اسوہ ابراہیمی کاپیغام : دورحاضرکے مسلمانوں کے نام

اسوہ ابراہیمی کاپیغام
دورحاضرکے مسلمانوں کے نام

                                منورسلطان ندوی
                            (ایڈیٹر ماہنامہ صدائے مروہ ،لکھنؤ)
 حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک جلیل القدررسو ل تھے،انبیاء اوررسولوں کی فہرست میں انہیں بڑاامتیازی مقام حاصل ہے،وہ خلیل اللہ یعنی اللہ کے دوست کے لقب سے ملقب ہیں،اس سے بڑاشرف اورمقام اور کیاہوسکتاہے،قربانی انہی کاایک یادگارعمل ہے،جسے اللہ تعالی نے اس طرح قبول فرمایاکہ ہمیشہ کے لئے اسے شعاراسلام بنادیا، انہیں یہ مرتبہ بھی حاصل ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی زندگی کی طرح ان کی زندگی بھی اسوہ اورنمونہ قراردیاگیا ہے : قدکانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراہیم (سورہ ممتحنہ:۴)اوریہ شرف بھی انہیں کوحاصل ہے کہ آخری پیغمبرحضرت محمد ﷺ کوان کی اتباع کاحکم فرمایاگیا:ثم اوحیناالیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفا (سورہ نحل :۱۲۳)
عیدالاضحی کے موقعہ پرحضرت ابراہیم کی ایک سنت کواداکرتے وقت ان کے دیگر اوصاف و اعمال کوبھی ذہن نشیں کرناچاہیے جن کے نتیجہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اس مرتبہ بلندسے سرفرازہوئے، آپ کے کمالات کی بنیادیں یہی اوصاف ہیں اوریہی اسوہ ابراہیمی کاسبق ہے آج کے مسلمانوںکے لئے۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں باربارحضرت ابراہیم کاذکر کیاہے اوربڑی تفصیل سے کیاہے،ان کے اوصاف میں سب سے نمایاں صفت توحیدپرمضبوطی سے جمنااورشرک سے بیزاری ہے،خداکی وحدانیت پرآخری درجہ کایقین ،اوراس کی ذات وحدہ لاشریک پراعتماد کامل اسوہ ابراہیمی کاپہلاسبق ہے،سورہ نحل میں ہے:ان ابراہیم کان امۃ قانتا للہ حنیفا ولم یکن من المشرکین شاکرالانعمہ اجتباہ وہداہ الی صراط مستقیم وآتیناہ فی الدنیاحسنۃ وانہ فی الآخرۃ لمن الصالحین۔(سورہ نحل:۱۲۰۔۱۲۲)
ترجمہ:بے شک ابراہیم بڑے پیشوا،اللہ کے فرمانبرداراوراس کی کی طرف یکسو تھے،اوروہ مشرکین میں سے نہیں تھے،وہ اللہ کی نعمتوں کاشکراداکرنے والے تھے،اللہ نے ان کوچن لیا تھا ،اورانہیں سیدھے راستہ پرڈال دیاتھا،ہم نے اس کودنیامیں بھی بہتری عطاکی اوروہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں شمارہوں گے۔
اس آیت کریمہ میں نوصفات بیان ہوئی ہیں،جن میں یہی دونوںصفات نمایاں ہیں: توحیداورشرک سے دوری،’قانتاللہ‘ اور’حنیفا‘کے بعد’لم یکن من المشرکین‘ کا اضافہ اسی تاکید کا اظہارہے،سورہ آل عمران میں یہ صفت ان اندازمیں ذکرکی گئی ہے:وماکان ابراہیم یہودیا ولا نصرانیاولکن کان حنیفامسلماوماکان من المشرکین۔(سورہ آل عمران:۶۷)
حضرت ابراہیم کی دوسری نمایاں صفت احکام خداوندی کی مکمل اطاعت ہے، ’قانتاللہ‘ کامطلب ہے اللہ تعالی کے فرمانبردار،ہمیشہ اللہ کی اطاعت کرنے والے اوراس کے ہرحکم کے سامنے اپناسرجھکادینے والے،حضرت ابراہیم کی زندگی میں پیش آنے والے تمام واقعات پرغورکریں تویہ صفت بہت نمایاں نظرآتی ہے،سخت ترین آزمائش کے موقعہ پربھی لمحہ بھرکے لئے انہوں نے توقف نہیں کیا،مصلحت اورحکمت کاخیال تک نہیں آیا،اورنہ کسی توجیہ کی طرف ان کاذہن گیا،بلکہ حکم ملتے ہی سرتسلیم خم کردیا،گویاحکم آنے کی دیرتھی،جیسے ہی حکم ملا ، اطاعت میں سرجھکادیا،فوراحکم کی تعمیل کی،کبھی دل میں یہ خیال نہیں آیاکہ آگے کیاہوگا،دراصل اللہ تعالی کواپنی ذات کے بارے میں ایساہی یقین واعتماداورجذبہ اطاعت مطلوب ہے،اسی لئے اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس صفت کی باربارتعریف فرمائی ہے، سورہ بقرہ میں ہے:واذ ابتلی ابراہیم ربہ بکلمات فأتمہن(سورہ بقرہ:۱۲۴)جب ابراہیم کااس کے رب نے چندباتوں میں امتحان لیاتووہ اسے بجالائے،اورسورہ نجم میں ہے:وابراہیم الذی وفی(سورہ نجم:۳۷)اورابراہیم جوپوری طرح اللہ کے احکام بجالائے۔
حضرت ابراہیم کی ایک صفت حلیم بیان کی گئی ہے،سورہ توبہ میں ہے:ان ابراہیم لاواہ حلیم(توبہ:۴۱۱)اورسوہ ہودمیں ہے:ان ابراہیم لحلیم اواہ منیب(سور ہ ہود: ۵۷) ’اواہ‘کے معنی دعامیں تضرع اختیارکرنا،خداکے حضوررونااورگڑگڑانا،’حلیم‘کامطلب غصہ دلانے والی باتوں کوضبط کرنا،غصہ میں نہ آنا،مشتعل نہ ہونا، اور’منیب‘کے معنی ہیں اللہ کی جانب تیزی سے لپکنا،اس کی طرف رجوع اورغیراللہ سے اعراض ،اللہ تعالی نے اولوالعزم رسولوں کی طرح صبرکرنے کاحکم فرمایاہے:فاصبرکماصبراولوالعزم من الرسل(سورہ احقاف: ۳۵)اوربلاشبہ حضرت ابراہیم اللہ اولوالعزم رسولوں میں سے تھے،اس اسوہ ابراہیمی سے حلم وبردباری، صبروضبط اوراشتعال انگیزی سے حتی الامکان بچنے کاسبق ملتاہے۔
اسوہ ابراہیمی کی ایک نمایاں صفت شرک اورمشرکین سے براء ت کااعلان ہے، ہر طرح کے شرک سے دوری،اوربارباراس کااعلان حضرت ابراہیم کی نمایاں صفت ہے، شرک سے دوری کے بغیرتوحیدخالص نہیں ہوسکتی ،کہ شرک توحیدکی ضدہے،لہذااللہ پرآخری درجہ کا یقین اسی وقت ہوگاجب غیراللہ سے مکمل اعراض ہو۔
سورہ ممتحنہ میں ہے:قدکانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراہیم والذین معہ اذ قالوا لقومہم انا براء منکم ومماتعبدون من دون اللہ کفرنابکم وبدابینناوبینکم العداوۃ والبغضاء ابداحتی تومنواباللہ وحدہ۔(سورہ ممتحنہ :۴)
ترجمہ:تمہارے لئے ابراہیم اوران کے رفقاء کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے،جب انہوںنے اپنی قوم سے کہاہم تم سے اوراللہ کے سواتم جن کی پوجاکرتے ہو،ان سب سے بیزار ہیں،ہم تمہارے معبودوں کاانکارکرتے ہیں اورہمارے اورتمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے دشمنی اورنفرت ہوگئی ہے یہاں تک کہ تم ایک اللہ پرایمان لے لائو۔
اس آیت کریمہ سے توحیدوشرک کے معاملہ میں کسی طرح کی رواداری نہ برتنے کا سبق ملتاہے،حضرت ابراہیم نے شرک کے معاملہ میںادنی درجہ لچک کوبھی گوارہ نہیں کیا ،بلکہ علی الاعلان اس سے بری ہونے کااعلان فرمادیا۔
حضرت ابراہیم کی ایک صفت شکرگزاری ہے،شاکرالانعمہ(سورہ نحل:۱۲۰ ۔۱۲۲) اللہ تعالی نے جن نعمتوں سے نوازاہے ان کاشکراداکرناواجب ہے،شکرتوحیدکے ثمرات میں سے ہے،جب ایک ذات واحدکایقین ہوگاتواس کی دی ہوئی نعمتوں اوراحسانات کاذکرزبان پرآئے گا،شکرمیں نعمتوں کااستحضاربھی ہوتاہے،لہذاجس طرح اللہ کی ظاہری نعمتوں کااستحضار ضروری ہے اسی طرح معنوی نعمتوں کی تلاش بھی ضروری ہے،معنوی نعمتوں میں ملک میں امن وامان کاقیام،اوردعوت کیلئے ماحول کاسازگارہونابھی شامل ہے،ایسی نعمتوں کی شکرگزاری کا بہتر طریقہ اس پرعمل کرناہے۔
حضرت ابراہیم کی ایک صفت جودوسخااورمہمان نوازی بھی ہے،سورہ ذاریات میں ہے:ہل اتاک حدیث ضیف ابراہیم المکرمین ۔(سورہ الذاریات:۲۴)اسی سورہ میں آگے مذکورہے :فراغ الی اہلہ فجاء بعجل سمین (سورہ ذاریات:۲۶)
پھروہ اپنے گھروالوں کی طرف گئے اورایک موٹاتازہ بھناہوابچھڑالے آئے۔
اورسوہ ہودمیںہے:ولقدجاء ت رسلنا ابراہیم بالبشری قالوا سلاما قال سلام  فما لبث ان جاء بعجل حنیذ(سورہ ہود:۶۹)
اورابراہیم کے پا س ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے خوشخبری لے کرآئے، فرشتوں نے سلام کیا اورابراہیم نے سلام کاجواب دیا،پھرکچھ دیرنہ لگی کہ ابراہیم ایک تلاہوابچھڑالے کر آگئے۔
اسوہ ابراہیمی کاایک سبق سچ اورراست بازی کواختیارکرناہے،سورہ مریم میں ہے: واذکرفی الکتاب ابراہیم انہ کان صدیقانبیا۔(سورہ مریم :۴۱)اورکتاب میں ابراہیم کابھی ذکرکیجئے وہ ایک سچے انسان اورنبی تھے۔صدیق سب سے زیادہ سچ بولنے والے اور ہمیشہ سچ بولنے والے کوکہتے ہیں، راست بازی اسلامی اخلاق کابنیادی حصہ ہے۔
یہ صفات اکثر نبییوں میں پائی جاتی ہیں،لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میںیہ صفات زیادہ نمایاں ہیں،اسوہ ابراہیمی کایہی پیغام ہے کہ ان صفات کوہرمومن اپنی زندگی کالازمی جزء بنائے،اوران صفات کی روشنی میں اپنے افکاراوراعمال کاجائزہ لے،محاسبہ کرے،کہ یہ اعمال ان کی زندگی میں کس قدرموجودہیں،آج کے اس پرآشوب دور میں اسوہ ابراہیمی کی معنویت زیادہ بڑھ گئی ہے،یہ اوصاف واعمال مسلمانوں کی عملی زندگی میں شامل ہوجائیں توحضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح آج کے مسلمان بھی سرفرازی کے مستحق ہوں گے،آج ضرورت ہے اس براہیمی نظرکوپیداکرنے اوراسے عام کرنے کی،جومشکل سے پیدا ہوتی ہے،مگرجب کسی کے اندرپیداہوجاتی ہے تووہ امامت کامستحق قرارپاتاہے۔����
 (بشکریہ ماہنامہ صدائے مروہ ،اگست 2018)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے