہوئے ، اوریہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا،ان تمام سرگرمیوں کے پیچھے اسی عزیز محترم کا ہاتھ تھا،وہی اس کے اصل روح رواں تھے۔
اس کتاب میں انہوں نے تاریخ اورسیرت کوایک ساتھ سمودیاہے،اوردونوں کے تقاضوں سے عہدہ برآہونے میں کامیاب رہے ہیں،انہوں نے جس طرح شخصیات کوماضی کے ڈھیرسے ڈھونڈ ڈھونڈکرنکالاہے اورپھرمعلومات جمع کرکے اس کی صورت گری کی ہے، اس سے عزیز محترم کی محنت کااندازہ ہوتاہے،لکھتے وقت ان کا قلم کبھی ناقدانہ روپ اختیار کر لیتاہے توکبھی ادب وانشاء کے پھول کھلاتاہے،کبھی واقعات کاایساتجزیہ کرتاہے جیسا منصف عدالت میں،توکبھی ناکامی پرخون کے آنسوبہاتااورملت کوپوری طاقت سے جھنجھوڑتانظر آتا ہے،قلم کے ان مختلف روپ میں ان کے دل کادرد،اجتماعی کوششوں کی ناکامی کا غم اورقوم کو بیدار کرنے کا احساس جھلکتانظرآتاہے،یہی وہ احساس ہے جوقاری کواپنے حصارمیں لے لیتا ہے، اورطنزونشترکے درمیان ایک نئی لذت سے ہمکنار کرتاہے۔
رفیق محترم نے اس تاریخ کے ذریعہ قوم کوبیدارکرنے کی کوشش کی ہے،وہ اپنے طاقتور اسلوب کے ذریعہ اپنادردقاری کے دلوں تک پہونچاناچاہتے ہیں،پڑھنے والوں کے احساس پردستک دینا چاہتے ہیں،وہ قوم کی ضمیرکوبیدارکرناچاہتے ہیں،وہ اپنی قوم کے افراد کو یہ پیغام دیناچاہتے ہیں کہ ماضی میں ہم نے ملی واجتماعی کاموں میں جوکوتاہی کی ہے،وہ دوبارہ تاریخ کا حصہ نہ بن سکے،اورجن اسباب کی بنا پرہمیں ناکامی ملی ان کااعادہ دوبارہ نہ ہو،اسی کے ساتھ انہوں نے تعلیمی اورمعاشی ترقی کا ایک تصوربھی پیش کیا ہے،ہمیں امیدہے کہ قصبہ اور اطراف کے اہل دانش اس لائحہ عمل پرسنجیدگی سے غورکریں گے۔
عزیز موصوف کی علمی صلاحیت کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ا ن کاکام خود بول رہاہے،البتہ ان کی دوخوبیوں کاذکرکرنامناسب معلوم ہوتاہے جو ان کے تمام کاموں کے پیچھے کار فرمانظرآتی ہیں،پہلی صفت ان کاحوصلہ ہے جوہمیشہ بلندرہتاہے،اوردوسری صفت لگن،اورجہد مسلسل ہے،ان کے حوصلہ کی پختگی کایہ حال ہے کہ جب جوٹھان لیتے ہیں اس کو کرکے ہی دم لیتے ہیں،لوگوں کی تنقیدوتبصرے ان کے عزم وارادہ کوکمزورنہیں کر پاتے، ان کے جہدمسلسل کا یہ حال ہے کہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں،کتاب،مقالات،مضامین، سیمینار،اوریہ سب کچھ دارالعلوم کی طرف سے مفوضہ کام کے علاوہ ہوتاہے،یہ کتاب بھی ان کے عزم وحوصلہ اورجہد مسلسل کامنہ بولتاثبوت ہے۔
ان کے اندرایک خوبی اوربھی ہے،وہ یہ کہ وہ ہمیشہ ملی مسائل پر سوچتے رہتے ہیں،ان کا ذہن منصوبہ سازواقع ہواہے،علاقہ کے تعلیمی ومعاشی اورثقافتی مسائل پرسوچنا،اس کے لئے لائحہ عمل طے کرنا،اورپھرجوممکن ہوسکے وہ کرگزرناان کا محبوب مشغلہ ہے،علاقہ کی ترقی اکثران کی گفتگوکاخاص عنوان ہواکرتاہے،علاقہ سے ان کی ہمدردی بتاتی ہے کہ وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں،اوربہت کچھ کرنے کاارادہ بھی رکھتے ہیں،خداکرے حالات سازگارہوں اورعلاقہ کے افراداس جوہرقابل کوپہچانیں اور ان کی صلاحیتوں سے صحیح فائدہ اٹھاسکیں! 
اس کتاب کے لئے کچھ لکھنامیرے لئے مسرت آگیں اوربڑافرحت انگیز ہے،میں اپنے دوست اوررفیق کواس اہم کام کے لئے دل سے مبارکباد پیش کرتاہوں،میرے نزدیک ان سے زیادہ ان کے والدین مبارکبادکے مستحق ہیں،جنہوں نے اس ہونہارفرزندکی تربیت کی ، اوران کے مناسب مواقع فراہم کرتے رہے،اللہ تعالی مصنف موصوف کی اس گراں قدر کاوش کوقبول فرمائے،اوران کی دیگرکتابوں کی طرح اسے بھی قبول عام عطافرمائے!
  نوشادعالم ندوی    
استاذ: جامعۃ المومنات الاسلامیہ 
   دوبگا،لکھنؤ      









ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے