مولانا امین الدین شجاع الدین. منورسلطان ندوی



تمہاری خوبیاں باقی،تمہاری نیکیاں باقی
                                                                                              
مولاناامین الدین شجاع الدین صاحب بھی اللہ کوپیارے ہوگئے،انہیں پہلی بار رحمۃ اللہ علیہ لکھتے کلیجہ منہ کو آرہاہے،دل کواب بھی یقین نہیں ہوتا کہ وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں،مگردل کے نہ ماننے سے کیا ہوگا،ہونے والی بات پیش آچکی،دوسروں کا ماتم کرنے والا آج خودمستحق ماتم ہے،ندوہ کے استاتذہ ہوں یا کوئی ملی شخصیت،انتقال کے بعدسب سے پہلے یہی خیال آتا کہ دیکھیں مولانا امین شجاع صاحب کیالکھتے ہیں،ڈالی گنج قبرستان کو’’گنج شہیداں‘‘ کانام دینے والے اس جیتے جاگتے قلمکارکے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں ہوگا کہ وہ بھی اسی خاک کا پیوند ہوں گے،مگرقدرت کے فیصلے کوکون ٹال سکتاہے!
امراض ہمیشہ امین الدین صاحب کے رفیق رہے،بلڈپریشر اورشوگرسے پرانی دوستی تھی،جس میں کبھی زیادتی ہوتی اورکبھی نارمل رہتے،کئی بارمرض نے شدت اختیارکی،مگرجلدہی افاقہ ہوگیا،اس بارمرض نے زیادہ شدت اختیارکی،پاسپٹل لے جائے گئے تومعلوم ہواکہ پرانے ا مراض کے ساتھ ٹائی فائیڈ بھی ہے،بخار ایک سودس ڈگری تھا،جب آپ کے ہاسپیٹل میں داخل ہونے کی خبرملی تودل دھک سے رہ گیا،پھرجب ہاسپٹل پہونچے آپ کودیکھنے تویقین سا ہوگیا کہ شاید اب چل چلائو کا وقت آگیاہے،زندگی میں خاموشی اورگوشہ نشینی کے عادی موت کے وقت بھی بندوں سے بے نیاز ،مکمل خاموش تھے،نہ تکلیف کا اظہار،نہ آہ وبکا،آنکھیں کھلیں تھیں،مگربے نور،کسی کی شناخت سے عاری،اسپتال میں داخل ہونے کے دوسرے دن آواز بھی بند ہوگئی،شروع میں سنتے اورکچھ کچھ سمجھتے بھی تھی،مگریہ احساس بھی ختم ہوگیا،ڈاکٹراپنی سی کوشش کرتے رہے،تیمارداروںجن میں ان کے چندمخلص تلامذہ شامل تھے،نے اپنے بس کے مطابق کوئی کسر نہ چھوڑی،مگر دوبارہ زبان نہیں کھل سکی،آپ کی آخری آواز یہی سنی گئی ’’آپ لوگ یسین پڑھیے‘‘
مولانا کے انتقال سے ادب وصحافت کے حوالے سے جوخسارہ ہوا وہ ہواہی،سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ملی مسائل پرآزادی سے سوچنے والا ذہن اوربے باکی سے لکھنے والا قلم ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا،مولانا ملی مسائل پرجس گہرائی سے سوچتے اورجس انداز سے لکھتے یہ آپ ہی کا حصہ تھا،آپ کے دل میں ملت کا بے پناہ دردتھا،آپ ان مسائل کا حقیقی اوردیرپاحل چاہتے تھے،اس کے لئے آپ کا دل ہمیشہ بے چین اورقلم ملت کی بے حسی پرغم کے آنسو بہاتارہااورجودل پرگزری ،رقم کرتارہا۔
ملی مسائل کے صحیح شعوراورادراک میں آپ کے وطن کا بھی دخل تھا،آپ بھیونڈی کے رہنے والے تھے،جہاں آنکھیں کھولتے ہی فسادکا نظارہ دیکھا،آپ کے ذہن نے اس کا بڑااثرقبول کیا،پھرملی قائدین اورمسلم سیاسی رہنمائوں سے آپ کے بڑے قریبی تعلقات رہے،جناب ابراہیم سلیمان سیٹھ،جناب غلام محمودبنات والاسے گہرے مراسم تھے،مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ،ڈاکٹرکلب صادق صاحب اورمولانا محمد ولی رحمانی سے ہمیشہ قربت رہی،ان حضرات سے تعلق نے بھی آپ کے ملی شعورکوپختہ کیا،جس کی وجہ سے ملی مسائل آپ کی زندگی کا جلی عنوان بن گئے۔
آپ کی فکراورسوچ میں بڑی وسعت تھی،آپ کا ذہن حلقہ واریت اورضرورت سے زائدتحفظات کوقبول کرنے سے اباء کرتا تھا ، ملی مسائل میں مصالح کی بیساکھی کوبے حد ناپسندکرتے تھے،اس موضوع پرآپ کاتیرونشترمشہورتھا،آپ جس بات کوصحیح اورسچ سمجھتے اس کے اظہارمیں جھجھک نہیں محسوس کرتے،البتہ ایسی باتو ں کواپنے خوبصورت اورشگفتہ اسلوب کے کیپسول میں اس طرح پیش کرتے کہ پڑھنے والا زبان کی کاٹ کوخوشگواری کے ساتھ گوارہ کرلیتا۔
فلسفیوں ،ادیبوںاورشاعروں کے بارے میں یہ جومشہورہے کہ ان کی عملی زندگی بڑی منتشراورپراگندہ ہوتی ہے ،مولانا کی زندگی میں اس کا عکس صاف نظرآتاتھا،آپ کی تحریروں میں جتنی شگفتگی اوردل آویزی تھی عملی زندگی اتناہی ان چیزوں سے یکسرخالی تھی،شاید آپ کاذہن عملی زندگی میں نظم وانضباط کا زیادہ قائل نہ تھا یا وہ ان باتوں کوزیادہ حیثیت نہیں دیتے تھے،اس مزاج کی وجہ سے آپ کے احباب کا دائرہ بھی بہت سمٹاہوا تھا،اورجوں جوں عمر بڑھتی گئی یہ دائرہ چھوٹا سے چھوٹا ہوتا گیا۔
ادھرچندسالوں سے آپ کی زندگی میں بڑی تبدیلی آئی،صاف محسوس ہوتا تھا کہ آپ کی طبیعت بجھتی جارہی ہے،قرطاس وقلم کے اس بادشاہ کے ذہن میں نہ معلوم کیسے مایوسی درآئی،ملکی وملت کے مسائل پربے باک لکھنے والا آدمی ایک کمرہ میں محصورہوتاگیا،زندگی کی امنگ ختم سی ہونے لگی،نہ عزم،نہ حوصلہ، نہ کسی مسئلہ سے ذہن میں کوئی خاص ہلچل،اس درمیان بیسیوں واقعات ایسے پیش آئے جن کی سنگینی اورہولناکی نے پوری ملت کوجھنجھوڑ کررکھ دیا،مگریہ مسائل بھی آپ کے قلم کوجنبش نہ دے سکے،آپ کے فکروخیال میں کوئی حرکت نہیں ہوئی،اپنے نوک قلم سے گل بوٹے کھلانے والے اورہنگامہ برپاکردینے والے ہاتھ گویا قلم کوبھول ہی گئے،اس طرح خاموشی ،گوشہ نشینی آپ کا معمول بنتا چلاگیا۔
ایسا کیوں کر ہوا؟یہ ایک اہم سوال ہے؟جس کے جواب مختلف ہوسکتے ہیں،میرے ناقص خیال میں منجملہ اسباب کے ایک سبب آپ کی تجردانہ زندگی بھی تھی، ہم خردوں کو اس موضوع پرکبھی بات کرنے کی ہمت تونہیں ہوئی ،مگرآپ کی زندگی جس انتشاروبے ترتیبی کانمونہ تھی اس میں ازدواجی زندگی کا نہ ہوناصاف ظاہرہوتاتھا،پھر شوگراوربلڈپریشرنے رہی سہی کسرپوری کردی،ستم بالائے ستم!!آپ مستقل علاج کراتے رہے،بلکہ شایدکھانے سے زیادہ مقدارمیں گولیاں کھاتے ہوں،مگرپتہ نہیں مرض ضدی تھا یا علاج ناقص کہ مرض ختم ہونے کانام ہی نہیں لیتاتھا،ہم لوگوں نے متعددبارکسی اچھے ڈاکٹرسے رجوع کی گزارش کی،اپنی حدتک اصراربھی کیا،آپ ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ دوالے رہے ہیں، افاقہ ہے،مگرکبھی کوئی خاص فائدہ نظرنہیں آیا،ادھرعرصہ سے یہی حال تھا کہ اکثراوقات غنودگی کی کیفیت رہتی،صبح سے دوپہرتک کچھ فریش رہتے،اس درمیان چندگھنٹے پڑھاتے،اس کے علاوہ تمام اوقات سوتے ہوئے ملتے،اس حالت میں نہ معلوم کھانااورناشتہ وغیرہ کا کیانظم ہوتاہوگا،البتہ دن رات میں متعددباربغیرشکرکی دوپیالی چائے ایک ساتھ ضرورلیتے،موت کاوقت تو مقرر ہے ،اس سے کس کورستگاری ہے،لیکن اگرعلاج پرصحیح توجہ دی جاتی توشایدیہ صورت حال نہ ہوتی،مگرجب زندگی ہی تنہاہوتوغمخواری کون کرے۔
زمانہ طالب علمی سے ہی راقم مولانا کی تحریروں سے بڑا متاثررہاہے،ندوۃ العلماء میں آنے کے بعدروز وشب کی ملاقات نے قربت کی سبیل پیداکی ، اوراس طرح تعلق بڑھنے لگا،جب آپ تعمیرحیات کے رئیس التحریربنائے گئے توبعض دیگراحباب کی طرح مجھے بھی لکھنے پرمہمیز کیا،میں نے آپ کے مشورہ سے چندمضامین لکھے بھی،جوتعمیرحیات میں شائع ہوئے،اسی زمانہ میں ایک مضمون عمرانہ کیس پرلکھااورآپ کودکھایا،آپ نے پسندکیاالبتہ یہ کہہ کرواپس کردیا کہ اب یہ موضوع ٹھنڈاہورہاہے ،اس کومزیدگرم نہ کیاجائے۔
مولانا بانگ درا،بانگ حرائ،ماہنامہ ہدایت،ندائے ملت اورندوۃ العلماء کے ترجمان تعمیر حیات جیسے موقرومعروف رسائل کی ادارت سے وابستہ رہے،آپ اسے اپنا کوئی کمال نہیں سمجھتے تھے،آپ نے اپنی ایک کتاب کے مقدمہ میں صاف لفظوں میں اعتراف کیا ہے کہ اگرمجھے یہ زریں مواقع میسرنہیں آتے تومیں کسی گوشہ گمنامی میں پڑاہوتا،خاص کرتعمیرحیات کی ادارت کووہ اپنے لئے ایک اعزاز خیال کرتے تھے،مختلف امراض کی وجہ سے جب تعمیرحیات کومرتب کرنا مشکل ہوگیاتوآپ نے اس ذمہ داری کے معذرت کرلی،البتہ اس کے بعدبھی دارالعلوم سے وابستگی باقی رہی،اور درس کی شکل میں آ پ کے علم وادب سے دارالعلوم کے طلبہ فیضاب ہوتے رہے۔
چندسال پہلے خیال آیا کہ مولانا کے مضامین جمع کو جمع کرکے شائع کرناچاہیے ،ورنہ یہ سرمایہ رسائل کی دبیز فائلوں میں دب کر رہ جائے گا، مولاناسے اس سلسلہ میں گفتگوکی اورپھرکام شروع ہوا،پہلامجموعہ’’ نقوش فکروعمل‘‘ کے نام سے شائع ہوا،یہ نام آپ کے ممدوح پروفیسروصی صدیقی صاحب نے طے کیا تھا ، اس کے بعدندوۃ العلماء کے اساتذہ اورمختلف ملی شخصیات پرآپ نے جومضامین لکھے تھے،انہیں جمع کیا گیا،جس کا نام آپ نے’’ ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم ‘‘تجویزکیا،یہ کتاب بہت پسندکی گئی،اس کے بعدآپ کے انٹرویوز کوجمع کرناشروع کیا،ان کتابوں کی ترتیب کے درمیان میری خواہش ہوتی کہ مولانا کتاب کاآخری پروف ضروردیکھ لیں،تاکہ جہاں جہاں ترمیم واضافہ کرناچاہیں کرلیں،نیز میں بھی جہاں مناسب سمجھتا نشان لگالیتااورپھرمولانا سے ان جگہوں پرمناسب ترمیم کراتا،یہ عمل مشکل ضرورتھا مگرمولانا نے دلچسپی اورذمہ داری کے ساتھ اس کام کوانجام دیا،اس کی وجہ سے ہرکتاب میں خاصی تاخیرہوئی مگراس سے آپ کواپنی تحریروں پر نظرثانی کا موقع مل گیا۔
انٹرویوز کامجموعہ جو’’روبرو‘‘کے نام سے ہے،مکمل ہوگیا،آپ نے آخری پروف بھی دیکھ لیا،میری خواہش پرچندنئے انٹرویوز بھی لئے،پھربڑی مشکل سے اس کا ابتدائیہ ’’کچھ اپنی زبان میں‘‘لکھنے کے لئے تیارہوئے،ترتیب کے سارے مراحل گزرگئے،مقدمات بھی آگئے اورآپ نے مقدمات کے ساتھ کتاب کی آخری شکل بھی دیکھ لی ، یہاں تک کہ ٹائٹل بننے بھی چلاگیا،اندازہ تھا کہ امروز وفردامیں ہم لوگ مولانا کے ساتھ چل کرٹائٹل فائنل کردیں گے،اس درمیان کتاب کی رسم اجراء کی بات ہونے لگی،مولانا کی خواہش تھی کہ اس کتاب کی رسم اجر اء اچھے پیمانہ پرکرائیں گے،اورلکھنوکے جن اہل دانش واہل قلم سے تعلق ہے ان سب کوبلائیں گے ، مگرقدرت کوتوکچھ اورہی منظورتھا،ادھرطباعت میں کچھ تاخیرہوئی،ادھرآپ بیمارہوئے،بیماری تومعمول کا حصہ تھی،مگرجب ہاسپیٹل میں داخل ہونے اورحالت تشویشناک ہونے کی خبرملی تودوڑے ہوئے پاسپٹل پہونچے ،وہاں آپ کی جوشکل دیکھی تواسی وقت دل میں کھٹکالگنے لگا،بالآخرتیسرے دن وہ افسوسناک خبرملی جس کوسننے کے لئے نہ دل تیارتھا نہ ذہن،اوراس طرح طباعت سے متعلق یہ بات ہمیشہ کے لئے دل کا کانٹابن گیاکہ کاش ہم لوگ جلدی کرتے توآپ کی زندگی میں ہی یہ کتاب چھپ کرآجاتی،آپ ایک نظردیکھ لیتے۔
ہرشخص کی زندگی کے دوپہلوہوتے ہیں،کچھ خوبیاں ہوتی ہیں،اورکچھ خامیاں،مولانا کی شخصیت کے بعض پہلوایسے ہوں گے جوعموما پسندنہیں کئے جاتے ہوں ، مگراس کے پہلوبہ پہلوبہت سی خوبیاں بھی تھی،بلکہ بعض خوبیاں توایسی بھی تھیںجوکم لوگوں میں پائی جاتی ہیں،آپ ایسی صلاحیتوں کے بھی مالک تھے کہ جن کا ادنی حصہ پانے والابھی باکمال او رزمانہ کا ہنرمندسمجھاجاتاہے،سچی بات یہ ہے کہ آپ ایک فقیرمنش ،دورویش صفت اوربے ضررقسم کے انسان تھے ،آپ کے جانے کا غم تنہاندوہ اورابنائے ندوہ کا غم نہیں،یہ پوری ملت کا غم ہے،آپ کے جانے سے ملت خاموش ہوگئی،ندوہ نے ایک فردنہیں ملت کا مجاہدکھودیا،علم وادب کا ایک شمع بجھی اوربزم سخن کوبے نورکرگئی    ؎
پھراس کے بعدچراغوں میں روشنی نہ رہی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے