ارود كي عظيم محب :پروفيسر عبدالقوي دسنوي

اور ان كي علمي وادبي خدمات

آج سے تقرےبا آٹھ سال قبل علامہ سےد سلےمان ندوی ؒکے فتاوی اور فےصلوں کی تلاش مےں بھوپال کی مختلف لائبرےرےوں کو دےکھنے کے بعد جب وہاں کی زندہ لائبرےری ےعنی وہاں کی علمی وادبی شخصےات سے ملنے کا پروگرام بنا،توہماری مختصر فہرست مےں اےک نام پروفےسر دسنوی صاحب کا بھی تھا،ان سے ان کے گھرواقع عےدگاہ ہلز مےں اسی حوالے سے نےاز حاصل ہوا، اس سفرمےںمجھے اپنی مطلوبہ معلومات تو نہےں ملی البتہ ان سے ملاقات کے ملنے کے بعد کچھ نہ ملنے کا احساس نہ رہا،چندمنٹوں کی گفتگو مےں بہت سی ےادےں ،بہت سے نقوش مےرے ذہن مےں ثبت ہوگئے،دوران گفتگو جب مےں نے کہا ”دےسنہ کا اےک چراغ بھوپال مےں بھی جل رہا ہے“تو اس کے جواب مےں انہوں نے جو کچھ کہا وہ اب تک ہمارے ذہن مےں باقی ہے،انہوں نے کہا ”نہےں اےسا مت کہےے ،ےہ کہئے کہ انسانےت کا اےک چراغ جل رہا ہے،بلکہ اب ٹمٹما رہا ہے“،افسوس انسانےت کا ےہ چراغ بھی گل ہوگےا،اےسا محسوس ہوتا ہے کہ اردوکے سچے محب ہمارے درمےان سے چلے گئے، جب ان کے انتقال کی خبرپڑھی تو ےہ ےادےں اےک بار پھر تازہ ہوگئیں،بلاشبہ وہ اردو مخلص خادم بلکہ اردو کے سچے محب تھے،نام وشہرت سے بے پرواگےسوئے اردوکو سنوارنے مےں آخری سانس تک مصروف رہے،ہمارے محققےن اورناقدےن ان کو کس صف مےں شمار کرےں گے نہےںمعلوم،مگر دل ےہی گواہی دےتا ہے کہ ان کو اردو سے محبت تھی،اوروہ اس محبت مےں وہ سچے تھے،اردو کی روٹی بہت سے لوگ کھاتے ہےںمگر اردو سے اس درجہ محبت کرنے والے کم ملےں گے،وہ بےک وقت غالب،اقبال،اور مولانا آزاد کے ماہرسمجھے جاتے تھے،غالبےات ،اقبالےات ،آزادےات کے ساتھ بھوپال ان کے دلچسپی کے خاص موضوعات تھے،ان موضوعات پر ان کا علمی اور ادبی سرماےہ اردو دنےامےں ہمےشہ ےاد رکھا جائے گا۔
علامہ سےد سلےمان ندوی کا وطن دےسنہ علمی وادبی دنےامےں ہمےشہ معروف رہا ہے،مرحوم کا تعلق اسی خاک سے تھا،ابتدائی تعلےم وہےں کے مدرسہ الاصلاح مےں حاصل کی،کھڑک پور بنگال سے ہائی اسکول پاس کےا،والد محترم پروفےسر سعےد رضاسےنٹ زےورس کالج بمبئی کے پروفےسر اور صدر شعبہ تھے،چنانچہ وہےں سے آگے کی تعلےم کا سلسلہ جاری رہا،ےہاں کی ادبی فضا آپ کی صلاحےتوں کو نکھارنے مےںبڑی مفےد ثابت ہوئی،اور خوب خوب جوہر کھلے،شعبہ اردوکے ترجمان کاروان ادب کے مدےر بنے،بزم ادب کے سکرےٹری کی حےثےت سے ادبی سرمےاں جاری رکھےں،اور سب اہم ےہ کہ ستمبر ۷۵۹۱ءمےں نوجوان مصنفےن کی کانفرنس منعقد کی اور آپ اس کے کنوےنر بنائے گئے،جس نے ادبی دنےا مےں اےک دھوم مچادی۔
۰۶۹۱ءسے ملازمت کا سلسلہ شروع کےا،احمد سےلرہائی اسکول بمبئی کے استاد کی حےثےت سے اپنی خدمت کا آغاز کےا،ےہاں بھی آپ کی ادبی سرگرمےاں جاری رہےں،اسکول کی مےگزےن ”شاہےن“کے نگراں منتخب ہوئے،طبےعت کی جدت ےہاں بھی ظاہرہوئی،چنانچہ سہ سالہ جشن شاعر بمبئی کے موقعہ پر اخبار ورسائل کی اےک نمائش کا اہتمام کےا،اور آپ اس کے کنوےر بنے،اس کے بعد ادب وتحقےق کے طاہر کو اےک بلند آشےانہ ملا اوراپنی صلاحےتوں کو بروکار لانے کا زرےن موقع ہاتھ آےا،آپ نے اس موقعہ کا اتنا صحےح استعمال کےا کے سےفےہ کالج کا اردو شعبہ آپ کا خدمات کا اےک عنوان بن گےا،اس شعبہ کو آ پ نے جس طرح سنواراوہ اےک مستقل تارےخ ہے،جسے بھوپال کی ادبی تارےخ بھلا نہےں سکے گی،سےفےہ کالج مےں فروری ۱۶۹۱ءمےں بحےثےت لکچرار اپنی تدرےسی خدمات کا آغاز کےا،۵۶۹۱ءمےں اسسٹنٹ پروفےسر اور ۸۶۹۱ءمےں پروفےسر بنے اور اسی حےثےت سے ۰۹۹۱ءمےں سبکدوش ہوئے۔
آپ اردو زبان وادب کے سرگرم کارکن تھے،آپ کی خدمت کی متنوعہ جہات ہےں،غالب ،اقبال ،مولاناآزادجہاں آپ کے خاص موضوعات ہےں وہےں سےفےہ کالج کا شعبہ اردوآپ کا نخل آرزو،آپ کی امےدوں کا چراغ ،نظر آتا ہے،علمی دنےا کو آپ قلم گہربارنے نئے موضوعات دئے،نئی تحقےق دی،ڈاکٹرگےان چندرجےن کا ےہ احساس باکل بجا ہے کہ ”پروفےسر عبدالقوی دسنوی صاحب کتابچوں کے قلم کار ہےں،کسی ادےب کی صدی ہو ےا کوئی خاص تقرےب ،ےہ فورااس پر اےک رسالہ لکھ دےتے ہےں،کاش وہ ہرفن مولائی چھوڑ کراپنے لئے خاص موضوعات ،کچھ اصناف مختص کرلےتے اور اپنے سرہرنوشہ کا شہہ بالا بننے کی ذم داری نہ لےتے --سوپچاس ہلکی کتابوں سے دوبھاری بھرکم پرمغز کتابےں بہتر ہوتی ہےں“(عبدالقوی دسنوی اےک مطالعہ ص:۱۲)لےکن اسی کے ساتھ ےہ بھی حقےقت ہے کہ انہی کتابچوں نے دسنوی صاحب کو ادبی دنےا مےں اےک مقام عطا کےا ہے،ان کی چھوٹی کتابوں نے جو پذےرائی حاصل کی بعض کتابےں بھی اس سے محروم نظر آتی ہےں۔
۹۶۹۱ءمےں غالب کی صدسالہ برسی منائی گئی اس موقعہ پر چار کتابےں تےارکےں،”غالبےات“غالب سے متعلق ہرقسم کی تحرےروں کے بارے مےں جامع اشارےہ ہے،ےہ جنوری ۹۶۹۱ءمےں نسےم بکڈپولکھنو سے شائع ہوئی،اس موضوع پر جو کچھ کام ہوچکا تھا پروفےسر صاحب اس پر وقےع اضافہ کےا ہے،ےہ غالب پر تحقےق کرنے والوں کے لئے قےمتی تحفہ ہے،”بھوپال اور غالب“اس مےں غالب سے متعلق آپ کے آٹھ تحرےرےں شامل ہےں،جسے سےفےہ کالج کے شعبہ اردونے شائع کےا تھا،اس کے بعض مضامےن مثلا بھوپال اور تلامذہ غالب،خمسہ برغزلےات غالب،نمونہ مغلوبےت غالب او نسخہ حمےدےہ بہت اہم ہےں اور بہت سے تارےخی حقائق کو اپنے اندرسموئے ہوئے ہےں،نسخہ بھوپال او رنسخہ بھوپا ل ثانی اور قادرنامہ غالب کی اشاعت بھی دسنوی صاحب کی غالب سے تعلق کو بتاتا ہے۔
قوی صاحب کا رات دن کا اوڑھنا بچھونا اقبال ہے،او روہ ےقےنا ملک کے اقبال شناسوں مےں شمار کئے جاتے ہےں“ےہ رائے معروف ادےب ڈاکٹر گےان چندر جےن کی ہے جس سے ان کی اقبال شناسی کا انداز ہ لگاےا جاسکتا ہے،اس موضوع پر آپ کی کاوشےں اس طرح ہےں،علامہ اقبال بھوپال شعبہ اردو سےفےہ کالج سے شائع ہوئی،اقبال صدی کے موقع پر ”ہندوستان مےں اقبال “پےش کےا،ےہ پہلے اقبال رےوےو لاہور مےں اور پھر کتابی شکل مےں اقبال اکادمی لاہور سے شائع ہوا ، جس مےں اقبال سے متعلق ہندوستان مےں شائع ہونے والے مضامےن کا تفصےلی اشارےہ ہے جسے بڑے سلےقہ سے مرتب کےا گےا ہے،اقبال انےسوےں صدی مےں ۷۷۹۱ءمےں اور بچوں کے اقبال ۸۷۹۱ءمےں نسےم بکڈپو سے شائع ہوئی،۰۸۹۱ءمےں سےفےہ کالج کا مجلہ کا خاص نمبر ”ےادگار اقبال “شائع کےا ،جو واقعی ےادگار ہے ،اقبالےات کی تلاش ۴۸۹۱ءمےں مکتبہ جامعہ لمےٹےڈ نے شائع کےا جو اقبال سے متعلق آپ کے تنقےدی او رتحقےقی مقالات کا مجموعہ ہے،اقبال او ربمبئی“،اقبال اور علی گڈھ“،اقبال اور پانی پت،اقبال اور خواجہ حسن نظامی ،اقبال اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری “جےسے مضامےن شامل ہےں،ڈاکٹر رفےع الدےن ہاشمی صاحب اقبال شناسی کے حوالے سے رقمطراز ہےں:
دسنوی صاحب کی اقبال شناسی نہ تو کاروباری ہے او رنہ پےشہ ورانہ ،ان کے نزدےک دوسرے علمی کاموں کی طرح اقبالےات بھی علمی ،ادبی ،تعلےمی ،انسانی اور اسلامی کاموں کے فروغ دےنے کا اےک وسےلہ ہے،ان کی خواہش ہے کہ جملہ وابستگان اقبالےات علامہ اقبال کی بلندی فکری ،وسعت نظری ،باعمل نظرےہ حےات کو اپنا کر اپنی زندگی کی انسانےت کے لئے وقف کردےں گے ،اس اعتبار سے وہ اس کاروان ادب کے فرد ہےں جس کی حدی خوانی کا فرےضہ نذےر احمد ،حالی ،شبلی،اقبال،اکبر،ابوالکلام آزاد،سےدسلےمان ندوی اور سےد مودودی جےسے اکابر ملت انجام دےتے رہے اور علی مےاں جےسے بزرگ رہے ہےں۔(عبدالقوی دسنوی اےک مطالعہ :۲۶)
مولانا ابوالکلام آزاد سے متعلق دسنوی صاحب کی تحرےروں مےں سب سے پہلی چےز لسان الصدق کے مضامےن کا مجموعہ ہے،جو ۷۶۹۱ءمےں شائع ہوئی،مطالعہ غبار خاطر مےں انہوں اس بحث کو اجاگر کےا ہے کہ ےہ خطوط کے دائرہ مےں آتے ہےں ےا انشائےے ہےں،پہلے ان کی رائے تھی کہ ےہ انشائےے ہےں،لےکن جب سےفےہ کالج مےں ےہ کتاب پڑھانے کاموقع ملا تو ان کی رائے بدل گئی ،۹۷۹۱ءمےں ساہتےہ اکےڈمی سے ان کی کتاب ”ابوالکلام آزاد “شائع ہوئی ،مولانا آزاد پر ان کی دوسری کتاب ”ابوالکلام محی الدےن احمدآزاد“اور تےسری کتاب ”حےات ابوالکلام آزاد “ہے ،ےہ ۰۰۰۲ءمےں دہلی سے شائع ہوئی،معاصرےن ومتعلقات آزاد بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے،ان کے علاوہ ےادگار آزاد اور تلاش آزاد ان کی اہم کاوشےں ہےں،اول الذکر مولانا آزاد سے متعلق اےک جامع اشارےہ ہے،اور ثانی الذکر ان کے مقالات ومضامےن کا مجموعہ ہے ،ےہ مضامےن سےاست اور صحافت سے متعلق ہےں۔
دسنوی صاحب کے قلمرو مےں دومضامےن اور بہت اہم نظر آتے ہےں،بھوپال اور اشارےہ،ڈاکٹرگےان چندجےن کے بقول ”جےوں ہی کسی ادےب کی صدی منائی جاتی ہے ےا اس سے متعلق کوئی مجموعہ ےا رسالے کا خاص نمبر نکالاجائے ،قوی صاحب اس کا اشارےہ لے کر حاضر ہوجاتے ہےں“(حوالہ سابق ص:۸۱)اہل علم جانتے ہےں کہ اشارےہ کی ترتےب کتنی محنت ،عرق رےزی اوردےدہ رےزی چاہتا ہے،کتب خانوں کا کھنگالنا آسان نہےں ہوتا،اس حوالہ سے تنہا شخص کی محنت واقعی قابل داد ہے،چند اشارےوں کا ذکر اوپر گزرا،ان کے علاوہ مرزانےس سے متعلق انےس نما شعبہ اردو سےفےہ کالج سے ۳۷۹۱ءمےں شائع ہوئی،علامہ سےد سلےمان ندوی ؒسے متعلق ”ےادگارسلےمان “بہاراردواکےڈمی سے شائع ہوئی،پرےم چند او رمرزادبےر سے متعلق اشارےہ کتاب نما خصوصی شمارے مےں شائع ہوئے۔
بھوپال سے متعلق ان کی تحرےرےں اس طرح ہےں،علامہ اقبال بھوپال مےں،بھوپال اور غالب،نسخہ بھوپال اور نسخہ بھوپال ثانی،اےک شہر پانچ مشاہےر ، نذر تخلص ، نذر سجاد ، اقبال اور دارالاقبال بھوپال،اجبنی شہر،فخرنامہ،ان ناموں پر اےک نظر ڈالنے سے سےد اختر حسن صاحب کی بات کی تصدےق ہوجا تی ہے کہ ”انہوںنے ان تمام افرادو واقعات کو جن سے بھوپال کی نماےاں ادبی شناخت قائم ہوتی ہے ،اپنی توانائی سے بے داغ روشنی مےں لانے کی کامےاب کوشش بھی کی ہےں“(حوالہ سابق ص:۵۵۱)
 تحقےق وتنقےد سے متعلق دسنوی صاحب کےا انداز تھا ،اس کی وضاحت کے لئے ”عبدالقوی دسنوی :اےک مطالعہ “کے مرتب ڈاکٹر محمد نعمان صاحب کا اےک اقتباس نقل کرنا مناسب ہوگا ،وہ لکھتے ہےں:تحقےق وتنقےد سے متعلق ان روےہ حقےقت پسندانہ اور غےر جانب دارانہ ہے،وہ تنقےد برائے تنقےص کے قائل نہےں،ان کے نزدےک تنقےد،فنکاراور فن پارے کے معےار کو پرکھنے اور متعےن کرنے کا موثر ذرےعہ ہے اور تحقےق اےسے عمل مسلسل اور تلاش وجستو کا نام ہے جس مےں حرف آخر کی کوئی گزر نہےں،ان کی تنقےد مےں تاثےرےت کا عنصر اور تحقےق کا رچاﺅکارفرما نظر آتا ہے،وہ اپنی رائے کو ثابت کرنے کے لئے حسب ضرورت اقتباسات پےش کرکے اسے معتبر بنانے کی سعی کرتے ہےں،ان کی تحرےرےں طنز وتعرےض ،پےچےدگی اور ادعائےت کے عےب سے پاک ہوتی ہے،ان کے متعلق معروف محقق وادےب مشفق خواجہ کی ےہ رائے حرف بہ حرف درست ہے کہ ”آپ کا اسلوب مولوی عبدالحق کے اسلوب کی طرح عالم اور عامی دونوں کے لئے باعث کشش ہے“۔(حوالہ سابق ص:۷)
اس موقعہ پر سےفےہ کالج کے شعبہ اردو کو نہ ےاد کرنا بڑی ناانصافی ہوگی،جس محنت اور لگن کے ساتھ موصوف نے اس شعبہ کوپروان چڑھا ےا وہ بھوپال کی تارےخ مےں ہمےشہ ےاد رکھاجائے گا،اےم اے کے طلبہ کے لئے بزم اردومعلی،اور فارغ ہونے والوں کے لئے کاروان سےفےہ،نوائے سےفےہ اور مجلہ سےفےہ ان کی تخلےقات ہےں،رےسرچ ا سکالر س کے لئے انہوں اردولائبرےری قائم کی،جس مےں کتابوں کے ساتھ رسائل ،مخطوطات ،تصاوےرکو جمع کرنے کی کوشش کی،اورسب سے قابل ذکر ےہ کہ اس مےں گوشہ غالب،گوشہ ابوالکلام آزاد،گوشہ لغات،گوشہ بھوپال اور گوشہ سےفےہ قائم کرنا دسنوی صاحب کے اعلی ادبی ذوق کی علامت ہے،ےہ ان کی کوششوں کی چند نمونے ہےں،انہوں نے کتابوں کے ساتھ بہت سے تلامذہ بھی چھوڑے ہےں،جن سے دسنوی صاحب کا فےض جاری رہے گا،اور ان کا جلائے ہوئے چراغوں سے دنےا کو روشنی ملتی رہے گی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے