فتاوی ندوة العلماء(جلداول)....ايک تعارف


بسم اللہ الرحمن الرحيم

فتاوی ندوة العلماء(جلداول)....ايک تعارف

منورسلطان ندوي
(رفيق دارالافتاء،دارالعلوم ندوة العلماءلکھنو)    
عام طور پر دارالعلوم ندوة العلماءکا اصل امتيازاورشناخت سيرت وتذکرہ،عربی زبان وادب،اور مستشرقين کا رد سمجھاجاتاہے،بلکہ علمی حلقوں ميں بھی انہی موضوعات ميں ندوہ کا تفوق تسليم کياجاتاہے،اس کا مطلب يہ نہيں ہے کہ ديگرموضوعات سے ندوہ اوراہل ندوہ کا تعلق کمزوررہاہے، قرآن ،حديث،فقہ وفتاوی،علم کلام اورديگرتمام دينی علوم سے ہردينی ادارہ کا تعلق فطری اورلازمی ہے،اس سے انکار دراصل حقيقت سے آنکھيں چرانا ہے ، قرآنيات،حديثيات،فقہ وفتاوی کے موضوع پرابناءندوہ کی علمی خدمات بڑی گراں قدرہيں،بطورخاص فقہ کے موضوع پرندوہ کی خدمات نہ صرف يہ کہ بہت اہم ہيں بلکہ کئی لحاظ سے ديگر اداروں کی فقہی خدمات پرانہيں تفوق بھی حاصل ہے۔

فقہ وفتاوی کے ميدان ميں ندوہ کا تفوق وامتياز

راقم اپنے محدودمطالعہ کی روشنی ميں يہ کہہ سکتاہے کہ فقہ کے حوالہ سے ندوہ کی چند ايسی عظيم خدمات ہيں کہ جن کے بغيرہندوستان ميں فقہ کی تاريخ نامکمل سمجھی جائے گی۔
فقہ کے حوالہ سے ندوة العلماءکی سب سے بڑی خدمت يہ ہے کہ جديد مسائل ميں غوروفکرکی دعوت کی صدا پورے برصغير ہندوپاک ميں سب سے پہلے اسی ادارہ سے بلند کی گئی،يہ فکر مفکر اسلام حضرت مولاناؒ نے اس وقت عالم اسلام کے سامنے پيش فرمائی جب مصر کے سواکہيں بھی اس سلسلہ ميں سوچا نہيں جارہا تھا،تاريخ کے اوراق کوذراپلٹئے:جامع ازہر مصرميں سب سے پہلے جديد مسائل کواجتماعی طورپرحل کرنے کی طرف توجہ ہوئی اور1961ءميں ا س مقصد کے لئے جامع ازہر میں مجمع البحوث الاسلاميہ کا قيام عمل ميں آيا،اس کے بعد اسی ادارہ ميں1963ءميں مفکراسلام حضرت مولاناؒ کے ايما پرآپ کی سرپرستی ميں مجلس تحقيقات شرعيہ قائم ہوئی جس ميں ہندوستان کے چوٹی کے اہل علم واصحاب فکر شامل تھے۔ اس کے بعد 1970ءميں ادارہ مباحث فقہيہ ،جمعیت علمائے ہند،1979ءميں مکہ مکرمہ کی فقہ اکيڈمی’ مجمع الفقہ الاسلامی ‘1984ءميں بين الاقوامی فقہ اکيڈمی ’المجمع الفقہی الاسلامی جدہ‘ اور پھر 1988ءميں مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی محنت وتوجہ سے ’اسلامک فقہ اکيڈمی انڈيا‘کا قيام عمل ميں آيا،اس طرح نئے پيش آمدہ مسائل کے اجتماعی حل کی صدا لگانے اوراس کا نقش اول قائم کرنے ميں بھی ندوة العلماءکو فوقيت حاصل ہے،اورندوة العلماءبجا طور پراس پرفخرکر سکتاہے۔
ندوة العلماءکی فقہی خدمات کی دوسری جہت يہاں کا دارالافتاء ہے،جو سوسے زائد بہاريں ديکھ چکاہے،يہ ہندوستان کے چند قديم ترين دارالافتاءميں سے ايک ہے،ہندوستان ميں فتاوی کی تاريخ بہت قديم ہے،بيسويں صدی عيسويں ميں برصغيرميں فتاوی نويسی کی طرف بڑی توجہ ہوئی،شخصی فتاوی کے ساتھ يہاں کے مرکزی تعليمی اداروں ميں بھی فتاوی کا سلسلہ شروع ہوا ۔ چنانچہ1304 ھ ميں دارالعلوم ديوبند ميں دارالافتاءقائم ہوا،اس کے بعد ہی 1313ھ ميں يعنی قيامِ ندوہ کے دوسرے سال يہاں دارالافتاء کا قيام عمل میں آیا۔ مظاہر علوم سہارنپورميں دارالافتاء کا باضابطہ قيام 1338ھ ميں ہوا،اور1921ءميں امارت شرعيہ بہارکاقيام عمل ميں آيا،جس کے شعبہ جات ميں دارالافتاءبھی تھا۔ فتاوی کومحفوظ کرنے کی طرف توجہ سب سے پہلے مظاہرعلوم ميں ہوئی،1327ھ سے يہاں کاريکارڈمحفوظ ہے،جبکہ دارالعلوم ديوبند ميں نقل رکھنے کاآغاز1329ھ میں شروع ہوا،اورامارت شرعيہ ميں روز اول سے اہتمام ملتا ہے(علماءمظاہرعلوم اوران کی علمی وتصنيفی خدمات جلد اول ص:۵۳۳)اس طرح ندوة العلماءکا دارالافتاءتاريخی اعتبارسے ديوبند کے بعد سب سے قديم ہے۔ سنہ قيام1313ھ سے موجودہ ہجری سنه1433ھ کے درميان ايک سوبيس سال ہوتے ہيں،اتنی طويل مدت تک فتوی نويسی کی خدمت انجام دينا خودايک تاريخی ريکارڈ ہے۔
تيسراامتيازی وصف يہ ہے کہ برصغير ہندوپاک بلکہ شايدايشياميں فقہی موضوع پرتحقيقی کام کی وجہ سے فيصل ايوارڈ پانے کا سہرااسی ادارہ کے فرزندارجمند جناب ڈاکٹرعلی احمدندوی کے سرہے ،آپ کو2004ءميں مشترکہ طورپرفيصل ايوارڈ سے نوازا گيا۔

دارالافتاءندوة العلماءکا قيام

1892ءمطابق 1310ھ کومدرسہ فيض عام کانپورکی چٹائی پرندوہ العلماءکی تشکيل عمل ميں آئی ،اس کے پہلے ناظم مولانالطف اللہ علی گڑھی کے مايہ ناز شاگرد مولانا محمدعلی مونگيری منتخب ہوئے، 1894ءمطابق1311ھ کوکانپورميں ندوة العلماءکا پہلا اجلاس منعقد ہوا،اس کے دوسرے اجلاس ميں ہی مولانا سيد محمد علی مونگيری نے دارالافتاءکے قيام کی تجويز پيش کی ، پھر1313ه کی مجلس انتظاميہ ميں دارالافتاءکی اہميت وضرورت پرايک موثر تقرير فرمائی،آپ کی يه تجويز منظورہوئی اور دارالافتاءکا قيام عمل ميں آيا۔
ندوة العلماءکے پانچويں اجلاس ميں ناظم ندوة العلماءمولانا سید محمد علی مونگیریؒ نے جو رپورٹ پيش کی اس سے ندوہ کے دارالافتاءکی مرجعيت اورفعاليت کا اندازہ ہوتا ہے،آپ نے فرمايا”امسال 1565استفاءات کے جواب دےئے گئے جن ميں ۷۴فتوی نہايت مشکل اورپيچيدہ تھے،ان کے علاوہ ۲۲مسئلوں کی بطورخاص تحقيق کی گئی (تاريخ ندوة العلماءجلد اول ص: 204

ندوة العلماءکے مفتيان کرام

تاريخ ندوہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ندوہ ميں فتاوی نويسی کا کام مولانا لطف اللہ علی گڑھی کی سرپرستی ميں شروع ہوا ، اس کے ايک سال بعد ہی يہ ذمہ داری آپ کے آخری شاگردمولانا مفتی عبداللطيف سنبھلی رحمانی  کے حوالہ کی گئی،ان کے بعد مولانا شبلی فقيہ جيراجپوری اس عہدہ پر فائز ہوئے،ان کے بعد مفتی سعيد ندوی 1955ء تک اس خدمت کوانجام ديتے رہے،آپ کے انتقال کے بعد مفتی محمد ظہورندوی دامت برکاتہم فتوی نويسی کی اس اہم اور نازک ترين ذمہ داری کوانجام دے رہي ہيں۔
استاذ حديث مولانا ناصرعلی ندوی اسی سلسلہ کی ايک اہم کڑی تھے،طويل عرصہ تک تدريس کے ساتھ دارالافتاءکواپنی علمی فقہی ذوق اوربصيرت سے مستفيد کرتے رہے،يہاں تصويب کے ساتھ فتاوی نويسی اوردارالافتاءکی نگرانی ان تمام فرائض انجام کوانجام ديتے رہے،معاون مفتيان کرام کے فتاوی کی نظرثانی کا کام بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ کرتے تھے،اس سلسلہ ميں آپ کی تربيت اوراصلاح کا انداز نرالا تھا،آپ کی ذات سے دارالافتاءکی رونق تھی،دارالعلوم کے طلبہ ميں فقہی ذوق پيدا کرنے اوريہاں کے ماحول ميں فقہ کا عمومی مزاج بنانے ميں آپ کی خاموش کوششوں کوہميشہ ياد رکھاجائے گا۔
ابتدائی دورکے مفتيان کرام کی فقہی مہارت اورفقہ وحديث سے اشتغال کی گواہی ندوة العلماءکے سابق ناظم حضرت مولانا عبدالحی حسنیؒ نے دی ہے،جس کی صراحت نزہة الخواطر میں دیکھی جاسکتی ہے۔

دارالافتاءکی تنظيم نو

جيساکہ اوپربيان ہوا کہ ندوہ العلماءکا دارالافتاء1313ھ ميں قائم ہوا ،اور ابتداء ہی سے اس کومسلمانوں کی طرف سے اعتماد اورمرجعيت حاصل رہا ، اوراس وقت سے اب تک يہ شعبہ مسلمانوں کی دينی وشرعی رہنمائی کی خاموش خدمت انجام دے رہا ہے،ليکن اس فعاليت کے ساتھ يہاں سے صادر ہونے والے فتاوی کو محفوظ رکھنے کی طرف خاطرخواہ توجہ نہيں ہوسکی ۔ بعض فتاوی محفوظ بھی کئے گئے ،مگر اس کا پورا اہتمام نہيں ہو سکا ، مولانا خطيب ندوی بنگش اور مولانا اقبال احمد قاسمی بھيروی نے سن 1960ء کے قريب فتاوی کومحفوظ کرنے کی کوششيں کيں،مگريہ سلسلہ بھی جاری نہ رہ سکا ۔
1412ھ ميں جب المہعدالعالی للقضاءوالافتاءکا قيام عمل ميں آيا،اس وقت مفکراسلام حضرت مولانا سيدابوالحسن ندویؒ کے مشورہ سے مولانا سلمان الحسينی ندوی نے اپنی فکررسان اورعمل پيہم سے اس شعبہ کوبڑامتحرک وفعال اورمنظم کيا،لکھنو ميں دارالقضاءکا قيام اورپھر چندسالوں بعد دارالقضاءکی شہرسے احاطہ دارلعلوم ميں منتقلی مولاناسلمان الحسينی ندوی کی جدوجہد کا ثمرہ ہے،دارالعلوم کے فقہی شعبوں بطورخاص دارالافتاء،دار القضاء،تدريب افتاءکوالمہعدالعالی کے تحت رکھا گيا،جس کے صدر مفتی ندوة العلماءمفتی محمد ظہور ندوی اورسکريٹری مولانا سلمان حسينی ندوی مقرر ہوئے،ان حضرات کے ساتھ اساتذہ کی ايک ٹيم شامل تھی،جن ميں مولانا ناصرعلی ندویؒ،مولانا محمد طارق ندویؒ، مولانا محمد ظفر عالم ندوی اورمولانا محمد مستقيم ندوی خاص طورپرقابل ذکرہيں،بعدميں دارالافتاءاوردارالقضاءکے عملہ ميں مزيد افراد کا اضافہ ہوا۔

فتاوی کا ريکارڈ 

ندوة العلماء کا دارالافتاءاپنے قيام کے پہلے دن سے ہنوز اب تک مسلمانوں کی دينی وشرعی رہنمائی کی خاموش خدمت انجام دے رہا،تاہم بعض اسباب کی بناءپر يہاں سے جاری ہونے والے فتاوی کے محفوظ رکھنے پر  زيادہ توجہ نہيں ہوسکی،جس کی وجہ سے فتاوی کا بہت بڑا سرمايہ محفوظ نہيں رہ سکتا ، المعہد العالی للقصاءوالافتاءکے قيام کے بعد اس طرف خاطر خواہ توجہ دی گئی،اور اس طرح 1411ھ سے تک اب تک کے سارے فتاوی کے نقول دارالافتاءکے ريکارڈ ميں محفوظ ہيں، ريکارڈ کے مطابق 1411ھ سے امسال1432ھ تک کل بائيس سالوں ميں 30ہزار سے زائد فتاوے جاری ہوچکے ہيں،اس سے اندازہ لگاياجاسکتا ہے کہ اگرشروع سے ہی ريکارڈ محفوظ کرنے کی توجہ ہوتی تواب تک بلا مبالغہ يہ تعدادلاکھوں ميں ہوتی۔

ترتيب و تحقيق

2004ءميں فتاوی کی ترتيب کی کوشش شروع ہوئی،اورابتدائی طورپريہ ذمہ داری اس وقت کے تدريب افتاءکے طلبہ کے سپرد کی گئی،2005ءميں باضابطہ طورپرفتاوی کی ترتيب وتحقيق کی سعادت راقم الحروف کے حصہ میں آئی۔ جو محض حضرت ناظم صاحب دامت برکاتہم کی شفقت وعنایت اور ایک حقیر وکوتاہ علم طالب علم کی حوصلہ افزائی اور اس کی تربیت کا مظہر ہے۔راقم نے فتاوی کی عام ترتيب کے مطابق ابواب اورمسائل کی فہرست بنائی اورکام شروع کيا،سب سے پہلے عقائد اورايمانيات اور بدعات کے ابواب کی ترتيب ہوئی،اس کے بعد علم ،طہارت ، اور صلاة پرکام شروع ہوا،فتاوي كي موجوده جلد مين  علم ،طہارت اور کتاب الصلاة کے دوابواب :اوقات صلاة اوراذان واقات ہيں، اس ميں فتاوی کی کل تعداد575ہے،اس طرح اندازہ ہوتاہے کہ مکرارات حذف کرکے بھی فتاوی کا انتخاب دس سے زائد جلدوں ميں آسکے گا،جوانشاءاللہ اردو فتاوی کے سرمايہ ميں قابل قدراضافہ ہوگا،اورجس سے ندوة العلماءکی فقہی خدمت کی ايک نئی جہت بھی سامنے آسکے گی۔
ترتيب ميں اس بات کا خيال رکھا گياہے کہ سوالات ميں تکرار نہ ہو،چنانچہ ايک موضوع پرايک سے زائد فتاوی کو حذف کردياگيا،اگرايک مسئلہ پرالگ الگ مفتيان کرام کے فتاوی ہيں توانہيں باقی رکھا گيا ہے،اورسوال مثل بالا سے اس کی صراحت کی گئی ہے،اصل فتاوی ميں جوعبارتيں آئی ہيں ،انہيں اصل کتابوں سے ملايا گيا ہے،تاکہ عبارتوں کی تصحيح ہوجائے ، اور جو فتاوی حوالوں سے خالی تھے ان ميں حوالوں کااضافہ حاشيہ ميں کيا گيا ہے،اگر مسئلہ سے متعلق حديث ميں رہنمائی ملتی ہے توحاشيہ ميں سب سے پہلے حديث کوجگہ دی گئی ہے،اس کے بعد فقہ کی عبارتيں پيش کی ہيں، اس پورے فتاوی اورحوالہ جات کی نظرثانی مولانا مفتی ظہورندوی دامت برکاتہم نے فرمائی ہے۔
دارالافتاءميں جو سوالات آتے ہيں،ان کے جوابات اسی وقت مطلوب ہوتے ہيں ، مفتےان کرام کے سامنے فی الفورشريعت کی روشنی ميں رہنمائی مد نظرہوتی ہے،اورچونکہ عموماسوالات عام لوگوں کی طرف سے ہوتے ہيں اس لئے فتوی ميں مسئلہ کے حل پراصل توجہ ہوتی ہے،دلائل اوراحاديث وفقہی کتب کی عبارتيں پيش کرنے سے گريز ہی کیا جاتا ہے،ہمارے سامنے اسی طرح کے جوابات تھے،جوعمومااختصاراورايجاز کا پہلولئے ہوئے تھے، بطورخاص حضرت مفتی صاحب کے جواب انتہائی مختصرمگر فقہی بصیرت کے حامل ہوتے ہيں،انہی جوابات کومرتب اورقدرے مدلل اندازميں پيش کرنے کی ےہ ايک جستجوہے۔
فتاوی کی ترتيب ناظم ندوة العلماءحضرت مولانا سيدمحمدرابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کی رہين منت ہے،کہ آپ نے ہی اس کی طرف توجہ فرمائی ،آپ کے اورمعتمد تعليمات حضرت مولانا سيد محمد واضح رشيد حسنی ندوی کے مشورہ وايماءپرناظرعام مولانا حمزہ حسنی ندوی دامت برکاتہم نے فتاوی کی ترتيب وتحقيق اوراس کی اشاعت سے پوری دلچسی لی،اگران حضرات کی توجہ اوردلچسپی نہ ہوتی تويہ خواب شرمندہ تعبيرنہ ہوتا

فتاوی کے امتيازات

ان فتاوی کی قدروقيمت تواس فن کے ماہرين بتائيں گے،تاہم اس حقيقت کے اظہارميں کوئی حرج نہيں کہ ندوة العلماءکے فتاوی کئی لحاظ سے ممتاز ہيں،جن ميں سب سے اہم فکر اور اظہار رائے میں اعتدال اور میانہ روی ہے، جو تحریک ندوہ کا امتیاز رہا ہے۔ چنانچہ یہ رنگ ان فتاوی ميں پوری طرح نماياں نظر آتا ہے،عقائد کا باب توشايداس سلسلہ کا شاہکار ہے ، دوسرے مکاتب فکر پرحکم لگانے ميں اس قدراحتياط کم ہی فتاوی ميں ملے گی، جن لوگوں کی تکفيروتفسيق پرعموما اہل فتاوی متفق ہيں وہاں بھی دارالافتاء ندوة العلماءسے يہی لکھا جاتا ہے کہ اگران کے عقائد اس اس طرح کے ہوں تووہ دين سے خارج ہيں،يا ايسے لوگ دين کے بنيادی اصول کے منکرہوں گے۔
اس اعتدال کی ايک جھلک امامت سے متعلق فتاوی ميں بھی نظرآتی ہے،مصليان اگرامام صاحب سے ناراض ہوں توامام کی ہرچھوٹی بڑی بات کوموضوع بناتے ہيں اوراس کے بارے ميں فتوی طلب کرتے ہيں،ايسے مسائل ميں يہاں بہت احتياط برتی جاتی ہے،ساتھ امام کی حيثيت نماياں کی جاتی ہے ،جديد مسائل پررائے قائم کرنے ميں بھی احتياط کياجاتاہے،اور پورے غور و فکر کے بعد ہی جواب دياجاتاہے۔
دعا ہے کہ فقہ وفتاویٰ کا یہ کارواں ترقی کی طرف گامزن رہے اور سالار کارواں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کا سایہ عاطفت تادیرملت اسلامیہ ہند پر قائم رہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے