مولانامنورسلطان ندوی اور ان کی کتاب شمالی بہار کا ایک مردم خیز قصبہ یکہتہ و اطراف

مولانامنورسلطان ندوی اور ان کی کتاب شمالی بہارکاایک مردم خیز قصبہ یکہتہ و اطراف 
Molana Manauwar Sultan Nadwi & His Book'Ekhataha w Atraf"
                                                                                                                                                                                      مولانانوشادعالم ندوی
                                                          استاذ: جامعۃ المومنات الاسلامیہ ،دوبگا،لکھنؤ  

جوقوم اپنے بزرگوں کی تاریخ یادرکھتی ہے وہی اپنے مستقبل کے لئے مضبوط اورٹھوس لائحہ عمل تیارکرسکتی ہے،ماضی کی اہم شخصیات اوران کے کارہائے نمایاں کی تفصیلات نیز ماضی میں پیش آنے والے اہم واقعات کویکجاکرنااورکامیابی وناکامی کے اسباب کا تنقیدی جائزہ لینا انتہائی مشکل عمل ہے،جوہرکس وناکس کے بس کی با ت نہیں،یہ کام وہی کرسکتاہے جوپختہ علمی استعدادکے ساتھ بالغ شعوررکھتاہو،خوبی وخامی کوپرکھ سکتاہو،شخصیات کے مابین صحیح توازن قائم کرسکتاہو،حوادث وواقعات کے تجزیہ کی صلاحیت رکھتاہو،مثبت فکرکے ساتھ تاریخ نویسی کا اعلی ذوق رکھتاہو،جس کا عزم جواں اورحوصلہ بلندہو۔
عزیز گرامی مولانامنورسلطان ندوی بلاشبہ ان تمام خوبیوں کے مالک ہیں،اس کم عمری میں انہوں نے جواہم علمی وتحقیقی کام کئے ہیں اورجس طرح علمی وتحقیقی حلقوں میں ان کی کتابوں کی پذیرائی ہوئی ہے وہ ایک مثال ہے،قلم وقرطاس کے میدان میں ابھی تازہ دم ہیں اوریکے بعددیگرے جس تسلسل کے ساتھ ان کی علمی کاوشیں منظرعام پرآرہی ہیں،وہ ان کے روشن مستقبل کی علامت ہیں۔
ہماراقصبہ’یکہتہ‘یوں توایک قصبہ ہے،جوشہرکی رونقوں اوراس کی ثقافتی سرگرمیوں سے دورواقع ہے،مگریہاں پیداہونے والی اہم شخصیات اوران کی دینی وتعلیمی اورسیاسی خدمات کے لحاظ سے یہ پورے صوبہ میں ایک شہرت رکھتاہے،اس لحاظ سے ہماری طرح یہاں کے ہراہل علم کے دل کی تمناتھی کہ کاش قصبہ کی تاریخ لکھی جاتی!کوئی اس سرزمین سے اٹھنے والی نامور شخصیات اوران کے کارناموں کوقلمبندکرتا،تاکہ یہ معلومات تاریخ کاحصہ بن جاتیں، ورنہ گردش ایام میں ماضی کی روشن تاریخ بھی دھندلی ہوتی چلی جائے گی،یہ سعادت اسی سرزمین کے ایک لائق وفائق فرزندکے حصہ میں آئی،یہ کام ہمارے دوست اوررفیق مولانا  منورسلطان ندوی (رفیق دارالافتاء دارالعلوم ندوۃ العلمائ،لکھنؤ)کے لئے مقدر تھا ، اور واقعی وہی اس اہم کام کے لئے موزوں بھی تھے،یہ ان کے حوصلہ اورعزم وہمت کی بات تھی کہ انہوں نے اس مشقت طلب کام کے لئے خودکو یکسو کیااورمسلسل محنت اوربڑی جدوجہدکے بعد منتشر معلومات اور سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی روایات کو محفوظ ومرتب کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
اس کتاب میں انہو ںنے اپنے علاقہ کی سماجی،معاشی،دینی،تعلیمی اورسیاسی صورت حال کا جائزہ لیاہے،یہاں کی دینی وعصری تعلیم گاہوں کاتعارف کراتے ہوئے ان کے عروج وزوال کی داستانیں بھی رقم کی ہیں،قصبہ اوراطراف کی دینی،علمی ،روحانی،اورسیاسی وسماجی شخصیات کے حالات قلمبندکئے ہیں،اوران سب کے ساتھ یہاں کی معاشرتی زندگی، زبان و ثقافت،اورتہذیب وتمدن کی جھلکیاں بھی پیش کی ہیں،اس میں ماضی کے ساتھ حال کی سرگرمیوں کوبھی شامل کیاہے،اس طرح اس کتاب میں علاقہ کی تاریخ کے تمام پہلوآگئے ہیں،اور شایدہی کوئی گوشہ مصنف کی نظرسے اوجھل ہواہے۔
یہ کتاب دراصل یکہتہ واطراف کے ان تمام فرزند وں کے خوابوں کی حسین تعبیرہے جو علم وشعورکے ساتھ حرکت وعمل کا مبارک جذبہ رکھتے ہیں،جواپنے آباء واجدادکے اہم اور مثبت کارناموں کوبنیادبناکراپنی ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں،جومعاشرہ سے نفرت و تعصب،بھیدوبھائو،نچ نیچ اورکھینچ تان جیسی خطرناک جراثیم کوہمیشہ کے لئے نابودکرنا چاہتے ہیں،جوعلم وآگہی،الفت ومحبت،ایثاروہمددری ،عزت واحترام اوراخلاقی اقدار پرمعاشرہ کی تعمیرکرنا چاہتے ہیں،یہ کام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا،مگرنہ ہوسکا،یہ قصبہ کے تمام اہل علم پراپنے اسلاف کا ایک قرض تھا،جس کااحساس تمام ہی لوگوں کوتھا،عزیز گرامی مولانا منورسلطان ندوی نے بقول مولانامحمد قاسم مظفرپوری’اس قرض کوفرض سمجھ کر پوراکیاہے‘یہ ان کا قصبہ کے نام وہ اہم خدمت ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیاجاسکے گا،قصبہ کے تمام اہل ذوق کوعزیز موصوف کا شکرگزارہوناچاہیے اوراس اہم کوشش کی قدرکرنی چاہیے۔
اس کتاب میں علاقہ کے تمام مشاہیرکے حالات کومحفوظ کرنے کوشش کی گئی ہے،اس میں جن شخصیات کاتعارف شامل ہے،ان کی تعدادسوسے متجاوزہے،جناب محمدشفیع بیرسٹر ؒاور جناب مولاناممتاز علی مظاہری دامت برکاتہم کاخاص طورپراورتفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے،کہ قصبہ کے تعلیمی انقلاب کا سہرادراصل انہی دوشخصیات کے سرجاتاہے،ان کے علاوہ جوبھی کسی میدان میں شہرت رکھتے تھے یا رکھتے ہیں ان سب کا تعارف کسی نہ کسی انداز میں موجودہے، ممکن ہے کہ ان کے علاوہ اوربھی بعض شخصیات ایسی ہوں جنہیں شہرت تونہیں ملی،لیکن اس تعلیمی انقلاب میں ان کی خدمات دوسروں سے کہیں زیادہ ہوں،ایسے افرادکی حیثیت بنیاد کے ان پتھروں کی ہے جولوگوں کونظرتونہیں آتے مگرعمارت کا ظاہری ڈھانچہ اوراس کی تمام تر زیب وزینت اسی بنیادکے پتھروں پرہوتی ہے۔
عزیز محترم ایک کاشتکارگھرانہ سے تعلق رکھتے ہیں،ان کے داداجان جناب ناظم حسینؒ گائوں کے معروف کاشتکارتھے،ان کے اندربڑی سادگی تھی،وہ گرچہ خودتعلیم سے بہرورنہ تھے ، مگرانہوں نے اپنے فرزندوں کوعصری تعلیم دلانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی،وہ خود بھی بزرگوں سے عقیدت رکھتے تھے،بہارکے معروف بزرگ حضرت مولانامنورحسین مظاہری ؒپورنوی جو حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریا صاحبؒسہارنپوری کے اجلہ خلفاء میں تھے،ان سے ناظم حسین صاحب کوبڑی عقیدت تھی،آپ نے اپنے اس پوتے کانام انہی کے نام پررکھا ، منورسلطان ندوی کے والدبزرگوارجناب ماسٹربشیراحمد صاحب عصری تعلیم یافتہ ہیں،انتہائی سادہ زندگی،دینی مزاج کے حامل،علم اوراہل علم سے عقیدت وتعلق رکھنے والے،سرکاری اسکول میں بحیثیت معلم خدمت انجام دیتے رہے،چندسال قبل ملازمت سے سبکدوش ہوئے ہیں،آپ بڑے اللہ والے ہیں،حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ سے بیعت وارادت کا تعلق رکھتے ہیں،اکثروبیشتررمضان المبارک میں اعتکاف کے لئے سہارنپورجایاکرتے تھے،اب چند سالوں سے حضرت شیخ الحدیث کے خلیفہ مولانااشتیاق صاحب مظفرپوری کی صحبت میں ماہ مبارک گزارتے ہیں۔
مولانامنورسلطان ندوی نے اپنی ابتدئی تعلیم کا آغازمدرسہ اسلامیہ طوفانپورسے کیا، یہاں وسطانیہ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعدمدرسہ چشمۂ فیض ململ میں داخلہ لیا،اورعالیہ اولی تک کی تعلیم مکمل کی،پھریہیں سے دارالعلوم ندوۃ العلماء کی وسیع علمی فضاء میں پہونچے،جہاں عالمیت اورفضیلت(اختصاص فقہ)کی سندحاصل کی،یہاں سے فراغت کے بعدمزیدعلمی وتحقیقی ذوق پیداکرنے کے لئے ایک مردم سازشخصیت حضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کی خدمت میں پہونچے،اورآپ کے تحقیقی ادارہ المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد میں افتاء وقضاء کی تربیت کے ساتھ بحث وتحقیق کا سلیقہ بھی سیکھا،اس دوران مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صاحب سے شخصی طورپر بھی خوب فائدہ اٹھایا،مولاناکے ساتھ رفاقت کی سعادت بھی میسرآئی،اورپھریہیں سے ان کے علمی وتحقیقی جوہرکھلنے شروع ہوئے۔
 مولاناخالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی نگرانی میں دواہم موضوعات پرکام کیا،پہلا’ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج اورابناء ندوہ کی فقہی خدمات‘ اوردوسر’اخواتین کے شرعی مسائل‘،یہ دونوں کتابیں شائع ہوکراہل علم سے خراج تحسین وصول کرچکی ہیں،ان کتابوں کوملکی سطح پربڑی پذیرائی حاصل ہوئی،ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج ندوہ کے حلقہ میں بے حدمقبول ہوئی،دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم مولاناڈاکٹرسعیدالرحمن اعظمی ندوی دامت برکاتہم نے اس کتاب کو’ ندوہ کی تاریخ میں ایک درخشاں باب کا اضافہ ‘قراردیاتوحضرت مولاناسیدمحمد واضح رشیدحسنی ندوی (معتمدتعلیم ندوۃ العلمائ)نے اس کتاب کو’ندوۃ العلماء کے زریں تاج کاایک خوبصورت نگینہ‘ سے تعبیرکیا،دوسری کتاب خواتین کے شرعی مسائل کے لئے یہ اعزاز کیا کم ہے کہ لڑکیوں کے بعض اہم جامعات کے نصاب میں یہ کتاب داخل ہوچکی ہے،مبصرین نے اس کتاب کو موجودہ دورکا بہشتی زیورکہاہے۔
المعہدالعالی حیدرآبادسے فراغت کے بعدہی ان کاتقرردارالعلوم ندوۃ العلماء کے دارالافتاء میں بحیثیت مرتب فتاوی ہوا،پھرفقہ کی بعض اہم کتابوں کی تدریس بھی ملی،اس وقت فتاوی ندوۃ العلماء کی ترتیب وتحقیق کا اہم کام انجام دے رہے ہیں،فتاوی کی پہلی جلدشائع بھی ہوچکی ہے۔
ان دوکتابوں کے علاوہ انہوں نے اورمتعددکتابیں مرتب کیں ہیں جن میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے سابق استاذجناب امین الدین شجاع الدین کی ادبی تحریروں کے دو مجموعے ’ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘اور’روبرو‘خاص طورپرقابل ذکرہیں،ان کے علاوہ مختلف جرائد ورسائل میں مسلسل علمی مضامین لکھتے رہتے ہیں،اب تک متعددعلمی سیمیناروں میں مقالات پیش کرچکے ہیں،اس طرح عزیز موصوف کی علمی زندگی جہدمسلسل سے عبارت ہے،اوران کے خاص مربی کی دعاکہ’ ان کا قلم تھکن ناآشنارہے‘کی تعبیرسامنے آرہی ہے،اس کم عمری میں اپنی علمی اورتحقیقی کاوشوں سے علمی حلقہ میں پہچان بناچکے ہیں،اوراکثراکابراہل علم کی توجہ حاصل کرچکے ہیں۔
مجھے آج بھی خوب یادہے کہ عزیز ی سلمہ جب دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے تواس وقت میں پہلے سے وہاں زیرتعلیم تھا،غالبامیراعالمیت کا آخری سال تھا،قصبہ اوراطراف کے اوربھی طلبہ وہاں تھے،مگرمنورسلطان ندوی کی انفرادی شان تھی،وہ اس زمانہ میں بھی اصلاحی اورتربیتی مضامین لکھاکرتے تھے،جوعموماًماہنامہ رضوان میں شائع ہوتے،وہ کچھ بھی لکھتے توپہلے مجھے دکھالیاکرتے تھے،ان کواس کی ضرورت تونہیں تھی،مگرمیں ان سے بڑا تھااور سینئربھی،اس لئے وہ میرااحترام کرتے تھے،وہ اس وقت عمرمیں چھوٹے تھے،مگرشعورکا یہ حال تھاکہ جب بھی ہمارے ساتھ ہوتے توعلاقہ سے متعلق کچھ نہ کچھ گفتگوضرورکرتے ۔
اس زمانہ میں ندوہ میں قصبہ کے متعددطلبہ زیرتعلیم تھے،ہم لوگ جمع ہوتے توگائوں کے حالات پرکچھ نہ کچھ بات ضرورہوتی،ہم لوگ اپنے علاقہ کے لئے منصوبہ بناتے،بہت سے خاکے بنتے اوربگڑتے،مگرکسی میں اقدام کی ہمت نہیں ہوتی،پھرایک وقت ایسا بھی آیاکہ ہمارے احباب کی ایک تنظیم تشکیل پائی،جس کے پلیٹ فارم سے مسابقہ قرآن،اورخطابت و کوئزکے مقابلے یکہتہ کی سرزمین پرمنعقدہوئے،اورپھردیکھتے ہی دیکھتے کئی اہم تعلیمی وثقافتی پروگرام ہوئے ، اوریہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا،ان تمام سرگرمیوں کے پیچھے اسی عزیز محترم کا ہاتھ تھا،وہی اس کے اصل روح رواں تھے۔
اس کتاب میں انہوں نے تاریخ اورسیرت کوایک ساتھ سمودیاہے،اوردونوں کے تقاضوں سے عہدہ برآہونے میں کامیاب رہے ہیں،انہوں نے جس طرح شخصیات کوماضی کے ڈھیرسے ڈھونڈ ڈھونڈکرنکالاہے اورپھرمعلومات جمع کرکے اس کی صورت گری کی ہے، اس سے عزیز محترم کی محنت کااندازہ ہوتاہے،لکھتے وقت ان کا قلم کبھی ناقدانہ روپ اختیار کر لیتاہے توکبھی ادب وانشاء کے پھول کھلاتاہے،کبھی واقعات کاایساتجزیہ کرتاہے جیسا منصف عدالت میں،توکبھی ناکامی پرخون کے آنسوبہاتااورملت کوپوری طاقت سے جھنجھوڑتانظر آتا ہے،قلم کے ان مختلف روپ میں ان کے دل کادرد،اجتماعی کوششوں کی ناکامی کا غم اورقوم کو بیدار کرنے کا احساس جھلکتانظرآتاہے،یہی وہ احساس ہے جوقاری کواپنے حصارمیں لے لیتا ہے، اورطنزونشترکے درمیان ایک نئی لذت سے ہمکنار کرتاہے۔
رفیق محترم نے اس تاریخ کے ذریعہ قوم کوبیدارکرنے کی کوشش کی ہے،وہ اپنے طاقتور اسلوب کے ذریعہ اپنادردقاری کے دلوں تک پہونچاناچاہتے ہیں،پڑھنے والوں کے احساس پردستک دینا چاہتے ہیں،وہ قوم کی ضمیرکوبیدارکرناچاہتے ہیں،وہ اپنی قوم کے افراد کو یہ پیغام دیناچاہتے ہیں کہ ماضی میں ہم نے ملی واجتماعی کاموں میں جوکوتاہی کی ہے،وہ دوبارہ تاریخ کا حصہ نہ بن سکے،اورجن اسباب کی بنا پرہمیں ناکامی ملی ان کااعادہ دوبارہ نہ ہو،اسی کے ساتھ انہوں نے تعلیمی اورمعاشی ترقی کا ایک تصوربھی پیش کیا ہے،ہمیں امیدہے کہ قصبہ اور اطراف کے اہل دانش اس لائحہ عمل پرسنجیدگی سے غورکریں گے۔
عزیز موصوف کی علمی صلاحیت کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ا ن کاکام خود بول رہاہے،البتہ ان کی دوخوبیوں کاذکرکرنامناسب معلوم ہوتاہے جو ان کے تمام کاموں کے پیچھے کار فرمانظرآتی ہیں،پہلی صفت ان کاحوصلہ ہے جوہمیشہ بلندرہتاہے،اوردوسری صفت لگن،اورجہد مسلسل ہے،ان کے حوصلہ کی پختگی کایہ حال ہے کہ جب جوٹھان لیتے ہیں اس کو کرکے ہی دم لیتے ہیں،لوگوں کی تنقیدوتبصرے ان کے عزم وارادہ کوکمزورنہیں کر پاتے، ان کے جہدمسلسل کا یہ حال ہے کہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں،کتاب،مقالات،مضامین، سیمینار،اوریہ سب کچھ دارالعلوم کی طرف سے مفوضہ کام کے علاوہ ہوتاہے،یہ کتاب بھی ان کے عزم وحوصلہ اورجہد مسلسل کامنہ بولتاثبوت ہے۔
ان کے اندرایک خوبی اوربھی ہے،وہ یہ کہ وہ ہمیشہ ملی مسائل پر سوچتے رہتے ہیں،ان کا ذہن منصوبہ سازواقع ہواہے،علاقہ کے تعلیمی ومعاشی اورثقافتی مسائل پرسوچنا،اس کے لئے لائحہ عمل طے کرنا،اورپھرجوممکن ہوسکے وہ کرگزرناان کا محبوب مشغلہ ہے،علاقہ کی ترقی اکثران کی گفتگوکاخاص عنوان ہواکرتاہے،علاقہ سے ان کی ہمدردی بتاتی ہے کہ وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں،اوربہت کچھ کرنے کاارادہ بھی رکھتے ہیں،خداکرے حالات سازگارہوں اورعلاقہ کے افراداس جوہرقابل کوپہچانیں اور ان کی صلاحیتوں سے صحیح فائدہ اٹھاسکیں!
اس کتاب کے لئے کچھ لکھنامیرے لئے مسرت آگیں اوربڑافرحت انگیز ہے،میں اپنے دوست اوررفیق کواس اہم کام کے لئے دل سے مبارکباد پیش کرتاہوں،میرے نزدیک ان سے زیادہ ان کے والدین مبارکبادکے مستحق ہیں،جنہوں نے اس ہونہارفرزندکی تربیت کی ، اوران کے مناسب مواقع فراہم کرتے رہے،اللہ تعالی مصنف موصوف کی اس گراں قدر کاوش کوقبول فرمائے،اوران کی دیگرکتابوں کی طرح اسے بھی قبول عام عطافرمائے!
                                                                                        نوشادعالم ندوی               
                                      استاذ: جامعۃ المومنات الاسلامیہ ،دوبگا،لکھنؤ  

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے