نیا راشن کارڈاورعورت کی قوامیت

نیا راشن کارڈاورعورت کی قوامیت 

محمد علاء الدین ندوی 
(مدیرماہنامہ بانگ حراء،لکھنؤ)
قومی تعذیہ تحفظ قانون کے دفعہ۱۳ کے تحت آج کل لکھنؤ شہر میں راشن کارڈ بنائے جانے کے سلسلہ میں بڑی گھما گہمی ہے خاص بات یہ ہے کہ اب کہ راشن کارڈ خاندان کے مرد مکھیا (سرپرست) کے نام کانہیں بنے گا بلکہ اب خاندان کی مکھیا (سرپرست)خاتون خانہ ہوگی اور راشن کارڈ اسی کے نام سے بنے گا ، گھر میں ۱۸ سال کی لڑکی نہ ہوتو مرد کے نام سے بن سکتاہے ایساکرنے میں عورتوں کے مفادات کے تحفظ کی کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں یہ تو ارباب قانون جانیں گے لیکن راقم کے ذہن میں اس تکلیف دہ صورت حاک سے دو طرح کے خیالات سامنے آئے ۔
ایک خیال تو روبرٹ اسمتھ کے نظریہ مادری کا،دوسرا خیال مغرب کے کورے مقلد مسلمان دانشوروں کی روشن خیالی کا، رابرٹ اسمتھ اور عصر حاضر کے بہت سے مغربی مفکرین اور ملحدین انسانی تاریخ کی تفسیر ڈاروینی نظریہ ارتقاء کی روشنی میں کرتے ہیں ، ہم یہاں صرف عورت سے متعلق ان کے بعض بے سر پیر کے نظریات کی طرف اشارے کرتے ہیں ، ان کا خیال ہے کہ جب سے دنیا میں مرد اور عورت پائے جارہے ہیں ان کی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
د ور اول میں انسان بالکل ابتدائی حالت میں تھا ، جب وہ آگ کے دور(fire age) میں داخل ہوا تو بولنا بھی نہ جانتا تھا ، سیکس سے بھی واقف نہ تھا، دھیرے دھیرے بولنا سیکھا اور جانوروں کے عمل کو دیکھ کر اپنی فطرت میں پوشیدہ جنسی ہیجان وخواہشات کا ادراک کیا ، یہ دور اول عورت کے لئے مکمل آزادی کا تھا ، اس دور میں عورت کسی طرح کی قید وبند میں نہ تھی، جنگل کے جانوروں کی طرح مرداور عورتیں سب جنگلوں اور پہاڑوں وغیرہ میں رہتے تھے، چوپاتے کھالیتے ، سردی گرمی سے بچنے کے لئے کسی طرح سے بدن کو ڈھانک لیتے ،غاروں کے اس دور زندگانی میں مرد اور عورت کا تعلق ایسا تھا جیسا نر اور مادہ جانوروں کا ہوتا ہے ، دونوں ہی فطری اور جنسی تناؤ کو رفع کرنے کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے تھے اور جانوروں کی طرح سے کسی قسم کی تمدنی زندگی گزارنے سے ناآشناتھے، بچہ پیدا ہوتا تو وہ ماں کی ذمہ داری تھی، باپ مجہول ونامعلوم رہتا تھا ۔
دھیرے دھیرے وقت گزرتا گیا تو عورت کو یہ تجربہ بھی ہوا کہ کبھی کبھی اسے کئی کئی مردوں کے حملوں اور تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے ، اس دور آزادی میں اس نے سوچا کہ کیوں نہ ایک مضبوط پٹھوں والے کسی توانا وطاقتور مرد سے سمجھوتہ کر لیا جائے تاکہ یہ طاقتور مرد دوسرے حملہ آور مردوں سے اسکی حفاظت کرے ڈاروینی فکر وفلسفہ کی بنیاد پر سوچنے والوں کے مطابق یہ عائلی زندگی کی ابتدا تھی،اس عائلی زندگی سے پہلے عورت کے لئے جو دو ر آزادی تھا اسے مادری دور کہا جاتا ہے ۔ جہاں شادی بیاہ کا کوئی تصور نہ تھا، جانوروں کے سے جنسی ملاپ کے نتیجے میں جو اولاد پیدا ہوتی تھی اسکی کفالت ، حفاظت اور تغذیہ کی ذمہ داری ماں کی مامتا کی تھی ، ویسے ہی جیسے جانوروں میں دیکھا جاتا ہے کہ مادہ ہی سارا بوجھ اٹھاتی ہے ، صدیاں گزرگئیں انسان دور مادری میں جیتا رہا۔
پھر دوسرے دور میں عائلی زندگی کی بنیاد پڑی ۔ انسان گھر بنا کر زندگی بسر کرنے لگا ،اس دور میں عورت مرد کی باندی بن گئی، مردوں نے عورتوں کی پیدائشی آزادی چھین لی، تیسرا دور آیا تو عورتوں کے حقوق کی طرف توجہ ہوئی ، عورت کو بھی انسان سمجھا گیااور اس کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی گئی ۔
اب چوتھا دور آچکا ہے جب عورت کو مرد کے برابر مان لیاگیا ہے ، اسے مکمل آزادی دے دی گئی ہے، اسے ہر میدان میں گھروں سے باہر لاکر مردوں کے دوش بدوش کھڑا کر دیا گیاہے، مگر ابھی بھی شاید اس کی آزادی میں کسر رہ گئی ہے ۔ دیکھنے میں آرہا ہے کہ پانچویں دور کا بھی آغاز ہوا جاتا ہے، جب خاندان کا ذمہ دار مرد نہیں عورت ہوگی، خاندان کی کفالت صرف مرد نہیں بلکہ عورت بھی کرے گی ۔ حکومت کے کاربار میں صرف عورتوں کی حصہ داری ہی نہیں بلکہ تنہا زمام قیادت انہی کے ہاتھ میں ہوگی۔اب زندگی کا پہیہ عورت گھمائے گی اور اپنی زندگی کے دوسرے ، تیسرے اور چوتھے دور سے بھی نکل کر دور اول کی طرف واپس آئے گی ، اپنی بے آسرا فطری زندگی کی طرف ، دور مادی کی حیوانی زندگی کی طرف ۔ میرے ذہن کا دوسرا خیال مسلمانوں کے مغرب زدہ اور مرعوب کھایا ہو ا وہ طبقہ ہے جو اپنے کو دانشورکہلانا پسند کرتا ہے، اپنی مغرب نوازی میں الم غلم افکار ونظریات کو باہر سے لاکر ٹھیٹ اسلامی افکار ونظریات میں ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے اور نصوص قطعیہ تک میں اجتہاد فرماتا ہے، صرف ایک مثال ملاحظہ ہو :
میراث میں عورتوں کے مقابلہ میں مردوں کو دوگنا حصہ دیا گیاہے ،انہوں نے کہا یہ اختلاف قطعی اور دائمی ہے یا کسی علت کے تابع ہے؟ پھر ان کوسورہ نساء کی آیت میں علت بھی مل گئی:(الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضہم علی بعض وبماانفقوا من اموالہم) 
پہلی علت مردوں کا علم وعمل اور کمالات میں فضیلت ہے، دوسری علت مردوں کا عورتوں پر مال خرچ کرنا ہے، پہلی علت وہبی ہے اور دوسری علت کسبی ، قوامیت والی اس آیت کی روشنی میں ان روشن خیالوں نے غور کیا تو اس نتیجے تک پہنچے کہ گھر چلانے اور کمانے کی ذمہ داری چونکہ مرد کی اپنی ہے اس لئے بتقاضا ئے انصاف اسے ڈبل حصہ دیا گیا، معاشرے کا ڈھانچہ چونکہ ایسا ہی چلتا آرہا ہے اس لئے ایسا ہی ہوتا رہا لیکن اگر معاشرے میں گھر چلانے کی ذمہ داری میاں بیوی دونوں کے سر آجائے تو حکم بدل جائے گا،اور میراث میں برابر کا حصہ ملے گا ۔ اگر معاشرے میں گھر چلانے کی ذمہ داری تنہا عورت کے کاندھے پر آجائے تو اس وقت عورتوں کو مردوں کا دو گنا ملے گا ۔
یہی حال مردو عورت کی گواہی کا ہے ،عورت کی آدھی گواہی کی علت یہ بیان کی گئی کہ( أن تضل احداہما فتذکر احداہما الأخری) ایک بھول جائے تو دوسری یاد دلائے ، اگر عورت مرد پر اپنی ذہنی فوقیت ثابت کردے تو حکم پلٹ جائے گا یعنی دو مردوں کی گواہی ایک عورت کی گواہی کے برابرسمجھی جائے گی۔
فرمان الہی کے خلاف اس معاندانہ اور بے باکانہ تحقیق انیق کی داد دیجئے !!
شیطان کو معلوم ہے کہ تمدنی زندگی کا سب سے مضبوط مورچہ گھر ہے اس لئے اس نے گھروں کو تباہ وتاراج کرنے کے لئے گھروالی کو نشانہ بنایا، شیطان مغرب میں گھروالی کو بے گھر کر کے گھروں کو تباہ کر چکا ہے ،اب وہاں کی عورت بے بسی اور محرومی اور فساد وانار کی کے جس راستے پر چل رہی ہے وہاں اس پر کوئی ترس کھانے والا نہیں ہے ، یہ نتیجہ ہے اس جھوٹے اور عیارانہ پروپیگنڈہ کا جو ایک لمبے عرصے سے یورپ کے شیطانی دماغ رکھنے والے مفکرین مساوات مردوزن کے نام پہ کرتے آ ئے ہیں ،یہ سراسر دھوکا، سفید جھوٹ اور آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے، عورت اور مرد کے اَنگ اَنگ میں یکسانیت نہیں ہے ، مرد وعورت کے قدوقامت میں ، وزن میں جسم کی لمبائی ،چوڑائی، موٹائی اور بھراؤ میں ،دل 
کے حجم میں ، دل کی دھڑکن میں، خون کے اچھال میں، سانسوں کی سرعت اور حرارت میں ، دماغ کی قوت میں ، عقل کی طاقت میں ، حواس خمسہ میں ، میلان میں ،قوت ادراک میں، کسی بھی حیثیت سے دونوں میں یکسانیت اور برابری نہیں پائی جاتی ہے ، قدرت نے نر ومادہ کے درمیان فرق ،جانوروں ، چڑیوں اور رینگنے والے کیڑے مکوڑوں تک میں رکھا ہے اور عین ان ذمہ داریوں کے لحاظ سے یہ فرق رکھا ہے جو الگ الگ دونوں کے سپرد کی گئی ہیں ، زندگی کے دوہی محاذہو سکتے ہیں، داخلی اور خارجی۔ خارجی دنیا کی ذمہ داریاں مردوں کے سرہیں، تو داخلی محاذ کو سنبھالنا عورت کے ذمہ ڈالا گیا ہے۔
مگر افسوس کہ ازلی دشمن شیطان اور شیطان نما مردوں کے دھوکے میں عورت پھنس گئی ،اور خم ٹھونک کر میدان میں آکر کھڑی ہوگئی ، اب وہ کمانے بھی لگی ہے ،محفلوں کو گرمانے بھی لگی ہے ، ملک ووطن کی حفاظت کرنے والے فوجیوں کی دلدداریوں کے لئے فوجی فرائض بھی ادا کرنے لگی ہے ، اور زندگی کے سبھی شعبوں میں مرد سے کاندھا ملارہی ہے مگر نہ تو وہ مرد بن سکی، نہ عو رت کی حیثیت سے اسکی ذمہ د اریوں میں کوئی کمی واقع ہوئی، وہ لوگ جو مغربی مفکرین کی ہر آواز کو آسمان سے آئی ہوئی آواز سمجھتے ہیں، وہ ژول سیمان کی بات نہیں وہ کہتا ہے :
’’عورت کو چاہئے کہ عورت ہی رہے، اسی میں اس کے لئے فلاح اور کامیابی ہے ، عورت جس قدر قدرت سے قریب ہوگی اسکی قدراور عزت بڑھے گی اور جس قدر قدرت سے دور ہوگی اسکی مصیبتیں بڑھیں گی‘‘۔
جو عورت اپنے گھر کے کاموں کو چھوڑ کر باہر کی دنیا کے کاموں میں شریک ہوتی ہے ، وہ سب کچھ سمیٹنے والے مرد کا پارٹ ادا کرتی ہے مگر افسوس کے پھر وہ عورت نہیں رہتی، وقت ہے، ابھی بھی پانی سر سے اونچا نہیں ہوا ہے ، مشرقی عورتیں اپنے کو بچا سکتی ہیں ، اس لعنت سے بچا سکتی ہیں ، جس میں یورپ اور امریکہ مبتلا ہو چکے ہیں، قدرت کے قانون کو توڑ کو عورت کبھی بھی مرد کی برابری نہیں کر سکتی، دونوں کو اپنی اپنی صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے ۔
نیپولین کے سامنے تین جوان لائے گئے اوران کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے دشمن کی صفوں کو درہم برہم کر دیاتھا ، نیپولین نے نظر اٹھاکر دیکھا ، ان نوجوانوں کے پیچھے ایک لاغر اور لاٹھی ٹیکے بوڑھی عورت کھڑی تھی۔ پوچھا گیا یہ کون ہے ؟ بتایا گیا ان نوجوانوں کی ماں ۔ نیپولین تخت سے اتر کر بڑھیا کے پاس آیا ، عقیدت سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا ، آنکھوں سے لگایا اور کہا : اے ماں ! میں تم پر فخر کرتا ہوں کہ تو نے ان کو جنا۔۔۔ کسی عارف باللہ سے پوچھا گیا، قوم نوح ؑ کیوں تباہ ہوئی ؟ انہوں نے فرمایا ، اس قوم کی ماں نافرمان تھی، پوچھا گیا قوم کی ماں کون؟ انہوں نے کہا : حضرت نوح ؑ کی بیوی۔۔۔ کسی عارف باللہ سے پوچھا گیا، حضرت عیسی کو گہوارے میں بولنے کی توفیق کیسے مل گئی؟ جواب دیا گیا : اپنی عفت مآب والدہ اور معصوم مریم کی دعا کی بدولت ۔
علامہ لوئس پیرول ’’پولٹیکل فساد‘‘ نامی مضمون میں رومن امپائر کی تنزلی کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ رومن امپائر کے سیاست داں عیاش ہوگئے تھے، وہ عورتوں کی صحبت بہت پسند کرتے تھے، ان دنوں ایسی عورتیں بہت زیادہ پائی جاتی تھیں ، جو مردوں کے لئے دلکش ہوں، بالکل اسی طرح جس طرح آج ہمارے زمانے میں پائی جاتی ہیں ، وہ آرائش وزیبائش کے پیچھے مِٹی جا رہی تھیں، افسوس کہ اس کے بعد رومن ایسے گرے کہ ان کانام ونشان بھی نہیں ملتا‘‘ ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے