حضرت مولانا محمد منظور نعمانی :صاحب الفرقان، محدث جلیل، عالم ربانی

حضرت مولانا محمد منظور نعمانی
صاحب الفرقان، محدث جلیل، عالم ربانی
از:مولانا امین الدین شجاع الدین
{سابق استاذدارالعلوم ندوۃ العلماء ،لکھنو}

مولانا منظور نعمانی کو اللہ تعالیٰ نے حمیت دینی کا جو جوہر عطا فرمایا تھا وہ کم لوگوں کو ملتا ہے۔ یہ تھے وہ الفاظ جو مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے محدث جلیل، عالم ربانی صاحب ’الفرقان‘ حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ کے جلسہ تعزیت میں ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمائے۔
بات یہ ہے کہ یہ جملہ دریا بکوزہ کے مصداق ہے ،اس ایک جملہ میں اس پرُجلال شخصیت کے خدوخال سمٹ آئے ہیں۔ یہ جملہ کیا ہے، ایک قوس قزح ہے جس میں حضرت مولانا نعمانی کے مذاق و مزاج، ان کے فکر وعمل اور ان کی دعوتی، تصنیفی و صحافتی اور تدریسی و ملی میراث کے مختلف رنگ نکھر آئے ہیں، لکھنے والے جب حضرت مولانا نعمانی کی حیات و خدمات لکھنا چاہیں گے تو مفکر اسلام کی یہ گواہی انہیں بڑا دے گی اور ’’منظور شناسی‘‘ کا باعث بنے گی۔
مولانا نعمانی ان صاحب فراست علماء میں سے تھے جنہوں نے اس راز کو بخوبی سمجھا تھا کہ مسلمانوں کے وجود اور ان کے عقائد کو جو خطرہ درپیش ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمان دین سے غافل ہیں۔
چنانچہ اس دُکھتی رگ پر انہوں نے ہاتھ رکھا، اور اپنی تمام تر صلاحیتوں اور توانائیوں کا دھارا اس رخ پر موڑ دیا کہ مسلمانوں کا رخ اپنے اس ایک خالق و مالک کی طرف ہوجائے، ان میں عقیدہ کی پختگی آئے اور ان میں دینی حمایت سے آگے بڑھ کر دینی حمیت پیدا ہوجائے۔ چنانچہ ان کی پہلی تصنیف ’’اسلام کیا ہے؟‘‘ ۱۹۴۷ء کے اس پرآشوب دَور کی یادگار ہے جب اس ملک کے مسلمانوں پر خدا کی زمین تنگ ہورہی تھی اور آریہ سماج اور شدھی تحریک اپنا رنگ دکھا رہی تھی، دنیوی سہارے تار عنکبوت کی طرح بے حیثیت و بے حقیقت ثابت ہوچکے تھے اور خدائے وحدہ لاشریک کے سوا مسلمانوں کا کوئی ملجاء و ماویٰ نہ تھا۔ چنانچہ اس مخلص بندہ کے دل میں اللہ ہی نے یہ بات ڈالی کہ ’’اس وقت کا سب سے اہم اور سب سے زیادہ ضروری دینی کام یہ ہے کہ مسلمانوں میں اسلام کی واقفیت کو عام کرنے اور اسلام کے ساتھ ان کے تعلق کو گہرا اور مضبوط کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔‘‘ چنانچہ اسی مقصد کے تحت یہ کتاب لکھی گئی اور پھر اخلاص و للہیت کے ساتھ لکھی گئی، اس کتاب کو اللہ نے ایسی تاثیر و مقبولیت عطا فرمائی کہ یہ کئی جگہ سے کئی بار اور کئی زبانوں میں شائع ہوئی اور نہ صرف اپنوں کے لئے اسلام سے تعلق کا باعث بنی بلکہ بیگانوں کے لئے بھی اسلام کے تعارف کا ذریعہ بھی بنی۔ اسی طرح  الفرقان کی طویل تر خدمات میں سے صرف ایک مجدد الف ثانیؒ نمبر ہی کو لے لیجئے جس کی ترتیب و اشاعت میں حضرت مولانا نعمانی کے پیش نظر یہی بات تھی کہ ’’مسلمانوں کی دینی زندگی کے لئے جو سنگین مسائل اس ملک میں پیدا ہورہے ہیں اور ہوں گے، اُن کے بارے میں سب سے زیادہ رہنمائی یہاں کے دین کے خادموں کو امام ربانی مجدد الف ثانیؒ کی زندگی سے مل سکے گی۔‘‘
حضرت مولانا نعمانی کی ملی خدمات کے ایک سرسری جائزہ ہی سے یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ ان کی فکرمندیوں کا محور یہی تھا کہ ان تمام تر نازک حالات سے عہدہ برآ ہونے اور دشمنوں کی منصوبہ بند سازشوں کو ناکام بنا دینے کا ایک ہی راستہ ہے جو یہ ہے کہ مسلمانوں میں دینی و ایمانی شعور بیدار کیا جائے۔ چنانچہ جب تقسیم ملک کے بعد یہاں کی اسکولوں کا نصاب تعلیم ہندو دیومالائی تہذیب کا ترجمان بن کر رہ گیا اور اس سنگین خطرہ سے نئی نسل کے دین کی حفاظت کی خاطر مردِ مخلص قاضی عدیل عباسی مرحوم نے ضلع بستی میں ۱۹۵۱ء سے مسلم آبادیوں میں اپنے مکاتب قائم کرنے کی اسکیم چلائی اور اس کے مفید نتائج بھی مرتب ہونا شروع ہوئے تو وہ حضرت مولانا نعمانی ہی تھے جنہوں نے اصرار کیا کہ دینی تعلیم کی اس اسکیم کو صرف بستی تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ مسلمانوں کو پستی سے نکالنے اور نسل نو کے ایمان و عقیدہ کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ دینی تعلیم کے اس کام کو فی الحال پورے ملک میں نہیں تو اپنی ریاست اترپردیش کی سطح تک ضرور پھیلایا جائے۔ حضرت مولانا علی میاں صاحب نے اس رائے سے اتفاق کیا اور نتیجہ میں دینی تعلیمی کونسل اترپردیش کا قیام عمل میں آیا۔ اس طرح مسلمان بچوں کی دینی تعلیم اور ان کے ایمان و عقائد کے تحفظ کے دائرئہ کار کو وسیع کرنے میں حضرت مولانا نعمانی نے اپنا کردار نبھایا۔
۱۹۶۱ء میں ملک میں خون آشام فسادات کا سلسلہ مسلمانوں کے خلاف ایک گہری منصوبہ بندی کا پتہ دے رہا تھا اور وقت آگیا تھا کہ ملت کی جان و مال کی سلامتی کے لئے ہوش مندی کے ساتھ کچھ منصوبہ بند کوششیں کی جائیں، ان میں سیاسی شعور پیدا ہو ا،انہیں احساس کمتری سے نجات دلائی جائے اور ان میں جرأت و حوصلہ کی روح پھونک دی جائے۔ ان مقاصد کے تحت ہفت روزہ ندائے ملت کے اجراء کا فیصلہ کیا گیا۔ اجتماعی انداز پر نکالے جانے والے اور اپنے اندر قبول عام کی صلاحیت رکھنے والے اس ہفت روزہ کے اجراء میں حضرت مولانا نعمانی کا کلیدی کردار رہا ہے۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی مسلم مجلس مشاورت کا قیام بھی ہے ،جس کا بنیادی تخیل ۱۹۶۴ء کے بھیانک مسلم کش فسادات سے متاثر ہوکر ڈاکٹر سید محمود نے دیا تھا کہ مسلمانوں کی حیات و بقاء اور ا ن کے جان و مال کے تحفظ کی خاطر فکر اور جدوجہد کے لئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم وجود میں آنا چاہئے جس کے ذریعہ نہ صرف مسلمانوں کا باہمی اتحاد عمل میں آسکے بلکہ اسی کے ساتھ اس پلیٹ فارم سے اس ملک کی اکثریت کی اخلاقی حس کو بھی بیدار کرنے کی کوشش کی جاسکے۔ چنانچہ حضرت مولانا نعمانی نے اس تعمیری بلکہ انقلابی تخیل سے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ ’’اپنی افتاد طبع کے مطابق اسے اوڑھ ہی لیا اور شعور کی حد تک آخرت کے اجر و ثواب کی امید ہی میں اوڑھا۔‘‘
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قیام میں بھی حضرت مولانا نعمانی نے خصوصی دلچسپی لی اور اس کے سب سے پہلے کنونشن کے انعقاد کی تیاریوں کے سلسلے میں اس محدود وفد میں بھی شریک رہے جس کی کوششوں کے نتیجے میں شہر ممبئی م دسمبر ۱۹۷۲ء کو مسلمانوں کا وہ عظیم الشان کنونشن منعقد ہوا کہ تمام مسالک و مکاتب فکر کی نمائندگی کے لحاظ سے اسلامی ہند کی تاریخ میں جس کی نظیر نہیں ملتی۔
حضرت مولانا نعمانی کی ان کوششوں کا اجمالی جائزہ بتاتا ہے کہ ان کا مقصد یہ تھا کہ عقیدہ کی سلامتی کے ساتھ یہ ملت آبرو مندانہ زندگی جینے کا ہنر سیکھے اور اپنی فراست و حوصلہ مندی کے باعث ان شرپسندوں کے خوابوں کو کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہونے دے جو ہندوستان میں اسپین کی تاریخ دہرانے کے آرزو مند ہیں۔ یہاں اس امر کا ذکر شاید بے جا نہ ہو کہ تقسیم ملک کے موقع پر حضرت مولانا نعمانی سخت بیچین تھے، ہجرت کرنے والوں کے متعلق ان کی آرزو تھی کہ وہ اس سے باز رہیں، چنانچہ ان دنوں اپنے کسی مضمون میں مولانا مرحوم نے تحریر بھی فرمایا کہ وہ لوگ جو موت کے ڈر سے ہندوستان سے جارہے ہیں وہ ایسی جگہ اپنے لئے تلاش کریں  جہاں موت انہیں پکڑ نہ سکے۔
یہاں پہونچ کر استاذ گرامی مولانا سجاد نعمانی مدظلہ کی تعزیتی جلسہ میں بیان کردہ وہ بات بھی یاد آرہی ہے کہ جب ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو ملک آزاد ہوا اور ہندوستان کی تاریخ کا ورق پلٹا گیا تو وہ رمضان  المبارک کی ۲۷ ویں شب تھی، حضرت مولانا نعمانی بنگلہ والی مسجد میں تشریف رکھتے تھے اس سال حضرت جی مولانا یوسفؒ صاحب نے بنگلہ والی مسجد میں قرآن نہیں سنایا تھا، ختم قرآن کے بعد دعا حضرت نعمانی کے ذمہ تھی، مولانا محترم نے بتایا کہ حضرت والد ماجد نے فرمایا تھا کہ مجھے اپنی زندگی میں جو چند دعائیں نصیب ہوئیں ان میں سے ایک اس موقع کی اور اس شب کی دعا بھی تھی جس میں بس یہی مانگا تھا کہ اے اللہ اس آزادی کو ہر اعتبار سے خیر کا اور رشد و ہدایت کا سبب بنادے سچی بات یہ ہے کہ اس امت دعوت کے زمین پر باقی رہنے کا جواز یہی ہے کہ وہ بندوں کا رشتہ اس کے خالق سے جوڑ دے۔ سارے مسئلوں کا ایک مسئلہ یہی ہے کہ یہ ملت اپنے اصل فریضہ سے غافل ہوگئی اور نتیجہ میں بے شمار مسائل میں گھر گئی۔ ان گتھیوں کو سلجھانے کیلئے سرا ڈھونڈنے کی ضرورت پڑی اور وہ سرا دعوت کا کام ہی ہے۔ حضرت مولانا نعمانی کے پیش نظر شروع سے یہ نکتہ رہا۔ ’’چنانچہ اسلام کیا ہے‘‘ کے مقدمہ میں مصنف کی یہ آرزو مچلتی دکھائی دیتی ہے۔ ’’مسلمانوں کے علاوہ یہ کتاب ان غیرمسلموں کو بھی بے تکلف دی جاسکتی ہے جو اسلام کو سمجھنے اور اسلامی تعلیمات کو جاننے کا شوق رکھتے ہوں۔‘‘ کون جانتا ہے کہ صرف اسی ایک کتاب کے توسط سے ہی اللہ نے طلب صادق رکھنے والے کتنے بندوں کی رشد و ہدایت کا فیصلہ کیا ہوگا ایک واقعہ تو راقم آثم سے برادرم ڈاکٹر خلیل الدین نے بیان کیا کہ وہ نائر میڈیکل کالج ممبئی میں ایک مریض کی History لے رہے تھے، مرض نہایت قبیح تھا اور مریض تھا مسلمان۔ ڈاکٹر خلیل نے مسلمان ہونے کے ناطے ان سے کہا کہ بھائی! مسلمان تو ایسے امراض میں مبتلا نہیں ہوئے۔ اس مریض کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور کہنے لگا: ڈاکٹر صاحب! یہ مسلمان ہونے سے پہلے کے کرتوت ہیں اب تو میں مسلمان ہوگیا۔ دعا کیجئے کہ اب قدم نہ ڈگمگائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ مسلمان ہونے کا سبب کیا بنا ہے۔ بتایا کہ بس اللہ کی توفیق سے ایک کتاب ’’اسلام کیا ہے؟‘‘ پڑھا اور دل نے پکارا کہ سچا مذہب یہی ہے۔
بہرحال جیساکہ عرض کیا گیا بیرونی خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے حضرت مولانا نعمانی مختلف پلیٹ فار م سے سرگرم عمل رہے لیکن اسی کے ساتھ داخلی فتنوں اور اندرونی خطرات سے وہ غافل نہیں رہے بلکہ سچی بات یہ ہے کہ فتنوں سے لوہا لینے میں انہوں نے کسی کی طعن کی پرواہ نہیں کی اور بعض مواقع پر ان کی جلیل القدر خدمات سامنے آئیں جس کے سبب یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ علماء حق کی پوری جماعت کی طرف سے اس مرد حق آگاہ نے کفارہ ادا کیا ،ان کی معرکۃ الآراء تصنیف ’’ایرانی انقلاب‘ امام خمینی اور شیعیت‘‘ اس کی ایک تابناک مثال ہے، ۱۹۷۹ء میں جب امام خمینی کی شیعہ عقائد پر ایرانی حکومت قائم ہوئی اور اسے اسلامی انقلاب کا نام دیا گیا تو ملت کے بیشتر افراد اس پروپیگنڈہ کی زد میں آگئے اور ان کے لئے شیعہ عقائد پرمبنی ایک حکومت اور اسلامی حکومت میں امتیاز کرنا آسان نہ رہا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر حضرت مولانا نعمانی کی رگ حمیت پھڑک اٹھی وہ تڑپ اٹھے اور اس حال میں انہوں نے اس تصنیف کا بیڑہ اٹھایا جبکہ ان کی عمر ۸۰؍ برس سے تجاوز کرچکی تھی، کبرسنی کے ضعف کے علاوہ طرح طرح  کے عوارض لاحق تھے اور خصوصیت کے ساتھ ہائی بلڈپریشر کے مرض کی وجہ سے لکھنے پڑھنے کی صلاحیت بہت متاثر ہوگئی تھی جبکہ اس نوعیت کی تصنیف کا کام خاصہ محنت طلب، طویل مطالعہ اور گہرے غور و فکر کا محتاج تھا، لیکن بہرحال یہ صبر آزما کام اللہ کی نصرت و مدد کی بدولت پایہ تکمیل کو پہونچا۔ کئی زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ ہوا اور کئی ایک ملکوں میں یہ کتاب پھیل گئی۔ اس طرح ایرانی انقلاب کا خیرمقدم کرنے والوں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان کے سامنے حقیقت بے نقاب ہوکر آگئی۔ اسی طرح بریلویت کے سیلاب پر حضرت مولانا نعمانی باندھ باندھا، اس کے لئے مناظرہ کئے اور اس کی ردّ میں جو لٹریچر تیار کردیا وہ حق کے متلاشیوں کے لئے مدت دراز تک کام دیتا رہے گا۔ احقاق حق اور ابطال باطل حضرت مولانا نعمانی کی کتاب زندگی کا ایک مستقل باب ہے جس سے ان کی دینی حمیت اور ایمانی جرأت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ فتنہ قادیانیت کے خلاف مورچہ لینے میں جو علماء حق سامنے آئے ان میں حضرت مولانا نعمانی پیش پیش رہے۔ اندرونی فتنوں کا سدباب اور اپنوں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھانا آسان نہیں ہوا کرتا ،لیکن اس مرد درویش کو حق نے انداز خسروانہ بخشے تھے۔ چنانچہ تیز و تند ہوائوں کے باوجود وہ اپنا چراغ جلاتا رہا۔ ۱۹۳۴ء میں الفرقان کا اجراء ان ہی مقاصد کے پیش نظر کیا گیا اور بریلویت کے عین مرکز بریلی سے اسے جاری کیا گیا اور پھر الفرقان پر وہ دور بھی آیا جب اس کے جلیل القدربانی نے یہ محسوس کیا کہ ’’چند اعتقادی اور عملی مسائل، جن میں مسلمانوں کے بعض طبقے افراط و تفریط اور غلطیوں میں مبتلا ہیں، ان کی بابت اصلاحی جدوجہد تک اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھنے کے بجائے حکمت نبوی کے اصول پر دعوت و تبلیغ کے ذریعہ عام مسلمانوں میں پہلے صحیح شعور اور حقیقی ایمان کو عام کرنے اور عبدیت و اطاعت والی اسلامی زندگی کے بنیادی اصول کو ان میں رواج دینے اور اس کے لئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ چنانچہ الفرقان کی روش بھی بدلتی چلی گئی اور دین کی دعوت و اشاعت ہی اس کی غرض و غایت قرار پائی۔
الفرقان کو دینی صحافت کی تاریخ میں واقعی امتیازی شان حاصل رہی ہے، ملت کے عقائد کی درستگی اور ایمانی شعور کی بیداری میں الفرقان کی اپنی خدمات ہیں، اس پرچہ نے بڑے نشیب و فراز دیکھے، لیکن اس کے جلیل القدر اور عالی ہمت بانی کی صدق نیت اور شان توکل کی برکت ہے کہ ۱۹۳۴ء سے یہ پرچہ برابر جاری ہے، ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اس دَور میں دینی صحافت کو اپنا میدانِ عمل بنایا ہے، الفرقان کی تقریباً ساٹھ سالہ تاریخ میںبڑا سبق ہے، اس میں ان کے لئے فکری غذا ہی نہیں، ہمت و حوصلہ کی خوراک بھی موجود ہے۔
صاحب الفرقان کا اسلوب نگارش بھی اپنے اندر بڑی کشش رکھتا ہے۔ تصنع اور آورد سے پاک سادہ، عام فہم اور دل نشیں۔ قسام ازل نے انہیں مشکل مضامین کو آسان زبان میں بیان کردینے پر قدرت عطا فرمائی تھی، خدمت و تفہیم دین کے مقاصد ہی ان کے پیش نظر رہے۔ چنانچہ ان کی مقبول ترین تصنیفات میں سے ایک ’’اسلام کیا ہے‘‘ کو حسن تفہیم کا شاہکار کہا جاسکتا ہے جس کو آسان سے آسان تر زبان میں ڈھالنے کیلئے حضرت مولانا نعمانی نے یہ ترکیب اپنائی کہ اس کتاب کا ایک ایک صفحہ لکھنے کے بعد اسے اپنی اہلیہ محترمہ سے پڑھوایا کرتے جو گھریلو مسلم خواتین کی مانند کم پڑھی لکھی خاتون تھیں ،جب وہ کسی لفظ پر اٹک جایا کرتیں تو مولانا نعمانی اس لفظ کو تبدیل کردیا کرتے تھے۔
حضرت مولانا نعمانی کی کتابوں کو جو حسن قبولیت حاصل ہوئی اس میں حسن نیت کے ساتھ ان کے حسن بیان اور حسن انتخاب کو بھی دخل ہے وہ زمانہ کے تقاضوں سے باخبر تھے اور نسل نو کی ضروریات اور ا ن کی نفسیات سے آگاہ۔ چنانچہ ان کی تحریریں موثر بھی ہوئیں اور مقبول بھی، قبولیت عام حاصل کرنے والی کتابوں میں سات جلدوں میں ان کی کتاب معارف الحدیث اردو دینی لٹریچر میں ایک اہم اور بیش بہا اضافہ ہے جس کے لئے اردو دنیا مدتوں ان کی زیربار اور ممنون احسان رہے گی۔
معارف الحدیث کی تاثیر و مقبولیت میں بڑا دخل شاید اس احترام و اہتمام کو بھی ہے جس کا حضرت مولانا نعمانی نے اس کی تصنیف کے وقت خاصہ التزام رکھا، تصنیف کے اس کام کو کرتے وقت تازہ وضو فرماتے، خوشبو لگاتے اور حالت روزہ میں ہوا کرتے، انہوں نے حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ سے شرف تلمذ حاصل کیا تھا جن کے متعلق حضرت تھانویؒ نے فرمایا تھا کہ ان کا وجود اسلام کی حقانیت کی ایک روشن دلیل ہے۔ اور ان کی جلالت علمی کی شہادت حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے ان الفاظ میں دی تھی کہ ’’وہ صاحب تقویٰ اور پاک سیرت شیخ جس کی کوئی دوسری مثال لوگوں کی آنکھوں نے نہیں دیکھی اور خود اس نے بھی اپنی کوئی مثال نہیں دیکھی۔‘‘ علوم دین کے بحر ذخار سے حضرت مولانا نعمانی سیراب ہوئے اور علم میں کمال اور رسوخ کا جو مقام و مرتبہ اللہ نے انہیں عطا فرمایا۔ اہل نظر اور صاحب دل ہی اس کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔
شروع سے ہی اکابرین سے حضرت مولانا نعمانی نے اپنا تعلق استوار رکھا، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری، حضرت تھانوی، حضرت مدنی، حضرت مولانا الیاس صاحب، حضرت مولانا عبدالشکور فاروقی، حضرت شیخ الحدیث اور حضرت شاہ وصی اللہ جیسے اہل اللہ کی توجہ و عنایات انہیں حاصل رہیں۔
حضرت مولانا علی میاں صاحب سے حضرت مولانا نعمانی کی رفاقت مثالی رہی، محترم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے تعزیتی جلسہ میں اس کی شہادت دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ دو مخلص رفیق تھے۔ ہمدم بھی اور ہم راز بھی اور فکری و ذہنی اعتبار سے پوری طرح ہم آہنگ بھی۔ زندگی میں تمام یکسانیت کے باوجود دو سگے بھائیوں میں بھی سو فیصد اتفاق رائے نہیں ہوتا، لیکن یہاں اس سے کچھ زیادہ ہی تھا۔‘‘ شخصیتوں کے علاوہ ملت کے مؤقر اداروں سے ان کی گہری وابستگی رہی۔ رابطہ عالم اسلامی، دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء جیسے مراکز کی شوریٰ کے رکن رہے اور ان کی رائے نہایت قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی گئی۔
حضرت مولانا نعمانی عرصہ سے صاحب فراش تھے۔ ۲۵؍ مارچ کو فالج کے حملہ کے بعد سحر نرسنگ ہوم میں داخل کئے گئے، بیماری کی شدت دیکھ کر کھٹکا لگا ہوا تھا کہ یہ چراغ سحری نہ معلوم کب خموش ہوجائے۔ بالآخر وقت موعود آگیا اور ۴؍ مئی ۱۹۹۷ء کو جماعت عشاء کے وقت جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ دوسرے روز صبح دارالعلوم ندوۃ العلماء میں حضرت قاری صدیق صاحب باندوی نے نماز جنازہ پڑھائی اور عیش باغ میں تدفین عمل میں آئی۔
{ماخوز از:ملنے کے نہیں نایاب ہیں}

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے