دارالعلوم ندوۃ العلماء میں دوروزہ علمی،فکری وتربیتی سیمینار

دارالعلوم ندوۃ العلماء میں دوروزہ علمی،فکری وتربیتی سیمینار
فقہی اختلاف کومخالفت کاسبب نہ بنایاجائے!
سیمینارسے ممتازارباب علم وفقہ کے رہنما خطابات 
رپورٹ:مولاناجاویداخترندوی
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں ملحقہ مدارس کے اساتذہ ، علیادرجات کے طلبہ اورنوجوانوں کی علمی ، فکری اورثقافتی تربیت کی غرض سے مختلف کلیات کی طرف سے ہرسال سیمینارکے طرز پر ایک علمی،ثقافتی اور تربیتی پروگرام ہواکرتاہے،جس میں ملک کے ممتاز اہل علم وفضل اوراصحاب قلم کے مقالات پیش ہوتے ہیں، اورمحاضرات بھی ہوتے ہیں،ملحقہ مدارس کے اساتذہ ان ہدایات وخطابات کی روشنی میں زاد سفر لے کر اپنے اپنے مدرسوں میں طلبہ کی علمی وثقافتی تربیت کرتے ہیں،اسی طرح کا علمی ،دعوتی اور تربیتی پروگرام سال گذشتہ مختلف مرکزی مدارس میں بھی ’’شعبۂ ملحقہ مدارس ،دارالعلوم ندوۃ العلماء،لکھنؤ ‘‘کے زیر اہتمام ہوا تھا ، ان شاء اللہ امسال بھی اس کا انعقادکیاجائے گا۔
سال رواں میں حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی دامت برکاتہم ناظم ندوۃ العلماء کی سرپرستی میں دوروزہ فقہی سیمینار بعنوان: ’’ائمہ اربعہ کی خدمات اور عصرحاضرکے مسائل کے حل میں ان کی آراء اورمنہج استنباط کی اہمیت‘‘ کلےۃ الشریعہ واصول الدین کے زیر اہتمام منعقدکیاگیا،جس میں ملک بھر سے سو سے زائد مندوبین ، دارالعلوم کے اساتذہ، درجات تخصص (تفسیر،حدیث،فقہ اور دعوہ)کے طلبہ نے شرکت کی اور بھرپورفائدہ اٹھایا۔ 
۲۵؍نومبر،افتتاحی نشست
’’مجتہدین کے درمیان اختلاف رائے در اصل علم وتحقیق کی بنیادپرہے،نفس کی بنیادپرنہیں ہے،ان حضرات نے کتاب وسنت کی روشنی میں جو کچھ صحیح سمجھا، انہیں امت کے سامنے پیش کر دیا، اس معاملہ میں وہ ہر طرح مخلص تھے،اس لیے انہیں کسی بات پرموردالزام ٹھہرانا بڑی بے ادبی وگستاخی کی بات ہے۔‘‘
ان خیالات کااظہارناظم ندوۃ العلماء وصدر آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ نے سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کیا،جو دارالعلوم کے پرشکوہ عباسیہ ہال میں ’’ائمہ اربعہ کی خدمات اورعصرحاضرکے مسائل کے حل میں ان کی آراء اورمنہج استنباط کی اہمیت‘‘کے موضوع پر بتاریخ یکم و۲؍صفرالمظفر۱۴۳۶ ؁ھ مطابق ۲۵، ۲۶؍ نومبر۲۰۱۴ء ؁ بروزمنگل،بدھ منعقد ہوا ۔
حضرت والانے مزید فرمایاکہ:’’اختلاف اور مخالفت میں فرق ہوتا ہے، اختلاف تودوبھائیوں میں بھی ہوتاہے،جبکہ مخالفت اچھی چیزنہیں ہے‘‘۔
مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہاکہ:
’’ فقہ اسلامی کے ذریعہ ہی دین اسلام کی کاملیت وصلاحیت ہرزمانہ میں ثابت ہوتی رہے گی،ائمہ کرامؒ نے شریعت کو عملی شکل دی،لہٰذاتمام مجتہدین قابل احترام ہیں‘‘۔
معتمدتعلیم ندوۃ العلماء مولاناسیدمحمدواضح رشیدحسنی ندوی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ: 
فقہی اختلاف کی بنیاد تحقیق واجتہاد ہے، اسے افتراق واختلاف کاسبب ہرگز نہیں بنانا چاہیے، مسالک اربعہ کے درمیان تقارب ندوۃ العلماء کے اہم مقاصدمیں سے ہے، تمام ائمہ کااحترام ملحوظ رکھا جانا چاہیے،کسی امام کی شان میں کسی طرح کی گستاخی یا نازیبا الفاظ استعمال کرنابالکل صحیح نہیں ہے،مسلمانوں کی صفوں میں اختلاف وشقاق پیدا کرنادراصل دشمنان اسلام کی ایک سوچی سمجھی چال ہے،اوراس کی پوری تحقیق سامنے آچکی ہے، یہ لوگ مسلمانوں میں تفریق اور کشمکش پیداکرنے کے لیے سارے ممکن حربے اپناتے ہیں، مسلکی اختلاف کااثر صرف مسائل تک محدودنہیں ہے ، بلکہ اس کی وجہ سے سماجی زندگی میں بھی ایک عجیب و غریب کشمکش برپاہے،آج اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ اس سلسلہ میں باضابطہ تحریک چلائی جاہے ،لوگوں کے اندر بیداری پیدا کی جائے اور شریعت پر لوگوں کے اعتماد کو جمایاجائے۔
سیدالطائفہ علامہ سید سلیمان ندویؒ کے فرزند ارجمندمولانا ڈاکٹر سید سلمان ندوی نے کہاکہ: ائمہ فقہ کے اجتہادات میں توسع اورامت مسلمہ کے مصالح کا بھرپورلحاظ رکھا گیاہے،آج علماء جومسائل پڑھتے پڑھاتے ہیں ، جدیددورمیں ان کے انطباق پربھی غورو فکرکرنا چاہیے تاکہ وہ مسائل آج بھی عملی شکل میں آکر لوگوں کی رہنمائی کا باعث ہوں اورزندگی کے مسائل حل کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوں ۔
سیمینارکے کنوینر،عمید کلےۃ الشریعہ واصول الدین مولانامحمدزکریاسنبھلی ندوی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ: ندوہ العلماء نے کبھی ایک مخصوص امام کو اپنا امام اوردوسرے ائمہ کوغیر نہیں سمجھابلکہ ہمیشہ چاروں ائمہ کواپنا سمجھا،چاروں کے مسالک کے بارے میں احترام کاشعورومزاج دیا،یہی مزاج ہم نے اپنے بڑوں سے سنا،ان کو برتتے ہوئے دیکھا،ان کی تحریروں میں پڑھا اوریہی پیغام ہم ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے اساتذہ ،مندوبین و حاضرین کو دینا چاہتے ہیں۔
عمید کلےۃا لدعوۃ والاعلام مولاناسیدسلمان حسینی ندوی نے کہاکہ: کسی متعین مسلک کے وابستگی یہ دراصل چوتھی صدی کی بات ہے،اس سے قبل کسی ایک مسلک سے وابستگی کوضروری نہیں سمجھاجاتاتھا،ہرفن میں ائمہ پیدا ہوئے ،فقہ اسلامی میں بہت سے ائمہ پیدا ہوئے،یہ سارے ائمہ پوری ملت کے ائمہ ہیں، ان سب کااحترام ضروری ہے،انہوں نے کتاب و سنت ہی کی روشنی میں یہ مسائل مرتب و مدون کیے ،ہر مسئلہ کو انہوں نے قرآنی آیات ونبوی احادیث کی میزان اور کسوٹی میں رکھ کر امت کے سامنے پیش کیا،اور ہر امام نے یہ کہا کہ اگر ہماراکوئی مسئلہ کتاب و سنت کے خلاف جائے تو اسے ہر گز اختیار نہ کیا جائے۔
سیمینارکاآغازاستاذ شعبۂ قرأت دارالعلوم مولانا قاری ریاض احمدمظاہری کی تلاوت کلام پاک سے ہوا،یہ نشست مخدوم ومربی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی کی صدارت میں منعقد ہوئی،اور نظامت کا فریضہ استاذ حدیث دارالعلوم مولانامحمد خالد ندوی غازیپوری نے انجام دیا۔ 
سیمینارمیں ملیشیاسے آئے اہم وفدکااستقبال مولاناسیدسلمان حسینی ندوی نے کیا،یہ وفدوہاں کی ایک ریاست کے وزیراعلیٰ عبدالہادی اوانج اور عبداللہ بن یعقوب ندوی اسپیکراسمبلی و دیگر افراد پر مشتمل تھا۔ اس موقع پرمحمداشرف علی ندوی ازہری کی عربی کتاب ’’المحدث الکبیر العلامۃ محمد زکریا بن محمد یحییٰ الکاندھلوي وجھودہ فی السنۃ النبویۃ ‘‘ کااجرابھی صدر عالی قدر کے ہاتھوں ہوا۔
دوسری نشست
افتتاحی نشست کے بعد دوسری اور محاضرات کی پہلی نشست منعقدہوئی،مفتی جنیدعالم ندوی قاسمی صدرمفتی امارت شرعیہ پٹنہ نے ’’مذاہب اربعہ کے درمیان اجتہادواستنباط کی مشترکہ شرائط ‘‘ کے عنوان سے اپنامقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ:
اجتہادامت کی اہم ترین ضرورت ہے،اسی کے ذریعہ سے ہرزمانہ میں پیش آنے والے نئے مسائل کاحل تلاش کیا جا سکے گا،اجتہادکے شرائط اور اصول متعین ہیں،جوکتاب وسنت سے ماخوذ ہیں، ان کی روشنی میں ہی فقہاء ومجتہدین نے اپنے دور میں اجتہاد کا عمل کیاہے۔مزید کہاکہ: آج ہرجگہ اجتہادکی بات کی جاتی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے لوگ اجتہادکے شرائط سے یکسرناواقف ہوتے ہیں ، جس کے نتیجہ میں منصوص مسائل میں بھی تبدیلی کی بات سامنے آتی ہے،انہوں نے اجتماعی اجتہادکواپنانے پرخاص طورپرزوردیا۔
مولاناآفتاب عالم ندوی دھنبادی نے’’امام ابوحنیفہ : علمی مقام اور فقہی بصیرت ‘‘پرتفصیل سے روشنی ڈالی جس میں انہوں نے ان کے طرز اجتہاد اور عصر حاضر میں اس کی ضرورت واہمیت پر خاص طور پر زور دیا۔اس نشست کی صدارت نائب مہتمم دارالعلوم مولانا عبدالقادر پٹنی ندوی نے اور نظامت دارالعلوم کے وکیل کلےۃ اللغۃ العربےۃ وآدابھا مولانامحمدعلاء الدین ندوی نے کی۔ 
تیسری نشست،بعد نماز مغرب
یہ نشست بعدنماز مغرب مولانا ڈاکٹرسیدسلمان ندوی کی صدارت میں منعقد ہوئی، جس میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جنرل سکریڑی اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاوسکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے’’جدیدمسائل کے حل میں مذاہب اربعہ سے استفادہ کی اہمیت وضرورت اورشرائط و ضوابط‘‘ پرمحاضرہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ:
یوں توہردورمیں نئے مسائل پیداہوتے ہیں،لیکن سترہویں صدی کے صنعتی انقلاب نے عصرحاضرمیں نئے مسائل پیدا ہونے کی رفتاربہت بڑھادی ہے،علماء کافریضہ ہے کہ وہ اس چیلنج کوقبول کریں،اورجدیدمسائل کوشریعت کی روشنی میں حل کریں۔مولانانے کہاکہ تقلیداس دورمیں امت کو انحراف سے بچانے اورجادۂ حق پرقائم رکھنے کے لیے ضروری ہے، لیکن کسی ایک دبستان فقہ کے دائرہ میں رہتے ہوئے موجودہ دورکے تمام مسائل حل نہیں کیے جاسکتے، اس لیے ضروری ہے کہ ایسے مسائل میں احتیاط کے ساتھ اجتماعی تبادلہ خیال کے ذریعہ مذاہب اربعہ سے استفادہ کیاجائے۔
مولانا محمد زکریا سنبھلی ندوی استاذ حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء نے’’امام مالک:علمی مقام اور فقہی بصیرت‘‘ کے موضوع پراپنا جامع وپرمغز مقالہ پیش کیا جس میں انہوں نے حدیث وفقہ کے میدانوں میں امام مالک ؒ کی خدمات کو بخوبی اجاگر کیا اوران کے فقہی آراء وافکار کو بھی حاضرین کے سامنے رکھا۔ اس نشست کی نظامت استاددارالعلوم مولانا مفتی محمدظفرعالم ندوی نے کی ۔
۲۶؍نومبر،چوتھی نشست
مولانا سید سلمان حسینی ندوی نے’’فن حدیث میں ائمہ فقہ کی خدمات اوراحادیث کے ضعف و صحت میں ان کامنہج‘‘ کے موضوع پرتحقیقی محاضرہ پیش کیا،انہوں نے کہا کہ: پوری امت کااتفاق ہے کہ امام ابوحنیفہؒ مجتہدتھے،اورمجتہدکوئی اسی وقت ہوسکتاہے جب اس کی نظراحادیث کے پورے ذخیرہ پرہو،امام ابوحنیفہؒ بڑے کمالات کے مالک تھے،جس کا اعتراف امام شافعیؒ اوراس دورکے اکثرمحدثین اور فقہاء نے کیاہے،تفقہ کے علاوہ تقویٰ اورورع کے لحاظ سے بھی آپ کاپایہ نہایت بلندتھا،چاروں ائمہ نے امت محمدیہؐ کی خاطربڑی قربانیاں دی ہیں،اس لیے یہ ائمہ پوری امت کے محسنین ہیں،ان سب کا احترام واجب ہے۔ مزیدکہاکہ علمی طورپربہت سی باتیں مشہورہیں لیکن غورکرنے کے بعدمعلوم ہوتا ہے کہ ان کی حقیقت دوسری ہے،اسی طرح بعض آراء کومتفق علیہ شکل میں بیان کیاجاتاہے جبکہ اس بارے میں متقدمین کے اقوال مختلف ہوتے ہیں، اس لیے ہربات کومن و عن قبول کرلیناعلمی دیانت کے خلاف ہے،بحث و تحقیق کے بعدہی علماء کو فتویٰ دینا چاہیے ۔
مفتی راشدحسین ندوی مہتمم مدرسہ ضیاء العلوم رائے بریلی نے ’’امام احمدبن حنبل:علمی مقام اور فقہی بصیرت ‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ: فقہ حنبلی کاایک امتیازیہ بھی ہے کہ عصرحاضرکے بعض مسائل کاحل صرف فقہ حنبلی میں ملتا ہے،اس لیے متعددجدیدمسائل میں معاصر فقہاء نے فقہ حنبلی کی آراء کواختیارکیاہے۔
مولانافیصل احمد ندوی بھٹکلی استاددارالعلوم نے’’ امام شافعی : علمی مقام اورفقہی بصیرت‘‘ پرتفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ: امام شافعی ؒ کے اساتذہ ومشائخ اوران کے تلامذہ نے امام ابوحنیفہؒ کے علمی مقام اورفقہی بصیرت کاجس طرح کشادہ قلبی کے ساتھ اعتراف کیا ہے، اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔
اس نشست کی صدارت کرتے ہوئے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ: محدثین اور فقہاء دونوں نے مل کر اجتہاد کا عظیم فریضہ انجام دیاہے، محدثین نے الفاظ حدیث کی خدمت کی جبکہ فقہا ء نے معانی احادیث کی، لہٰذا دونوں طبقے امت کے محسنین ہیں، آج یہ فکر عام ہوگئی ہے کہ کچھ لوگ ائمہ پر نقد کرتے ہیں اور کچھ لوگ محدثین پر، لیکن اس افسوسناک نتیجہ پر غور نہیں کرتے کہ اس سے دین کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے، جب دونوں طبقے غیرمعتبر قرار پائیں گے تو ہم لوگوں کے دلوں میں دین کا اعتبار کیسے قائم کرسکیں گے؟ اس لیے ہم کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ بحیثیت مجموعی دین کو نقصان نہ پہنچے،اپنے مسلک کے علماء اور بزرگوں کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں کہنی چاہیے جس میں دوسرے طبقہ کے علماء کے لیے بے ادبی یاتضحیک کاپہلوہو،علماء میں اختلاف رائے کوانگیزکرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے،جب فریق مخالف اعتدال کادامن چھوڑدے، اس وقت بھی اعتدال پرباقی رہنا اصل اعتدال اور عقلمندی کی بات ہے۔نظامت استاد دارالعلوم مولانا عبد السلام ندوی بھٹکلی نے کی۔
پانچویں نشست
مولاناعتیق احمدبستوی استاذفقہ دارالعلوم ندوۃ العلماء نے ’’اختلافی مسائل میں تعددصواب کا مسئلہ‘ کے موضوع پر کہا کہ : اختلافی مسائل میں سے اکثر میں اختلاف تنوع کاہے،حلت وحرمت کانہیں ہے، ہاں کچھ مسائل میں حلت وحرمت کابھی اختلاف ہے، مزید کہاکہ اگرکچھ لوگ اپنی خدادادصلاحیت اور علمی پختگی کی بنیادکوئی ایسی رائے پیش کریں جو ائمہ اربعہ کے خلاف ہو،تواس رائے کوبھی گمراہ نہیں کہنا چاہیے ،نہیں بھی تحقیق کااجرملے گا۔
مولانازین الاسلام قاسمی استاذدارالعلوم دیوبند نے’’جدیدمسائل کے حل میں مذاہب اربعہ سے استفادہ کی اہمیت و ضرورت اورشرائط و ضوابط‘‘ کے متعلق کہاکہ: ائمہ اربعہ کے علاوہ بھی جن فقہاء کی آراء کا ذکرکتابوں میں ملتاہے، گرچہ ان کا مسلک مدون نہیں ہوسکا،ان کابھی احترام کرنا اور ادب سے نام لیناچاہیے۔انہوں نے کہاکہ ائمہ اربعہ میں سے کسی متعین امام کی تقلیدضروری ہے، اوران کی آراء سے باہرنکلناکوئی اچھی بات نہیں ہے،آج ایسے ماہرین کی ضرورت ہے جوفقہی بصیرت کے ساتھ فقہی اصول وضوابط کی روشنی میں جدیدمسائل کوحل کریں،ہمارے اسلاف نے بعض شرائط کے ساتھ دوسرے مسالک سے استفادہ اور دوسرے مسلک پرفتویٰ دینے کوجائزکہاہے۔
مولابدراحمدمجیبی ندوی(پٹنہ) نے بھی ’’اختلافی مسائل میں تعددصواب کامسئلہ‘‘ کے موضوع پرتفصیلی گفتگوکی۔صدارت مولانا محمد برہان الدین سنبھلی استاذ تفسیروحدیث دارالعلوم اورنظامت مولانا منور سلطان ندوی رفیق دارالافتاء،ندوۃ العلماء نے کی۔
چھٹی اور اختتامی نشست
اس میں مولانامحمدظفرعالم ندوی استاد دارالعلوم نے’’مذاہب اربعہ کے مابین اختلاف رائے اوراس کے بنیادی اسباب‘‘پر اور مولانا محمد زیدمظاہری ندوی استاددارالعلوم نے’’فن حدیث میں ائمہ فقہ کی خدمات اوراحادیث کے ضعف و صحت میں ان کا منہج‘‘ کے عنوان پراپنے مقالے پیش کیے۔
اختتامی نشست مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء مولاناڈاکٹرسعیدالرحمن اعظمی ندوی کی صدارت میں منعقد ہوئی ، صدارتی کلمات میں آپ نے کہا کہ:
ائمہ اربعہ کی خدمات پرہونے والایہ سیمینار محض اتفاقی نہیں ہے،بلکہ یہ ہمارے تعلیمی وتربیتی پروگرام کاایک اہم حصہ ہے،محدثین اورفقہاء کے ذریعہ ہی یہ دین منظم اورعملی شکل میں وجود میں آیا،آج پوری دنیااسلامی زندگی کے نمونہ کی محتاج ہے ،اوریہ نمونہ وہی افراددے سکتے ہیں جوکتاب و سنت اورائمہ و مجتہدین کی آراء کو اپنی زندگی میں اتاریں۔
علماء کوخطاب کرتے ہوئے مزیدکہاکہ: آج اسلام کے مخالفین کومطمئن کرنے کی شدیدضرورت ہے،اوریہ دلائل کے ذریعہ ہی ہوسکتاہے،یہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ دین میں اتنارسوخ پیداکریں کہ اسلامی نظام کوصحیح طریقہ پرپیش کرنے کے قابل ہوسکیں۔
اس نشست میں تیونس سے آئے مہمان ڈاکٹر عبدالجلیل سلیم وائس چانسلرزیتونہ یونیورسیٹی کا استقبال کیاگیا،انہوں نے اپنے خطاب میں ندوۃ العلماء اور مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ سے اپنے تعلق کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ:
آج کی حاضری ہماری دیرینہ آرزواورخواہش کی تکمیل ہے۔انہوں نے کہاکہ ندوہ نے تفسیر و حدیث،فقہ وادب اور دیگرعلوم وفنون کے موضوعات پر عبقری افراد اور مردمیدان کوجنم دیا ہے،ان ندوی علماء وفضلاء نے عالم اسلام کی بیداری میں بڑااہم رول اداکیاہے۔انہوں نے ندوۃ العلماء کے ذمہ داروں کوندوہ اورزیتونہ یونیورسیٹی کے درمیان علمی اور دعوتی بنیادوں پر ربط و تعلق کی دعوت دی۔
کلمات تشکرمولانامحمدزکریا سنبھلی ندوی نے پیش کیے، مولانا سلمان نسیم ندوی استاد دارالعلوم نے نظامت کی اورصدرمحترم کی دعاپرنشست کا اختتام ہوا۔
تجاویزدوروزہ تربیتی سیمینار
سیمینار کی اختتامی نشست میں درج ذیل تجاویز پڑھ کر سنائی گئیں ،جنہیں حاضرین نے بہت سراہا اور وقت کی ضرورت اورسیمینارکو ایک عظیم علمی ودینی خدمت قراردیا،تجاویزاس طرح تھیں: 
ندوۃ العلماء کے قیام کے بنیادی مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ مسلمانوں میں دین کی بنیادی رہنمائی کالحاظ رکھتے ہوئے وحدت پیدا کی جائے ، اس کے قابل تشریح احکام کے مفاہیم میں جو اختلاف ہو،اس کو افتراق و انتشار سے بچایا جائے اور مسلک و مشرب سے اوپر اٹھ کر اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرنے کا جذبہ بیدار کیا جائے ، اور ان کی ایسی تربیت کی جائے کہ وہ تکثیری معاشرہ میں ایک داعی امت کا کردار ادا کر سکیں ، خاص کر علماء کو اس بات کی دعوت دی جائے کہ وہ مسلک و مشرب کی نسبتوں کو باقی رکھتے ہوئے مشترکہ مقاصد کے لیے مل جل کر کام کریں ، اور فروعی اختلاف کو اتنی اہمیت نہ دیں کہ امت کا اتحاد پارہ پارہ ہو جائے ، اسی پس منظر میں دارالعلوم کی انتظامیہ نے کلیۃ الشریعہ کے تحت مورخہ ۲۵، ۲۶ نومبر ۲۰۱۴ء ؁ کو ’’ائمہ اربعہ کی خدمات اور عصر حاضر کے مسائل میں انکی آراء و منہج استنباط کی اہمیت ‘‘ پر ایک تربیتی ورکشاپ منعقد کیا ، جس میں ہندوستان کے مختلف علاقوں اور ممتاز دینی درسگاہوں کی نمائندہ دینی شخصیتوں کے علاوہ ملیشیا اور تیونس کے وفد نے بھی شرکت کی ، اس پروگرام کے افتتاحی اجلاس کی صدارت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ناظم ندوۃ العلماء و صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اور اختتامی اجلاس کی صدارت مولاناڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء نے کی ،ایک نشست کی صدارت علامہ سید سلیمان ندویؒ کے فرزندمولاناڈاکٹرسید سلمان ندوی نے جبکہ ایک دوسری نشست کی صدارت اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سکریٹری مولاناخالد سیف اللہ رحمانی نے انجام دی، چھ نشستوں پر مشتمل اس دوروزہ پروگرام کے اخیر میں جو تجاویز منظور ہوئیں ، وہ حسب ذیل ہیں :
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والا علماء و اصحاب دانش کا یہ نمائندہ اجتماع درج ذیل تجاویز منظور کرتاہے :
۱۔ فقہ اسلامی زندگی کا ایک ایسا جامع قانون ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے ، اس کی تعلیمات روحانی اقدار اور دنیوی زندگی کے مصالح کا بہترین امتزاج ہیں ، وہ فطرت انسانی سے ہم آہنگ اور اعتدال و توازن پر مبنی ہے ، دنیا و آخرت کی فلاح و سعادت اسی سے متعلق ہے ، کیونکہ اس کا ماخذ خود خالق کائنات کی ہدایات ہیں ۔
۲۔ کتاب و سنت میں بعض احکام ایسے صریح الفاظ میں ذکر کیے گئے ہیں جن کا مفہوم متعین ہے اور جن میں ایک سے زائد معانی کا احتمال نہیں ، ان میں مسلمانوں کے مختلف مکاتب فقہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ، جب کہ بعض احکام میں جو تعبیرات اختیار کی گئی ہیں ان میں ایک سے زیادہ معنوں کی گنجائش ملتی ہے ، ان میں صحابہؓ کے عہد ہی سے مفہوم کے تعین میں اختلاف ہے ، یہ اختلاف محمود ہے نہ کہ مذموم ، اسی طرح بعض افعال کی ایک ہی کیفیت مقرر کر دی گئی ہے ، اور بعض وہ ہیں جن کی ایک سے زیادہ کیفیتیں منقول ہیں ، زیادہ تر اختلاف اسی نوعیت کا ہے ، یہ در حقیقت اختلاف نہیں تنوع ہے ،اور اکثراولیٰ اور غیراولیٰ کااختلاف ہے، ان اختلافات کی وجہ سے سلف صالحین میں سے کسی کے بارے میں بدگمانی یاکسی کی شان میں گستاخی ہرگزدرست نہیں، تمام مسلمانوں کافریضہ ہے کہ وہ اس سے اجتناب کریں۔
۳۔اہل علم کویہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ تمام مفسرین ومحدثین واصولیین، صوفیہ ومتکلمین امت کے محسن ہیں، اوران ہی کے ذریعہ دین و شریعت کی یہ امانت ہم تک پہونچی ہے، ان سب کی قدر شناسی، ان کااحترام اوران کے بارے میں حسن ظن رکھنا اوران پرطعن وتشنیع سے بچنا ہرمسلمان کافریضہ ہے، اوران کی ہتک شان اوران کے اعتبارواستناد کو مجروح کرناخود دین وشریعت کو نقصان پہونچانے کے مترادف ہے۔
۴۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے درمیان بیشترفقہی مسائل اوربنیادی عقائد میں اتفاقِ رائے پایا جاتاہے، اور اگر اختلاف ہے تو صواب وخطاکا، نہ کہ حق و باطل کا، اس لیے فقہی و فروعی مسائل میں اختلاف کرکے امت میں تفریق و انتشار کاباعث اورملت اسلامیہ میں بکھراؤکاسبب بنادیناہرگز روانہیں، خاص کر موجودہ عالمی اورملکی حالات میں اگر اس کا لحاظ نہ رکھا جائے تواس سے ملت اسلامیہ کوناقابلِ تلافی نقصان پہونچے گا، اوراس سے بالواسطہ طور پر اسلام مخالف طاقتوں کو تقویت حاصل ہوگی۔
۵۔واعظین کواپنی تقریروں اوراصحاب قلم کو اپنی تحریروں میں اس بات کالحاظ رکھنا چاہیے کہ وہ امت میں اتفاق کاذریعہ بنیں، نہ کہ افتراق وانتشار کا، وہ اختلافی مسائل کوابھارنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کرنے کے بجائے سماجی اصلاح، تعلیم و تربیت اورفتنۂ ارتداد سے حفاظت جیسے مسائل پر اپنی کوششوں کومرکوز کریں، تاکہ مسلمان اپنے ایمان و عقیدہ اور مذہبی تشخصات کے ساتھ اس ملک میں زندہ رہیں، اوران میں رضاکارانہ طورپر شریعت کو اپنے آپ پر نافذ کرنے کاجذبہ بیدار ہو۔
الحمد للہ سیمیناراپنے مقصد میں مکمل طور پر کامیاب رہا، پرمغز مقالات ومحاضرات پیش ہوئے،شرکاء نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ حصہ لیا، اوراستفادہ کیا،سوالات وجوابات کا بھی موقع دیا گیا،سیمینارکو مکمل طور پر ذمہ داران ندوۃ العلماء بالخصوص ناظر عام ندوۃ العلماء مولانا سید محمد حمزہ حسنی ندوی کی نگرانی حاصل رہی،اور کنوینر پروگرام عمیدکلےۃ الشریعہ مولانا محمد زکریاسنبھلی ندوی کی رہنمائی میں دارالعلوم کے اساتذہ وطلبہ کی ایک فعال ٹیم نے بحسن وخوبی اور مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیے اور ہر ممکن مہمانوں کی راحت کا خیال رکھا، مہمانوں نے اچھے تاثرات کا اظہارکیا اور میزبانوں کی محنتوں کوسراہا،اللہ تعالیٰ اس عظیم دینی وعلمی ادارہ کو ہر طرح کی نظر بد سے محفوظ رکھے اور تاقیامت اس چشمہ علم ودین کو فیاض وآباد رکھے، آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے