مکاتب کا قیام - اسٹرٹجی کی ضرورت


مکاتب کا قیام - اسٹرٹجی کی ضرورت

شہاب عالم قیامی

اس تحریر کا مقصد صرف اُن دوستوں کو توجہ دلانا ہے، جو مکاتب کے قیام کی کوششیں کرتے ہیں، یا دیہاتوں میں مکاتب کا قیام جن کی ترجیحات میں شامل ہے۔
دراصل دوچار روز پہلے فورم پر "ندوہ کو آگ لگادو اور علی گڑھ کو پھونک دو" کے نام سے ایک لڑی پڑھی تھی، جس میں مکاتب کے قیام پر توجہ دلائی گئی تھی۔ لڑی پڑھنے کےبعد ہی کچھ باتیں ذہن میں آئی تھیں، جو کچھ دیر سےہی لیکن اب آپ کی نظر کر رہاہوں۔
سب سے پہلی بات یہ بتاناچاہتاہوں کہ یہ سطریں ایک مخلصانہ مشورہ ہیں، اگر کہیں کوئی دل شکنی ہو، تو نظر انداز فرمائیں۔ میں اُن تمام بھائیوں کی عزت کرتاہوں جو گاؤں دیہاتوں میں مکاتب کےقیام کی کوششیں کررہےہیں۔
علامہ شبلیؒ کا یہ جملہ غالبا آج سے ستر اسی برس پہلے کا ہوگا۔ جب علامہ باحیات تھے۔ تب انہوں نے کہا ہوگا۔ اُن کے بعد بھی ہم سب نے دورانِ طالب علمی اور بعد میں بھی علماء اور دانشوران کی زبانی اِسی طرح کے احساسات سنے ہوں گے۔ بہت سی کوششیں ہورہی ہیں، الحمدللہ! لیکن ایک چیز بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ اس پہلو پر جس انداز کی اور جتنے بڑے پیمانے پر کام ہونے کی ضرورت ہے، ابھی اُس میں بہت کسر باقی ہے، اور دیہاتوں میں بس رہے ان پڑھ مسلمانوں کے " ایمان و اسلام " کی حفاظت کا مسئلہ جتنا اہم ہے، شاید اُس پر اُتنی توجہ نہیں ہوپارہی ہے۔
اس پہلو پر جتنا غیر مسلم تنظیمیں منظّم ہیں، اُس کا عُشرِ عشیر بھی ہمارے یہاں نظر نہیں آتا ہے۔ کیا وجہ ہے؟
کیا اِس کی وجہ یہ ہے کہ مدارس سے فارغ ہونے والے نوجوان علماء اتنے ناکارہ اور ڈرپوک ہیں کہ وہ گاؤں جانا پسند نہیں کرتے ہیں؟ یا پھر ہمارے پاس فنڈ کی کمی ہے؟ یا مسلمانوں کو اپنے ایمان اور اسلام کی فکر نہیں ؟
میرے حساب سے اِن میں سے ایک بات بھی درست نہیں ہے۔ اصل وجہ کچھ اور ہے، اور اُسی طرف توجہ دلانے کےلئے میں یہ لڑی لکھ رہاہوں۔ اگر آپ میں سے کوئی اِس پہلو پر کوشش کررہاہے، تو شاید اُس کو کچھ کام کی بات مل جائے۔
مکاتب کے قیام کے لئے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے اسٹرٹجی، ایک قدم بہ قدم تیار کردہ منصوبہ، بس یہی چیز نہیں ہے، جس وجہ سے مکاتب کا قیام منظّم نہیں، اور جو ہے وہ بھی بہت سطحی۔
عام طور پر یہ ہوتاہے کہ جب کوئی آدمی اِس موضوع پر اظہارِ خیال کرتاہے تو وہ جذباتی انداز میں لوگوں کو دعوت دیتا ہے، " لوگ مرتد ہورہے ہیں، دیہاتوں میں پھیل رہے ارتداد کا سدِّباب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، لوگوں کا ایمان اور اسلام محفوظ کرنا ہماری اوّلین ترجیح ہے" وغیرہ وغیرہ۔ اِسی قسم کی باتیں ہمیں سننے کو ملتی ہیں۔ جذبات کا احترام برسرِنگاہ! آپ کا درد ہمیں تسلیم! لیکن جب ہم لوگوں کو دیہاتوں کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں، تو ہم اُن سے بہت کچھ مانگتے ہیں، ہم اُن سے کہہ رہے ہوتے ہیں: " شہر کی راحت اور دلچسپی بھری زندگی چھوڑو، اور گاؤں میں آکر رہو۔ بٹن دبایا اور فین آن ہوگیا، نل کھولا اور پانی موجود، چھوڑو، آؤ دیہات میں اور ٹوائلٹ کےلئے ہاتھ میں لوٹا لےکر جاؤ، بٹن دبانے سے اگر پنکھا نہ چلے تو کوئی بات نہیں، ہاتھ پھنکا جھلنے کی عادت ڈال لو، ٹوجی تھری جی سے دور رہو، ایس ٹی ڈی بوتھ سے کام چلالو، یا پھر ایس ایم ایس پر اکتفا کرو۔ جب بھوک لگی کسی اسٹور سے اسنیکر، چاکلٹ یا پسٹری لےکر کھالیا، نہیں! اسلامی تقاضے کہہ رہے ہیں کہ دالموٹ، بسکٹ اور چائے پر قناعت کرو، اور بس! وہ بھی گھر واپس آنے کے بعد" غالباً یہی سب مطلب ہوتا ہے قربانیوں کا۔ طوالت کے ڈر سے میں نے بہت ساری چیزوں کو چھوڑ دیا ہے، آپ کے ذہنوں میں بہت ساری باتیں از خود آجائیں گی۔ لیکن ذرا غور کیجئے اور خاص طور سے مدارس کے طلباء کے بیگ گراؤنڈ سے غور کیجئے، جن کے پاس کوئی مسلم ڈگری نہیں ہوتی ہے اور جن کی اکثریت حالات کی بنیاد پر ووکیشنل ٹریننگز سے بھی محروم ہوتی ہے، کہ کیا ایسے حالات میں آدمی کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنا وطن، فیملی، دوست یار، تنخواہ، شہرمیں موجود کمائی کے مواقع چھوڑ کر گاؤں کا رخ کرلے، جبکہ اُسے کہیں نہ کہیں یہ بھی تعلیم ملی ہے کہ كسب الحلال فريضة بعد الفرائض، اور عزّت کی روٹی حاصل کرنا، اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے عزّت کی زندگی حاصل کرنا آپ کے فرائض میں شامل ہے۔
میری معلومات کی حدتک دیہاتوں اور شہروں کی حدود تک مکاتب کے قیام میں جو ادارے ہندستان بھر میں کام کررہے ہیں، اُن میں مجلس دعوۃ الحق ہردوئی کے زیرِ انتظام یوپی میں ایک سلسلۂ مکاتب کام کررہاہے۔ مفتی مہربان علی بڑوتوی کا قائم کردہ " سچائی " کا پروگرام، جو کسی زمانے میں کافی متحرّک تھا، اِس وقت کیا کام کررہاہے مجھے نہیں پتہ۔ ممبئی کا فائن ٹچ، بروج رئیلائزیشن یہ وہ ادارے ہیں، جو مکاتب کے قیام کے سلسلے میں کافی متحرک ہیں۔ یہ سب ادارے دینی تعلیم کا بندوبست کررہے ہیں، لیکن اِن کا نظام بہت روایتی انداز کا ہے، جس میں کچھ خاص دلچسپی نہیں ہے۔ سب خالص دینی تعلیم دے رہے ہیں، سب کی تعلیم کا انداز بہت روایتی ہے، تقریبا سب کا یا اکثر کا ذریعۂ تعلیم اُردو ہے، ساتھ میں کام کرنے والوں کی کفالت کا کیا نظم ہے مجھے اِس کا بہت زیادہ آئیڈیا تو نہیں ہے، لیکن اب تک جن لوگوں سے ملا ہوں اُن کی باتوں میں جوش و خروش نہیں محسوس ہوتا۔ آج تک کسی بھی ادارے کے تحت کام کررہے کسی بھی استاد یا کارکن کی باتوں سے بہت زیادہ حوصلہ افزا باتیں سننے کو نہیں ملی ہیں، بلکہ بہت سوں نے تو اُلٹا معاشی تنگی، نیز کام کرنے کے ڈھنگ پر اعتراض تک جتایا ہے۔ اِن تمام اداروں میں بروج رئیلائزیشن کافی حد تک مستثنا نظر آتا ہے، جہاں کارکنان میں جوش وخروش، عزم، روایتی طرز سے ہٹ کر کچھ کرنے کی سوچ اور حوصلہ نیز اُردو کے علاوہ انگریزی اور دیگر زبانوں کو بھی ذریعۂ تعلیم بنانے کا مزاج ہے۔ وجہ کیا ہے اِس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔ نیز فائن ٹچ کا بھی اچھا تذکرہ سننے کو ملتا ہے، لیکن ممبئی کے باہر کیا حال ہے، خاص کر دیہاتوں میں مجھے علم نہیں۔
۲۰۱۱ نومبر میں مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ دہلی کے زیر اہتمام جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک دو روزہ کانفرنس میں شرکت کرنے کا موقع ملا تھا، جہاں پروفیسر اے کے ترپاٹھی کی تقریر سننے کو ملی تھی۔ پتہ چلا تھا کہ وہ ایکل ودّالیہ کے نام سے کافی بڑے پیمانے پر ریموٹ ایریا میں تعلیمی کام کررہے ہیں۔ دیہاتوں میں وہ سائنس، میتھ اور انگریزی کی تعلیم کا انتظام کرتے ہیں۔ دراصل یہی چیز ہے جو ہمارے یہاں مفقود ہے۔ میری باتوں کا غلط تاثر مت لیجئے، میں صرف سائنس، میتھ اور حساب پڑھانے کا حامی نہیں ہوں، بلکہ میں اِن سب کو اسلامی نقطۂ نظر اور اسلامی طرز پر پڑھانے کا نہ صرف حامی ہوں، بلکہ اِس سلسلے میں جو مجھ سے بن رہاہے، کررہاہوں۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ اصل چیز جو ہے وہ ہے تعلیم۔
تعلیم وہ سب سے بڑا میدان ہے، جسے آپ آج بچوں میں اور بچوں کے ذریعے اُن کے گھروالوں کے لئے دعوت وتبلیغ کے مقاصد کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ سائنس، میتھ انگریزی سے ہمیں اللہ واسطے کا بیر تو ہے نہیں، ہم اِن کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں۔ ہم مکاتب کے قیام میں اگر درجِ ذیل باتوں کا خیال رکھیں تو میرے خیال میں کافی آسانی ہوجائے گی:
  1. باہرسے کسی کو بلانے کے بجائے، علاقائی لوگوں کو استعمال کرنے پر توجہ دیاجائے۔ بلکہ علاقائی لوگوں سے کام کروایا جائے، اور اُن کی نگرانی اور رہنمائی کی جائے۔
  2. تعلیم کو دعوت کا وسیلہ بنانا چاہئے۔ اسلامیات، عربی زبان، سائنس، میتھ اور حساب بہت آسان راستے ہیں، جن کے ذریعے بچوں کو اسلامی تعلیمات کی عملی تعلیم دی جاسکتی ہے۔
  3. روایتی طرز سے ہٹ کر تعلیم کے میدان میں جو نئے نظریات اور اکتشافات ہوئے ہیں اور روز بروز ہورہے ہیں، اُن سے استفادہ کیاجائے۔ تاکہ معنویت میں اضافہ ہو۔ کام کا مقصد رزلٹ ہوتاہے۔ اور اللہ کی خوشنودی۔
  4. ٹکنالوجی سے استفادہ کیاجائے، ٹکنالوجی کا استعمال کرکے آج دوسرے نظریات رکھنے والے لوگ کیا کیا نتائج پیدا کررہے ہیں، اور غریبوں کو شاہ رخ خان اور فلمی اداکاروں کے ذریعے براہِ راست تعلیم دلوارہے ہیں۔ " آکانکشا " کے ویب سائٹ پر جائیے، آپ کو عجیب وغریب چیزیں دیکھنے کو ملیں گی۔
  5. مکاتب اور تعلیم کے میدان میں جو لوگ کام کررہے ہیں، اُن سے ملنے ملانے اور اُن کے تجربات سے استفادہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ تکہ لین دین کے ذریعے بہتر شکل میں کام ہوسکے۔
یہ چند باتیں تھیں، جو نظر نواز کی ہیں۔ دل شکنی ہوئی ہو تو معاف فرمائیں۔
اور عربی زبان کی تعلیم سے متعلق کوئی مدد درکار ہو، تو مجھے آپ کی خدمت کرکے سکون ملے گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے