تواضع اورشرافت كي ايك مثال جناب ماسٹر داؤد أحمد صاحب

تواضع اورشرافت كي ايك مثال
جناب ماسٹر داؤد أحمد صاحب
  
يه ۵۹ءکی بات ہے جب راقم الحروف کودارالعلوم ندوة العلماء کے وسيع علمی وتعليمي ماحول مےں رہنے کا موقع مےسرآےا،اس وقت جن اساتذہ سے کسبِ فےض کی سعادت حاصل ہوئی ان مےں اےک انگرےزی کے استاذجناب ماسٹرمحمدداﺅد صاحب بھی تھے،زمانہطالب علمی مےں ان سے درجہ کے علاوہ کوئی ربط وتعلق تويادتو نہےں ،البتہ ان کی جس صفت کا ذہن نے بہت زےادہ اثرقبول کےا وہ ان کا تواضع تھا،انتہائی متواضع،خلےق،خاموش مزاج اورشرےف استاذ،عموماگھنٹی بجتے ہی درجہ مےں تشرےف لاتے،پڑھانے کے علاوہ کوئی خارجی بات نہےںکرتے،نہ کبھی کسی بات پر غصہ ہوتے ،نہ ڈانٹتے،بلکہ ڈانٹنا توشاےد جانتے بھی نہ ہوں،درجہ مےں کسی طرح کی کوئی سختی نہےںکرتے،طلبہ کے ساتھ بڑی شفقت کے ساتھ پےش آتے اورانہےں اپنے بچوں کی طرح سمجھتے۔
  ےہ تھااستادمحترم جناب ماسٹرداﺅد صاحب کے بارے مےںپہلاتاثر،اورےہ تاثرصرف مےرانہےں تمام طلبہ کا تھا،چندسال قبل جب اللہ تعالی نے مادرعلمی مےں خدمت کی سعادت بخشی تو دےگر اساتذہ کے ساتھ ماسٹرصاحب سے بھی ربط ضبط بڑھا،اب جب قرےب سے دےکھا،صبح وشام کی ملاقاتےں مےسرآئےں،تو مےرا پہلا تاثر پختہ سے پختہ تر ہوتاگےا،مےری طرح دارالعلوم کے دےگراساتذہ بھی آپ کی شرافت،نےک نفسی اورتواضع کے قائل تھے،سبھوں کے ساتھ آپ کا تعلق ےکساں ہوتا، صبح وشام کی چہل قدمی مےں کھل کر باتےں کرتے،گھرےلوموضوعات پر بھی باتےں ہوتےں،کبھی ےہ احساس نہےں ہونے دےتے کہ وہ سےنئرہےں،عمرمےں بڑے ہےں، تجربہ کارہےں،خودنمائی اور بڑھے پن کے تصورسے آپ ذہن خالی تھا۔
  آپ اسکول کے ماحول سے آئے تھے،مگرندوہ کے ماحول مےں اس طرح رچ بس گئے تھے کہ ندوہ کا حصہ معلوم ہوتے تھے،انگرےزی سے اےم اے تھے مگر کبھی انگرےزی دانی کا اظہارنہےں ہوتا، رہنے اورگفتگوکرنے کا انداز اےسا تھا کہ عام آدمی کو محسوس بھی نہےں ہوتا کہ آپ ندوہ کے استادہےں،ہراےک سے خندہ پےشانی سے ملتے،ملنے والاشاگرہو ےا استادےا کوئی عام آدمی،ہراےک سے نرم لہجہ مےں بات کرتے،نہ تصنع،نہ کوئی تکلف،اےک سادہ مزاج اورسادگی پسند، خوش اخلاق وخوش گفتار،ےہ وہ اوصاف جن سے دل ضرورمتاثرہوتا ہے،آپ انہی اوصاف کے ساتھ ےادرکھے جائےں گے،اورجب کبھی دارالعلوم مےںسادگی اورتواضع کی بات ہوگی توآپ اورمولانابرحےس ضرورےادآئےں گے۔
  آپ منتظم بھی تھے اورمدبربھی ،حسن انتظام اورحسن تدبےردونوں دولت آپ کے حصہ مےں آئےں،آپ کی انتظامی صلاحےت اورمدبرانہ ذہن سے آپ کے رفقاءکوبہت فائدہ پہونچا،جو کام بھی کرتے سلےقہ سے کرتے،متعددبار امتحان ہال مےں آپ کے ساتھ رہنے کااتفاق ہوا،مےں آپ کا خورد تھا ،شاگرد تھا،مگراکثر کام خودکرتے،کبھی کسی کام کے لئے نہےں کہتے،ہال مےں خواہ کئی نگراں ہوں،تب بھی وقت ہوتے ہی کاپےاں جمع کرنے بےٹھ جاتے ، اورتمام کاپےوں کو مرتب کرکے ہی دفترروانہ کرتے، کنشےشن فارم کی تکمےل مےں بھی آپ کو اکثرمشغول دےکھا،وہاں بھی آپ کا ےہی حال تھا۔
  آپ کے صاحبزادے ابرارعالم ”تعمےرنو“کے نام سے اےک ہفت روزہ اخبارنکالتے ہےں،اےک موقعہ پراس اخبارکو مارکےٹ مےں لانے کا پروگرام بناےا گےا،جب اس اندازسے اخبارنکلناشروع ہوا،تومضمون کے ساتھ ترتےب سے متعلق کچھ کام مےں بھی دےکھ لےا کرتا تھا،اس زمانہ مےں آپ کی خوشی دےدنی تھی، جب بھی ملتے تو اخبارکے بارے مےں ہی بات کرتے،کبھی کسی مضمون کی تعرےف کرتے،کبھی ترتےب کو سراہتے،الغرض آپ کو اس اخبار سے بڑی دلچسپی تھی، اس کوآگے بڑھتا دےکھنا چاہتے تھے،آپ کی خواہش تھی کہ مسلمانوں کا اپنا اخبارہو،صحافت مےں مسلمانوں کی شمولےت ہو،وہ تو انگرےزی اخبارنکالنے کے بھی خواہاں تھے،اگرمالی حالت اچھی ہوتی تو شاےدوہ ا س سمت مےں قدم بھی بڑھادےتے،مگربہت سے لوگوں کی طرح ان کے بہت سے خواب بھی ان کی آنکھوں مےں رہ گئے۔
  ماسٹر صاحب صاف دل کے آدمی تھے،جو دل مےں ہوتا وہی زبان پر،لگی لپٹی اورتوڑجوڑکے فن سے ناآشنا تھے،ان کا ظاہراورباطن بالکل ےکساں تھا،سےوان آپ کا آبائی وطن تھا،ملازمت کے سلسلہ مےں ندوہ آئے،اورپھر ےہےں کے ہوکررہ گئے،انہوں نے حصول مال کبھی اپنا مقصدنہےں بناےا،مولوےانہ دروےشی والی زندگی گزاری اورہمےشہ چہرہ پر مسکراہٹ سجائے رہے،اب وہ ہمارے درمےان نہےں ہےں،لےکن ان کی ےادےں باقی رہےں گی، اپنے اخلاق،اپنی شرافت اورتوضع کے ذرےعہ اپنے رفقائ،شاگردوں اورمتعلقےن کے دل مےں ہمےشہ زندہ رہےں گے۔
آسماں تری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے