DNAٹسٹ کی بنیاد پر ولد الزنا کے نسب کا ثبوت

DNAٹسٹ کی بنیاد پر ولد الزنا کے نسب کا ثبوت 

زنا نہایت قبیح عمل ہے ‘ جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ او راس تک پہونچانے والے تمام راستوں کو بند کیا ہے ‘ اس کے بعد بھی اگر کوئی اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے تواس کے لئے شریعت نے سزا متعین کی ہے جو شادی شدہ مرد و عورت کے لئے رجم(پتھر مار کر ہلاک کرنا) اور غیر شادی شدہ لوگوںکیلئے سو کوڑا ہے‘ زنا سے متعلق یہ مسئلہ مشہور ہے کہ ا س عمل کے نتیجہ میں ہونے والا بچہ ناجائژ او رغیر ثابت النسب کہلاتا ہے‘ یعنی اس کا نسب زانی سے نہیں جوڑے جاتا‘ بلکہ اس کو ماں کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ‘ وہ ماں کی میراث کا حقدار ہوتا ہے ‘ اسی طرح ماں او ردیگر قریبی رشتہ دار اس بچہ کے میراث سے حصہ پاتے ہیں ۔گزشتہ دنوں مصر میں زنا کا ایک واقعہ پیش آیا‘ جسے میڈیا نے خوب اچھالا تھا‘ اس موقعہ پر بعض علماء کی طرف سے یہ رائے سامنے آئی کہ جدید تحقیق D.N.A ٹسٹ کے ذریعہ یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ زنا سے پیدا ہونے والا بچہ کس کے نطفہ سے ہے یعنی اس کا اصل باپ کی تعین ہوگئی تو پھر اس بچہ کو باپ کی طرف منسوب کیا جانا چاہیے‘ اس طرح مصر کے چودہ ہزار غیر ثابت النسب بچوں کا مسئلہ حل ہوجائے گا… ذیل کی سطروں میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ سائنسی تحقیق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کیا D.N.A ٹسٹ کی بنیاد پر ناجائز بچہ کا نسب باپ سے جوڑنا درست ہوگا‘ نیز اس سلسلہ میں جمہور علماء کی رائے کیا ہے او رمعاشرہ و سماج پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
D.N.A ٹسٹ کی بنیاد پر ولدالزنا کا نسب باپ سے جوڑا جائے گا یا نہیں؟ اس سلسلہ میں علماء کی دو رائیں ہیں‘ متقدمین و متأخرین ‘ جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ ولد الزنا کا نسب کسی بھی صورت میں باپ سے نہیں جوڑا جائے گا ‘ جب کہ بعض معاصر فقہا کی رائے یہ ہے کہ جوڑا جائے گا‘ ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ علامہ ابن تیمیہ ‘ حافظ ابن قیم اور سلف کے بعض علماء کی رائے یہی ہے ‘ پھر اس میں بچہ کو زندگی بھر کے عذاب سے بچانا ہے ‘ گویا ان حضرات نے بچہ اور معاشرہ کی مصلحت کے پیش نظر جمہور علماء کے خلاف اس رائے کو اختیار کیا ہے۔
فقہاء کے درمیان اختلاف کی بنیاد :فقہاء کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ مذکورہ مسئلہ کی علت کیا ہے؟ کیا ولد الزنا کو اس کے باپ کی طرف منسوب نہ کرنے کی علت صرف یہ ہے کہ زنا میں یقینی طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ یہ بچہ کس کے نطفہ ِے پیدا ہوا ہے ‘ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس عورت سے اور بھی کسی نے یا کئی افراد نے یہ عمل کیا ہو‘ ایسی شکل میں کسی ایک کی طرف بچہ کومنسوب کرنے میں یہ امکان باقی رہے گا کہ وہ بچہ دوسرے مرد کا ہو‘ اس طرح بچہ کو باپ کے علاوہ دوسرے کی طرف منسوب کرنا لازم آئے گا‘ جب کہ ایسا کرنا حرام ہے (المبسوط ‘ ۱۷/۱۵۵)

اب جدید سائنسی تحقیق D.N.A ٹسٹ کے ذریعہ یقینی طور پر معلوم کیا جاسکتاہے کہ یہ بچہ کس کے نطفہ سے ہے‘ لہذا جب قطعی طور پر علم ہوگیا کہ بچہ کس کا ہے تو پھر اس بچہ کو اس کے باپ کی طرف منسوب کیا جانا چاہیے۔
فقہاء کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اوپر جو علت بیان کی گئی وہ اس مسئلہ کی اصل علت نہیں ہے‘ بلکہ ولد الزنا کو باپ کی طرف منسوب نہ کرنے کی اصل علت زنا کی قباحت او رشناعت ظاہر کرنا ہے ‘ تاکہ جائز اور ناجائز نطفہ کے درمیان فرق باقی رہے ‘ امام جصاص رازی لکھتے ہیں:
زنا کے قبیح ہونے کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اس کے بچہ کا نسب باپ سے نہیں جوڑا جائے گا۔ کیونکہ زانیوں میں نسب جوڑنے کی حیثیت سے ایک دوسرے سے بڑا نہیں ہوتا‘ اسی طرح نسب جوڑنے کی صورت میں اصل رشتوں کو ختم کرنا اور رشتہ کی بنیاد پر میراث ‘ نکاح او رصلہ رحمی کے تعلق سے جو حقوق و احکام متعلق ہوتے ہیں ان کو روکنا ہے اور بیٹے پر باپ کے جوحقوق ہیں ان کو پامال کرنا ہے ‘ اسی طرح بہت سے حقوق زنا کے نتیجہ پامال ہوتے ہیں ‘ یہ چیزیں عقلی طور پر قبیح اورعرف و عادت کے لحاظ سے عجیب ہیں‘ اسیلئے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : ’’الولد للفراش وللعاھر الحجر‘‘ 
بچہ شوہر کا ہوگا اور زانی کو پتھر ملے گا‘ کیونکہ اگر نسب کو رشتہ ازدواج او رجواس کے حکم میں ہے اسی تک محدود نہ کیا جائے تو زانی کے مقابلہ میں شوہر نسب کے زیادہ حقدا رکیسا ہوگا‘ اور یہ چیز نسب کو باطل کرنے اور اس سے متعلق حقوق و حرمات کو ساقط کرنے کا سبب بنے گی (احکام القرآن ‘ ۳/۲۹۵)
اور امام سرخسی اپنی کتاب المبسوط میں لکھتے ہیں کہ نسب ایک نعمت ہے جب کہ زنا جرم ہے‘ او رمجرم نعمت کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ وہ سزا کا حقدار ہوگا تاکہ آئندہ وہ اس فعل سے رکے (المبسوط ‘ ۱۷/۱۵۵)
ابن قیم اور ابن تیمیہ کی رائے پر غلط تطبیق :معاصر فقہاء نے اس مسئلہ میں ابن قیم ‘ ابن تیمیہ‘ اسحاق بن راہویہ ‘ عروہ ‘ سلمان بن یسار‘ حسن اور ابن سیرین جیسے فقہاء کی رائے پراعتماد کیا ہے‘ حالانکہ یہ سب حضرات جمہور علماء کی طرح یہی رائے رکھتے ہیں کہ ولد الزنا کو باپ کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا‘ بلکہ اس کانسب ماں سے جوڑا جائے گا ‘ وہ اپنے باپ کا وارث نہیں ہوگا بلکہ ماں کے میراث سے حصہ پائے گا۔ امام نوویؒ نے اس مسئلہ میں فقہا کا اجماع نقل کیا ہے ‘ وہ لکھتے ہیں: جب کسی نے عورت کے ساتھ زنا کیا اور اس عمل کے نتیجہ میں بچہ پیدا ہوا جوممکن ہے اسی کا ہو… اس مسئلہ میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس کا نسب زانی سے ثابت نہیں ہوگا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے ‘ حضور ﷺ کے ارشاد وللعاھر الحجر کا مطلب یہ ہے کہ زانی کوناکامی و نامرادی اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔(المجموع شرح المہذب‘ ۱۸/۳۷۲)ً
علامہ ابن رشد نے بھی اس سلسلہ میں علماء کا اتفاق نقل کیا ہے ‘ (ہدایۃ المجتہد‘ ۲/۳۵۸) علامہ ابن عبدالبر نے اس مسئلہ میں جمہور کے خلاف دوسری رائے کو جہالت اور غفلت پر مبنی بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ زانی سے متعلق اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بچہ میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا‘ خواہ وہ اس کا دعویٰ کرے یا نہ کرے ‘ بلکہ بچہ 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے