سوشل میڈیا کی اخلاقیات


سوشل میڈیا کی اخلاقیات
(سدید ازہر فلاحی، الجامعۃ الاسلامیۃ، شانتاپرم۔ کیرلا)
انسان کوحیوان سے ممتاز کرنے والی چیز اخلاق ہی ہے۔ دین کا مقصد بااخلاق شخصیت کی تعمیر ہے۔انسانی زندگی میں اخلاق کا ظہور تعلقات میں ہوتا ہے۔ جدید ٹکنالوجی کی ترقی نے انسانی تعلقات کی نت نئی شکلیں پیدا کردی ہیں، اور ان کے دائرے کو وسیع تر کردیا ہے۔ ان ہی ترقیاتی شکلوں میں آن لائن سوشل نیٹ ورکنگ بھی ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا سے تعلق رکھنے والا ہر شخص Facebook، Twitter Linkedin، Tumblr، Youtube،Myspace، Flickrوغیرہ سے نہ صرف واقف ہوتا ہے بلکہ ان ویب سائٹس کی صورت میں پائی جانے والی ایک دوسری ورچول(Virtual) دنیا کا باشندہ بھی ہوتا ہے۔ اس کے شب و روز کا بیشتر حصہ اسی دنیا میں گزرتاہے۔یہ ورچول دنیا ہرآن ارتقاء پذیر ہے اور یہاں نئے نئے اخلاقی چیلنجزپیدا ہوتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی اخلاقیات کا تعلق سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس استعمال کرنے والے افراد سے بھی ہے اور انہیں بنانے اور چلانے والے افراد اور کمپنیوں سے بھی ہے۔ یہاں گناہ کے دائرے میں آنے والے افعال بھی سرزد ہوتے ہیں اور جرم کے دائرے میں آنے والے افعال بھی۔کچھ اخلاقی عیوب ہیں جو انسانی زندگی میں پہلے سے موجود ہیں اور ورچول دنیا میں ایک نئے انداز سے ان کا ظہور ہورہا ہے، اور کچھ اخلاقی مسائل ہیں جنہیں خود سوشل میڈیا نے جنم دیا ہے۔
سوشلنیٹ ورکنگ سائٹس کو جہاں خیر کے فروغ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے وہیں کبھی لاپروائی میں اور کبھی قصداً ان کااستعمال شر کے فروغ کے لیے بھی کیا جارہا ہے۔ یوٹیوب جیسے میڈیا شیئرنگ سائٹس کے ذریعے علمی ،فکری، دینی ، تعلیمی اور سماجی موضوعات پر ویڈیوزبھی نشر کیے جارہے ہیں، اور فحاشی وبے حیائی، لا دینیت، نفرت ، تعصب، فرقہ وارانہ عناد اورمسلکی جدل کوبھی خوب خوب فروغ حاصل ہورہا ہے۔ روایتی میڈیا کے برعکس سوشل میڈیا زیادہ قابل رسائی و قابل استعمال (accessible) ہے۔ یہاں ہر شخص اپنی بات آسانی کے ساتھ دوسروں تک پہنچاسکتا ہے۔ اس صورتحال نے جہاں ایک طرف عام آدمی کوایمپاور کیا ہے وہیں اس کے لیے اخلاقی چیلنجز بھی پیدا کردئیے ہیں۔ اس میدان کا شکست خوردہ فرد دس منٹ کی سستی شہرت کے لیے فیس بک میں اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کرتاہے، بغیر علم و تحقیق کے ہر رطب و یابس کو پھیلاتا ہے،عدل و قسط کے اصول پر قائم رہنے کے بجائے likesاورshares کی politics کا حصہ بنتا ہے، اپنی علمی و فکری برتری جتانے کی غرض سے commentsلکھتا ہے، حیا سوز تصویریں اور گندے جوکس shareکرتا ہے، پبلک فورمس میں اجتماعی غیبت کا مزہ لیتا ہے، استہزاء و تمسخر کے دلائل سے مسلح ہوکرعلمی و فکری مباحث میں خم ٹھونک کر کود پڑتا ہے۔ غرض یہ کہ حقیقی دنیا میں اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار فرد ورچول دنیا میں اپنے اسی اخلاقی بحران کا اظہار ایک نئے انداز سے کرتا ہے۔ اس کے برعکس حقیقی دنیا میں بلند اخلاق کا حامل فرد اچھے اور اونچے مقاصد کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہے۔
سوشل میڈیا نے جو مسائل پیدا کیے ہیں ان میں سوشل میڈیا کا جنون (Obsession)ایک بڑا مسئلہ ہے۔فیس بک کے ورچول چوپال میں آدمی روزانہ اپنے قیمتی اوقات کے کئی گھنٹے ضائع کردیتا ہے۔ یہ جنون تعلیم اور کام میں ارتکاز(concentration) اور پیداواریت (productivity)کو بہت کم کردیتاہے۔اس مرض کا شکار فرد اپنے شب و روز کی ہر چھوٹی یا بڑی بات کو فیس بک کے دوستوں کی likes اور commentsکے لیے پیش کردیتا ہے۔ گویا اس کی پوری زندگی نمائش (display)میں ہوتی ہے۔ اس کی زندگی خدا رخی (God Oriented) ہونے کے بجائے اپنی ذات کے محور پر گھومنے والی (Self centred)اور دوسروں کی توجہ چاہنے والی (People Oriented) ہوجاتی ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر لوگوں کے سامنے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے لگتاہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے آدمی بسا اوقات شناخت کے بحران (identity crisis) میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ دوہری شخصیت میں جینے لگتا ہے۔ ایک اس کی حقیقی دنیا کی شخصیت ہوتی ہے اور دوسری ورچول دنیا کی مہذب(refined)شخصیت جس کا وہ خود خالق ہوتاہے ۔کچھ افراد اس سے آگے بڑھ کر\”role play\” کرنے لگتے ہیں۔ ورچول ورلڈ میں لڑکے لڑکیوں کے نام اورخوب صور ت تصویروں کے ساتھ اکاؤنٹ کھول کر ان کا رول پلے کرتے ہیں اور اس کے برعکس لڑکیاں لڑکوں کا رول پلے کرتی ہیں۔ بد صورت لڑکی یہاں خوب صورت لڑکی کا رول پلے کرتی ہے اور بوڑھا جوان کا رول پلے کرتا ہے۔ اپنی حقیقی شخصیت کی تعمیر سے غافل ہوکر یہاں لوگ خیالی شخصیت کی تخلیق میں مگن رہتے ہیں۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے دوریاں سمٹ آئی ہیں لیکن اس نے قریبی لوگوں کو دورکرنے کا کام بھی کیا ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعے جہاں بہت سارے لوگ سماج کی تعمیر نو کا کام کررہے ہیں وہیں اس نے بہت سارے لوگوں کے احساس مروت کو کچل دیا ہے ۔سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے ذریعے فحاشی وعریانی کا فروغ (pornography)، بلاک میلنگ، cyber bullying جیسے سائبر کرائمس بھی انجام دئیے جارہے ہیں۔
سوشل میڈیانے خلوت اور جلوت کے فرق کو مٹادیا ہے اور پرائیویٹ اور پبلک کے حدود کوختم کردیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آن لائن پرائیویسی نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر موجود ذاتی معلومات، پیغامات، تصاویر وغیرہ کا تجارتی استعمال کیا جاتا ہے۔کمپنیاں گاہکوں (consumers) کی پسند و ناپسند کا اندازہ ان کے فیس بک اکاؤنٹس سے لگالیتی ہیں۔نوکری کے لیے درخواست دینے والے افرادکی آن لائن مانیٹرنگ کی جاتی ہے اور ان کے تمام مشاغل کے بارے میں معلومات حاصل کرلی جاتی ہیں ۔ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان سب میں اخلاقی حدود کو پامال کیا جاتا ہے۔
اپنے اخلاقی وجود کے تئیں حساس افرادکے لیے ضروری ہے کہ وہ Be ethical, Click right کو اپنا شعار بناتے ہوئے سوشل میڈیا کاتعمیری مقاصدکے لیے استعمال کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے