تعارف :آسان ترجمہ وتشریح قرآن مجید



منور سلطان ندوی 
رفیق دارالافتاء دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

۲۰۱۱ءمیںالمعہدالعالی الاسلامی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ’’بین الاسلامی قرآن مجید سیمینار ‘‘کے موقع پر جو علمی تحفے ملے ،ان میں ایک اہم کتاب استادمحترم کی ’’آسان ترجمہ وتشریح‘‘ بھی تھی،مولانا کے اس کام کے بارے میں خبر توپہلے سے تھی کہ مگر جب اپنی نظروں سے دیکھا تو لگا کہ ایک بڑی نعمت مل گئی ،اسے شوق کے ہاتھوں لیا اور اسی وقت دیکھنا شروع کردیا ،رات کافی ہوچکی تھی مگر اس کے باوجود دیر تک اسے دیکھتا رہا،مختلف جگہوں سے پڑھا،مقدمہ کا بڑا حصہ تو اسی وقت پڑھ لیا،کتاب دیکھ کر جو خوشی ہوئی چند صفحات دیکھنے کے بعد وہ خوشی مزید دوچند ہوتی چلی گئی کہ یہ کتاب نہ صرف مولانا کی دیگر کتابوں کی طرح اپنے موضوع پر مستند اور اس کے تمام پہلووں پر حاوی تھی بلکہ یہ وقت کی ایک اہم ضرورت تھی ،جس کی تکمیل اس کتاب کی صورت میں نظر آرہی تھی،مولانا نے واقعی اس زمانہ کی ضرورت اور عصر حاضر کے ذہن کو سامنے رکھ کر یہ اہم علمی خدمت انجام دی ،یہی وجہ ہے فہم قرآن کے لحاظ سے نہ صرف بہت مفید ہے بلکہ نئے اٹھنے والے سوالات کا تسلی بخش جواب بھی ہے،جدید اشکالات اور اعتراضات کی عقدہ کشائی بھی ،نیز اصلاحی ،دعوتی اور تذکیری پہلوئوں کو خاص طور پر اجاگر کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ قرآن مجید اصلا کتاب ہدایت ہے۔
یہ کتاب جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہے قرآن مجید کے ترجمہ اور تشریح پر مشتمل ہے ،پہلی جلد سورہ فاتحہ سے سورہ اعراف تک کے سورتوں کے ترجمہ وتشریح پر مشتمل ہے،تقریبا تیرہ سال قبل مولانا نے اس کام کا آغاز کیا،مولانا کے ذہن میں اس کام کا خاکہ کیوں آیا، قرآن مجید کے بے شمار تراجم اور تفاسیر کے باوجودمولانا نے ایک نئے ترجمہ کی ضرورت کیوں محسوس کی،اس کاجواب مولانا کے مقدمہ میں ہمیں یوں ملتا ہے :
’’اس حقیر کا مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ رواں ،سلیس اور عام فہم زبان میں ہوجائے اور ایک حد تک زبان وبیان کی چاشنی بھی برقرار رہے ،ہمارے بزرگوں کے جو ترجمے موجود ہیں ،وہ نہایت عمدہ اور بصیرت افروز ہیں،لیکن عربی زبان کے علاوہ تمام زبانوں میں ادب کے معیارات تیزی سے بدلتے رہتے ہیں، اور محاورات واصطلاحات میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں،ظاہر ہے کہ اس میں اردو زبان بھی ہے،ا س لئے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ بعض اردو تراجم کے الفاظ مشکل ہیں یا ان میں زبان وبیان کی خوبصورتی نہیں ہے،حالانکہ یہ ترجمہ کی خامی نہیں ہوتی،بلکہ وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ زبان میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا اثر ہے،لہذا لوگوں کی سہولت کے لئے ضروری ہے کہ جیسے جیسے زبان اور اس کے ادب میں تبدیلی آئے ،قرآن مجید کے تراجم کئے جائیں ،جن میں اس عہد کے ذوق کی رعایت ہو،یہی اس کا کاوش کا اصل محرک ہے ۔(مقدمہ ص:۱۰)
 مولانا محتر م کے خیال میں ایک ایسے ترجمہ اور تفسیر کی ضرورت تھی جو آج کے اسلوب میں ہو،یعنی آج کے مسائل،موجودہ دور کے افکار ونظریات اور موجودہ ذہن کو پیش نظر رکھ کر قرآن کی تشریح کی جائے،ان مقاصد کو سامنے رکھ کر مولانا نے ترجمہ وتشریح کا کام شروع کیا ،آپ کی مصروفیات کے ساتھ یہ کام بھی ہوتا رہا،اور اب تک جو کام ہوچکا تھا اس کے ایک حصہ کو شائع کیا گیا،خدا کرے یہ کام جلد مکمل ہو اور قارئین کی آنکھوں کا سرمہ بنے۔
اس ترجمہ وتشریح کودیکھنے سے جو تاثر قائم ہوا ہے اسے نقل کرنا مشکل ہے ،البتہ اس میں جو امتیاز ی پہلو نظر آئے ہیں اسے نقل کرنا مناسب سمجھتاہوں :
الف:مولانا نے متوسط درجہ کے قارئین کو اپنے سامنے رکھا ہے ،اور ان کے اندر قرآن فہمی کا ذوق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ،چنانچہ اصل توجہ ترجمہ پرہے ،مولانا کی کوشش یہ ہے کہ قرآن کے ترجمہ سے ہی قرآن کے مطالب سمجھ میں آجائیں،اس مقصد کے لئے بقول مولانا کے ترجمہ پن کے بجائے خوبصورت او ررواں ترجمہ کی کوشش کی ہے ،مولانا کے پورے ترجمہ میں یہ خوبی نمایا ںہے،اسے زبان وبیان کی خوبصورتی کا اعلی نمونہ کہنا غلط نہ ہوگا ،سلیس ترجمہ ہمیں مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا مودودی ،مولانا عبد الماجد دریابادی اور دوسرے مفسرین کے یہاں بھی ملتا ہے ،مولانا نے ان تراجم سے استفادہ کیا ہے ،جس کی وجہ سے ترجمہ میں بڑی دلکشی پیدا ہوگئی ہے ۔
ب:اس ترجمہ میں زبان وبیان کی تمام خوبیاں موجود ہیں ،نیز الفاظ کا انتخاب ایسا ہے کہ یہ عام فہم بھی ہے اور خوبصورت بھی ،قاری کو ترجمہ پڑھتے وقت کسی خلجان یا تشنگی کا احساس نہیں ہوتا،بلکہ اک لطف ملتا ہے ،مثلا آمین کا ترجمہ کیا ہے ’’اے رب!قبول فرمالیجئے!‘‘
ج:بین القوسین کسی لفظ کے اضافہ نے ترجمہ کی لذت کو دوبالا کردیا ہے ،اورمفہوم کو واضح ،نیز لفظ دولفظ میں اشکالات کا جواب دے دیا گیا ہے۔
د:اردو اور عربی زبان کے اسالیب کے فرق کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔
ہ:ترجمہ میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ اگر قرآن مجید کے کسی لفظ کے مروجہ معنی سے کوئی غلط فہمی ہوسکتی ہے تو اس کی ایسی تعبیر اختیار کی جائے جس سے کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو،مثلا’’فازلہما الشیطان‘‘کا ترجمہ کیا گیا ہے :دونوں کو لغزش میں مبتلا کیا،’’ووجدک ضالا فہدی ‘‘کا ترجمہ کیا گیا :اس (اللہ)نے آپ کو ہدایت (وحی )سے محروم پایا تو آپ کو ہدایت(وحی)سے نوازا۔
و:ترجمہ کے حوالہ سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ مولانا محترم نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ ان کا یہ ترجمہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی،مولانا شاہ رفیع الدین ،مولانا محمود الحسن ؒاور مولانا اشرف علی تھانوی ؒکے ترجمہ سے باہرنہ جائے،البتہ الفاظ کی تسہیل اور زبان وبیان میں موجودہ اسلوب تحریر کی رعایت رکھی جائے،(مقدمہ کتاب :۱۰)یہ مولانا کے کمال احتیاط او رکلام الہی کے تئیں احساس ذمہ داری کی بات ہے،مولانا کا نام خود استناد کے لئے کافی ہے ،پھر اس احتیاط نے استناد پر مہر ثبت کردیا ہے۔
آیات قرآنی کی تشریح مختصر انداز میں کی گئی ہے ،ترجمہ کی طرح تشریح بھی عام فہم ہے ،جس سے ایک متوسط ذہن کے مسلمانوں کو آیت کا مفہوم سمجھنے میں بڑی آسانی ہو گی نیز ان کے اشکالات رفع ہوجائیںگے،اس لئے طوالت اور تفسیری نکتہ آفرینی سے پرہیز کیا ہے ،اس تناظرمیں ہوسکتا ہے کہ طوالت پسند اور نکتہ آفرینوں نیز بڑی بڑی کتابوں کا حوالہ تلاش کرنے والوں کے لئے تشفی کا سامان نہ ہو،مگر جس مقصد کے لئے اور جن لوگوں کے ذہن کو سامنے رکھ کر یہ ترجمہ وتفسیر لکھی گئی ہے ان کے لئے یہی مناسب ہے۔
یہ مختصر تشریح کئی لحاظ سے بہت اہم ہے ،یہ بہت سی امتیازات کا حامل ہے ،چند امتیازات وخصوصیات کا تذکرہ قارئین کے ذوق پر بار نہ ہوگا:
۱:یہ تفسیر عام ذہن کو سامنے رکھ کرلکھی گئی ہے ،اس لئے قرآن کے اصلاحی اور دعوتی پہلو کوخوب خوب اجاگر کیا گیا ہے ،مولانا نے کوئی ایسا موقع شاید ہی ہاتھ سے جانے دیا ہے جہاں اصلاح یا موعظت کا پہلونکلتاہو اور آپ نے اس طرف اشارہ نہ کیا ہو ،یا نئی نسل کے ضمیر اور دماغ کو خطاب کیا جاسکتاہو اور آپ اس سے چوکے ہوں،مثلاًسورہ فاتحہ کی آیت’’ غیر المغضوب علیہم وللضالین ‘‘کی تفسیر مشہور ہے ،مولانا ’’غیر المغضوب علیہم ‘‘اور ’’ضالین ‘‘کے مصداق کو بیان کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
گویا امت کو دونوں باتوں سے منع فرمایا گیا ،اس سے بھی کہ اللہ کے نیک بندوں کے معاملہ میں افراط اور مبالغہ سے کام لیا جائے،کہ یہی گمراہی کا پیش خیمہ ہے،اور اس سے بھی منع کیا گیا کہ ان کے بارے میں اہانت اور تحقیر کارویہ اختیار کیا جائے،کہ یہ خدا کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔(ص:۲۴)
جیسے دعوت دین کے سلسلہ میں ’’ان الذین کفرواسواء علیہم …الخ سے ایک اہم نکتہ اخذ کیا گیا ہے کہ کوئی بھی دعوت داعی کے اعتبار سے ناکام نہیں ہوتی ،چنانچہ فرماتے ہیں:
یہ ڈرانا اور نہ ڈرانا ان کے حق میں برابر تھا نہ کہ پیغمبر اسلام ﷺ کے حق میں،کہ آپ ﷺ کو بہر حال تبلیغ دین کا اجر حاصل ہوگا،معلوم ہوا کہ دعوت حق رد کردی جائے تو یہ ان لوگوں کی محرومی ہے،جو اس دعوت کو قبول نہ کریں،داعی بہرحال اجروثواب کا حقدار ہوگا۔(ص:۲۹)
ب:مولانا محترم تفقہ کی دولت سے مالا ل ہیں ،جد ید مسائل پر آپ اتھاریٹی سمجھے جاتے ہے ،مولانا کا فقیہانہ ذوق یہاں بھی نمایاں نظر آتا ہے،چنانچہ احکام سے متعلق آیات میں احتصار کے ساتھ فقہی مسائل کو بھی بیان کرنے کا التزام کیاہے،بلکہ جدید مسائل کی طرف کوئی اشارہ آیات قرآنی سے نکلتا ہے تو اس کو بھی واضح کیاہے ،نیز ان احکام کے اسرار وحکم کی پردہ کشائی بھی فرمائی ہے،احکام فقہیہ کے بیان میں مولانا کی شان استنباط بھی ہرجگہ نمایاں نظر آتی ہے،جیسے قرآن مجید میں نیند کی کفیت سے بعث بعد الموت پر استدلال کیا ہے،اس مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اس سے فقہ کی ایک اہم اصل ’’قیاس‘‘کے معتبر ہونے کا اشارہ بھی ملتا ہے،کیونکہ خود اللہ تعالی نے موت کی کیفیت کو نیند کی عارضی کیفیت پر قیاس کرنے کا حکم فرمایا ہے۔
غیر مسلموں کے معبودان باطل کو برابھلا کہنے سے منع فرمایا گیا(سورہ انعام :۱۰۸)اس پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
اسی سے فقہاء کے ایک اصول ’’سدذریعہ‘‘کی تائید ہوتی ہے،یعنی اگر کوئی بات جائز بھی ہو،لیکن وہ کسی برائی کا ذریعہ بنتی ہوتواس سے بچنا ضروری ہے،کیونکہ گناہ کا ذریعہ بھی گناہ ہوتا ہے،اور نیک کام کا ذریعہ بھی باعث اجر وثواب ہوتا ہے۔
ج:فقہی مسائل کے بیان میں مولانا کا اپنا انداز خوب نمایاں ہے ،حسب گنجائش فقہاء کے اختلاف کو نقل کرنے کے ساتھ فقہاء کے دلائل کی طرف بھی اشارہ بھی کرتے ہیں،اختلاف فقہاء کے ذیل میں فقہ حنفی کے ساتھ دیگر دبستان فقہ کی آراء بھی نقل کرتے ہیں،یہ مولانا کافکری اعتدال ہے ،جس کی مثالیں آپ کی ساری تحریروں میں  خوب ملتی ہیں،ابتداء میں ہی آمین سے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
…اس سے معلوم ہوا کہ نماز کے باہر بھی آمین کہنا مسنون ہے،نماز میں امام اور مقتدی دونوں آمین کہیں گے،حدیث میں آمین کا زور سے کہنا بھی منقول ہے ،اور آہستہ کہنا بھی،اس لئے دونوں طرح آمین کہنا درست ہے ،البتہ آہستہ کہنا افضل ہے،کیونکہ آمین بالاتفاق دعا ہے،اور قرآن مجید نے دعا کا ادب یہی بتا یا ہے کہ آہستہ کی جائے،وادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ(ص:۲۴)
د:مولانا نے اس تشریح میں باطل عقائد اور نظریات کا بھی مسکت جواب دیا ہے، نیز جن آیات سے یہ حضرات استدلال کرتے ہیں ان کی قلعی بھی کھول دی ہے،اکثر مقامات پر نام لئے بغیر اس کی تردید کی ہے،’’بل رفعہ اللہ‘‘میں قادیانیوں کی تلبیس کو اس طرح ذکر کرتے ہیں:
’’…قرآن مجید کی جو تعبیر یہاں ہے وہ رفع درجات اور مرتبہ کی بلندی کے لئے نہیں بولی جاتی بلکہ مادی اور جسمانی طورپر اٹھانے کے لئے،آیت کے پچھلے مضمون کے موافق بھی یہی ہے کہ قتل کی نفی کی گئی اور بتا یا گیا کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام قتل نہیں کئے گئے تو ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا؟یہ کہ آسمان پر اٹھالیا گیا،یہاں بلند درجات کے ذکر کے کوئی معنی نہیں،کیونکہ درجات کی بلندی کچھ حضرت مسیح علیہ السلام کی خصوصیت نہیں،مرتبہ ومقام کی یہ بلندی تو تمام ہی انبیاء کو حاصل رہی ہے،حضرت علیہ السلام کے جسم سمیت آسمان پر اٹھائے جانے او رپھر قیامت کے قریب اتارے جانے پر حدیثیں کثرت سے وادر ہیںاور تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہیں …غالبا سب سے پہلے مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی جھوٹی نبوت اور مسیحیت کوثابت کرنے کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام کے جسمانی طور پر اٹھائے جانے کا انکار کیا ہے (ص:۲۶۴)
سورہ مائدہ کی آیت کے ایک لفظ سے کسی طرح قادیانیوں کی تردید کرتے ہیں ،پڑھنے کے قابل ہے،مولانا فرماتے ہیں:
’’من قبلکم ‘‘سے واضح ہوگیا کہ اس اسلام کے پہلے سے مذاہب (یہودیت ونصرانیت)کے ماننے والے مرا دہیں،خاتم النبیین کی بعثت کے بعد اگر کوئی بدبخت نبوت کا دعوی کرے اور کچھ کم نصیب لوگ اس کے دعوی پر لبیک کہیں تو وہ ’’اہل کتاب‘‘کے حکم میں نہیں ہیں،نہ ا ن کا ذبیحہ حلال ہے اور نہ ان کی عورتوں سے نکاح درست،وہ عام کفار ومشرکین کی طرح ہیں،بلکہ اس سے بھی بدتر ،جیساکہ اس دور میں قادیانیوں کا گروہ ہے۔(ص:۲۷۹)
رسول اللہ ﷺ کے عالم الغیب ہونے کے سلسلہ میں (سورہ انعام :۵۰)کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
…لیکن غیب کی تمام باتوں کا علم اللہ تعالی نے کسی کو نہیں دیاہے،یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کو بھی نہیں،’’لااعلم الغیب ‘‘کا یہ مطلب بتاتا ہے کہ ’’میں یہ کہوں آپ غیب جان لیتا ہوں‘‘درست نہیں،اس لئے قرآن مجید نے ذاتی اور عطائی ،اپنے آپ حاصل ہونے والے اور اللہ تعالی کے عطاکرنے سے حاصل ہونے والے علم غیب کی کوئی تفصیل نہیںکی،بلکہ مطلق فرمایاگیا کہ میں غیب کی باتوں کو نہیں جانتا ہوں۔
ہ:اسلام اور مسلمانوں سے متعلق غلط فہمیوں کے ازالہ کی پوری کوشش کی گئی ہے،بعض شبہات کا جواب بڑے ہی مختصر الفاظ میں دیاگیا ہے کہ ذہن کی گتھی کھل جاتی ہے،مثلا ’’ختم اللہ علی قلوبہم‘‘کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اللہ تعالی نے ہر شخص کے اندرحق کو قبول کرنے کی استعدادرکھی ہے،لیکن جب آدمی عناد کے جذبہ سے کسی بات کے نہ ماننے پر بہ ضدہوجائے تو اس کی یہ استعدادآہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے،اب دل میں حقائق کو قبول کرنے کی صلاحیت باقی نہیں ،کان موجود ہیں لیکن کانوں سے دلوں کا فاصلہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ سنی ان سنی ہوجاتی ہے،آنکھیں موجود ہیں لیکن خدا کی نشانیوں کو دیکھ کرخداتک پہونچنے سے قاصر ہیں،اسی کیفیت کا اس آیت میں ذکر ہے،ایسا نہیں ہے کہ خداکے مہر لگانے کی وجہ سے وہ کفر پر مصر ہیں بلکہ جانتے بوجھتے انکار وعنادکی وجہ سے اللہ تعالی نے ان کو بے توفیق ومحروم کردیا ہے،گویا ان کا انکاروعناد سبب ہے اور بے فیقی اس کا نتیجہ۔    ( ص :۳۰)
اہل سنت والجماعت کے نزدیک اللہ تعالی پر کوئی چیز واجب نہیں ،سورہ انعام :۵۴کے ظاہری الفاظ سے اس سلسلہ میں غلط فہمی ہوسکتی تھی،چنانچہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالی انسان اور پوری کائنات کے مالک ہیں،وہ جیسے چاہیں اس میں تصرف کریں،اللہ تعالی پر کوئی چیز واجب نہیںہے،کیونکہ اس پر کسی چیز کا واجب ہونا اس کی شان کے مغایر ہے،لیکن چونکہ اللہ تعالی بے حد مہربان وکریم ہیں،اس لئے اپنی رحمت کو اپنے غضب پر غالب رکھتے ہیں،اور عفو ودرگذر سے کام لیتے ہیں،اللہ تعالی نے اپنی اسی سنت کو اس طرح بیان فرمایاہے۔
اور مولانا خود مقدمہ میں تحریرفرماتے ہیں:
’’کوشش کی گئی ہے کہ موجوددور کے فکری مسائل کی طرف خصوصیت سے اشارہ کردیا جائے،آج کی دنیا میںاسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیںحسب موقع انہیں دور کیا جائے ،اور مشتشرقین کے اعتراضات کا رد کیا جائے‘‘۔(مقدمہ ،ص:۱۵)
مستشرقین کا رد کرتے ہوئے ایک جگہ رقمطراز ہیں:
اس آیت کا مطلب یہ نہ سمجھاجائے کہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت اور قرآن مجید کا خطاب اہل مکہ تک محدود تھا،بلکہ آپ ﷺ کی نبوت اور قرآن کا خطاب قیامت تک آنے والی پوری انسانیت سے ہے،کیونکہ قرآن کو تمام انسانیت کے لئے ہدایت ’’ہدی للناس‘‘قراردیا گیا اور رسول اللہ ﷺ کو ’’کافۃ للبشر‘‘یعنی تمام نوع انسانی کے لئے ہادی کہاگیا ہے،چونکہ آپ کے اولین مخاطب اہل مکہ تھے اس لئے خصوصی طور پر ان کا ذکر آیا ہے۔
انبیاء کے معجزات کی تاویل کرنے والوں کی تردید کس خوبصورتی سے کرتے ہیں ،اس کا اندازہ حضرت موسی علیہ السلام کے ایک معجزہ سے متعلق اس تحریر سے لگا یا جاسکتا ہے ،’’واذاستسقی موسی لقومہ فقلنا اضرب بعصاک الحجر‘‘کی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں:
 ’’مصر وفلسطین کے درمیان جس صحرا اور بیابان میں بنی اسرائیل اپنے طرز عمل کی پاداش میں بھٹک رہے تھے ،وہاں پانی کا میسر آنا بھی آسان نہ تھا،چنانچہ بنی اسرائیل کی خواہش پر حضرت موسی علیہ السلام نے دعا فرمائی ،حکم الہی سے ایک مخصوص چٹان پر حضرت موسی علیہ السلام نے لاٹھی ماری اور بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لئے بارہ چشمے پھوٹ پڑے ،متعددسیاحوں نے سینا کے علاقہ میں ایک ایسی چٹان کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے،یہ ایک معجزہ تھا،اس کا یہ مطلب بیان کرنا کہ ’’حضرت موسی علیہ السلام اپنی لاٹھی کے سہارے پہاڑی پر چڑھے تو وہاں پانی کے بارہ چشمے نظر آئے‘‘،یہ عربی زبا ن کی تعبیر سے مطابقت رکھتا ہے ،اور نہ یہ کوئی ایسا واقعہ ہے کہ خاص طور پر اس کی یاد دلائی جاتی ،ممکن اور ناممکن انسانوں کے اعتبار سے ہے،اللہ تعالی کی قدرت کے لئے ممکن وناممکن اور دشوار وآسان کی کوئی تقسیم نہیں۔(ص:۴۷)
حضرت الاستاذ نے حسب ضرورت سائنسی معلو مات سے بھی استفادہ کیا ہے،چنانچہ مکہ کے ام القری ہونے کے بارے میں یہ چشم کشا تشریح ملاحظہ ہو:
ام القری کے معنی ہیں شہروں کا مرکز،کائنات کی تخلیق کا آغاز کعبۃ اللہ کے مقام سے ہوا،حکم ربانی سے پہلے یہ جگہ وجود میں آئی،اور پھر ہر چہار طر ف بچھتی چلی گئی،اس طرح قرآن کے بیان کے مطابق مکہ تخلیقی اعتبار سے تمام روئے زمین کا مرکز ہے،موجودہ دور میں جو سائنسی تحقیق سامنے آئی ہے اس کے مطابق مکہ مکرمہ زمینی کششوں کا بھی مرکز ہے،یہ مقناطیسی اعتبار سے زمین کے قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بالکل وسط میں واقع ہے،اگر یہاں قطب نما رکھ دیا جائے تو اس کی سوئی میںکوئی حرکت نہیں ہوگی،کیونکہ اس مقام پرقطب شمالی او رقطب جنوبی کی کششیںایک دوسرے کو زائل کردیتی ہیں،اس پہلو سے بھی مکہ ’ام القری ‘ہے۔
باطل افکار کی تردید اور غلط فہمیوں کے ازالہ میں مولانا مثبت اور نرم لب ولہجہ اختیار کرتے ہیں ،دیگر کتابوں کی طرح مولانا کا یہ انداز اس تفسیر میں بھی نمایا ں ہے،یہ دراصل مولانا کا ایک امتیازی وصف ہے ،بالغ نظر قارئین اس سے واقف ہوں گے۔
و:عصر حاضر کے فکری مسائل کی طرف خاص توجہ ہے،اور ان کے دلائل کو قرآن سے مبرہن کیا ہے، اس تفسیر کو پڑھنے سے یہ آسانی سے معلوم ہوجائے گا کہ آج کے دور میں قرآن ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے ،نیز ان احکام کی تطبیق آج کیا ہوگی ،’’نحن ابناء اللہ‘‘ کی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں:
’’بیٹے سے مراد صلبی بیٹے نہیں ہیں،بلکہ مقربین مراد ہیں،کہ وہ اپنے آپ کو خدا کا محبوب اور قریبی ہونے کا دعوی کرتے تھے،بائبل میں اب بھی ایسے دعوی موجود ہیں،’’خدا وند نے یوں فرمایاہے کہ اسرائیل میرا بیٹا بلکہ میرا پہلوٹھا ہے‘‘(خروج :۴؍۲۲)اور انجیل میں ہے :’’جنہوںنے اسے قبول کیا اس نے انہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا‘‘(یوحنا:۱؍۱۲)اس خوش فہمی کے شکار مختلف قومیں رہا کی ہیں،ہندوستان میں برہمن اوراونچی ذاتیں اس کی مثال ہیں،جو اپنے آپ کو خدا کی ،سورج کی،اور چاند کی اولاد کہنے سے بھی نہیں چوکتے‘‘۔(ص:۲۸۵)
سورہ مائدہ کی آیت :وان احکم بینہم ما انزل اللہ ولا تتبع اہوائہم واحذرہم ان یفتنوک …کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’آج جو مسلمان حکومتیں شریعت اسلامی کے بجائے مغربی قوانین کو اپنائے ہوئی ہیں اور جو مسلمان عوام حقیر مفادات کے لئے قانون شریعت کو چھوڑکر غیر اسلامی عدالتوں کا رخ کرتے ہیں یہ آیت ان کی طرف متوجہ ہے اور ان کے ضمیر سے جواب چاہتی ہے‘‘۔(ص:۲۹۸)
سورہ نساء کی آیت :’’ودوا لوتکفرون کما کفروا …‘‘کی تشریح میں لکھتے ہیں :
’’کافرانہ تہذیب ہمیشہ یہی چاہتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اندر جذب کرلے،جیسا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ’’بھارتیہ کرن ‘‘کا نعرہ لگایا جاتاہے،یامغرب میں مسلمانوں کو مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ جانے کی تلقین کی جاتی ہے ،اسی پر توجہ دلائی گئی ہے کہ تم ان کے مسلمان ہونے کا خیال رکھتے ہو اور وہ آرزو مند ہیں کہ تم کفر اختیار کرلو‘‘۔(ص:۲۴۳)
آج کے یہودی اور عیسائی کے ذبیحہ اور ان کے نکاح کا حکم بیان کرتے ہوئے ’’وطعام الذین اوتوا الکتاب حل لکم‘‘کی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں:
’’یہاں ’’طعام ‘‘(کھانا)سے مراد ذبیحہ ہے،(تفسیر بغوی ج۱،ص:۶۴)یعنی عام غیر مسلموں کا تو ذبیحہ تو حرام ہے ،لیکن اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے۔
آگے اہل کتاب سے نکاح کے متعلق لکھتے ہیں:
یعنی عام غیر مسلموں سے تو مسلمانوں کے نکاح کا تعلق نہیں ہوسکتا،نیز اہل کتاب مردوں سے بھی مسلمان عورتوں کا نکاح نہیں ہوسکتا،لیکن اہل کتاب عورتوں سے مسلمان مردنکاح کرسکتے ہیں،اہل کتاب سے مراد یہود ونصاری ہیں جو واقعی خدا پر ،رسالت پر ،آخرت پر ایمان رکھتے ہوں ،گو پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ ہو،جو محض خاندانی طور پر یہودی یا عیسائی ہوں،مگر خدا کے منکر ہوں،نبوت کے قائل نہ ہوں ،وہ اہل کتاب میں شامل نہیں ہیں،نہ ان کا ذبیحہ حلال ہے ،نہ ان کی عورتوں سے مسلمان مردوں کے لئے نکاح درست ہے،آج کل امریکہ ویورپ وغیرہ کی اکثریت کا یہی حال ہے‘‘۔(ص:۲۷۸)
ترجمہ کی طرح تشریح میں بھی مولانا نے مستند تفاسیر مثلا امام رازی کی’’ مفاتیح الغیب ‘‘،قرطبی کی’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ ،شوکانی کی’’ فتح القدیر ‘‘،ابن کثیر کی ’’تفسیر القرآن العظیم ‘‘اورامام بغوی کی ’’ تفسیر بغوی‘‘ سے کثرت سے خاص استفادہ کیا ہے ،ان کے علاوہ حدیث اور فقہ کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ،اکثر جگہوں پر اس کے حوالے موجود ہیں،نیز اس بات کی خاص کوشش کی گئی ہے کہ ضعیف اور بے اصل روایا ت نہ آنے پائے،اسی طرح اس کی بھی کوشش رہی ہے کہ احادیث کو تفاسیر کی بجائے کتب احادیث سے اور فقہی مسائل کو کتب فقہ کے نقل کیا جائے۔(مقدمہ :۱۴-۱۵)
اس ترجمہ وتشریح کی سب سے اہم خصوصیت راقم کی نظر میں یہ ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے میں یہ بہت مفید ہے ،نیز ا س سے کسی مکتبۂ فکر کی نمائندگی نہیں ہوتی،بلکہ ابن کثیر کے منہج پر مجرد ترجمہ وتفسیر ہے، اس نقطہ نظر سے اس کی اہمیت مزید دوچند ہوجاتی ہے۔
ان امتیازات وخصوصیات کی طرف اشارہ صرف بطور مثال ہے،ورنہ مولاناجیسی شخصیات کی تحریریں تعارف کی محتاج نہیں ،کسی تحریر کے استناد کے لئے مولانا دامت برکاتہم کا نام کافی ہے،مولانا معاصر فقیہ کی حیثیت سے پوری دنیا میں معروف ہیں ،قرآن کے اس ترجمہ وتشریح نے یہ ثابت کردیا کہ مولانا کی جولان گاہ صرف فقہ اور جدید مسائل ہی نہیں ہیں،قرآن وحدیث پر بھی گہری نظر ہے،اور کیوں نہ ہو کہ فقہ کا سب سے بڑا سرچشمہ تو قرآن مجید اور احادیث ہی ہیں،اور فقیہ کے لئے جتنا فقہ واصول فقہ سے واقفیت ضروری ہے اتنا ہی بلکہ اس سے زیادہ ضروری قرآن وحدیث کو جاننا ہے،الغرض یہ پوری کتاب اس قابل ہے کہ اسے شوق کی نگاہوں سے پڑھاجائے،انشاء اللہ مولانا کی دیگر کتابوں کی طرح یہ ترجمہ وتشریح شہرت دوام حاصل کرے گی ، اس ترجمہ وتشریح نے وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ،اس حوالہ سے مولانا دینی وعلمی حلقوں سے شکریہ کے مستحق ہیں،خداکرے یہ جلد بقیہ جلد وں کی تکمیل کا سبب بن جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے