امير شريعت مولانا سيد نظام الدين صاحب مرحوم مسلمانان ہند ایک مخلص اور تجربہ کار رہنما سے محروم

مسلمانان ہند ایک مخلص اور تجربہ کار رہنما سے محروم
از: محمد ظفر عالم ندوی
استاذ کلیۃ الشریعہ واصول الدین دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء ؁ کی تاریخ مسلمانان ہند کی تاریخ میںیقیناًغم و اندوہ کی تاریخ کے طور پر لکھی جائے گی کہ اس دن ہندوستانی مسلمانوں کے ایک عظیم دینی و ملی رہنما حضرت مولانا سید نظام الدینؒ ، جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ و امیر شریعت بہار و اڑیسہ و جھارکھنڈ اس داردانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
حضرت مولانا نظام الدین ؒ کی ذات اخلاص اور جدوجہد سے تعبیر تھی،آپ نے اپنی عمر کی تقریباً نوے بہاریں دیکھیں، بچپن کا زمانہ ہو یا عہد شباب، جوانی ہو بڑھاپا، ہر منزل اخلاص و محبت ، محنت و شفقت اور سادگی سے پر تھی، اعتدال ، تواضع، کشادہ قلبی اور حلم و بردباری ان کا مسلک تھا،عزم واستقلال ، صبرو تحمل اور حکمت و دانائی ان کی پہچان تھی ہر کام اور ہر منصوبہ عمل پیہم اور جہد مسلسل کا نمونہ تھا، جو کرتے اللہ کے لیے، جو سوچتے ملت کے لیے، جو بولتے قوم کے لیے، نہ کسی کا ڈر نہ ملامت کی پرواہ،پرواہ ہی کیوں ! نہ اپنا مفاد اور نہ اپنی چاہت، جدھر جاتے انسانیت کے لیے، جو کچھ کرتے رضائے الٰہی کے لیے، کبھی یہاں کبھی وہاں نہ صحت کی فکر نہ گھر بار اور آل و اولاد کی، فکر ہے تو نظام امارت اور استحکام بیت المال کی، فکر ہے تو اتحاد امت اور وقار ملت کی، فکر ہے تو تحفظ دین و شریعت اور ملی سرمایہ کی۔۔۔۔ سر زمین بہار کا کوئی خطہ ہو یا ملک کا کوئی شہر ہر جگہ ملت کے کام اور انسانیت کی خدمت میں پیش پیش نظر آتے، نہ مسلک و مشرب کی تفریق نہ رنگ وبو اور علاقہ کا فرق نظر آتا ، ہر سطح اور ہر خطہ کی خدمت اپنا فریضہ سمجھتے۔ معاملہ اپنوں سے ہو یا غیروں سے صبروتحمل اور قوت و ہمت کا پہاڑ بنے رہتے، منزل خواہ کیسی دشوار ہو ہمت نہ ہارتے، معاملہ خواہ کتنا ہی پیچیدہ ہو حکمت و دانائی ساتھ رہتی اور اس کو حل کرلینا ان کا کمال تھا۔انفرادی معاملہ ہو یا قومی و ملی، ہر جگہ حسن اخلاق اور بلند کردار کا پیکر نظر آتے، معاملہ جذباتی ہو یا توہین آمیز اعتدال و توازن ہاتھ سے جانے نہ دیتے ، ارباب حل و عقد کی مجلس ہو یا محاسبہ و مشاورت کی محفل وہی وقار وہی زبان جو ان کا اپنا شعار تھا، مسلم پرسنل لاء کی میٹنگ ہو یا کسی تنظیم و ادارہ کا پروگرام ہر جگہ منصوبے اور عمل کا وہی انداز ، علم و عمل اور تجربہ کا حسین امتزاج، عوامی اجلاس ہو یا ملی و دینی کانفرنس ہر جگہ داعیانہ کردار ان کا اپنا امتیاز تھا، علمی مجالس ہوںیا فقہی سمینار ، فقہی بصیرت اور مصالح امت کا وہ مظاہرہ ہوتا کہ بڑے بڑے اہل علم و تفقہ اس بصیرت و حکمت پر انگشت بدنداں رہ جاتے۔ علمی و عملی زندگی کا وہ کون سا گوشہ تھا جہاں وہ ایک مخلص داعی ، صاحب بصیرت عالم اور تجربہ کار رہنما کی حیثیت سے نظر نہ آئے۔ وہ کسی خانقاہ کے سجادہ نشین تو نہیں تھے جیسا کہ امارت شرعیہ کے امیروں کی حسین تاریخ اور روایات رہی ہیں ، لیکن اہل دل و معرفت جانتے ہیں کہ وہ اس شجرۂ طوبیٰ کے خوشہ چینوں میں ضرور تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی کا ہر باغ اس سے شاداب نظر آتا تھا۔
ناچیز کو تقریباً پینتیس چھتیس سال سے حضرت مولانا مرحوم کو دیکھنے، سننے اور استفادہ کا خوب موقع ملا، دینی پروگراموں اور عوامی جلسوں میں بھی، ملی کانفرنسوں اور نجی نشستوں میں بھی، علمی و فقہی سمیناروں اور طلبہ و اساتذہ کی مجلسوں میں بھی۔ہر جگہ یہی سب کچھ دیکھنے کو ملا۔
بحیثیت ناظم پھر امیر شریعت بہار و اڑیسہ تقریبا نصف صدی سے زائد امارت شرعیہ کی خدمت ان کی زندگی کا وہ روشن باب ہے جسے تاریخ کبھی بھلا نہیں سکتی، حضرت امیر شریعت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ کی امارت و قیادت اور قاضی القضاۃ حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی رفاقت میں امارت شرعیہ کے استحکام ،تنظیم، ترقی ، توسیع اور مقاصد کی تکمیل میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ان سے کارکنان امارت یقیناًبخوبی واقف ہیں، امید کہ وہ ان کو اپنی تاریخوں میں بھی محفوظ کریں گے۔ لیکن صوبہ بہار کا شاید ہی کوئی عالم ، دانشور اور ملی ہمدرد ہو جو ان خدمات اور جدوجہد سے ناواقف ہو، جدوجہد کا یہ اتنا طویل باب ہے کہ اس کے ذکر کے لیے چاہے کسی مؤرخ کا قلم ، امید کہ دینی وملی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اہل قلم اس فریضہ کو بحسن و خوبی ضرور انجام دیں گے۔
ملک کے نازک حالات میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی صدارت و قیادت پھر حضرت حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ اور حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی کی صدارت و رفاقت میں بحیثیت جنرل سکریٹری جن مشکلات اور نزاکتوں کا سامنا کرتے ہوئے ملت اسلامیہ ہند کے پیش آمدہ مسائل کو جس فہم و فراست کے ساتھ حل کرتے رہے ملت اسلامیہ ہندیہ کی تاریخ انھیں بھلا نہیں سکتی۔ جن حضرات کو ان حالات اور نزاکتوں کا علم ہے جن کے سامنے یہ واقعات ہوئے وہ ان سے بخوبی واقف ہیں امید کہ وہ اپنی تحریروں میں ان بازیابیوں کا تذکرہ ضرور کریں گے۔ خود ناچیز نے ان حالات و واقعات کا براہ راست مشاہدہ کیا ہے، وہ سب نگاہوں کے سامنے ہیں ۔
آج مسلمانانِ ہند اپنے اس عظیم رہنما کے دنیا سے جانے پر اپنا عظیم خسارہ محسوس کررہے ہیں۔ بلا شبہ ان کا یہ احساس بجا ہے، کیوں نہ ہو ملت کیا؟ ان سے تعلق رکھنے والا ہر فرد اپنا گھر سر پرست سے خالی محسوس کررہا ہے۔اف! مادیت و موقع پرستی کا یہ دور اور خلوص و محبت سے بھر پور یہ سرپرست! ہے کوئی بدل؟ اللہ پردۂ غیب سے جلد نعم البدل عطا فرمائے اور مرحوم کو ان کے شایان شان جزاء نصیب فرمائے ، آمین۔
غم و اندوہ میں ڈوبا چند دنوں کے سکوت کے بعد یہ راقم آج چند سطریں سپر د قلم کررہا ہے، اسے غالباً اپریل ۱۹۷۹ء ؁ کی وہ کانفرنس یاد آرہی ہے جو مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ میں منعقد ہوئی تھی۔ اسٹیج پر حضرت امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ ، گورنر حکومت بہار ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی اور وزیر اعلیٰ ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا بھی موجود تھے، اسی اسٹیج پر ایک بارونق خوبرو چوڑی پیشانی اور چمکتے چہرہ والا ، قدرے پست قد مگر باوقار و بلد آواز مقرر کی سحر انگیز تقریر ہورہی تھی۔ بندہ پرسکون سن رہا تھا، یہ چہرہ پہلی بار دیکھنے کو ملا تھا، تقریر اس قدر پر جوش اور مؤثر تھی کہ دل و دماغ کو متاثر کررہی تھی ، پورا مجمع ہمہ تن گوش تھا، حضرت امیر شریعت رابعؒ سے تو گھر ہی سے واقف تھا کیوں نہ ہوتا! میرا گھرانہ ان کے عقیدت مندوں میں تھا اور بچہ بچہ ان کی عقیدت و عظمت سے لبریز تھا، ناچیز بھی اپنے گھر اور وطن پورنیہ میں نگاہ عقیدت و محبت سے ان کے جمال و جلال کا مشادہ کرچکا تھا، لیکن اس پر رونق ، خوبرو اور باوقار چہرے سے ناواقف تھا، اگرچہ غائبانہ نام سن چکا تھا لیکن اس تقریر نے ذہن و دماغ پر ایسا نقش چھوڑا کہ تعارف کے لیے بے چین ہوگیا، اور اپنے استاد گرامی حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری مد ظلہ العالی سے ان کی شخصیت کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ آپ ناظم امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ مولانا سید نظام الدین ہیں ، جن کی زندگی سراپا اخلاص اور جدوجہد سے تعبیر ہے۔
اس وقت سے اب تک تقریباً پینتیس سال زائد کا عرصہ ہوا ، اس دورن مسلسل ان کو دیکھنے ، سننے اور سمجھنے کے بے شمار مواقع آئے۔
اس مدت میں نقش اول جو ذہن و دماغ میں قائم ہوا تھا اس میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ ہر موقع اسی امتیازی شان اخلاص و جدوجہدکی شہادت دیتا رہا ، تقریباً تیس سال سے امارت شرعیہ بار بار آنے جانے، کئی کئی ہفتہ قیام اور اس دوران حضرت سے ملاقاتیں مختلف مسائل پر تبادلۂ خیال نجی مسائل میں بھی مشورے وغیرہ کے ایسے بے شمار واقعات ہیں جو ذہن سے مٹائے نہیں مٹ سکتے۔بہار میں بھی مختلف جلسوں اور موقعوں سے حضرت امیر شریعت رابعؒ اور قاضی مجاہد الاسلامؒ کے ساتھ دیکھا، ان کی تقریریں اور باتیں سنیں ، یوپی اور ملک کے مختلف شہروں اور پروگراموں میں بھی خطابات سے مستفید ہوا، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاسوں میں بھی ان کی بصیرت افروز تقریروں سے فیضیاب ہوا، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے سمیناروں میں بھی ان کی فقیہانہ اور حکیمانہ گفتگو سے فائدہ اٹھایا اور ندوہ میں تو بار بار یہ مواقع حاصل ہوتے رہے، امارت شرعیہ اگر ان کا گھر اور اوڑھنا بچھونا تھی تو ندوہ ان کے فکر و فن کی آماجگاہ تھی، وہ یہاں مجلس نظامت و مجلس منتظمہ کے رکن ہی نہیں سرپرستوں میں شامل تھے، اور اپنے گھر کی طرح آمدو رفت تھی، یہاں آکر وہ افراد خاندان کے درمیان رہنے جیسا سکون پاتے ، مسلم پرسنل لا بورڈ کے مسائل ہوں یا ندوہ کے، اپنے مخلص دوست موجودہ ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید محمد رابع ندوی دامت برکاتہم کے شریک ہوکر حل فرماتے ان تمام مواقع سے ہم خدام ندوہ کو بھی استفادہ کا موقع حاصل ہوتا، بندہ کو یہ شرف کبھی مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ اور حضرت امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ کی مجالس ندوۃ العلماء کے موقعوں سے حاصل ہواکرتا تھا، ان کے بعد انھیں حضرات سے، یہ حقیقت ہے کہ ندوۃ العلما اور مارت شرعیہ کی فکری ہم آہنگی نے دونوں اداروں کو ایک مرکز اتحاد بنا رکھا ہے اس لیے دونوں اداروں کے سرپرستوں کا بار بار ایک جگہ جمع ہونا ایک فطری بات ہے اور ان اجتماعات کا فائدہ ہم جیسے خوشہ چینوں کو پہنچنا ایک مقدر کی چیز ہے۔
ان مواقع سے ان بزرگوں کو قریب سے دیکھا، ان میں جہاں بہت سی خوبیاں تھیں انہی میں سے ایک خوبی علماء سلف بالخصوص اہل دعوت و عزیمت اور ان کے بلند کارناموں سے محبت اور اس سلسلۃ الذہب کے تحفظ اور آئندہ نسلوں میں اس کی منتقلی کی فکر، موجودہ حالات پر نظر اور ماضی کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ نسل میں اس کے اعتماد اور اعتبار قائم کرنے کی کوشش، یہ وہ وصف ہے جو دور حاضر میں مفقود نہیں تو نادر ضرور ہے، مولانا سید نظام الدینؒ اللہ کے ان موفق بندوں میں تھے جن کو اس دولت سے وافر حصہ ملا تھا، ناچیز نے مختلف مواقع سے اس کو محسوس کیا، اس وقت مولانا مرحوم کی اس تقریر کا ایک حصہ پیش کرنے کو جی چاہتا ہے جو ۹؍ مارچ ۲۰۱۳ء ؁ کو فقہی سمینار بمقام امروہہ یوپی کے اختتامی اجلاس میں ہوئی تھی، علماء اور ارباب افتاء کا یہ اجتماع ہمہ تن گوش تھا، ناچیز نے اس کے اہم حصہ کو اپنے لیٹر پیڈ پر لکھ لیا تھا۔۔۔ مولانا مرحوم نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’ آج کا معاشرہ بہت نازک ہے، علماء کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہوگئی ہیں آج اخلاقی بے راہ روی کا جو علمی اور قانونی جواز پیش کیا جارہا ہے آپ کو علمی اور فقہی طور پر جواب دینا ہے، انہی کی اصطلاحات اور زبان میں جواب دیں۔
آگے فرمایا: ہماری عمر تو چھیاسی سال ہورہی ہے، ہمارا سفر تو دوسری طرف ہونے جارہاہے، چلا چلاؤ ہے، دعا کریں خاتمہ ایمان پر ہو، آپ کو ابھی رہنا ہے اور قوم و معاشرہ کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر قائم رکھنا ہے، آپ کو ہر حال میں معاشرہ کو اپنے اکابرین کے طرز پر جمائے رکھنا ہے۔‘‘
آگے مولانا مرحوم نے پر اعتماد لہجہ میں فرمایا:
’’اللہ کی غیرت ہرگز یہ گوارہ نہیں کرسکتی کہ اس ملک سے دین اسلام کا خاتمہ ہوجائے، مخالفین لاکھ اس کومٹانے کی کوشش کریں یہ مٹ نہیں سکتا، آپ کو یہاں قانونی حق حاصل ہے، اپنے دین حق کی آواز کو تمام انسانوں تک پہنچانا ہے تاکہ یہاں کے تمام لوگ اسلام کی رحمتوں کے سایہ میں پورے سکون و عزت کے ساتھ زندگی گذار سکیں‘‘
اخیر میں علماء کو یہ نصیحت فرماتے ہوئے اپنی بات ختم کی، فرمایا: علماء کے اندر چار چیزیں ہونی چاہیے: (۱) استقامت علی الحق ،(۲) استغنا عن الخلق، (۳) دعوت الی الحق اور (۴) عالمانہ وقار۔ آپ جہاں رہیں ان چاروں صفات کے ساتھ رہیں، حق پر جمنا ، مخلوق سے استغنا ، داعیانہ کردار اور عالمانہ وقار ہو۔ اگر یہ چیزیں آپ کے ساتھ رہیں تو آپ ہر جگہ کامیاب رہیں گے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ‘‘۔۔۔۔
اس خطاب کے ایک ایک لفظ اور جملہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک مخلص، تجربہ کار سرپرست دنیا سے جاتے وقت اپنی قوم اور نسل سے کیا تمنا چاہتا ہے؟۔۔۔ ناچیز کو کیا معلوم کہ یہ وہ آخری خطاب ہے جس کے بعد ان الفاظ سے یہ کان ناآشنا رہیں گے، اس کے بعد ملاقاتیں تو ہوئیں ، گفت و شنید کا بھی موقع ملا لیکن پھر کوئی خطاب سن نہ سکا، شاید یہی وہ آخری پیغام تھا جو ہمیں سنا کر آپؒ سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔
نگہ بلند سخن ، دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
اب قلم تو نہیں چلتا لیکن یہ اظہار کیے بغیر نہیں رہا جاتا کہ مولانا سید نظام الدینؒ اپنے پیشرو حضرت قاری طیب صاحبؒ ، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ اور حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی کے بہترین جانشین اور ان کے فکرو عمل کے سچے امین تھے، اور اپنے رفیق قدیم حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ اور حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مد ظلہ العالی کے مخلص شریک کار تھے جو فکر سجاد و بوالحسن میں ڈوبے ہوئے ملک و ملت کی تعمیر، خدمت خلق اور تحفظ دین و شریعت میں ہمہ تن مصروف تھے، اس میں کوئی شک نہیں گلشن نبوت کے ان حسین گلدستوں کا ایک تابناک عہد تھا جو اب ختم ہوا چاہتا ہے۔۔۔ دعاء ہے کہ رب العالمین تو اس عہد زریں کا سلسلہ مزید دراز فرما اور اس کارواں کے بچے کھچے راہبروں کا سایہ ہم پر تادیر قائم رکھ! کہ یہ آبروئے ملت ہیں ، جو چلے گئے مالک! تو ان پر اپنے ردائے رحمت سایہ فگن کردے کہ یہ تیرے ہی لیے تھے تو ان کا ہوجا۔ آمین یارب العالمین!

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے