جنت میں نبی کریم کی رفاقت کاحقدار

یتیم بچوں کے ساتھ حسن سلوک کی فضیلت اوراس بارے میں رسول اللہ اورصحابہ کااسوہ
منورسلطان ندوی
رفیق علمی دارالافتاء
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
اسلام میں یتیم بچوں پربڑی توجہ دی گئی ہے،ان سے متعلق آیات اوراحادیث کثرت سے موجودہیںجن سے واضح ہوتاہے کہ ان کی اہمیت اورحیثیت بہت زیادہ ہے،اسلام یتیم بچوں کے ساتھ ان تمام بچوں پرجوکسی وجہ سے اپنے ماںباپ کوکھوچکے ہیں،خاص توجہ دیتاہے اورانہیں ایسے حقوق عطاکرتاہے جوان کے لئے اچھی زندگی اورسماجی ومعاشرتی استحکام کاضامن ہوں،صحابہ کرام اوراس کے بعدکی تاریخ میں یتیم بچوں سے متعلق شرعی احکام پرعمل کی بے شمارتابندہ مثالیں ملتی ہیں،ان حضرات نے اجر و ثواب پانے اورجنت میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت حاصل کرنے کی خاطریتیم بچوں کے ساتھ اپنے بچوں کی طرح بلکہ اس سے بڑھ کرحسن سلوک کامعاملہ کیا،اوراللہ اوررسول اللہ کے احکام کی بجاآوری کی۔
خودرسول اللہ ﷺ بھی یتیمی کے مرحلہ سے گزرے ہیں،والدمحترم عبداللہ کو دیکھنے سے محروم رہے ہی،چھ سال کی عمرمیں والدہ ماجدہ کی ممتاسے بھی محروم ہوگئے، اس لئے آپ ﷺ سے زیادہ یتیم بچوں کے دکھ دردکوسمجھنے والااوران پرشفقت کاہاتھ رکھن والا کون ہوسکتاہے،آپ کی پرورش یتیم کی حیثیت سے ہوئی،اللہ تعالی نے دیگراحسانات کے ساتھ اس داغ یتیمی کوبھی احسان قراردیااوراس کاشکراداکرنے کاحکم دیا:
ترجمہ:کیااللہ نے آپ کویتیم نہیں پایا،پھرآپ کوٹھکانادے دیا،اورآپ کو سرگرداںپایا سوراستہ بتادیااورآپ کونادارپایاسومالداربنادیا،توآپ بھی یتیم پرسختی نہ کیجئے، اور سائل کومت جھڑکیے اوراوراپنے پروردگارکی نعمتوں کاتذکرہ کرتے رہاکیجئے۔(سورہ ضحی:۶)
اس نعمت کاشکریہ ہے کہ کسی یتیم پرظلم نہ کریں،ان کے دل کونہ توڑیں،بلکہ ان کے سرپرشفقت کاہاتھ پھیریں،ان کے ٹوٹے دلوں کوجوڑنے کی کوشش کریں، باپ یاماں کی جدائیگی کے غم کوان کے ساتھ حسن سلوک کے ذریعہ دورکریں،کیونکہ آپ پوری انسانیت کے یتیم بچوںکے سب سے بڑے باپ ہیں،ان کے غمخوراوران پرشفقت کرنے والے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے یتیم بچوں کے ساتھ جس شفقت ومحبت کامعاملہ فرمایاوہ تاریخ انسانی میں ہمیشہ آب زرسے لکھاجائے گا،اس بارے میں آپ کے عملی نمونے کثرت سے احادیث کے ذخیرہ میں موجودہیں،آپ کے اس وصف کاغیرمسلم مستشرقوں نے بھی اعتراف کیاہے۔
مستشرق جیمس مشنر(James Michnr)لکھتے ہیں:
’’محمدیتیم پیداہوئے اس لئے ان کے دل میں غریبوں،محتاجوں،بیوائوں اوریتیموں کے لئے بڑی محبت تھی‘‘۔(الرسول فی الدراسات الاستشراقیۃ المنصفۃ، مصنف محمدشریف شیبانی،ص:۱۲۰)
فلیپ ہٹی(Phlippe Hitti)لکھتے ہیں:
’’گرچہ محمدزندگی کے ایک مرحلہ میں یتیم بھی رہے ہیں،لیکن ان کادل ہمیشہ زندگی سے محروم لوگوں کی غمخواری کے لئے کشادہ رہا‘‘۔(الاسلام منہج حیاۃ، ص: ۵۴ )
سیدنی فیشر(Sydney Fisher)نے اس حقیقت کااعتراف اس طرح کیا:’’جس ماحول میں محمد(ﷺ)کی پیدائش ہوئی وہاں بیوہ،یتیم اورہرطرح کے کمزورں کے ساتھ گرے پڑے سامان کاساسلوک ہوتاتھا،ایسے ماحول میں جب محمد(ﷺ)آئے توگرچہ انہیں وہ چیزحاصل نہیں تھی جن پرسربرآوردہ افرادفخرکرتے تھے،اس کے باوجودوہ اللہ کی طرف دعوت اورنجات کاراستہ لے کرآئے،اورانہوں نے پورے عرب میں اخلاق اورادب کاپیمانہ بدل دیا‘‘۔(الشرق الاوسط فی العصرالاسلامی)
لویس سیدیو(Lewis Sdjdiu)کہتے ہیں:
’’محمدہمیشہ یتیموں کے تعلق سے فکرمندرہے‘‘(تاریخ العرب العام،ص:۱۱۰)
اسلامی شریعت میں بچوں سے متعلق جوہدایات ہیں ان میں یتیم بچے بھی شامل ہیں،اوربہت سے احکام اورہدایات صرف یتیم بچوں کے لئے خاص ہیں،ان دونوں شکلوں میںیتیم بچوں سے متعلق ہدایا ت اورتوجیہات پرایک نظرڈالتے ہیں تاکہ اس بارے میں اسلامی ہدایات اوررسول اللہ ﷺ کاعملی اسوہ سامنے آئے اورمعلوم ہوسکے کہ اس سلسلہ میں اسلامی شریعت کس طرح ممتازاورنمایاں ہے۔
یتیموں کے ساتھ حسن سلوک 
یتیموں کے ساتھ اچھے حسن سلوک یعنی اچھے برتائوکاحکم دیاگیاہے،حسن سلوک کالفظ بڑی معنویت رکھتاہے،اس میں یتیم بچوں پرشفقت،ان کے ساتھ نرمی اوررحمدلی،ان کی نگہ داشت،تعلیم وتربیت،اوران کے لئے مناسب زندگی کی فراہمی ساری چیزیں شامل ہیں،اللہ تعالی کاارشادہے:
ترجمہ:اوروہ وقت یادکروجب ہم نے بنی اسرائیل سے پکاعہدلیاتھاکہ تم اللہ کے سواکسی کی عبادت نہیں کروگے،اوروالدین کے ساتھ اچھاسلوک کروگے اوررشتہ داروں سے بھی اوریتیموں اورمسکینوں سے بھی ۔(سورہ بقرہ:۸۳)
دوسری جگہ ارشادہے:
توآپ یتیم پرسختی مت کیجئے۔(سورہ ضحی:۹)
مشہورمفسرابن کثیراس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:
 ترجمہ:یتیم کومت جھڑکیں یعنی انہیں ذلیل نہ کریں،بلکہ ان کے ساتھ حسن سلوک کریں ،نرمی سے پیش آئیں،قتادہ کہتے ہیں یتیم کے ساتھ مہربان باپ کی طرح رہیں۔(تفسیرابن کثیر،ج۴،ص:۶۳۶)
 یتیم بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور غیرشریفانہ معاملہ کرنادین کوجھٹلانے والوں یعنی کافروں کی علامت قراردیاگیاہے،دورجاہلیت میں یہ بات عام تھی، اسی پس منظرمیں یہ آیت نازل ہوئی :
ترجمہ:بھلاتونے اس شخص کوبھی دیکھاہے جوروزجزاکوجھٹلاتاہے ،وہی توہے جویتیموں کودھکے دیتاہے۔(سورہ ماعون:۱)
قرآن کریم میں یتیموں سے متعلق ۲۳آیات واردہیں،جن سے اس معاملہ کی اہمیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔
یتیم بچوں کی کفالت
یتیم بچوں کے ساتھ سب سے اہم مسئلہ کفالت یعنی ان کی پرورش وپرداخت کاہوتاہے،رسول اللہ ﷺ نے یتیم بچوں کی کفالت کاانتظام کرنے اوراسے مسلم معاشرہ کاحصہ بنانے کاحکم فرمایااوراس کی بڑی ترغیب دی ،آپ ﷺ نے یتیموں کی کفالت کرنے والوں کوجنت میں اپنارفیق فرمایاہے،آپ ﷺنے ارشادفرمایا:
ترجمہ:میں اوریتیم کی کفالت کرنے والادونوںجنت میں اس طرح ہوں گے،آپ نے شہادت کی انگلی اوربیچ کی انگلیوں کوملاکراشارہ کیا،اوردونوں انگلیوں کے درمیان بہت کم فاصلہ رکھا۔(صحیح البخاری،حدیث نمبر:۶۰۰۵)
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ ابن بطالؒ لکھتے ہیں:
جوبھی مومن اس حدیث کوسنے اس پرلازم ہے کہ اس حکم پرعمل کرنے کی کوشش کرے،تاکہ وہ جنت میں حضرت محمدﷺ اورتمام انبیاء اوررسولوں کارفیق بنے،آخرت میںاللہ کے نزدیک انبیاء کی رفاقت سے زیادہ مرتبہ کوئی نہیں ہے۔(شرح صحیح بخاری ازابن بطال،ج۹،ص:۲۱۷)
جس گھرمیں کسی یتیم کی پرورش ہورہی ہو،اس کے ساتھ اچھابرتائوکیاجاتاہو، وہ گھرسب سے بہترہے،اس کے برخلاف جس گھرمیں کسی یتیم کے ساتھ براسلوک ہو، وہ گھرسب سے بدترہے،آپ ﷺنے فرمایا:
ترجمہ:مسلمانوں میں سب سے بہترگھروہ ہے جہاں یتیم کے ساتھ اچھابرتائو ہو اور مسلمانوں میں سب سے بدترمکان وہ ہے جہاں کسی یتیم کے ساتھ براسلوک ہو۔(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر:۳۸۱۰)
 حدیث میں مذکور برتائومیں زبانی اورعملی دونوں طریقے شامل ہیں،یعنی زبان میں بھی نرمی ہواورعمل سے بھی نرمی اورمحبت کااظہارہو،اسی طرح برے سلوک میں بھی زبان سے زیادتی بھی شامل ہے اورعملی سختی اورزیادتی بھی۔
اوربہترگھرکامطلب یہ ہے کہ ایساگھراللہ کی رحمتوں اوراس کی شفقتوں سے مالامال ہوگا،کیونکہ یتیم کی کفالت دراصل اللہ تعالی کی نیابت ہے،اس کی کفالت، اوراس کی ذمہ داریوں کی فراہمی کے سلسلہ میں۔(فیض القدیر،ج۳،ص:۳۴۵)
یتیم بچوں کی کفالت کرنے والے تہجدگزاروں کی طرح ہیں،ایسے لوگوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ:جس نے تین یتیموں کی پرورش کی،وہ اس شخص کی طرح ہے جورات میں اللہ کی عبادت کرے،دن میں روزہ رکھے اورمہینوں اللہ کی راہ میں جہادکرے ، یتیموں کی پرورش کرنے والااورمیں جنت میں دوبھائیوں کی طرح ہوں گے جیساکہ دوانگلیاں،اورآپ ﷺ نے شہادت کی انگلی اوربیچ کی انگلیوں کی جانب اشارہ فرمایا۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الادب،باب حق الیتیم،حدیث نمبر:۳۸۱۱)
اس روایت میں یتیموں کی پرورش کرنے کی تین فضیلت بیان کی گئی ہے،اول وہ تہجدگزارلوگوں کی طرح ہے،دوسرے وہ روزہ رکھنے والوں کی طرح ہے اورتیسرے وہ جنت میں اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ کے بھائی کی طرح ہوگا،یعنی یتیموں کی پرورش پرتہجداورروزہ کاثواب ملے گااوررسول اللہ ﷺ کی رفاقت حاصل ہوگی،ان تینوں درجات سے بڑھ کراورکیادرجہ ہوسکتاہے۔
رسول اللہ ﷺ کویتیم اورعورت کے حقوق کی بڑی فکر تھی،آپ ﷺ نے ان دونوں کے حقوق کی بڑی تاکیدفرمائی،ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
ترجمہ:میں لوگوں کودوکمزوروں یعنی یتیم اورعورت کے بارے میں اللہ سے ڈراتاہوں۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الادب،باب حق الیتیم،حدیث نمبر:۳۸۰۹)
یہ حدیث یتیم بچوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی فکرمندی ان کے حقو ق کی اہمیت اوران کے ساتھ اچھابرتائوکرنے نیزان کے ساتھ برے سلوک کے انجام کی طرف اشارہ کرتی ہے،اس حدیث سے یہ بھی اشارہ ملتاہے کہ عام مسلمانوں کوبھی اس بارے میں فکرمندہوناچاہیے کہ ان کے درمیان یتیم بچوں کے ساتھ کیاسلوک ہورہاہے،ہرمعاشرہ میں موجودیتیم بچوں کی پرورش کی ذمہ داری جہاں اس کے قریبی رشتہ دارپرہے وہیں سماج کے سربرآوردہ طبقہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی خبرگیری کیاکریں،ان پرنظررکھیں،اوران پرکسی طرح کی زیادی نہ ہونے دیں۔
یتیم بچوں کے مال کی حفاظت
یتیم بچوں سے متعلق جس بات کی بڑی تاکیدآئی ہے وہ ہے ان کے مال کی حفاظت،اوراس میں خردبردنہ کرنا،ظاہرہے جس بچہ کے باپ یاماں باپ دونوں نہ ہوں ان کے پاس اگرمال اورجائیدادہے توان کی حفاظت کامسئلہ بہت اہم ہوجاتاہے،لوگوں کی نیت اس بارے میں جلدخراب ہونے لگتی ہے،اس لئے انسان کے اس مزاج کودیکھتے ہوئے یتیم بچوں کے مال کے بارے میں شریعت میں بڑی سخت ہدایات ہیں۔ 
یتیم کامال اس کے قریبی رشتہ داروں کے پاس بطورامانت ہوتاہے،جب یتیم بڑاہوجائے اوراس کے اندرشعورآجائے نیزوہ اپنے مال کی حفاظت پرقادر ہوجائے توان قریبی رشتہ داروں کوحکم ہے کہ وہ یتیم کامال ان کے حوالہ کردیں،اس درمیان یتیم کے مال کویتیم کی ضروریات پرخرچ کرسکتے ہیں،اس بارے میں تفصیلی حکم موجودہے،اللہ تعالی فرماتے ہیں:
ترجمہ:اوریتیموں کی جانچ کرتے رہے ،یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے لائق عمرکوپہونچ جائیں تواگرتم محسوس کروکہ ان میں سمجھ داری آچکی ہے توان کے مال ان ہی کے حوالہ کردو،اوریہ مال فضول خرچی کرکے اوریہ سوچ کرجلدی جلدی نہ کھابیٹھوکہ وہ کہیں بڑے نہ ہوجائیں،اور(یتیموں کے سرپرستوں میں ) جوخودمالدارہووہ تواپنے آپ کو(یتیم کامال کھانے سے)بالکل روکے رکھے،ہاں اگروہ خودمحتاج ہوتومعروف طریق کارکوملحوظ رکھتے ہوئے کھالے، اورپھر جب تم ان کے مال ان کے حوالہ کرنے لگوتوان پرگواہ بھی کرلیاکرواوراللہ حساب لینے کے لئے کافی ہے۔(سورہ نساء:۶)
قرآن کریم میں یتیموں کامال کھانے کو آگ سے پیٹ بھرناقراردیاگیاہے،اور ایسے لوگوں کاٹھکانہ جہنم بتایاگیاہے،اللہ تعالی فرماتے ہیں:
بے شک جولوگ یتیموں کامال ناحق کھالیتے ہیں وہ بس اپنے پیٹ میں آگ ہی بھرتے ہیںاورجلدوہ دہکتی آگ میں جھونکے جائیں گے۔(سورہ نساء:۱۰)
قرآن کریم میں اس بات کی باربارتاکیدکی گئی،یہ حکم سورہ انعام (آیت :۱۵۲) اور سورہ اسراء(آیت:۳۴)میں بھی موجودہے۔
رسول اللہ ﷺ نے یتیموں کے مال کھانے کوموبقات یعنی انتہائی مہلک چیزوںمیں شمارکیاہے،آپ ﷺ نے فرمایا:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:سات مہلک چیزوں سے بچوں،صحابہ نے دریافت کیا،ایسی سات چیزیں کیاہیں؟آپ نے فرمایا:اللہ کے ساتھ کسی کوشریک کرنا،سحر،ناحق کسی کوقتل کرنا،یتیم کامال کھانا،پیش قدمی کے وقت پیٹھ پھیرنااورپاکدامن بھولی عورتوں پرتہمت لگانا۔(صحیح بخاری،کتاب الوصایا،باب قول اللہ انمایاکلون اموال الیتامی،حدیث نمبر:۲۷۶۶)
رسول اللہ ﷺ کے نزدیک یتیم کے مال کامسئلہ اتنااہم تھاکہ آپ نے ضعیف صحابہ کویتیم کی ذمہ داری لینے سے منع فرمایا(صحیح مسلم،کتاب الامارہ،باب کراہیۃ الامارۃ بغیرضرورۃ،حدیث نمبر:۴۸۲۴)
یتیموں کے مال میں سرمایہ کاری کاحکم
یتیم کے پاس جوبھی مال ہو،وہ استعمال کرنے سے کم ہوگااوردھیرے دھیرے ختم ہوجائے گا،اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے یتیم بچوں کے سرپرستوں کوحکم دیاکہ وہ ایسے بچوں کے مال کوتجارت میں لگائیں،تاکہ منافع کے ذریعہ اصل مال میں اضافہ ہوتارہے،ورنہ خرچ کرنے سے اور سال بہ سال زکوۃ دینے سے وہ مال کم ہوگایاختم ہوجائے گا،رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
سن لو،جوبھی کسی یتیم کی پرورش کررہاہے اوراس یتیم کے پاس مال ہے تواسے چاہیے کہ مال کوتجارت میں لگائے،اورایسے ہی نہ چھوڑے ،تاکہ زکوۃ میں اداہوکرختم ہوجائے۔(سنن الترمذی،کتاب الزکوۃ،باب ماجاء فی زکوۃ مال الیتیم،حدیث نمبر:۶۴۲)
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ یتیم کے سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ یتیم کے مال کوتجارت میں لگائیں،اس سے سرمایہ کاری کریں،تاکہ مال میں اضافہ ہوتا رہے ۔ 
یتیم بچوں پرشفقت :سنگ دلی کاعلاج
یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کے فوائدمیں ایک یہ ہے کہ اس سے دل کی سختی دورہوتی ہے،رسول اللہ ﷺ نے یہ نسخہ بتایا،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے دل کی سختی کی شکایت کی توآپ نے فرمایا:
امسح راس الیتیم وأطعم المسکین(مسندامام احمدبن حنبل،ج۱۹،ص:۲۸۶)
یتیم کے سرپرہاتھ پھیرواورمسکینوں کوکھاناکھلائو۔
اس حدیث میں مذکورسرپرہاتھ پھیرنے سے واقعی ہاتھ پھیرنااوران کی دلجوئی کرنا،ان کاخیال رکھنادونوں شامل ہیں۔
سرپرہاتھ پھیرنے کی فضیلت
یتیم کے سرپرشفقت سے ہاتھ پھیرنابھی باعث ثواب ہے،احادیث میں یتیم کے سرپرہاتھ پھیرنے کی فضیلت آئی ہے،حضرت ابوامامہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس نے محض اللہ کی رضاکے لئے کسی یتیم کے سرپرہاتھ پھیراتوان کیلئے ہربال کے بدلے جس پرہاتھ مس ہواہونیکیاں ہیں،اورجس نے کسی یتیم لڑکایایتیم لڑکی جوان کی پرورش میں ہو،کے ساتھ اچھابرتائوکیا،تومیں اوروہ دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے،آپ نے شہادت کی انگلی اوربیچ کی انگلی کوپھیلا کر دکھایا ۔(مسندامام احمدبن حنبل،ج۴۸،ص:۲۵۹)
یتیموں کی کفالت کے فوائد
شریعت میں یتیموں کی پرورش ،اوران کے ساتھ حسن سلوک کی جوفضیلتیں اوپرمذکورہوئیں اورجس طرح یتیم کے سرپرست کے لئے اجروثواب اورجنت رسول اللہ ﷺ کی قربت کاوعدہ ہے ایک مومن کے لئے ان سے زیادہ اہم بات اورکیاہوسکتی ہے،لیکن اللہ کے احکام کی طرح اس حکم میں بھی اخروی سرفرازیوں کے ساتھ دنیاوی سرخروئی بھی ہے،جویتیم بچوں کے ساتھ مذکورہ ہدایات پرعمل کرے گاوہ جنت میں اجروثواب کامستحق ہوگاہی اس دنیامیں بھی اس کے لئے کامیابی وکامرانی ہے۔
یہ عمل اتنااہم ہے کہ مذکورہ شخص کے ساتھ معاشرہ اورسماج پربھی اس کی بڑے اچھے اثرات مرتب ہوں گے،عالم عرب کے عالم دین جناب عبداللہ بن ناصرسدحان نے یتیم بچوں کی کفالت کے فوائدکوجمع کرنے کی کوشش کی ہے،یہ فوائداس طرح ہیں:
۱۔کوئی مسلمان کسی یتیم کی پرورش کرے تووہ جنت میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کامستحق ہوگا،اس سے بڑااعزازاورقابل فخربات ایک مسلمان کے لئے اور کیا ہوسکتی ہے۔
۲۔یتیم کی پرورش ،اس پرخرچ کرنااوراس کی تعلیم وتربیت کاعمل دراصل اس شخص کی نیک دلی،فطرت کی سلامتی اورشفقت ومحبت سے لبریزدل ہونے کوبتاتا ہے ۔
۳۔یتیم کی پرورش،اس کے سرپرہاتھ پھیرنے اوراس کی دلجوئی کرنے سے دل کی سختی دورہوتی ہے اوردل نرم ہوتاہے۔
۴۔یتیم کی پرورش کرنے والاآخرت کے علاوہ دنیاوی زندی میں خیروبرکت اورکامیابی وکامرانی سے شادکام ہوگا،کیونکہ اللہ تعالی کاارشادہے :ہل جزاء الاحسان الاالاحسان‘،لہٰذاجب بندہ اللہ کے حکم کے مطابق کسی کے ساتھ اچھاسلوک کرے تواس کے بدلے اللہ تعالی اس سے زیادہ بہترسلوک فرمائیں گے دنیااورآخرت دونوں جگہ۔
۵۔یتیم کی پرورش دراصل ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل وتعمیرمیں حصہ لیناہے جوحسد،کینہ سے خالی ہواورجہاں محبت اورایک دوسرے کے تئیں خیرخواہی کے جذبات ہوں۔
۶۔یتیم کااکرام،اس کی ضروریات کی فراہمی اوراس کی تعلیم وتربیت کانظم کرنادراصل ایک ایسے فردکااکرام کرناہے جورسول کی صفت یتیمی میں شریک ہے،اوریہ بات رسول اللہ ﷺ سے محبت کی علامت ہے۔
۷۔یتیم کی کفالت سے مسلمان کا مال پاک وصاف ہوتاہے۔
۸۔یتیم کی پرورش ان اخلاق حمیدہ میںسے ہے جواسلام کومطلوب ہے اورجس کے اندریہ صفات پائی جائیں ان کی تعریف کی گئی ہے۔
۹۔یتیم کی پرورش کرنے والے کوبڑی برکت حاصل ہوتی ہے اوراس سے رزق میں کشادگی آتی ہے۔
۱۰۔رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق جس گھرمیں یتیم کی پرورش ہوتی ہے وہ سب سے بہترگھرہوتاہے۔
۱۱۔یتیم کی پرورش کرنااس شخص کی آئندہ نسل کی حفاظت کاذریعہ ہے اورآئندہ اس کی نسل کے یتیم بچوں کی کفالت کاضامن۔کیونکہ جب اس نے کسی یتیم بچے کی کفالت کی توآئندہ اس کی نسل میںکوئی یتیم ہوگاتواس کی کفالت کانظم ہوگا،یہی اللہ تعالی کانظام ہے۔(کفالۃ الیتیم :دعوۃ الی مرافقۃ النبی ﷺ فی الجنۃ)
خلاصہ یہ کہ یتیم کی پرورش اوراس کی کفالت دنیاوآخرت دونوںجگہ بڑے اجروثواب اورخیروبرکت کاذریعہ ہے،قرآن وحدیث میں اس بات کی بڑی تاکیدآئی ہے ،ایسے تمام بچے جو والدین کی شفقت ومحبت سے محرو م ہوں ،خواہ وہ یتیم ہوں یاان کے والدین کسی ناگہانی مصائب کے شکارہوگئے ہوں یاکھوگئے ہوں،ان تمام بچوں کی ذمہ داری قریبی رشتہ داروں اورمتعلق سماج کی ہے،کہ ان کی مناسب خبری گیری کریں، ان کی بہترتربیت کانظم کریں،ان کی ان کوتعلیم دلائیں تاکہ وہ سماج کابہترحصہ بن سکیں، اگر ایسانہ کیاجائے اورشریعت کے اس حکم پرعمل میں کوتاہی ہوتواس کے اندراحساس کمتری پیداہوگی اوروہ سماج اورمعاشرہ کاناکارہ حصہ بنیں گے۔ 
(بصیرت فیچرس)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے