مولاناامین الدین شجاع الدین۔ اپنی یادوں کی زبانی


            مضمون نگاری کے لئے میں نے باقاعدہ کسی کے سامنے زانوے تلمذتہ نہیں کیا، البتہ ہمارے یہاں نور،غنچہ، دعوت،نشیمن،ھما اور صدق جدید جیسے رسائل آیاکرتے تھے جو مطالعہ میں رہتے۔ اسکول میں اردو مضمون نویسی کے تحت میں جو مضامین لکھا کرتا عام طور سے اس پر استاذ شاباش یا بہت خوب یا خوب ریمارکس دیا کرتے تھے ،درس گاہ اسلامی کے دارالمطالعہ جانا ہوتا،جہاں بچوں کے ادب سے متعلق بہت ساری کتابیں ہوتیں، جو زیر مطالعہ رہتیں، مجھے یاد ہے کہ جب میں ساتویں جماعت میں تھا تو میرا پہلا مضمون گلاب کے عنوا ن سے روزنامہ انقلاب کے اتوار کے ضمیمہ میں شائع ہوا، اس کے بعد دوسرا مضمون مائل خیرآبادی صاحب کے رسالہ حجاب میں شائع ہوا، آٹھویں جماعت میں پہنچا تو دیکھا کہ ہمارے اسکول (رئیس ہائی اسکول بھیونڈی) سے ایک سالانہ میگزین شمع ادب کے نام سے شائع ہوتا ہے، ہمارے یہاں ہما آیا کرتا تھا اس میں میرا محبوب کالم انٹرویو ہوتا تھا ،انٹرویو لینے والے عبدالوحید صدیقی تھے، میں اس کالم کو ضرور پڑھتا تو یوں ہوا کہ شمع ادب کے لئے میں نے کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے نائب صدر جناب غلام محمد مومن سے ایک انٹرویو لیا جو شمع ادب میں شائع ہوا۔ یہ میرے ذریعہ لیا گیا پہلا انٹرویو تھا اور رسالہ شائع ہوکر آیا تو میں نے دیکھا کہ شمع ادب کی مجلس ادارت میں طلبہ کی نمائندگی میرا نام کررہا تھا،یہ سب اللہ کا فضل تھا اور ہمارے مہربان ومشفق اساتذہ کا فیض تھا۔
            جب میں نویں جماعت میں پہنچا تو ہمارے اردو کے استاد جناب ابوسفیان صاحب نے حکم دیا کہ ایک قلمی رسالہ تعمیر نو کے نام سے نکالو، چنانچہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ اس میں مصروف ہوگیا اور دوتین مہینوں میںہم تعمیر نو کو منظر عام پر لے آئے، میں مطالعہ کرتا رہا دسویں اور گیارہویں جماعت میں اسکول کے مضامین پرزیادہ توجہ رہی،اس دوران میںدعوت اور نشیمن کا ضرور مطالعہ کرتا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملی مسائل پر سوچنے کی عادت پڑی، اسی دوران 1970ء میں بھیونڈی میں بھیانک ہندومسلم فساد ہوگیا جس نے جھنجھوڑ کررکھ دیا ،متاثرین سے ملنے کئی اہم شخصیتیں بھیونڈی آئیں ،خود وزیراعظم ہند اندراگاندھی بھی تشریف لائیں ،لیکن تین شخصیتوں کا آنااور ان سے ہجوم میں ملنا مجھے اب تک یاد ہے ایک یونس سلیم صاحب،دوسرے قائد ملت مولانا محمداسمعیل صاحب صدر انڈین یونین مسلم لیگ اور تیسرے غلام محمود بنات والا صاحب، ان ملاقاتوں نے ایک آگ سی لگادی، بنات والا صاحب سے میری خط وکتابت اور پھرقرب انہی دنوں کی بات ہے ۔ کالج کا پہلا سال تھا ،وہاں اردو شعبہ کے تحت بزم اردو ایک انجمن تھی جس کے پروگراموں کے تحت طلباء جمع ہوتے، کسی بڑی شخصیت کو بلایا جاتا اور اس کا کسی عنوان پر لکچر ہوتا ۔ میںاس کا سکریٹری بنادیا گیا، اس کے تحت مختلف شخصیتوں کو کالج میں بزم اردو کے تحت آنے کی دعوت دی گئی، مجھے یاد ہے کہ بزم اردو کے عنوان سے میں سب سے پہلے کرشن چندر سے ملا، ان کے بعد مہندر ناتھ، خواجہ احمد عباس،عصمت چغتائی کے یہاں جانا ہوا۔ ان شخصیتوں سے ملاقاتیں ایک مستقل عنوان ہے۔ ہائی اسکول کے زمانہ میں مادرعلمی رئیس ہائی اسکول بھیونڈی کے سالانہ تقریری مقابلوں میں کسی بڑی شخصیت کو دعوت دی جاتی تھی، اس طرح ان کو سننے کا موقع نصیب ہو جاتاتھا، کالج کے زمانہ میںبھی مضامین کا سلسلہ جاری رہا، اس کے سالانہ میگزین میں میرا ایک مضمون جنگ آزادی میں اردو کا حصہ کے عنوان سے شائع ہوا۔
            میرے اساتذہ کی محبت اور ہمت افزائی ہمیشہ مرے لئے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی رہی، ان میںحافظ سعید صاحب ،جناب عبدالجبار ہانی، جناب ابوسفیان صاحب، جناب شمس الدین ویلنگسکر اور پروفیسر یونس اگاسکر خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ تحریری سلسلہ کے ساتھ تقریری مقابوں میں بھی حصہ لینے کا ایک مستقل باب ہے، طوالت کے خوف سے اس کا ذکر کرنا مناسب نہیں ۔ کالج کے زمانہ سے ہی میرے مضامین سہ روزہ دعوت میںشائع ہونے لگے جو عموماً ملی مسائل پر ہوا کرتے، کالج سے میرا ندوہ آنا ہوا اور یہاں مجھے جو مواقع ملے ان کا میں تذکر ہ کرچکا ہوں۔ مضامین کے علاوہ میرے خطوط اوران کے جوابات کا بھی ایک سلسلہ تھا جو افسوس کہ میں انہیں محفوظ نہیں کرسکا ورنہ و ہ بھی خاصے کی چیز ہوتے، اور ملت کے بہت سے مسائل کو سمجھنے میں اس سے مدد ملتی۔
{ماخوذ:ملنے کے نہیں نایاب ہیں{

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے