مولاناامین الدین شجاع الدین ۔ایک بیباک قلم کار


خون جگر سے تربیت پاتی ہے جوسخنوری
            از:مسعود الحسن عثمانی{جنرل سکریٹری دینی تعلیمی کونسل اترپردیش{
مولانا محمد علی جوہر کی بے پناہ مصروفیات میںان کی طویل تحریروں کو دیکھ کر دریافت کیا گیا کہ آپ کو اس کا وقت کیسے ملتا ہے۔ فرمایا :مختصر لکھنے کا وقت مرے پاس نہیں ہے۔ یہ جملہ اپنی بلاغت کے اعتبار سے بہت قیمتی ہے۔ مولانا کے پاس مختصر لکھنے کا وقت تو نہیں تھا لیکن چند الفاظ پر مشتمل ایک چھوٹے سے جملے میں یہ بھی بتادیا کہ اہم ترین بات بھی مختصر انداز میں کہی جاسکتی ہے۔ صحافت کا یہ نشان امتیاز ہے۔ کسی اخبار یا رسالہ کا اداریہ یا مضمون جو خون جگر سے لکھا گیا ہو اس میں آتش سیال کی کیفیت ہو، غور وفکر اور حکمت ودانائی کی بھرپورشمولیت ہو، مخلصانہ دعوت اور سوزدروں کا دردمندانہ اظہار ہو تو اس کا اختصار بھی افتخار بن جاتا ہے۔
زیر نظر مجموعہ اس کی خوبصورت مثال ہے۔ دریا کو کوزے میں بند کرنے کی صلاحیت نما یا ں ہے۔ اس میں فکر کی توانائی بھی ہے، راز درون میخانہ کے محرم کی شناخت بھی ہے، دل مردہ کا مرثیہ بھی ہے اور اسے دوبارہ زندہ کرنے کی دعوت بھی ہے۔ اس میں آہ بیتا بانہ بھی ہے نگاہ مومنانہ بھی، ادائے قلندرانہ بھی، جلوۂ مستانہ بھی، زندگی کے عام حالات اور مسائل کا افسانہ بھی، عمر بھر اپنی ملت کے لئے، اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی زبان کی حفاظت اور بقا کے غم میں تڑپتے رہنے والے بزرگوں کی فغان صبح گاہی اور دعائے نیم شبی کے سائے میں بے خوف وبے لوث جرأت رندانہ بھی اور خود مصنف امین الدین شجاع الدین کے قلب ونظر کا فکری امتیاز اوران کے قلم کا انداز بے باکانہ بھی ہے۔ شام غم کی سیاہی اور نور سحر کی فضائے انبساط کی درمیانی کیفیت کو مصنف کے قلم نے تازگی عطا کی ہے۔ زندگی اور موت کے فلسفہ کی روشنی میں ہجرو وصال کے فانی رشتوں کی کمزوریوں میں امین الدین شجاع الدین نے مثبت پہلو تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش کی ہے۔ شخصیتوں کا انتخاب اور ان کے علم وعمل کی روح پرور داستان اس مجموعہ کی اصل شان ہے۔
اس دور کا المیہ ہے کہ نوجوان نسل اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف نہیں ہے۔ اس کا اہتمام بھی نہیں کیا گیا، اس کی فکر بھی نہیںہوئی اور اس کے سودوزیاں کا صحیح اندازہ بھی نہیں ہوسکا۔ اس کا ماتم بہت کیا گیا لیکن اس کے علاج کے لئے اقبال کی زبان میں اس آب نشاط انگیز کی تلاش نہیں کی گئی جو اصل نسخۂ کیمیا تھا۔ سر سید نے ملت اسلامیہ کے سامنے ماضی کی روشن تاریخ پیش کرنے کافیصلہ اسی لئے کیا تھاکہ اس سے جمود وتعطل ختم ہوگا اور میدان جدوجہد میں سنجیدگی کے ساتھ حرکت وعمل اور فکر میں حرارت اور تمازت پیدا ہوگی اور ایک نئے خوشگوار مستقبل کی بازیافت آسان ہوگی۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس فکر نے جو چراغ روشن کئے اس کی روشنی میں قافلے کی نئی ترتیب کے ساتھ حدی خوانی کرتے ہوئے سفر کا آغاز ہوا تو الم ناکیوں میںصبح فرداکی بشارت بھی نظرآئی اور تاریخی ستم ظریفیوں کے سامنے تلافی مافات کی راہیں بھی کھلتی چلی گئیں۔ قرآن پاک میںنفوس قدسیہ کے واقعات بیان کرنے کا اصل مقصدیہی ہے کہ اس سے ایمان مضبوط ہوتا ہے اور صراط مستقیم کے نقوش واضح ہوتے ہیں۔ ارد وادب میں یادرفتگان کا خوبصورت عنوان اور وفیات کا بلیغ اشارہ اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں یاد ماضی عذاب بھی ہے اور کارثواب بھی۔ مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے ’’پرانے چراغ‘‘ کی معنی آفرینی اور ان کی ضوفشا نی کواسی بابرکت مقصد کے تحت اپنی فکر ونظر کا موضوع بنایا کہ یہ واضح ہو جائے کہ ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی۔ ’’پرانے چراغ‘‘ آج تک روشن ہیں اور دیدۂ ودل کو روشنی بخش رہے ہیں۔ فراق ؔنے اپنے ایک شعر میں اس منظر نامے کو قابل فخر قرار دیا ہے۔ رشید احمد صدیقی نے ’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘ کی تلاش میں اپنے جادونگار قلم سے ان کی خاکہ نگاری کا جوہر دکھایا تو تاریخ کے گمشدہ اوراق زندہ ہوگئے۔ جوش ملیحؔ آبادی اور مولانا ماہر القادری نے بھی یادوں کی قندیلیں روشن کرکے اپنے چہروں کو بھی منورکیا اور اپنے محسنین کا حق بھی ادا کیا۔ پاکستان میں مختار مسعود نے’’ آواز دوست ‘‘کی بزم سجائی تو ہندوستان میں ڈاکٹر نسیم انصاری نے ’’جواب دوست‘‘ لکھ کر محبتوں کا حق ادا کردیا ،کتنی شخصیتیں قلم کے سائے میں زندہ ہوگئیں۔ ابھی حال میں مشہور صحافی جناب حفیظ نعمانی نے ’’بجھے دیوں کی قطار‘‘ بنائی تو ایک خوبصورت عمارت وجود میںآگئی۔ میں نے رسم اجراء کے موقع پر دوران نظامت فی البدیہہ شعر کہا تھا     ؎
جلتے ہوئے چراغ تو سب کی نظر میں تھے
جب بجھ گئے تو کوئی شناسانہیں رہا
پاکستان میں سلیم احمد نے اپنے منفرد انداز میں کہا تھا      ؎
نامرادان محبت کو حقارت سے نہ دیکھو
یہ بڑے لوگ ہیں جینے کا ہنر جانتے ہیں
میں مبارک باد پیش کرتا ہوں، جناب امین الدین شجاع الدین صاحب نے بڑے لوگوں کے جینے کا ہنر ظاہر کرکے اپنی شرافت نفس کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ انہوںنے اس انتخاب میں شخصیتوں کے تعلق سے ایک بڑی اہم اور پھیلی ہوئی تاریخ کو محفوظ کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے، اس میں ان کے بڑے بھی ہیں، ہم عصر بھی اور ان کے چھوٹے بھی۔ ایسے بھی ہیں جو’’ شعلۂ مستعجل‘‘ ثابت ہوئے، جگنو کی طرح چمک کرروپوش ہوگئے لیکن تاریخ نے انہیں شب کی سلطنت میں دن کا سفیر قراردیا ۔ اقبال نے اس کو حسن قدیم کی پوشیدہ جھلک سے تعمبیر کیا ہے۔ امین الدین شجاع الدین صاحب نے اپنی صلابت فکر اور خداداد صلاحیتوں سے اس منظر نامہ کو نمایاں کردیا ہے۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء نے علم دین کی خدمت کے ساتھ زبان وادب کی آبیاری بھی کی ہے۔ علامہ شبلی نعمانی اور حضرت سید سلیمان ندوی نے اس میدان کا ر کو اپنی فکری بلاغت اور وسیع تصورات نظری سے گرم کیا اور صدیوں کی میراث علم وادب کے نگہبان ومحافظ اور ندوۃ العلماء کے معمار اعظم حضرت مولانا علی میاں نے اپنے قلم کی روحانیت سے جلابخشی اور اسے عروج سے ہمکنار کردیا۔ عربی زبان وادب کے تعلق سے عالم اسلام میں اس کی شہرت ہوئی اور اردو زبان وادب کے تعلق سے بھی جوگراں قدر اضافہ کیا گیا وہ ہمیشہ ناقابل فراموش رہے گا۔ امین الدین شجاع الدین صاحب اسی فکری خانوادے کے اہم فرد ہیں ۔
مدارس اسلامیہ میں یہ خدمت عام طور پر انجام دی گئی ہے اور اسی کے ذریعہ زبان اور لسانیات کا ایک بڑا ذخیرہ وجود میںآیا ہے۔ مدارس کے فارغین کی ایک بڑی تعداد ایسے ہو نہار باصلاحیت اور اہل قلم بالغ نظر محققین اورناقدین کی رہی ہے اور اب بھی ہے جنہوںنے اردو زبان وادب کو مالامال کیا ہے لیکن افسوس کہ ان کی تمام خدمات کو’’مولویانہ‘‘ قرار دے کر نظرانداز کردیا جاتا ہے یا انہیں اپنی صف سے الگ سمجھا جاتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک وبر صغیر کی یونیورسٹیوں میں قائم شعبہ اردو اپنے ذہن وفکر کی نئی ترتیب قائم کریں اور مدارس کے ’’مولویوں ‘‘ کی قیمتی تحریروں سے استفادہ کی روش عام کریں۔ اس سے ایک نئی اور خوشگوار فضا بنے گی اور اردو زبان وادب کی وسعت میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح کا فیصلہ رابطۂ ادب اسلامی میں بھی ہونا چاہئے۔ بلاتخصیص ادیبوں،شاعروں ،محققین اورناقدین کا انتخاب کرکے ان کی سنجیدہ فکری اور مثبت تحریروں کا بھی جائزہ لیا جائے تو صالح ادب کے تصورات کی ترویج واشاعت میں مفیدہوگا۔ دونوں میدانوں میں ایسے سرمست اورجیالے ملیں گے جو اپنی دنیا آپ پید ا کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔
امین الدین شجاع الدین ایک ایسے ہی سرمست اورجیالے کا نام ہے۔ لکھناان کا محبوب مشغلہ ہے۔ مجھے کبھی کبھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لکھتے لکھتے سوجاتے ہیں اور اٹھ کر پھر لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ عالم بیداری کی دیگر مصروفیات میں ان کا ذہن کسی نئے موضوع پر لکھتا رہتا ہے، وہ اپنی تحریر کو تاثیر اور اکسیر سے ہمکنار کرنے کی مخلصانہ کوشش میں دردمندی سے مصروف رہتے ہیں۔ پیش نظرمجموعہ میں شخصیتوں کا انتخاب اس کا روشن ثبوت ہے۔ اس فہرست میں اکثر نام ایسے ہیں جو مرے لئے بھی عقیدت واحترام کا مرکز رہے ہیں۔ مرے مربی وسرپرست بھی ،مرے کرم فرمابھی میرے عزیز رفیق بھی۔ میں خود ان کی یادوں میں کھوگیا اور گزرے ہوئے شام وسحر میری آنکھوں میں جھلملانے لگے۔ بشمبھر ناتھ پانڈے کا ذکر مجھے ماضی میں بہت دور تک لے گیا۔ امین الدین صاحب نے اپنے مضمون میں جس واقعہ کا ذکر کیا ہے اس کو میں نے پانڈے جی کی زبان سے سنا ہے۔ انہیں آبدیدہ اوردل برداشتہ دیکھا ہے۔ ان کی نم آنکھیں اور گلوگرفتہ آواز میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ ان کی یہ دونوں کیفیات آزاد ہندوستان کی جمہوری ودستوری اور سیکولر روایات کی امین تھیں۔ ان قدروں پر شب خون مارنے کا جو سلسلہ شروع ہوا اس کا درد بھی نمایا ں تھا اور ایک عام ہندو کلیان سنگھ کی شکل میں اپنی جان پر کھیل کر اور اپنے آشیانہ کو خاکستر ہوتے ہوئے دیکھنے کے بعد بھی احمد آباد کے فساد میں اپنے مسلمان پڑوسی کی حفاظت کا فریضہ انجام دینے والے شخص کا تعارف تاریکیوں میں روشنی کی علامت نظرآرہا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے سلسلے میں جلسہ تھا۔ بات بہت پرانی ہے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ صدارت فرمارہے تھے۔ وشوناتھ پرتا پ سنگھ وزیراعلیٰ کی حیثیت سے تشریف فرما تھے ۔ مرکزی وزیر جناب ضیاء الرحمن انصاری اور بشمبھر ناتھ پانڈے بھی ڈائس پررونق افروز تھے۔ مرادآباد کا فساد ہوچکا تھا۔ مولانا آزاد اکیڈمی لکھنؤکے زیر اہتمام اس جلسہ کا عنوان تھا’’مولانا آزاد اور سیکولرزم‘‘ مولانا کے یوم وفات کا موقع تھا۔ دل ٹوٹے ہوئے تھے۔ اکابرین محترم مایوسی کی حدتک فکر مند اور اورمضطرب تھے۔ میں نے اپنی نظامت کے تعارفی کلمات میں کہہ دیا کہ یہ مولانا آزاد اور سیکولرزم دونوں کا تعزیتی جلسہ ہے۔ ایک ہیجان نمایاں ہوا، جب میں نے اعزاز واحترام کے ساتھ بشمبھر ناتھ پانڈے کو مدعو کیا تو اس جملہ کو دہراتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جب تک اس سرزمین میں بشمبھر ناتھ پانڈے جیسی شخصیتیں موجود ہیں اس وقت تک سیکولرزم بھی زندہ رہے گا اور اس کی آبرو بچانے والے بھی وجود میںآتے رہیں گے۔ انہوںنے مضمون سے پہلے میری گفتگو پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اور اپنا مضمون پڑھ کر خود بھی روئے اور مجمع کوبھی رلادیا۔ مولانا علی میاں نے اپنی صدارتی تقریر کو اپنی جرأت ایمانی، وسعت نظر، رقت قلب اورجذبۂ حب الوطنی سے یادگار بنادیا تھا۔ ایسے نازک مواقع مولانا کی زندگی میں بہت آئے ہیں۔ ملک وبیرون ملک میں بار بار ایسی صورت حال پیش آئی جب حلقۂ یاراں میں بریشم کی نرمی رکھنے والی شخصیت کو ملک و ملت کی محبت میں جلال آیا اور رزم حق وباطل میں فکرونظر اورزبان وبیان کی فولادی قوت کا مظاہرہ ہوا۔
یہ موقع بھی ایسا ہی تھا جب مولانا نے فرمایا تھا کہ میں نے اپنے باہر کے سفرموخر کردئے۔ مجھ سے پوچھا جائے گا کہ ہندوستان میں کیا ہورہا ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ بات ہے۔ میں جھوٹ نہیں بول سکتا اور اپنے ملک کی یہ تصویر بھی پیش کرنا نہیں چاہتا۔ یہ کہتے کہتے مولانا کو جیسے واقعی جلال آگیا اور وزیراعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’مجھے باہر جانے کے قابل تو رکھو‘‘۔ وزیراعلیٰ نے اسی وقت اپنی شرافت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ مولانا آپ کا جوتا اور میرا سر‘‘امین الدین شجاع الدین نے مجھے کہاں سے کہاںپہنچا دیا۔ ان کے مضمون کے تعلق سے میں نے اس واقعہ کا دکر ضروری سمجھا۔
کاش دور جدید کی سیاست کو بشمبھر ناتھ پانڈے کا خلوص اور ہمارے حضرت مولانا علی میاں کی جرأت واستقامت ،غیرت وحمیت اور بے لوثی میسر آئے تو ملک وملت کی نئی شیرازہ بندی آسان ہوسکتی ہے ،ملت اسلامیہ کے درد مندوں کو صراط مستقیم کی دولت مل سکتی ہے۔
امین الدین شجاع الدین صاحب کا شکرگزار ہوں کہ انہوںنے مجھے اس قابل سمجھا اورمبارک باد پیش کرتا ہوں کہ تحریر کی شگفتگی کے ساتھ ان کا یہ اہم قلمی اورعلمی تحفہ ہمارے سامنے ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے