امین الدین شجاع الدین ادب کافطری ذوق رکھتے تھے.پروفیسرمحسن عثمانی ندوی


شہاب نامہ‘ کے مصنف قدرت اللہ شہاب نے اپنی اس خود نوشت میں ایک جگہ یہ ذکر کیا ہے کہ ہائی اسکول کی تعلیم کے ز مانے میں انہوںنے اردو ادب کی مشہور ومتداول کتابیں نہ صرف پڑھ لی تھیں بلکہ ایک حد تک ادبی نوعیت کا اعتکاف کرکے ان کتابوں کی تعبیرات اور خوبصورت جملوں کو زبانی یاد کرلیا تھا، اور جب اسکول کی سالانہ تقریب میں مجھے تقریر کرنے کا موقع ملا تو اردو ادب کی کتابوں کے وہ جملے فراٹے بھرتے ہوئے زبان سے نکل رہے تھے۔
شعروادب کا ذوق کسبی نہیں بلکہ وہبی ہوتا ہے اگر قدرت کی طرف سے یہ ذوق ودیعت نہیں کیا گیا ہے تو انسان چاہے جتنی محنت کرلے اور پورے کتب خانوں کو اپنی یادداشت کے خزانے میں اتار لے تو بھی شاعر و ادیب نہیں بن سکتا، انسان اپنے مطالعہ اور اپنی محنت سے بہت بڑا عالم اور اسکالر تو بن سکتا ہے، شاعر اور ادیب بننے کے لئے توفیق خداوندی کی ضرورت ہوتی ہے اور اگریہ نعمت خداداد کسی انسان کو مل جاتی ہے تو پھر انسان اپنی محنت اور مطالعہ سے اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکتا ہے۔
امین الدین شجاع الدین ادب کا فطری ذوق رکھتے ہیں اور جب وہ اپنے وطن میںاسکول کے طالب علم تھے اسی وقت سے بچوں کے رسالے نور اور غنچہ پڑھا کرتے تھے اور انہوںنے تعمیر نو کے نام سے ایک قلمی رسالہ بھی نکالا تھا ۔بچوں کا ادب اگر چہ بچوں کا ادب ہوتا ہے لیکن وہ انسان کو مستقبل کا ادیب، اچھا نثر نگار اور انشاء پرداز بنادیتا ہے عربی زبان میں کامل گیلانی کی کتابیں اگرچہ ادب الاطفال کے زمرے میں آتی ہیں لیکن ان کتابوں نے سیکڑوں اشخاص کو عربی زبان کا ادیب اور نثر نگار بنادیا ہے۔ اردو میں سب سے اعلیٰ و ارفع ادب جو بچوں کے لئے تیار کیا گیا ہے وہ اسماعیل میرٹھی کی ریڈرہیں، ان کتابوں نے بہت سے لوگوںکو خوبصورت اردو لکھنے کا سلیقہ سکھلایا۔ نہ صرف نثر ہی بلکہ شاعری میں بھی اسماعیل میرٹھی کا کوئی جواب نہیں۔ کون انکی یہ نظم فراموش کرسکتا ہے  ؎
رب کا شکر ادا کربھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
امین الدین شجاع الدین ان اچھے ادیبوں اور صحافیوںمیں ہیں جنہیں قدرت نے ادب کا ذوق عطا کیا اور پھر انہوںنے اس ذوق کو اپنے مطالعہ سے پروان چڑھایا۔ مائل خیرآبادی اور شفیع الدین نیر کی نظمیں بچپن میں ان کے حافظے کا حصہ بنیں۔ غنچہ اور نور کے نثری مضامین کو وہ ذوق وشوق کے ساتھ پڑھتے رہے اور لکھنے والوں کی تعبیرات خاموشی کے ساتھ انکے تحت الشعور میں محفوظ ہوتی رہیں اور پھر جب عمر کا آفتاب کچھ ذرا اور بلند ہوا تو پھر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی شاہ کار کتاب رسالہ دینیا ت کو انہوںنے حرفاً حرفاً اور سبقاً سبقاً بھی پڑھا ، رسالہ دینیا ت کی اور جو خصوصیات بھی ہوں لیکن وہ خوبصورت اور سلیس اور مؤثر اسلوب کی نمائندہ کتاب بھی ہے اور جب وہ ہائی اسکول کے بعد کالج میں آئے تو انہیں تفصیل کے ساتھ اردو ادب اور اسلامی کتابوں کے مطالعہ کا موقع ملا، انہوںنے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کی تصنیفات بھی ذوق و شوق کے ساتھ پڑھی۔ اور ان کتابوںکی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بیک وقت انسان کی روحانی علمی، فکری اور ادبی حاسہ کو غذا پہنچاتی ہے مطالعہ کی وسعت سے امین الدین شجاع الدین کا قلم ابر نوبہار اور عطر مشک بار بن گیا۔ ان کے مضامین مختلف رسالوں اوراخبارات میں چھپتے رہے اور انکے فکر سلیم اور حسن انشاء کو دیکھ کر مختلف لوگوں نے ان کو اپنے رسالوں کی ادارت سنبھالنے کی دعوت دی، سب سے پہلے مولانا محمدفضل الرحیم مجددی نے انکو اپنے جامعۃ الہدایہ کے میگزین ماہنامہ ہدایت کی ادارت کے لئے بلایا انہوںنے یہ دعوت قبول کی۔اور ماہنامہ ہدایت کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ وہ معروف عالم اور شعلہ بار مقرر مولانا سید سلمان حسینی ندوی سے بھی قریب تھے اور انکے ساتھ مراسلت کا تعلق بہت زمانے سے قائم تھا۔ مولانا کے اصرار پر انہوںنے بانگ درا کا ادارتی منصب قبول کیا اور اس میگزین کے لئے لکھتے رہے۔ چمن میں کوئی کلی کھلتی ہے تو اس کی خوشبو دور دور تک مشام جاں کو معطر کردیتی ہے، امین الدین شجاع الدین کی پراثر اور دل آفریں، پرسلیقہ تحریر نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا۔ ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم مولانا عبداللہ عباس ندوی نے ان کو ’’تعمیرحیات‘‘ کی ادارت سنبھالنے کا حکم دیا وہ ندوہ میں انگریزی زبان کے استاد بھی تھے معتمد تعلیم کے حکم اور ایماء سے وہ تعمیر حیات کے مدیر خوش تحریر بن گئے ۔اور انکے زمانے میں ’’تعمیرحیات‘‘ زیادہ بہتر اور معیار کے لحاظ سے بلند تر ہوگیا اور اس کے مضامین ملک کے علمی اور دینی حلقوںمیں پسند کئے جانے لگے۔
امین الدین شجاع الدین کے چھوٹے بھائی خلیل الدین شجاع الدین جو بہت اچھے طبیب ہیں مکہ کے حرم شریف میں سرکاری کلینک میں کام کرتے ہیں۔ ان کو اللہ کی طرف سے حرم میں کا م کرنے کی جو نعمت عظمیٰ ملی ہوئی ہے اسکا کیا کوئی مقابلہ کرسکتا ہے۔  مجھے ان سے بھی نیاز حاصل ہے اور بار بار حرم شریف میں ان سے ملاقات کا موقع ملا ہے۔ اور وہ کئی بار مکہ معظمہ میں ہمارے چھوٹے بھائی احسن عثمانی صاحب کے گھر پر ہم سے ملنے آچکے ہیں، اردو زبان کی حالیہ تاریخ میں کئی بہت اچھے طبیب ایسے ہوتے ہیں جو اردو کے ادیب و شاعر بھی ہیں اسی فہرست میںڈاکٹر خلیل الدین کا بھی نام آتا ہے وہ مکہ میں بیٹھ کر ہندوستان کے اردو کے معیاری اور معتبر رسالوںمیں ایسے مضامین لکھتے ہیں جو پسند کئے جاتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قلم کی دولت ونعمت امین الدین شجاع الدین کے خاندان کو بڑی فیاضی کے ساتھ عطا کی گئی ہے۔
یہ مجموعہ مضامین’’ نقوش فکروعمل‘‘جو آپ کے ہاتھ میں ہے ندوۃ العلماء کے فاضل نوجوان محمد ارشد دلکش ندوی کا جمع کردہ اور انتخاب ہے ، یہ وہ مضامین ہیں جو امین الدین کے قلم سے نکلے اور علمی اور فکری حلقوں میں بہت پسند کئے گئے۔
کسی اچھے صاحب قلم کے مضامین کا انتخاب مشک وگلاب سے زیادہ بہتر ہوتا ہے اس لئے کہ ان مضامین کی خوشبوفکر کو منور اور خیال کو معطر کرتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ مضامین ماہ و سال کی زنجیروں سے آزاد رہیں گے اورا ن کو بقائے دوام کی نعمت حاصل ہوگی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے