جدیدفقہی رجحانات کے موضوع پراردوکتابیں۔ایک تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                                                                                منورسلطان ندوی
                                     (رفیق علمی:دارالافتائ،دارالعلوم ندوۃ العلمائ،لکھنؤ)
بیسویں صدی کے نصف اخیرسے فقہ کا ایک نیادورشروع ہوتاہے،جب مختلف اسباب وعوامل کی بنیادپرروایتی جمودٹوٹا،غوروفکراورتحقیق واجتہادکی راہیں وا ہوئیں، جس کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ جدیدمسائل کے حل پرتوجہ ہوئی اورانفرادی واجتماعی اجتہادکاسلسلہ شروع ہوابلکہ مختلف جہتوں سے قابل قدرعلمی وتحقیقی پیش رفت ہوئی،بہت سے نئے موضوعات سامنے آئے،اس درمیان بعض رجحانات بھی ابھرکرسامنے آئے،بعض خاص اصطلاحات مروج ہوئیں،نظریہ سازی،فقہ الاقلیات،مقاصدشریعت،فقہ الاولیات فقہ الموازنات وغیرہ نے توباضابطہ ایک موضوع کی شکل اختیارکرلیا،جن پرخاصہ تحریری سرمایہ تیار ہوچکا ہے،علامہ قرضاوی اوردیگرفقہاء نے دوسرے فقہی رجحانات بھی پیش کئے ،مثلاتاصیل ،فقہ التیسیر،فقہ الاولویات وغیرہ،ان کے علاوہ تلفیق،دوسرے مسلک پر فتوی، مسالک اربعہ کے بجائے مسالک ستہ،مسالک ثمانیہ اورپھران مسالک کی تحدیدکے بغیرصحابہ کی آراء تلاش جیسے رجحانات بھی معروف ہوئے، ان سب کے اثرات جدیدفقہی لٹریچرمیں واضح طورپر دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس مقالہ میں نظریہ سازی،مقاصدشریعت اورفقہ الاقلیات کے موضوع پرلکھی جانے والی اردوکتابوں پرایک نظرڈالیں گے۔
فقہی نظریات
فقہی نظریات کی تعریف کرتے ہوئے شیخ مصطفے زرقاء لکھتے ہیں:
فقہ کے اساسی نظریات سے ہماری مرادوہ بڑے بڑے دستوراورمفاہیم ہیں جن میں سے ہرایک ایساقانونی نظام تشکیل دیتاہے جونظام فقہ اسلامی کے جسم میں اس طرح پھیلاہواہے جس طرح مختلف قسم کے اعصابی نظام،انسانی جسم کے مختلف اطراف اورگوشوں میں پھیلے ہوئے ہیںاوراس نظام کے عناصراس موضوع سے تعلق رکھنے والے مختلف احکام میں حکمراں ہیں،مثلاملکیت اوراسباب ملکیت کانظریہ،عقد،قواعدعقداورنتائج عقدکانظریہ،اہلیت کا نظریہ اوراس کی مختلف قسمیں،مراحل اورعوارض،نیابت اوراس کے احکام کانظریہ،باطل ،فاسداورموقوف کانظریہ…اوراس طرح دوسرے بڑے بڑے نظریات جن پراسلامی فقہ کاشاندارمحل تعمیرہواہے اورتمام فقہی مسائل وحوادث کے حل میں انسان ان نظریات کے اثرات سے دوچار ہوتا ہے۔
           (المدخل الفقہی العام)
نظریات کے موضوع پرعربی میں ڈھیرساراکام ہواہے،اردومیں گنتی کے چندکتابیں منظرعام آئی ہیں،جواس طرح ہیں:
۱۔فقہ اسلامی کی نظریہ سازی
یہ دکتورجمال الدین عطیہ کے ان محاضرات کامجموعہ ہے جوانہوں نے قطریونیورسیٹی کے کلیہ الشریعہ کے طلبہ کے سامنے فقہی نظریات کے عنوان سے پیش کئے تھے،تین ابواب پرمشتمل اس کتاب کی حیثیت دراصل اس موضوع پرایک تمہیدکی ہے،پہلے باب کاعنوان فقہی نظریات اورعلم اصول فقہ ہے جس میں اصول فقہ کی ابتدائ،اس فن میں تصنیف وتالیف کے طریقے اورترتیب وموضوعات کوبیان کیاہے،دوسرے باب میں فقہ کے علاوہ دیگرعلوم اسلامیہ میں فقہی نظریات کی تلاش کی ہے اورآخری باب میں فقہی نظریات کی موجودہ صورت حال پربحث کی ہے۔
اس عنوان کواختیارکرنے کے وجہ بیان کرتے ہوئے مصنف کتاب لکھتے ہیں:
لوگوں میں مشہورہے کہ اسلامی شریعت میں عمومی نظریات نہیں ہیں،بلکہ اسلامی شریعت زندگی کے مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والے فرعی احکام کے مجموعہ کانام ہے،ہم اس کتاب کے پہلے اوردوسرے باب میں جائزہ لیں گے کہ نظریہ سازی کے میدان میں فقہائے سلف کی کوشش کہاں تک پہونچی ہے ، اس جائزہ سے یہ حقیقت بھی کھلے گی کہ مذکورہ بالامقولہ علی الاطلاق درست نہیں ہے…(ص:۷)
دورحاضرمیں جوعلمی کاوشیں سامنے آئی ہیں مصنف نے انہیں تین حصوں میں تقسیم کیاہے:اول:تحدیث،دوم:جدیدمسائل سے متعلق اسلامی نقطہ نظرکی وضاحت،سوم:موازنہ اورتقابلی مطالعہ،اخیرمیں فقہ اسلامی اورفقہی نظریات کے موضوع پرعصرحاضرکے مصنفین کی تحریروں کی ایک طویل فہرست دی ہے،  صاحب کتاب نے قواعد فقہیہ پربھی تفصیلی بحث کی ہے۔
اصل کتاب عربی میں التنظیرالفقہی کے نام سے شائع ہوئی تھی،اسلامک فقہ اکیڈمی نے اس کاترجمہ شائع کیاہے۔
۲۔اس موضوع پردوسری کتاب بھی آپ ہی ہے،یہ’’ اسلامی شریعت کاعمومی نظریہ ‘‘کے عنوان سے فقہ اکیڈمی سے شائع ہوئی ہے،یہ بھی مصنف کے محاضرات کامجموعہ ہے،جسے بعدمیں کتابی شکل دی گئی ہے اورپھراس کے بعداردوقالب دیاگیا۔
شریعت کے عمومی نظریات کے بارے دکتورجمال الدین عطیہ لکھتے ہیں:
عمومی نظریات سے ہماری مراد وہ عام تصورہے جواک نظام قانون کی حیثیت سے اسلامی شریعت کے بنیادی خطوط کی وضاحت کرتاہے،اس اعتبار سے یہ عمومی نظریہ اصول فقہ کوشامل ہے،کیونکہ اصول فقہ کے مباحث اس نظریہ کے عام منصوبے میں نمایاں مقام پاتے ہیں،حالانکہ شریعت کا یہ عمومی نظریہ استنباط احکام ہی کے اندرمحدودنہیں ہے ،شریعت کے نظریہ عام اس سے بلندنظریہ سے پھوٹتاہے ۔(ص:۶)
کتاب بارہ فصلوں پرمشتمل ہے،پہلی فصل میں اسلامی شریعت کی خصوصیات وامتیازات کوتفصیل سے بیان کرتے ہوئے اس کاوضعی قوانین سے موازنہ کیاہے،شریعت کے مآخذکے ضمن میں اولوالامر،اجتھاد،مجتہدین کی قانون سازی اورقاضیوں کے فیصلوں پربڑی محققانہ بحث کی ہے،اس کے علاوہ عرف واستحسان کوبھی بیان کیاہے۔
آپ نے حکم شرعی کے دائرہ کی دوتقسیم کی ہے،مکانی اورزمانی،مکانی دائرہ میں بین الاقوامی تعلقات کے بارے اسلامی نقطہ نظرکی وضاحت کرتے ہوئے دارالاسلام ،دارالحرب ،دارالعہداورحقوق سے متعلق بڑی عمدہ بحث کی ہے،اورمکانی دائرہ میں نسخ کی بحث ہے۔
۳۔ڈاکٹرنجات اللہ صدیقی کی کتاب ’’اسلام کانظریہ ملکیت‘‘اسی زمرہ کی کتاب ہے۔
مقاصدشریعت
مقاصداوراسرارشریعت کاموضوع متقدمین کے یہاں خوب خوب ملتاہے، بیسویں صدی کے نصف اخیرمیںیہ ایک مستقل موضوع کی شکل میں ابھرا ، علامہ محمدطاہربن عاشورتیونسی(۱۸۷۹ئ۔۱۹۷۳ئ)نے ۱۹۶۶ء میں مقاصدالشریعۃ الاسلامیہ کے نام سے کتاب لکھی،اس کے بعدمراکش کے علال فاسی(۱۹۰۸ئ۔۱۹۷۴ئ)کی کتاب ’’مقاصدالشریعۃ الاسلامیہ ومکارمہا‘‘شائع ہوئی،ان دونوں کتابوں نے علماء کی توجہ اس موضوع کی طرف مبذدل کرائی،اس کے بعدسے مسلسل یہ اہل علم کی توجہ کامرکزرہا،عربی سے یہ موضوع اردومیں منتقل ہوا،عربی زبان میں اس موضوع پراتناکام ہوچکاہے کہ اس موضوع پرکتابوں اورمقالات کی صرف فہرست دوضخیم جلدوں میں شائع ہوئی ہے،المعہدالعالمی للفکرالاسلامی شمالی امریکہ اورمعہدلدرسات مقاصدالشریعہ اوردیگرادارے صرف اسی موضوع پرکام کے لئے وقف ہیں۔
۱۔مقاصدشریعت:تعارف اورتطبیق  ناشر:اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی،۲۰۰۴ء
اسلامک فقہ اکیڈمی نے ۲۰۰۳ء کے اواخرمیں پہلے پہل مقاصدشریعت کے تعارف کے لئے ایک فقہی ورکشاپ منعقدکیاتھا،یہ اسی ورکشاپ کے مقالات ومحاضرات کامجموعہ ہے،مقاصد کے موضوع پراردومیں یہ سب سے پہلی کتاب ہے،کتاب کے مشتملات درج ذیل ابواب میں منقسم ہیں:
مقاصدشریعت :ضرورت اورعصری معنویت
مقاصدشریعت :اساس اورمدارج
مقاصدشریعت :تاریخی تناظر
مقاصدشریعت :تطبیق اوراستفادہ
مقاصدشریعت :تاثرات اورنتائج
مقاصدشریعت :چندنئی کتابیں ،ایک جامع تعارف
یہ کتاب مقاصدکوسمجھنے اورسمجھانے کی ایک بہترین کوشش ہے،اکثرمحاضرات ومقالات میں اسراروحکم اورمقاصدگڈمڈنظرآتاہے جبکہ بیرون ہندکے علماء کی تحریریں خالص فنی اورموضوعاتی ہیں،اس میں خاص طورپرمقاصدکے موضوع پرہونے والے علمی وتحقیقی کاموں کاتسلسل دکھایاگیاہے،دوسری طرف اس کے اساس اورمدارج بربھی بحث کی گئی ہے،ساتھ ہی امام شاطبی اورامام طاہرابن عاشورکے نظریات کاتعارف کرایاگیاہے اوراخیرمیں اس موضوع سے متعلق پا نچ اہم کتابوں کاخلاصہ بھی درج ہے۔
۲۔مقاصدشریعت عصری تناظرمیں  ڈاکٹرجمال الدین عطیہ ناشر اسلامک فقہ اکیڈمی،۲۰۰۴ء
اصل کتاب عربی میں’’ نحوتفعیل المقاصد‘‘کے نام سے ہے،جس کی تلخیص اوراردوترجمانی ہشام الحق ندوی نے کی ہے،مصرکے مفتی اعظم ڈاکٹرعلی جمعہ نے اپنے پیش لفظ میں کتاب کاجامع تعارف کرایاہے،ہم یہاں انہی کے الفاظ مستعارلیتے ہیں،ڈاکٹرصاحب لکھتے ہیں:
مصنف نے تین فصلوں میں اس موضوع پربحث کی ہے،ہرفصل ایسے مباحث پرمشتمل ہے جن میں تفصیل سے مقاصدکے مسائل کوزیربحث لایاہے۔
پہلی فصل میں چندمحوری مسائل ذکرکئے گئے ہیں،اس کے تحت مقاصدکے تعیین اوراثبات میں عقل ،فطرت اورتجزیہ کے کردارپرروشنی ڈالی گئی ہے،نیز مقاصدکی درجہ بندی،ہرمقصدکے وسائل کی درجہ بندی اوران کے تطبیق پرمفصل بحث کی گئی ہے۔
دوسری فصل میں مصنف نے مقاصدکے جدیدتصورکوزیربحث لائے ہیں،اس کے تحت انہوں نے مقاصدکی پانچ روایتی اقسام،ان کی محدودیت ، مقاصدکی دیگرانواع واقسام ،اورمقاصدکے چارمجوزہ گوشوں:فرد،خاندان،امت اورانسانی سماج پرتفصیل سے روشنی ڈالی ہے،اس طرح انہوں نے مقاصدکے دائرہ کووسیع کرتے ہوئے ان کوپہلے سے زیادہ مؤثراورفعال بنادیاہے۔
تیسری فصل میں مقاصدکومؤثراورفعال بنانے کے طریقوں پرتفصیلی گفتگوکی ہے،اس ضمن میں مقاصدکے استعمال کی موجودہ صورت ، اجتہاد مقاصدی ، فقہی نظریہ سازی،فرداورجماعت کی مقاصدی ذہنیت اورعلم مقاصدکے مستقبل پرروشنی ڈالی ہے۔(ص:۹،۱۰)
مؤلف نے پانچ کلی مقاصدکوچارگوشوں میں تقسیم کرکے ان سی متعلق مقاصدکی تعیین کی ہے:
فردسے متعلق مقاصداس طرح ہیں:
 تحفظ جان،تحفظ عقل،تحفظ تدین،تحفظ عزت اورتحفظ مال۔
خاندان سے متعلق مقاصداس طرح ہیں:
 مردوعورت کے درمیان جنسی تعلق کی تقسیم
 تحفظ نسل
 سکون ،مودت اوررحمت کاماحول
 تحفظ نسب
 خاندان میں تدیں کی حفاظت
 بحیثیت ایک ادارہ کے خاندان کی تنظیم
 خاندان کے مالی پہلوکی تنظیم
امت سے متعلق مقاصداس طرح ہیں:
 امت کی اجارہ جاتی تقسیم
 تحفظ امن
 انصاف کاقیام
 دین واخلاق کاتحفظ
 تعاون،تکافل اورامدادباہمی
 علم کی اشاعت اورامت کی عقل کی حفاظت
انسانیت سے متعلق مقاصد:
 تعارف،تعاون اورہم آہنگی
 روئے زمین پرانسان کے لئے عمومی خلافت کاقیام
 انصاف پرمبنی عالمی امن کاقیام
 عالمی سطح پرحقوق انسانی کاتحفظ
 دعوت اسلامی کی اشاعت(ص:۶۹۔۸۹)
۳۔فقہ مقاصد ازڈاکٹرجاسرعودۃ  مترجم:الیا س نعمانی ندوی ناشر:المعہدالعالمی للفکرالاسلامی ۲۰۰۸ء
معاصرفقہی دنیامیں ڈاکٹرجاسرعودۃ ایک معروف نام ہے،یہ کتاب اصلاآپ کے ایم اے کامقالہ ہے،جوبعدمیں ترمیم واضافہ کے ساتھ کتابی شکل میں شائع ہوئی ہے،رفیق محترم مولاناالیاس نعمانی ندوی نے اسے اردوکاجامع پہنایاہے،یہ کتاب مقاصد کے موضوع پراس لئے بھی بہت اہم ہے کہ اس میں مقاصدکے تصورکوبڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیاہے،یایہ کہہ سکتے ہیں کہ مقاصدکاایک خاص تصورپیش کیاہے،کتاب کے بیشترمباحث ایسے ہیں جن پرغورکرنااورتنقیدی نظرڈالناضروری ہے۔
عودہ صاحب نے کتاب کی تالیف کے چارمقاصد بیان کئے ہیں:
پہلا مقصد یہ ہے کہ مقاصد شریعت کو احکام کا مدار ٹھہرا کر فقہ اسلامی کی لچک اور تمام حالات اور زمانوں کے قابل عمل ہونے کی حفاظت کی جائے۔
اس مقصد کی تکمیل کس طرح ہوگی،اس بارے میں لکھتے ہیں:
’’فتاوی کے ظاہر پر عمل ان کے صدور کے وقت جیسے حالات اورعرف میں تو صحیح ہے،لیکن حالات وزمانہ مکمل تبدیل ہوجائیں اور اس کے نتیجہ میں زمینی حقائق بھی بدل جائیں توپھر انہی فتاوی کے ظاہر صحیح نہیں ہے‘‘
دوسرا مقصد یہ ہے کہ تعارض موہوم سے صرف نظر کرکے تمام نصوص پرعمل کیاجائے،اس کی ضرورت اس لئے ہے کہ بلا دلیل شرعی محض اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پرکسی آیت محکم یا صحیح حدیث کو مرجوح و منسوخ قراردے کر اس کا اہمال یا الغا کرنا اصولی طورپرصحیح نہیں ہے۔
تیسرا مقصد ہے فروعی اختلاف کو کم کرنا،اس کے لئے مشورہ یہ ہے کہ مقاصد کو ان کے مرجع کی حیثیت دلائی جائے،کیونکہ فروعی میں اختلاف طبیعتوں،عقلوں اوراخذکرنے کی صلاحیتوں پر میں تفاوت کا فطری نتیجہ ہے۔
اورچوتھا مقصد یہ ہے کہ مسلم اقلیتی ممالک میں احکام اسلامی کوان کے اہداف و مقاصد کے ساتھ پیش کیا جائے،کیونکہ یہ عقلی منہج کے قریب ہے۔(صفحہ ۱۵۔۱۶)
یہ مقاصد بظاہر بڑے اچھے ہیں،مگر ان مقاصد کو بروئے کار لانے کاجو طریقہ بیان کیاہے ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جس پرکلام نہیں کیا جاسکتا ہے،مثلا پہلے مقصد کی تکمیل میں بیان کیا گیا کہ فتاوی کے ظاہر پرعمل صحیح نہیں ہے،اس کا مقصد اگرحالات کی تبدیلی کا اثربتانا ہے تویہ فقہاء کے یہاں پہلے سے موجود ہے،اوراگر یہ مقصد نہیں ہے توظاہرہے اس میں پورے فقہی سرمایہ پرازسرے نوغور کرنے کی دعوت ہے۔
دوسرے مقصد کے سلسلہ میں احادیث کے درمیان تعارض کے وقت ترجیح وتطبیق کاجو اصول بتایاگیا ہے وہ احناف کے یہاں مروج اورمعمول بہا اصول کے خلاف ہے،اور اس پرعمل کی صورت میں بہت سے مجتہد فیہ مسائل میں تبدیلی واقع ہوگی۔
مولف نے نسخ کوخاص طورپربحث کا موضوع بنایا ہے،انہوں نے نسخ کے موجودہ اصول پرخوب خوب تنقید کی ہے:
ڈاکٹرصاحب لکھتے ہیں کہ نسخ کا حق صرف شارح کوحاصل ہے،لہذا ہرآخری حکم کو سابق حکموں کا ناسخ نہیں کہا جاسکتا،نیز ظاہری تعارض کو دور کرنے کے لئے یا محض ایک دلیل کے دوسرے دلیل سے زمانی تاخرکی بناء پرنسخ کا حکم لگاناصحیح نہیں ہے،الا یہ کہ عبارۃ النص میں حکم کی تبدیلی اورابدیت کی صراحت ہو۔(ص۲۴۱)
مسلم اقلیتوں سے متعلق متعددمسائل پرمقاصدکی روشنی میں غور کیا ہے،لیکن یہاں بھی ان کے نتائج سے اتفاق مشکل ہے۔
 مولف کی اس بات کی وضاحت میں پوری کوشش صرف کی ہے کہ احکام کا مدار(مناط)علت کے بجائے مقاصد کوبنایا جائے،یا کم از کم علت کے ساتھ مقاصدکوبھی شامل رکھاجائے،اور دوسری جس بات پرزوردیا ہے وہ یہ ہے کہ صحیح نصوص کو بلا دلیل شرعی منسوخ نہ مانا جائے۔
اس کتاب میں اور بھی متعددنظریاتی اصول اورتجاویز کا ذکرہے،جن پرغوروفکرکرنابہت ضروری ہے،خصوصانسخ اورترجیح سے متعلق آراء اہل علم کی توجہ کے مستحق ہیں،میری ناقص معلومات کے مطابق اب تک اس حوالہ سے قلم نہیں اٹھایاگیاہے۔
۴۔شریعت کے مقاصدعامہ   ڈاکٹریوسف حامدالعالم  المعہدالعالمی للفکرالاسلامی ۲۰۰۸ء
اصل کتاب المقاصدالعامہ للشریعۃ الاسلامیۃ کے نام سے ہے جسے مولاناقاضی عبدالجلیل قاسمی اورمولاناہشام الحق ندوی نے اردوکاجامہ پہنایاہے،یہ کتاب ایک تمہید،دوابواب اورایک خاتمہ پرمشتمل ہے،تمہیدمیں اسلامی شریعت کی عمومی خصوصیات اورشرعی دلائل کوبیان کیاہے،پہلاباب اغراض اورمصالح کے بیان پرمشتمل ہے،دوسرے باب میں مقاصدکے پانچ کلیات پربڑی محققانہ اورسیرحاصل بحث کی ہے،ان کلیات کے وجود اورعدم دونوں پہلؤوں کوموضوع بحث بنایاہے۔
کتاب کے درمیان بعض معاصرمسائل سے بھی تعرض کیاہے،جیسے عقل کے حواس اورموحی سے ربط وتعلق کامسئلہ،مؤلف نے وسائل ادراک کے تین دائرہے متعین کئے ہیں جوحواس سے شروع ہوکرعقل سے گزرکروحی پرختم ہوتے ہیں،مؤلف موصوف کاخیال ہے کہ معاشرہ کابگاڑان دائروں کے حدوداربعہ اوران کے باہمی ربط کوٹھیک ٹھیک نہ سمجھنے یاان کے بارے میں تعارض اورتضادکی غلط فہمی میں مبتلاہونے کانتیجہ ہے۔(کتاب مذکور،ص:۶۸۸)
۵۔مقاصد شریعت کی تفہیم ناشر:منظوراکیڈمک اینڈریسرچ کنسلٹینٹ،۲۰۰۸ء
اس کتاب کے مصنف ڈاکٹرمحمدفہیم اخترندوی ہیں،انہوں نے مقاصدکے موضوع پرلکھی جانے والی پانچ اہم عربی کتابوں کوسامنے رکھ کریہ کتاب تیار کی ہے،یہ گویاان تحریروں کاخلاصہ ہے،مؤلف نے مقاصد سے متعلق تمام مباحث کاتعارف کرایاہے،مقاصد سے متعلق افکارونظریات،اصول وقواعد اورکی عصری تطبیق جیسے مباحث کوتفصیل سے بیان کیاہے،کتاب کی جامعیت کودیکھ کریہ کہنابالکل بجاہے کہ یہ موضوعات اردومیں پہلی بار اتنی تفصیل سے آئے ہیں ، البتہ مؤلف نے ان موضوعات کوبحث اورتحلیل وتجزیہ کا موضوع نہیں بنایاہے۔
افکارونظریات میں امام شاطبی اورامام ابن عاشورکے نظریات کوقدرے تفصیل سے بیان کیاہے،جس میں ان حضرات کی آراء کاپورامغزقارئین کے سامنے آجاتاہے،معاصرعلماء نے اس موضوع پرجواضافہ کیا ہے اورجوان کے نظریات ہیں ان کوبھی ذکرکیاہے،یہ مباحث تجزیہ کے متقاضی تھے،مگریہاں بھی تعارفی اسلوب ہے۔
مقاصد سے متعلق اصول وقواعد بڑا اہم موضوع ہے،مصنف نے خوداس کی اہمیت کااعتراف کیاہے،آپ لکھتے ہیں:
یہ قواعدوضوابط اس لئے بھی ضروری ہیں کہ ان کے بغیرمقاصدایک ایساآلہ بن جاتاہے جس کے ذریعہ احکام شرع کوبامطلب بنانے کے بجائے شریعت کاجواب دہی گردن سے اتارپھینکا جاسکتا ہے ۔ (ص: ۱۱ ) 
اسی طرح مقدمہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
بعض حلقوںنے بعض ایسی چیزوں کومقاصدکاڈھیلاڈھالا لباس پہناکراسلام میں داخل کیاجارہاہے جوغلط اورغیرشرعی ہیں۔(ص:…)
آخری باب کاعنوان عصری تطبیق ہے،اس میں طب،سماجی مسائل،نکاح،خواتین کامقام،طلاق،ذات پات کامسئلہ،تعلیمی مسائل،عدالتی مسائل اور  رفاہی مسائل کے عنوان سے مسائل کی ایک طویل فہرست دی گئی ہے،اگران میںسے چند کی تطبیق کی جاتی تواردوقارئین کے سامنے مقاصدکی بہتر تصویر آجاتی ۔
مقاصدکے اولین نقوش کے عنون سے امام باقلانی کوسراہتے ہوئے لکھتے ہیں:اصول فقہ میں آپ کامقام ایک نقطہ تحول کی حیثیت رکھتاہے،ان کی کتابوں نے بعدکے ادوار پراثرات چھوڑے۔(ص:۱۴۴)
دیگراہل علم کی کوششوں کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
مقاصدکے موضوع پرقدیم وجدیدعلماء نے بڑاسرمایہ تیارکیاہے،متقدمین میں عزالدین بن عبدالسلام ،شہاب الدین قرافی اورابن تیمیہ خاص طورپرقابل ذکرہیں،ان کے بعدسب سے اہم نام امام شاطبی کاہے،مؤلف کے بقول فکرمقاصدکے سفرمیں یہ پہلی منزل ہے جہاں ٹھہرکرموضوع کاتفصیلی مطالعہ ہوتاہے اورروشن خیالات سے آگہی حاصل ہوتی ہے،اس سفرکی دوسری منزل علامہ تیونس شیخ محمدبن عاشورہیںجنہوں نے امام شاطبی کے کام پرنہ صرف وسیع اضافہ کیابلکہ ان کے افکارکوعملی مثالوں سے ہم آہنگ کرنے کوشش بھی کی،اس لئے ابن عاشورکی آراء کامطالعہ چشم کشااوربصیرت افروز ہے۔(ص:۱۸۰)
مؤلف نے امام شاطبی اورشیخ ابن عاشورکے نظریات کوخاص طورپر تفصیل سے بیان کیاہے،ابن عاشورکے کاموں کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ابن عاشورکے کاموں میں ایک قابل قدراورنیاپہلویہ بھی ہے کہ آپ نے مقاصدکے کام کوآگے بڑھایا،اب تک شریعت کے مقاصدکوپانچ امورکے اندرمحدودبتایاجاتاہے،حالانکہ مقاصدکی پانچ امورمیں تقسیم ایک اجتہادی امرتھا،ابن عاشورنے اپنے زمانہ کے حالات ووسائل کو پیش رکھتے ہوئے مقاصد کی ازسرنو تقسیم کی،انہوں نے دومقاصدکااضافہ کیا،یہ تھے مساوات اورآزادی۔(ص:۲۱۸)
بیسویں صدی میں مقاصد عام فقہاء واصولین کے فکروخیال موضوع بنا،اوراس موضوع پرخوب لکھاگیا،مؤلف نے اس دورکی تحریروں کی تین نوعیت بیان کے ہے،زیادہ ترکتابیں مقاصدکے تعارف پرہیں،جن میں مقاصد کی تاریخ،تعارف اورمتقدمین کے کاموں کاتعارف کرایاگیاہے،دوسری وہ کتابیں ہیں جن میں مقاصدپرلکھنے والوں کی آراء اورنظریات کاجائزہ لیاگیاہے،اورتیسری نوعیت کی وہ کتابیں ہیں جن میں مقاصدکے تطبیق پہلوپرگفتگوکی گئی ہے۔(ص:۲۱۹)
معاصرین کی تحریروں میں ایک بحث یہ بھی آئی ہے کہ مقاصدکوعلم اصول فقہ کاحصہ ماناجائے یااسے ایک الگ علم قراردیاجائے؟جیساکہ ابن عاشورنے اس کے دعوت دی ہے،اس پربھی گفتگوکی گئی ہے۔(ص:۲۱۹)
مقاصدشریعت کے اصول وقواعدکیاہوں گے،اس بارے میں لکھتے ہیں:
مقاصدشریعت کے موضوع پرکام کرنے والوں کے سامنے اس کے اصول وضوابط اورقواعدکارہنااس لئے ضروری ہے کہ مقاصدشریعت کسی ایسے نظریے کانام نہیں ہے جوغیرمنضبط ہو،ڈھیلاڈھالاہو،نہ ہی یہ ایسالباس ہے جسے ہرجگہ فٹ کیاجاسکتاہو،اس کے محکم اصول وضوابط ہیں،اورمتقن قواعداس کے پیچھے کارفرماہیں،اوراس دائرہ میں رہ کرہی مقاصدشریعت کانظریہ کام کرتاہے،اگریہ قواعداوراصول وضوابط پیش نظرنہ ہوں توخطرہ ہے کہ مقاصدشریعت کوایک ایساآلہ نہ بنالیاجائے جس کے ذریعہ اسلامی شریعت کے پائیداراحکام کی بنیادیں منہدم کردی جائیں،اورشریعت کے نصوص اورمحکم احکام پرعمل سے گریزکی راہ ہموارکرلی جائے۔(ص:۲۴۱)
اس تمہیدکے بعدمولف نے ڈاکٹرعبدالرحمن کیلانی کی کتاب قواعدالمقاصدعندالامام الشاطبی کااختصارسے تعارف کرایاہے۔
۶۔مقاصدشریعت پروفیسرنجات اللہ صدیقی ناشرمرکزی مکتبہ اسلامی،۲۰۰۹ء
پروفیسرنجات اللہ صدیقی صاحب علمی دنیامیں صاحب فکرمحقق کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں،اسلامی معاشیات آپ کااختصاصی موضوع پر ہے ، جس پرآپ کاوشیں گرانقدرہیں،جس کے اعتراف میں آپ کوفیصل ایورڈبھی مل چکاہے۔
مقاصدشریعت پرآپ نے جومباحث پیش کئے ہیں وہ واقعی آپ کی فکراورتحقیق کی آئینہ دارہے،یہ الگ بات ہے کہ اس میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن سے اتفاق فقہ کے عام طالب علم کے بھی مشکل ہے،لیکن اس کے باوجودیہ کتاب مقاصدکے موضوع اہم اضافہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس کتاب کی تالیف کامقصدبیان کرتے ہوئے پروفیسرصاحب نے دوبڑی اہم وجہیں لکھی ہیں،جس سے آپ کی فکرکااندازہ ہوتاہے:
اول یہ کہ نئے پیش آمدہ مسائل میں حکم شرعی کی تلاش میں ان مقاصداورحکمتوں سے استفادہ کے طریقے بتائے جائیں۔
دوسرے کہ مقاصدکی بحث فقہی احکام تک محدودنہیں ہے بلکہ دعوت وتربیت اوراصلاح معاشرہ جیسے اہم کاموں میں بھی مقاصدشریعت سے رہنمائی حاص کی جاسکتی ہے(ص:۱۱)
کتاب کے ابواب پرایک نظرڈالنے سے موضوع کی وسعت کااندازہ لگایاجاسکتاہے،ابواب اس طرح ہیں:
مقاصدشریعت ایک عصری مطالعہ
مقاصدشریعت اورمعاصراسلامی فکر:وقائع اورامکانات
مقاصدشریعت کی پہچان اورتطبیق میں عقل اورفطرت کاحصہ
مقاصدشریعت کے فہم وتطبیق میں اختلاف کاحل
مقاصدشریعت کی روشنی میں اجتہادکی حالیہ کوششیں
مقاصدشریعت کی روشنی میں معاصراسلامی مالیات کاجائزہ
مقاصدشریعت اورمستقبل انسانیت
مقاصدشریعت:فہم اورتطبیق
مولف کی رائے ہے کہ مقاصدکی فہرست میں اضافہ کی ضرورت ہے،آپ لکھتے ہیں:
روایتی فہرست میں سارازوردفع مضرت پرہے،جلب منفعت کاپہلودب گیاہے،دوسر ی وجہ یہ ہے کہ موجودہ عالمی اورقومی سطح کے مسائل میں ماحولیاتی تلوث پرکنڑول،کائنات کے قدرتی وسائل کابچاؤ ،عمومی اورکلی تباہی مچانے والے اسلحوں کے استعمال اوران کی پیداوارپرپابندی اورموجود نیوکلیائی ہتھیاروں ،نیز کیمیائی اورحیاتیاتی اسلحوں کاتلف کیاجانااوراقوام عالم کے باہم امن وچین سے رہ سکنے کے دوسرے تقاضے پورے کرنے سے یہ بہترہے کہ کہ ان امورسے مناسبت رکھنے والی اسلامی تعلیمات کواہمیت کے ساتھ پیش کیاجائے،مسئلہ یہ نہیں کہ منطقی طورپرکیابات کس بات سے نکالی جاسکتی ہے،اہم بات یہ ہے کہ نئے حالات میں اسلام اورمسلمانوں کوسیاسی ،معاشی اورسماجی امورمیں دنیاکی رہنمائی کے لئے کس طرح سے زیادہ مددمل سکتی ہے،ہمارے خیال میں گلوبلائزیشن کے چیلنجوں سے عہدہ برآہونے میں مقاصدشریعت کی فہرست میں ان چیزوں کے اضافہ سے مددملے گی جن کی مقصودیت کوکتاب کوسنت کی سندتوحاصل ہے مگراب سے پہلے ان کوزیادہ اہمیت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی(ص:۳۸)
آپ نے اس فہرست میں جن باتوں کااضافہ کیا ہے وہ درج ذیل ہے:
۱۔انسانی عزوشرف
۲۔بنیادی آزادیاں
۳۔عدل وانصاف
۴۔ازالہ غربت اورکفالت عامہ
۵۔سماجی مساوات اوردولت وآمدنی کی تقسیم میں پائی جانے والی ناہمواری کوبڑھنے سے روکنا
۶۔امن وامان اورنظم ونسق
۷۔بین الاقوامی سطح پرباہم تعامل اورتعاون(ص:۳۹)
اس کتاب کے بہت سے مباحث بڑی چشم کشاہیں،لیکن اسی کے ساتھ بہت سے مباحث ایسے بھی ہیں جنہیں قبول کرناآسان نہیں ہے،استاذمحترم مولاناخالدسیف اللہ رحمانی نے اس کتاب کاعلمی جائزہ لیاہے،جومختلف رسائل میں شائع ہوچکاہے،ڈاکٹرمحی الدین غازی نے اس کتاب کے حوالہ سے چندمعروضات پیش کئے ہیں،آپ کایہ مضمون بھی بعض رسائل میں شائع ہوچکاہے۔
مقاصدشریعت سے متعلق کتابوں کے مطالعہ کے دوران یہ احساس رہاکہ :
الف۔مقاصدسے متعلق زیادہ ترکتابوں میں مقاصدکی اہمیت پرگفتگوکی گئی ہے،مگرمقاصدکااصل تصور کیاہے،اوراس کی بنیادی خدوخال کیاہیں؟اس سلسلہ میں منضبط بات نہیں ملتی،مختلف کتابوں میں مختلف باتیں درج ہیں،مسائل کے حل میںمقاصدکالحاظ رکھنے والی بات توٹھیک ہے،مگرکیامقاصدکی روشنی میں حل شدہ مسائل پربھی غورکیاجائے گا،اوراگرایساکیاجائے گا توظاہرہے بہت سے مسائل میں احکام بدل جائیں گے،اس کاکیاحل ہے؟کیامقاصدکی روشنی میں پورے فقہی سرمایہ کی تجدیدمقصودہے؟یہ بحث تشنہ ہے۔
ب۔مقاصدکے حدوداوراصول وشرائط کیاہوں گے؟اس سلسلہ میں بھی کوئی اطمینان بخش تحریرنہیں آئی ہے،یہ اس بھی ضروری ہے کہ بعض مصنفین مقاصدکے لحاظ میں اتنی وسعت دیتے ہیں کہ حجاب پربھی سوالیہ نشان لگ جاتاہے؟اوربعض کے نزدیک اس موضوع کی الگ سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔
ج۔مقاصدسے متعلق بعض موضوعات مثلانسخ کی بحث،ترجیح کے اصول،مقاصدکوعلت بنانے کی تجویز وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جن پرگہرے علم رکھنے والے علماء کاغوروفکرضروری ہے،راقم کے ناقص خیال میں اس سمت اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
د۔یہ بات بھی اہم ہے کہ مقاصدکی تحریک جن ممالک سے اٹھی ہے وہاں اس کی جتنی ضرورت ہے کیااتنی ضرورت یہاں بھی ہے یانہیں؟یہ بات بھی توجہ طلب ہے۔
فقہ الاقلیات
۱۔فقہ الاقلیات:تعارف ،تجزیہ اورحل از:ڈاکٹرجمال الدین عطیہ محمد ناشر:آئی اوایس اسنٹرفارعربک اینڈاسلامک اسٹڈیز ،نئی دہلی
یہ کتاب اقلیتوں کودرپیش حقیقی مسائل سے متعلق ہے،ڈاکٹرمنظورعالم صاحب مصنف اورکتاب کاتعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
ڈاکٹرجمال الدین عطیہ مصرکے مشہوراسلامی محقق ہیں،اورجدہ فقہ اکیڈمی کے شعبہ تحقیق وریسرچ کے سربراہ ہیں،اورجنہوں نے فقہ اسلامی کی نظری سازی پرمتعددکتابیں تصنیف کی ہیں،انہوں نے فقہ الاقلیات کے موضوع پرزیرنظرتصنیف میں دنیاکی تہذیبی ،لسانی،نسلی،اورمذہبی اقلیتوں کے وجودکے حق،تحفظ کے حق،اورخوداختیاری کے حق کی وضاحت کرتے ہوئے اقلیتوں کے اکثریت میں انضمام کے خطرہ پربھی شرح وبسط سے روشنی ڈالی ہے،ساتھ ہی انہوں نے اس کے انسدادکے لئے ضروری اورمناسب تجاویز بھی پیش کی ہیں۔(پیش لفظ)
خودمصنف کتاب تحریرکرتے ہیں:
میں نے یہاں جوانداز اپنایاہے اس میں اقلیتوں کے موضوع پرفقہی نقطہ نظرسے ایک مبسوط خاکہ پیش کرنے کی کوش کی ہے،اس نقطہ نظرکے آثارپچھلی صدی ہی میں ظاہرہوناشروع ہوگئے تھے،میں اس فقہی نظریہ کے ثبوت میں ٹھوس اصول شرعیہ پیش کرنے کااہتمام کیاہے،ساتھ ہی مقاصدشریعت اور کلیات سے بھی بھرپوراستفادہ کیاہے،اوراس پورے عمل کے لئے اقلیتی مسائل کاہرپہلواورہرجہت سے ہمہ گیرجائزہ لیاہے،مزیدیہ بھی پیش نظررکھاکہ اس تعلق سے عصری اورتاریخی کیاکیاسرگرمیاں روبہ عمل آئی ہیںاورعلاقائی قوانین اوربین الاقوامی قراردادوں میں کس قسم کے حل پیش کئے گئے ہیں ۔ (ص:۹)
مؤلف نے مسلم اقلیات کی بحث پراکتفانہیں کیابلکہ مذہبی،لسانی ،ثقافتی اورنسلی اقلیات کوسامنے رکھ کرگفتگوکی ہے،اس کتاب کاترجمہ مولاناامتیازعالم قاسمی نے کیاہے۔
۲۔فقہ الاقلیات:تعارف ،اصول اورتطبیق  ڈاکٹرصلاح الدین سلطان ایفاپبلیکشنز،۲۰۱۲ء
یہ کتاب تین فصلوں پرمشتمل ہے،پہلی فصل میں کتاب میں مذکوراصطلاحات کی وضاحت کی گئی ہے،دوسری فصل میں اقلیتوں کی فقہ سے متعلق دس ضوابط بیان کئے گئے ہیں ،اورتیسری فصل میں فقہ الاقلیات سے متعلق چندتطبیقی مسائل بیان کئے گئے ہیں۔
مؤلف کتاب نے فقہ الاقلیات کے لئے جن ضوابط کوبیان کیاہے وہ بہت اہم ہیں،ان ضوابط میں سے چنداس طرح ہیں:
ہم وطنی کے تصورکااستحکام
وطن کی فلاح وبہبودسے متعلق اپنی ذمہ داریوں کاپختہ شعور
نص اورعملی صورت حال دونوں کے کے بیک وقت گہرے فہم کی ضروت
عمومی مسائل کے حل میں اجتماعی اجتہادکی طرف رجوع
اجتہادمیں شرعی دلیل کے ساتھ قلبی خشیت
عبادات اورمعاملات دونوں میں فقہ المقاصدکوبنیادی حیثیت دینا
مختلف مسالک کی باہمی قربت
فقہ التیسیرکاانتخاب
ممنوعات کے شرعی متبادل کے سلسلہ میں انتخاب
اس تحریرکاخلاصہ یہ ہے کہ ہم وطنی کے تصورکومستحکم کرنافقہ الاقلیات کے لئے ضروری ہے،اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ شرعی نصوص کے ساتھ اس معاشرہ کے سیاسی ،اورسماجی حالات کاگہرامطالعہ کیاجائے،جہاں وہ اقلیت رہ رہی ہے۔
اس کتاب کاترجمہ مولاناہشام الحق ندوی نے کیاہے۔
۳۔فقہ الاقلیات :دعوت فکرونظر ترتیب :پروفیسرمحسن عثمانی ندوی  ناشر:انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیواسٹڈیز،نئی دہلی ۲۰۰۹
انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیواسٹڈیز کی طرف سے فرنگی محل لکھنؤمیں ۲۰۰۹ء میں فقہ الاقلیات کے موضوع پرایک سیمنارہواتھا،اسی سیمینارکے مقالات کایہ مجموعہ ہے،جسے معروف صاحب قلم پروفیسرمحسن عثمانی ندوی نے مرتب کیاہے۔
کتاب میں درج ایک اقتباس سے اس موضوع کوسمجھنے میں آسانی ہوگی:
فقہ الاقلیات فقہ ہی کی ایک شاخ ہے،جس کامقصدومآخذ کتاب وسنت ہی ہے،اوروہ ایسے اصول ہیں جن کے نتیجہ میں تنگی وحرج کو دور کیاجا تا ہے ، اور جس میں حاجت کے احکام کوضرورت کے حکم پرمنطبق کیاجاتاہے،معاملات میں عموم بلوی کااعتبارکیاجاتاہے،مکان کی تبدیلی کاحکم زمان کی تبدیلی پرمنطبق کیاجاتاہے،اورمفاسدکودورکیاجاتاہے،اورہلکے ضررکواورکمزروشرکوقبول کیاجاتاہے،اس کوبعض لوگ فقہ الموازنات کہتے ہیں…فقہ الاقلیات کی اگر قواعد اصول کی بات کریں تووہ کوئی نئے اصول یافقہی قاعدہ کوایجادیاپیدانہیں کرناچاہتی بلکہ وہ اصولی فقہی سرمایہ میں موجودقواعدسے استفادہ کرتے ہوئے ایسے رہنماخطوط دریافت کرنا چاہتی ہے جس سے اقلیتوں کی مشکلات کوحل کرنے میں مددملے۔(ص:۳۰۔۳۱)
اس مجموعہ میں فقہ الاقلیات کے تعارف اورتاریخ کے ساتھ مسلم اقلیتوں کے سیاسی،سماجی،ثقافتی،عمرانی اورفقہی مسائل میں فقہ الاقلیات سے رہنمائی جیسے موضوعات شامل ہیں،جس سے فقہ الاقلیات کاپوراتصورسامنے آتاہے،البتہ تطبیق کے طورپرجومثالیں درج ہیں ان میں متعددمثالیں محل نظرہیں۔
فقہ الاقلیات کے موضوع پرراقم کویہ تین کتابیں مل سکیں،ان کتابوں کودیکھنے سے یہی تاثرابھرتاہے کہ مقاصدکی طرح یہاں بھی مسائل کی کوئی تحدید نہیں ہے،جس صاحب قلم کوجوحکم مشکل لگے اسے وہ فقہ الاقلیات میں شامل کرکے رفع حرج کرنے کومشورہ دینے لگتے ہیں،کن مسائل میںمسلم اقلیتی معاشرہ اوراکثریتی معاشرہ کے درمیان فرق ہوتاہے یاہوناچاہیے،اس کی تحدیدضروری ہے،اوردوسری بات یہ کہ کیاہندوستان میں بھی فقہ کی اس شاخ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جیساکہ یورپ میں ہے،یایہ باتیں منہج اجتہادمیں پہلے سے موجودہیں،ان باتوں کی وضاحت ہونی چاہیے ۔
یہاں یہ اعتراف ضروری ہے کہ برصغیرہندوپاک میں اسلامک فقہ اکیڈمی کویہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے ذریعہ نہ صرف جدیدمسائل میں تحقیق و اجتہادکے دروازے کھلے بلکہ علم وتحقیق کے بہت نئے گوشے بھی اہل علم تک ان کی وساطت سے پہونچے،فقہ سے متعلق جدیدرجحانات سے اگریہان کے اہل علم واقف ہوئے ہیں تویہ اسی فقہ اکیڈمی اورآئی اوایس کے ذریعہ،یہ ساری کتابیں انہی دواداروں کی علمی سوغات ہے،اس حوالہ سے بھی ان اداروں کانام فقہ اسلامی کی تاریخ میں زندہ رہے گا،ان اداروں اوربطورخاص اسلامک فقہ اکیڈمی نے ان جدیدموضوعات کوبرصغیرکے اہل علم میں متعارف کرایاہے ، کیاہی بہترہوتاکہ اکیڈمی ان مباحث کے اصول وضوابط اوراس کے منہج بحث کوبھی متعین کرنے کاسامان فراہم کردے۔
 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے