حیات اللہ انصٓاری اوران کاافسانوی ادب سیمنیار ۔ایک تاثر

میں بھی حاضرتھاوہاں۔۔۔
گذشتہ دنوں ایک ادبی مجلس میں شرکت کاموقع ملا،سیمینارکاعنوان تھا’حیات اللہ انصاری اوران کاافسانوی ادب‘اورمجلس کے منتظم تھے جناب اویس سنبھلی صاحب، ان دونوں میں اتنی کشش تھی کہ میں اپنی خودساختہ بلکہ مزعومہ مصروفیات کے باوجود وقت پرپروگرام ہال پہونچ گیا،ادیبوں کوپڑھنے کاموقع ضرورملاتھا،مگرادیبوں کودیکھنے اورسننے کایہ پہلاموقع تھا، شہ نشین پرقدرآورادیبوں کی موجودگی جہاں سیمینارکووقارواعتبارعطاکررہی تھی وہیں شرکاء کی کثرت سیمینارکی کامیابی کی گواہی تھی۔
سیمینارمیں جناب حیات اللہ انصاری صاحب کے فکروفن کے مختلف گوشوں پرنہ صرف روشنی ڈالی گئی بلکہ ان کے افسانوی ادب کی گویاقدروقیمت متعین کی گئی، میرے نزدیک حیات وخدمات کے گھسے پٹے اندازسے یہ اندازبدرجہابہترتھا،مہمانان خصوصی کے طورپرشریک متعددبلندپایہ ادیبوں اورنقادوں نے جہاں انصاری صاحب کے بے مثال کام اوران کی ادبی تحریروں کاتجزیہ کرکے قارئین کے علم میں اضافہ کیاوہیں مختلف یونیورسیٹیوں کے ریسرچ اسکالرس نے انصاری صاحب کے ایک ایک افسانہ کو موضوع بناکران کی کہانی کے پس منظروپیش منظرکاجس طرح تجزیہ کیاوہ اپنی نظرآپ تھا، خا ص طورپرانصاری صاحب کے ضخیم ناول’ لہوکے پھول‘اوران کے یادگاربلکہ لازوال افسانے’آخری کوشش‘،’ڈھائی سیرآٹا‘،’موزوں کاکارخانہ ‘ ، ’شکستہ کنگورے‘اوردیگر افسانوں کی فنی خوبیاں اس طرح سامنے آئیں کہ ان تحریروں کونہ پڑھنے کااحساس ندامت کی شکل اختیارکرنے لگا،ایک ادیب وافسانہ نگارکے ایک ایک افسانہ کاتجزیہ مجھے یہ سوچنے پرمجبورکرتارہاکہ کیاکسی بڑے سے بڑے مذہبی قلمکارکوکبھی یہ مقام حاصل ہوا کہ ان کے ایک ایک مضمون کوموضوع بناکراظہارکیاگیاہو،اوران کے دروبست پر گفتگوکی گئی ہو۔
 اسی طرح یہ تصورذہن میں ایک سوالیہ نشان بناگیاکہ جس طرح کسی ادیب کے   جملوں پر ادباء سردھنتے ہیں اسی طرح کاادب اگرمذہبی تحریروں میں جلوہ گرہوتواس تحریر کو ادب کیوں نہیں سمجھاجاتا،کیامندرمیں کھلنے والاگلاب اورہوتاہے اورمسجدمیں کھلنے والا گلاب اور!!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے