عیدمیلاد النبیؐ ۔۔۔علماء امت کی نظرمیں

عیدمیلاد النبیؐ ۔۔۔علماء امت کی نظرمیں
منورسلطان ندوی۔لکھنؤ
رسول اللہ ﷺ کی آمد باسعادت نہ صرف اسلامی تاریخ بلکہ تاریخ عالم میں ایک یادگاراورتاریخی واقعہ کی حیثیت رکھتاہے،یہ مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی نعمت اورسعادت توہے ہی ساتھ پوری دنیاکے لئے بھی عظیم نعمت ہے کہ آپ کے ذریعہ ہی انسانیت کواپنے خالق ومالک کی طرف سے ابدی پیغام حیات اور دستور العمل ملا،ماہ ربیع الاول میں کائنات کووہ فصل گل عطاہوئی جوقیامت تک انسانیت کے مشام جاں کومعطراورذہن وفکرکوشادکام وبامرادرکھے گی،اس لحاظ سے یہ مہینہ اسلامی جنتری میں ایک خاص مقام رکھتاہے۔
آپ ﷺ خداکے آخری رسول تھے،آپ کی دعوت عالمگیراوردائمی ہے،آپ کے ذریعہ نبوت کی تکمیل ہوگئی اورپوری انسانیت کوپیغام ہدایت مل گیا،یہ پیغام قرآن مجید کی شکل محفوظ ہے،اور اس کی توضیح وتشریح احادیث کی شکل میں موجودہے،رسول اللہ ﷺ اس خدائی پیغام کے ترجمان اورشارح تھے ، آپ کی زندگی دراصل ان تعلیمات کا عملی نمونہ تھی ، مکمل اسلام کا جیتاجاگتانمونہ اوراس کی عملی تفسیر،اس لئے اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ کی اطاعت کا حکم دیا گیا’’یاایہاالذین آمنوااطیعوا اللہ واطیعواالرسول‘‘(نساء:۵۹)اورآپ کی حیات مبارکہ کواسوہ حسنہ کہاگیا’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃحسنۃ‘‘(سورہ احزاب :۲۱)گویاآپ کی زندگی ایک مشعل راہ ہے جس کی روشنی سے زندگی کی مشکل اورتیرہ وتاریک رہگزرمیں روشنی حاصل کی جاسکتی ہے۔
اس لحاظ سے آپ ﷺ کی حیات مبارکہ کا تذکرہ،آپ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ ہمیشہ سب سے زیادہ متبرک اورقابل افتخار سمجھاگیاہے،ایک مسلمان کے لئے اس سے زیادہ سعادت کی بات اورکوئی نہیں ہوسکتی کہ اس کی زبان آپ کے ذکر سے ترہے اوراس کا قلم آپ کی تذکرہ نگاری کا شرف پائے،آپ کی زندگی کے گوشوں کوبیان کرنا،آپ کے فضائل اوراوصاف وکمالات کوتذکرہ باعث خیراورموجب ثواب وسعادت ہے ،یہ اہل علم کے درمیان اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، اوربھلا اس سے کسے اختلاف ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺسے محبت توایمان کا جزء ہے:
’’لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین‘‘(صحیح البخاری کتاب الایمان ،باب حب الرسول ﷺ من الایمان ،حدیث نمبر:۱۵)
البتہ آپ کے یوم ولادت کوخاص انداز میں منانا،اور ا س کے اہتمام کی وہ شکل جوموجودہ زمانہ میں رائج ہے اوراس دن انجام دی جانے والی وہ ساری چیزیں جنہیں جشن سے تعبیرکیا جاسکتا ہے ،بلکہ بہت سی جگہوں پر’’جشن میلاد‘‘یا’’عیدمیلادالنبی ‘‘کے نام سے باضابطہ تقریبات کااہتمام بھی ہوتاہے،یہ سب شرعی نقطہ نظرسے کیساہے؟اس کی شرعی حیثیت کیاہے؟یعنی آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کے دن سیرت النبی کے جلسے منعقدکرنا،جشن منانا،چراغاں کرنا،خوشی کا اظہارکرنا،آتش بازی،جلوس،باجے،اوروہ دیگرافعال جواس ولادت باسعادت کی خوشی میں انجام دیا جاتا ہے ، قرآن وحدیث کی روشنی میں ان کا حکم کیا ہے، ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
اس مسئلہ میں جب ہم قرآن وحدیث کی روشنی میں غورکرتے ہیں اورعلماء کی تحریروں کا جائزہ لیتے ہیں تو معلو م ہوتا ہے کہ عیدمیلاد النبی کے بارے میں اہل علم واصحاب افتاء کی رائیں تین طرح کی ہیں:
اول:اہل علم کاایک طبقہ اس کو مستحسن،باعث خیراورموجب ثواب سمجھتا ہے۔
دوم:دوسراطبقہ اسے بدعت سےۂ اورمکروہ تحریمی قرار دیتا ہے ۔
سوم:تیسرا طبقہ اس کوضروری اوردین کا حصہ قراردیتے ہیں۔
ان تینوں طبقوں کے دلائل کا جائزہ لینے سے قبل یہ وضاحت دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ عیدمیلاد النبی کے نام پرمنایاجانے والا یہ جشن اوردیگر تقریبات ۱۲؍ربیع الاول کوہوتی ہیں،کہ عوا م میں مشہوریہی تاریخ ہے ،جبکہ محققین کے نزدیک ۹؍کی تاریخ زیادہ راجح اورزیادہ قرین قیاس ہے، مشہورسیرت نگارعلامہ شبلیؒ اورمولانا سلمان منصورپوریؒ نے ۹؍کوہی راحج قراردیا ہے،(سیرۃ النبی ج۱،ص:۱۱۱)اس پرطرفہ تماشہ یہ کہ حکومت نے اس دن کومسلمانوں کا مذہبی دن قراردیا ہے اوراس کے لئے باضابطہ سرکاری منظورکی گئی ہے۔
جوحضرات عیدمیلاد النبی کوجائز اورمستحسن کہتے ہیں ان کے دلائل درج ذیل ہیں:
۱۔ سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ ﷺ کا ذکرخیرکرنا،آپ کے حالات بیان کرنا ،معجزات،فضائل وغیرہ بیان کرنا جائز اورموجب برکت ہے،مولانا عبدالحی فرنگی محلیؒ تحریرفرماتے ہیں:
پس ا گرولادت باسعادت یامعجزات ودیگرحالات کا تذکرہ درس وتدریس اوروعظ وتقریرمیں کسی کے دعوت دینے اورباقاعدہ مجلس منعقدکرلیا جائے تو اس سے بڑھ کر موجب برکت کیاہوگا،صحابہ کرام اپنی مجالس کوآں حضرت کے اسی قسم کے اذکارسے انوارالہٰی کا محل بناتے تھے،اورآپ کا ارشادہے: اصحابی کالنجوم فبایہم اقتدیتم اہتدیتم۔(مجموع فتاوی عبدالحی ص:۹۶)
۲۔دین کی باتوں کے لئے مجلس منعقدکرنا اوردن متعین کرناصحابہ کرام سے ثابت ہے،اوراس کی دلیل حضرت وائل کی روایت (صحیح البخاری،کتاب العلم باب جعل لاہل العلم ایاما معلوما ،حدیث نمبر:۷۰)اورحضرت عبداللہ بن مسعودؓکی روایت (صحیح البخاری کتاب العلم ،ماکان النبی ﷺ یتخولہم بالموعظۃ ۔۔۔حدیث نمبر:۶۸)ہے۔
ان روایات سے دینی مجالس کا قیام اوراس کے وقت متعین کرنا ثابت ہوتا ہے خواہ ربیع الاول کا مہینہ ہی کیوں نہ ہو(دیکھئے:فتاوی فرنگی محل ،ص:۱)
۳۔خوشی کے موقع پراجتماع کی نظیریں شریعت میں ثابت ہیں،کبھی کبھی حضرت بلالؓ آں حضرت ﷺ کے مواعظ کا گلی کوچوں اوربازاروں میں اعلان کیاکرتے تھے،اس لئے علماء اس کی اجازت دیتے ہیں اوراس کو بدعت سےۂ کہتے ہیں،جس کا فاعل مستحق ثواب ہوگا،بنی کریم ﷺ کاارشادہے من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجرمن عمل بہا۔(مجموع فتاوی عبدالحی ص:۹۶)
۴۔حرمین شریفین ،بصرہ ،یمن،شام اوردوسرے شہروں کے رہنے والے ماہ ربیع الاول کا چانددیکھ کرخوشیاں مناتے ہیں،مال کثیرخیرات کرتے ہیں، ذکر ولادت بیان کرنے اورسننے اورمجالس منعقدکرنے کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں،نیز ان شہروں میں اس قسم کی مجالس منعقدہوتی ہے۔(حوالہ سابق ص:۹۷)
۵۔ابولہب کی بیوی ثوبیہ جب آپ ﷺ کی ولادت کی خبرلے کرابوجہل کے پاس گئی توخوشی سے سرشارہوکر انہو ں نے باندی کو آزادکردیا،اس کے مرنے کے بعدلوگوں نے خواب میں دیکھا اورحال پوچھا توابولہب نے کہاموت کے دن سے عذاب میں مبتلاہوں،مگردوشنبہ کی رات میں آں حضرت کی ولادت سے خوش ہونے کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے،اس واقعہ سے استدلال کرتے ہوئے مولانا عبدالحی صاحب ؒ لکھتے ہیں:آں حضرت ﷺ کی ولادت کی خوشی سے ابولہب جیسے بدبخت کے عذاب میں تخفیف ہوسکتی ہے توایک امتی جوولادت سے خوش ہوکراپنی محبت کا اظہارکرتا ہے توکیوں کراعلی مرتبہ پرنہ پہنچے گا(حوالہ سابق ص:۹۵)
میلاد کوبدعت اورمکروہ کہنے والوں کے دلائل کا خلاصہ اس طرح ہے:
۱۔رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت کی خوشی میں خوشی منانے اورمجالس منعقدکرنے کاثبوت آپ ﷺ کے زمانہ میں اورآپ کے بعددورصحابہ ،تابعین ،تبع تابعین اورزمانہ مجتہدین میں نہیں ملتا،یہ بعدکی پیداوارہے،کہاجاتا ہے کہ پانچویں صدی ہجری یا اس کے بعدسے میلادکاسلسلہ شروع ہوا ہے،اور جس کا ثبوت خود آپ ﷺ اورصحابہ وتابعین سے نہ ہووہ بدعت کہلاتی ہے،بدعت دین میں ہرنئی چیز کوکہتے ہیں:البدعۃ فی الشرع احداث مالم یکن فی عہدرسول اللہ ﷺ۔ 
آپ نے ایک خطبہ میں ارشادفرمایا:تمہارے لئے میری سنت اورخلفاء راشدین کی سنت کی پیروی لازم ہے،اس کومضبوطی سے پکڑلو،نئی چیزوں سے بچوں،بیشک دین میں نئی چیز بدعت ہے،اوربدعت گمراہی ہے۔
فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدین عضوا علیہا بالنواجذوایاکم والامورالمحدثات فان کل بدعۃ ضلالۃ‘‘(سنن ابن ماجہ ،باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین ،حدیث نمبر:۴۴)
۲۔مطلق دینی مجالس کاانعقاداورآپ کی سیرت کا بیان باعث ثواب اورموجب خیرہے ،البتہ کسی مہینہ کے ساتھ ان مجالس کوخاص کرلینااوریہ سمجھناکہ اسی مہینہ میں اس کا ثواب ملے گا ،یہ بدعت ہے ،علامہ شاطبی بدعت کے سلسلہ میں ایک اصول بتاتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:
منہاالتزا م الکیفیات الہےئات العینۃ کالذکربہےءۃ الاجتماع علی صوت واحدواتخاذ یوم ولادۃ البنی عیدا ومااشبہ ذلک۔(الاعتصام ج۱،ص:۲۹)
۳۔سیرت النبی کے جلسوں میں عموما مقررین من گھڑت واقعات ،موضوع روایات اورسیرت کے حوالے سے بہت سے بے سروپاباتیں بیان کرتے ہیں،اسی طرح نعت خواں آپ ﷺ کی مدح میں اس حدتک پہونچ جاتے ہیں کہ اللہ اوررسول میں حدفاصل ختم ہوتا نظرآتا ہے،یہ طریقہ انتہائی غلط ہے ،آپ ﷺ نے تعریف میں مبالغہ کرنے سے منع فرمایا ہے،ارشادہے :لاتطرونی کمااطرت النصاری۔۔۔اورجھوٹی روایات بیان کرنے والے کے لئے کس قدرسخت وعیدہے:من کذب علی متعمدافلیتبوأمقعدہ من النار۔ 
۴۔اس زمانہ میں یوم ولادت پرجلسے جلوس اورمیلادمنانے کی جوشکل مروج ہے اس میں متعددامورغیرشرعی ہیں،حضرت تھانوی ؒ نے میلاد کے ناجائز ہونے کے اسباب کوتفصیل سے بیان کیاہے،آپ فرماتے ہیں:
ذکرولادت شریف نبوی ﷺ مثل دیگراذکارخیرکے ثواب اورافضل ہے،مگربدعات اورقبائح سے خالی ہو،اس سے بہترکیا،قال الشاعر ؂
ذکرک للمشاق خیرشراب وکل شراب دونہ کسراب
البتہ ہمارے زمانہ میں قیودات وشنائع کے ساتھ مروج ہے،اس طرح بیشک بدعت ہے،اوربوجوہ ذیل ناجائز:
اولاًیہ کہ اکثرمولودخواں جاہل ہوتا ہے اورروایتیں اکثرغلط اورموضوع بیان کرتا ہے،اورسب قاری وسامع تحت وعیدمن کذب علی متعمدا فلیتبو�أمقدہ من النار داخل ہوتے ہیں۔
ثانیا یہ کہ اہتمام اس کا مثل اہتمام ضروریات دین کے بلکہ زیادہ کرتے ہیں،کہیں قالین وفروش،کہیں چوکی ومسند،کہیں شامیانہ،کہیں گلاب پاش ،کہیں شیرینی،کہیں قندیل وفانوس جھاڑ،چمنی ،گلاس،کہیں لوبان سلگنااوربہت سے امورغیرضروریہ کوضروری سمجھتے ہیں،اوربغیران سامانوں کے مولودکرنے کوپھیکاسمجھتے ہیں،ان چیزوں میں ناحق اسراف بیجاہوتا ہے،ان المبذرین کانوااخوان الشیاطین۔
ثالثاًیہ کہ تعیین وتقییدروزولادت کوضروری سمجھتے ہیں کہ اورکسی دن مولودمیں فضیلت نہیں ہے،غیرمقیدکومقیدسمجھنااورغیرضروری کوضروری سمجھنابدعات قبیحہ میں سے ہے،ورہبانےۃ ابتدعوہاماکتبناہاعلیہم۔
رابعاًیہ کہ اکثراہل محفل اہل بدعت یافساق وفجارہوتے ہیں،ان کے ساتھ ناحق مساہلہ ومداہنت کرنی پڑتی ہے اوربلکہ ان کی تعظیم کرتے ہیں،قال اللہ تعالی فلاتقعدبعدالذکری مع القوم الظالمین،عن ابراہیم بن میسرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ من وقرصاحب بدعۃ فقداعان علی ہدم الاسلام(رواہ البیہقی فی شعب الایمان مرسلا)
خامساًیہ کہ اکثراشعارنعت تصنیف جاہلوں کے ہوتے ہیں،کہیں اس میں توغل شان نبوی ہوتا ہے اورانبیاء کی نسبت بے ادبی ہوتی ہے ،قال علیہ السلام لاتطرونی کما اطرت النصاری ۔۔۔وقال لاتفضلوابین انبیاء اللہ الحدیث ای تفضیلا یودی الی تحقیربعض۔
سادساًوقت ذکرولادت کھڑے ہوتے ہیں،پھراس میں بعض کا عقیدہ تویہ ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ اس وقت تشریف رکھتے ہیں،یہ توبالکل شرک ہے،اگرعلم یا قدرت بالذات کا عقیدہ ہو،ورنہ کذب وافتراء علی اللہ والرسول ہے۔۔۔۔
سابعاًیہ کہ ان امورپراصرارکرتے ہیں اورمنع کرنے والوں سے جھگڑتے ہیں اورعداوت کرتے ہیں،اوراصرارمعصیت پرسخت معصیت ہے۔
پس بوجوہ مذکورہ الصدرنہ کرنا ہی اس کا بہترہے ،ہاں بصورت مجلس وعظ کے خالی ان لغویات سے ہوکچھ ۔۔۔نہیں ،اورحیرت ہے کہ یہ لوگ محبت نبوی کادعوی کرتے ہیں اورپھران بدعات کے مرتکب ہوتے ہیں،محبت کوتواطاعت لازم ہے۔قال ابن المبارک:
تعصی الالہ وانت تظہرحبہ ہل العمری فی الفعال بدیع
لوکان حبک صادق لاطعتہ ان ا لمحب لمن یحب مطیع
(امدادالفتاوی ج۵،ص:۲۵۰)
مولانا رشیداحمدگنگوہیؒ عیدمیلادالنبی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں تحریرفرماتے ہیں:
مجلس مروجہ مولودکہ جس کوسائل نہیں لکھا ہے بدعت ومکروہ ہے اگرچہ نفس ذکرفخردوعالم علیہ الصلوۃ کا مندوب ہے،مگربسبب انضمام ان قیودکے یہ مجلس ممنوع ہوگئی،قاعدہ فقہ کا ہے کہ مرکب حلال وحرام سے حرام ہوجاتا ہے،پس اس ہےئت مجموعہ مجلس مولودمیں بکثرت وزائد ازضرورت چراغاں کرنا اسراف ہے اوراسراف حرا م ہے کہ ان المبذرین کانوااخوان الشیاطین ،حکم ناطن قرآن شریف کا ہے علی ہذاامردان کا خوش الحان کا نظم ،اشعارپڑھنا موجب ہیجان فتنہ کا ہے اورکراہت سے خالی نہیں اورقیام بالخصوص اس میں ہی ذکراوراسی محفل میں ہونا بدعت ہے پس حضورایسی محفل کا سبب ان اموربدعت ومکروہ تحریمہ کے مکروہ تحریمہ اوربدعت ہوگا ،خواہ عالم لوگ جاویں یامفتی جاویں،بلکہ مفتی کوزیادہ موجب فسادکا ہے کہ وہ عالم ہے اورایسے فعل سے گمراہ کنندہ خلق کثیرکا ہوتا ہے۔۔۔(فتاوی رشیدیہ ص:۱۲۰)
۵۔مسلمانو ں کا ایک بڑا طبقہ اس دن کومذہبی دن کے طورپرمناناتاہے،گویایہ بھی کوئی عیدہے،حالانکہ مذہبی اعتبار سے اس دن کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہے۔
۶۔اس موقعہ پرگھروں کوسجانا،چراغاں کرنا،پٹاخہ اوردیگرچیزیں جوہمارے معاشرہ کا حصہ بن چکی ہیں،ان چیزوں کی ممانعت ظاہرہے،اسی کے ساتھ اس میں دوسری قوموں کی نقالی اورمشابہت بھی پائی جاتی ہے،عیسائی اپنے نبی کی یوم ولادت(برتھ ڈے)کرسمس کی شکل میں مناتے ہیں،برادران وطن اپنے تہواروں میں گھروں کوسجاتے ہیں،چراغاں کرتے ہیں،خوشی میں پٹاخے چھوڑتے ہیں،اب مسلمان بھی یہی سب کچھ کرنے لگے ہیں،ظاہرہے شریعت میں ان چیزوں کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے۔
۷۔علماء سلف نے بھی اسے بدعت قراردیا ہے،علامہ شاطبی کی عبارت اوپرگزرچکی ہے،علامہ ابن الحاج مکی لکھتے ہیں:
ومن جملۃ مااحدثوہ من البدع من اعتقادہم ان ذلک من اکبرالعبادات واظہارالشعائر مایفعلونہ فی شہرالربیع الاول من المولدوقداحتوی علی بدع ومحرمات۔(المدخل)
تیسرا طبقہ مولانااحمدرضاخاں بریلوی اوران کے متبعین کا ہے،یہ حضرات میلادکے پرزورمؤیدہیں،اوراسے ضروری اوردین کا حصہ قراردیتے ہیں،مولانا احمدرضاخاں صاحب نے اس موضوع پربڑی علمی بحثیں کی ہیں،ان کے فتاوی میں اس موضوع پربڑاسرمایہ موجودہے،ایک مستقل رسالہ ’’اذاقۃ الآثام لمن نعی عمل المولود والقیام‘‘کے نام سے بھی انہوں نے تحریرفرمایاہے،مختلف کتابوں کی عبارتوں کے علاوہ بعض نصوص سے بھی استدلال کرتے ہیں،ایک فتوی میں آیات سے میلاد کی مشروعیت پر استدلال کرتے ہوئے تحریرکرتے ہیں:
اللہ تعالی نے اپنے نعمتوں کا بیان واظہاراوراپنے فضل ورحمت کے ساتھ مطلقا خوشی منانے کا حکم دیاہے،قال اللہ تعالی:اما بنعمۃ ربک فحدث،وقال اللہ تعالی:قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا،ولادت حضورصاحب لولاک تمام نعمتوں کی اصل ہے،اللہ تعالی فرماتاہے:لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیہم رسولا،اورفرماتاہے:وماارسلنک الا رحمۃ للعالمین،توآپ کی خوبیوں کے بیان واظہارکاکا نص قطعی سے ہمیں حکم ہوا ، اورکارخیرمیں جس قدرمسلمان کثرت سے شامل ہوں اسی قدرزائدخوبی اوررحمت کا باعث ہے،اسی مجمع میں ولادت حضوراقد ﷺ کے ذکرکرنے کا نام مجلس ومحفل میلادہے۔۔۔(فتاوی رضویہ ج ۲۳،ص:۷۶۰)
مولانا احمدرضاخاص صاحب نے اس موضوع پرخوب لکھا ہے،فتاوی رضویہ میں کثرت سے فتاوی ہیں ،شایدیہی ان کے متبعین کا سرمایہ ہو،ان فتاوی میں عموما مذکورہ آیات یا اسی طرح کی دیگرآیات سے استدلال کیا ہے،ان کے علاوہ محدثین اورفقہاء کی متعددکتابوں کی عبارتیں پیش کی ہیں۔
اول الذکر دونوں طبقوں کے دلائل پرایک نظرڈالنے سے جوبات سامنے آتی ہے وہ کہ عیدمیلاد النبی کی مروجہ شکل کے بدعت اورمکروہ وناجائز ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے ، کیونکہ یہ بدعت ہونے کے علاوہ بہت سے منکرات کوبھی شامل ہے،اورجوحضرات اسے مستحسن قراردیتے ہیں ان کے نزدیک عیدمیلاد کا مطلب اس دن رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ کے لئے مجالس کاقیام ہے،اس کے علاوہ کچھ نہیں،اس لئے ان کی تحریروں میں مجلس میلادیا مجلس مولودجیسے الفاظ توملتے ہیں،البتہ اس دن جو اعمال مروج ہیں،مثلا چراغاں کرنا،گھروں کو سجاناوغیرہ اس کا تذکرہ نہیں ملتا،گویا یہ حضرات اسی مجلس کوجائز کہتے ہیں جومنکرات سے خالی ہو،اگرمجالس کے ساتھ منکرات بھی ہوں جیسا کہ آج کل ہوتا ہے توپھران کے نزدیک بھی بدعت اورناجائز ہوگی ۔
الف:یوم ولادت کوخاص دن کے طورپرمنانایا اس دن خوشی منانا ا س طرح کی کسی بات کا ثبوت قرآن وحدیث میں نہیں ہے،صحابہ کرام ،تابعین وتبع تابعین اورخیرالقرون میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ہے،اورصحابہ وتابعین اورتبع تابعین وائمہ مجتہدین سے جوبات ثابت نہ ہو،وہ دین نہیں ،دین میں نئی چیز ہے،بدعت ہے ، اوربدعت کے بارے میں صریح روایتیں موجودہیں:
من عمل عملالیس علیہ امرنافہورد۔(صحیح بخاری کتاب الصلح،حدیث نمبر:۲۵۵۰،صحیح مسلم،کتاب الاقضےۃ حدیث نمبر:۱۷۱۸)
من احدث فی امرناہذامالیس منہ فہورد۔(صحیح بخاری کتاب الصلح،حدیث نمبر:۲۵۵۰،صحیح مسلم،کتاب الاقضےۃ حدیث نمبر:۱۷۱۸)
ب:اس دن خوشی منانے کا کوئی ثبوت(مضبوط اورصریح)میلادکومستحسن کہنے والوں کے پاس نہیں ہے،حضورکی ولادت پرابولہب کا خوش ہوکرباندی آزاد کردینایادیگرممالک میں اس دن خوشی منانے کارواج ہونا اس کی کوئی دلیل نہیں ہے،اگرولادت باسعادت کی وجہ سے خوشی کا اظہارمستحسن ہوتا توصحابہ کرام اورخیرالقرون کے زمانہ میں اس کا ثبوت ملتا،یہ اس دن خوشی منانے کے ہم سے بصددرجہ زیادہ مستحق تھے،مگراس طرح کی کوئی بات نہیں ملتی ہے۔
ج۔جمہورعلماء جن اسباب کی بنیادپرعیدمیلادمنانے سے منع کرتے ہیں اوراسے ناجائزبتاتے ہیں جس کی تفصیل اوپرگزرچکی ہے،یہ اسباب واقعی پائے جاتے ہیں،بلکہ اب اس میں مزید خرافات شامل ہوچکی ہے ،پھریہ چیزیں بڑی تیزی سے مسلم معاشرہ میں رواج پارہی ہیں،اس لئے ان کوروکنابہت ضروری ہے۔
د:اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مغرب کی پیداواراورمغربی تہذیب کی نقالی ہے،یوم ولادت (برتھ ڈے)منانے کا تصوراسلامی تہذیب وثقافت سے میل نہیں کھاتا،یہ کبھی مسلم تہذیب کا حصہ نہیں رہا،چونکہ اس کا تعلق دین سے نہیں ہے اورنہ برتھ ڈے کودین کا حصہ سمجھاتاہے،اس بنیادپراگراس کومباح بھی کہہ لیا جائے توبھی اس کے ساتھ جودوسری چیزیں انجام پاتی ہیں،ان کوکیسے مباح کادرجہ دیاجاسکتا ہے!
ہ:سیرت النبی کے جلسے اورآپ ﷺ کا تذکرہ اگردیگررسومات اورمنکرات سے خالی ہوں،تب بھی مہینہ اوردن کی تعیین کی وجہ سے بدعت کے دائرہ میں ہی آتا ہے،البتہ ایسی صورت میں اسے بدعت حسنہ کہا جاسکتا ہے،اوراس طرح اس کی گنجائش ہوسکتی ہے ،بشرطیکہ یہ مجالس منکرات سے بالکل خالی ہوں،اورواعظین صحیح روایات اورحکایات نقل کرنے کا اہتمام کریں، خود مولاناعبدالحی صاحبؒ تحریرفرماتے ہیں:
اورلوگوں کا خودبخودجمع ہوکرمجلس ومحفل کی صورت اختیارکرلینابشرطیکہ منکرات سے خالی ہویاایک دوسرے کودعوت کہ فلاں اورفلاں جگہ مجلس میلادمنعقدہوگی سب لوگ اس میں شریک ہوں اس کا مرتبہ یہ ہے کہ ا س قسم کا ذکرخودنبی ﷺ اورصحابہ وتابعین ،تبع تابعین اورائمہ مجتہدین کے دورمیں نہیں تھا کیونکہ ان سے کوئی روایت منقول نہیں جس سے پتہ چل سکے ،اس لحاظ سے موجودہ زمانہ کی مجلسوں کوبدعت کہاجاسکتا ہے،امام نووی فرماتے ہیں’’البدعۃ فی الشرع احداث مالم یکن فی عہدرسول اللہ ﷺ‘‘بدعت اس چیز کانام ہے کہ شریعت میں ایسے احکام کاایجادکرلیناجس کاثبوت رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں نہ ہو،ملاعلی قاری نے بھی شرح مشکوۃ میں یہی فرمایاہے،مگرچونکہ یہ نیک کام ہے اوربظاہرگناہ نہیں اورخوشی کے موقع پراجتماع کی نظیریں شریعت سے ثابت ہیں،گاہ بگاہ حضرت بلالؓ آں حضرت ﷺ کے مواعظ کاگلی کوچوں اوربازاروں میں اعلان کیا کرتے تھے،اس لئے علماء نے اس کی اجازت دی ہے،اوراس کوبدعت حسنہ کہتے ہیں،جس کا فاعل مستحق ثواب ہوگا،نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرہاواجرمن عمل بہا۔(مجموع فتاوی ص:۹۶)
و:سیرت النبی کے جلسوں میں مقررین ضعیف اورموضوع روایات اوربے سندکے قصے کہانیاں کثرت سے نقل کرتے ہیں،اسی طرح نعت خواں حضرات آپ ﷺ کی تعریف میں حددرجہ مبالغہ سے کام لیتے ہیں،جس کی وجہ سے بسااوقات نبی کوخدااورکبھی اس سے اوپر درجہ تک پہونچادیتے ہیں،یہ باتیں انتہائی غلط ہیں،اس سے بہت زیادہ چوکنارہنے کی ضرورت ہے،چھوٹی روایت بیان کرنے پرجووعیدآئی ہے وہ اوپرذکرکی جاچکی ہے۔
اب جہاں تک تیسرے طبقہ کی بات ہے توان کے بارے میں مشہورہے کہ وہ میلاد کے پرزورقائل اورمؤیدہیں ،ان کی تحریروں میں یہ بات ملتی بھی ہے،فتاوی رضویہ میں میلاد کے جواز بلکہ مشروعیت کے سلسلہ میں کثرت سے فتاوی ہیں،ان تحریروں میں بعض آیات سے بھی استدلال کیا گیاہے،جیساکہ ایک فتوی اوپرنقل کیا گیا ،محدثین وفقہاء کی عبارت بھی مولانا احمدرضاخاں نے کثرت سے پیش کی ہیں،مگرراقم کوڈھونڈنے کے باوجودکوئی صریح نص میلادکے جواز پرنہیں ملی،اورجن کتابوں کی عبارتیں انہوں نے پیش کی ہیں ان میں اکثرغیرمستندہیں،مذکورہ فتوی میں آیات سے جس طرح استدلال کیاگیا ہے،اس کی حیثیت اہل علم خودہی سمجھ سکتے ہیں،البتہ ان فتاوی میں ایک خاص بات یہ بھی نظرآئی کہ بہت سی جگہوں پرمیلادکے لئے بعض شرائط کا ذکربھی ہے، یعنی ان کے نزدیک بھی(ان کے بعض فتاوی کے مطابق ) میلاداس وقت جائز ہے جبکہ منکرات سے خالی ہو،مثلادرج ذیل فتاوی ملاحظہ فرمائیں: 
’’مجلس میلاداعظم مندوبات میں سے ہے،جبکہ بروجہ صحیح ہو،جس طرح حرمین طیبین میں ہوتی ہے‘‘(فتاوی رضویہ ج۲۳،ص:۵۶۰)
’’روایات موضوعہ پڑھنابھی حرام اورسننا بھی حرام،ایسی مجالس سے اللہ عزوجل اورحضوراقدس ﷺ کمال ناراض ہیں،ایسی مجالس اوران کاپڑھنے والااس حال سے آگاہی پاکربھی حاضرہونے والامستحق غضب الہی ہیں‘‘(فتاوی رضویہ ج۲۳،ص:۷۳۴)
’’گیارہویں شریف اورمجلس مبارک میلادکاقیام ج طرح مکہ معظمہ ومدینہ معظمہ کے علماء کرام اوربلاداسلامیہ کے خاص وعام میں شائع ہے ضرورجائزہے‘‘ (فتاوی رضویہ ج۲۳،ص:۷۳۸)
’’حلوہ پکانا،فقراء پرتقسیم کرنا،احباب کوبھیجناجائزہے ،اللہ کے فضل ونعمت پرخوشی کرنے کاقرآن مجیدمیں حکم ہے،جائزخوشی ناجائزنہیں،آتشبازی اسراف وگناہ ہے،دن کی تعیین جرم نہیں،جبکہ کسی غیرواجب کوواجب نہ جانے‘‘(فتاوی رضویہ ج۲۳،ص:۷۴۴)
’’مجلس میلاداورنیازشریفہ کہ منکرات سے خالی ہیں سب خوب مستحسن ہیں،اوران میں شرکت باعث ثواب اوران کا کھانا بھی جائز‘‘
(فتاوی رضویہ ج۲۳، ص: ۷۵۶ )
ان تحریروں سے کسی نہ کی حمایت مقصودہے اورنہ دفاع،البتہ ان سے یہ ضرورثابت ہوتا ہے کہ مولانا احمدرضاخاں بھی کم ازکم ان تحریروں کی روشنی میں میلادکے مروجہ طریقہ کے قائل نہیں ہے،ان کے نزدیک بھی میلاداس وقت جائز ہے جبکہ مذکورہ منکرات سے خالی ہو۔
اس طرح دیکھا جائے توکسی کے نزدیک بھی میلادکا مروجہ طریقہ درست نہیں ہے،یہ بدعت اورشدیدگمراہی ہے،علماء کواس عمل پرشدت سے نکیرکرنا چاہیے، اوراپنے حلقہ کے عوام اوراپنے متبعین کواس عمل سے روکناچاہیے، البتہ اگرکوئی جائز طریقہ پرکرے تومحض لفظ میلادسے اس کا حکم یہ نہیں ہوگا۔
عوام میں اس عمل کے پھلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بعض علماء اس طرح کی مجلسوں کوکمانے کھانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں،بلکہ بعضوں نے تواسے پیشہ بنالیاہے ، ایسے مولوی نماافراد ہی ان مجلسوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں،بے چارے جاہل عوام ان جبہ ودستار والوں کے دام فریب میں آجاتے ہیں، شاندارمجلسیں منعقدکرتے ہیں، اورسمجھتے ہیں کہ ہم نے دین کا بڑاکام کیا،اس لئے ضروری ہے کہ دینی تعلیم عام کی جائے،خصوصا دیہات اورقصبات میں لوگوں کودین سے روشناس کرایاجائے، اورہرطبقہ کے ذمہ دارافراداس سلسلہ میں فکریں اوراپنے اپنے حلقہ میں ابن بدعات کا جائزہ لیاکریں،علماء کے لئے خاص طورپرہدایات جاری کریں کہ انہیں کس طرح کی تقریبات اورمجالس میں شریک ہونا ہے اورکہاں نہیں شریک ہونا ہے،نیز جہاں اس طرح کی تقریبات ہوتی ہیں وہاں کے لوگوں کواس کا جائز طریقہ بتایاجائے اور مروجہ طریقہ کے منکرات اوراس کی شناعت سے واقف کرایا جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے