بوڑھوں اورمعذوروں کااحترام اوراسوۂ نبوی ﷺ

بوڑھوں اورمعذوروں کااحترام اوراسوۂ نبوی ﷺ
منورسلطان ندوی
(رفیق علمی:دارالافتاء،دارالعلوم ندوۃ العلماء،لکھنؤ)
اسلام کی نظرمیں ہرانسان بحیثیت انسان برابرہے،اورہرایک کویکساں حقوق حاصل ہیں،اسلامی نظام میں نہ رنگ ونسل کاامتیازہے اورنہ مذہب اوروطن کی بنیادپرتفریق،رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پرصاف اعلان فرمادیا:
یاایہاالناس ألا ان ربکم واحد وان أباکم واحد ألا لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمرعلی أسود ولا لاسودعلی أحمر الا بالتقوی۔(مسنداحمدبن حنبل،ج۵،ص:۴۱۱،شعیب ارناؤط نے اس کی سندکوصحیح قراردیاہے)
اس لئے اسلامی تعلیمات میں سماج کے ہرطبقہ کویکساں حقوق حاصل ہوں گے اوران پریکساں فرائض وذمہ داریاں بھی عائدہوں گی،سماج کاایک طبقہ جس میں عورت،بچے،معذور،غرباء ومساکین،یتیم اوربوڑھے وغیرہ شامل ہیں،ہمیشہ مظلوم رہاہے،اورہمیشہ ان پرزیادتیاں ہوئی ہیں،اسلام وہ واحدمذہب ہے جس نے سماج کے تمام طبقات کے ساتھ انصاف کیا،اسلامی تعلیمات میں سماج کے ان کمزورافرادکوخاص اہمیت دی گئی،اورانہیں ذلت و بے توجہی کی پستی سے نکال کرایسا بلندمقام عطاکیاگیاکہ جس کاتصوربھی مشکل تھا،رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اورآپ ﷺکے سلوک سے اس کی اہمیت کااندازہ بخوبی لگاجاسکتاہے،خاص طورپررسول اللہ ﷺ کے دوارشادات ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے کمزورافرادقابل فخراوردوسروں کے لئے قابل رشک بن گئے:
اول یہ کہ آپ ﷺ کی نظرمیں ان کی حیثیت یہ ہے کہ یہ کمزورافرادسماج کے دیگرتمام افرادکے محسن ہیں،اللہ کی رحمتیں انہی افرادکی وجہ سے نازل ہوتی ہیں، انہی کی بدولت اللہ کی نعمتوں سے سب لوگ فیضیاب ہوتے ہیں،اور رزق پاتے ہیں،اورانہی کی وجہ سے خداکی مددآتی ہے،آپ نے ارشادفرمایا:
ابغونی الضعفاء فانماتنصرون وترزقون بضعفائکم۔(سنن ابی داؤد،کتاب الجہاد،باب فی الانتصاربرذل الخیر،حدیث نمبر:۲۶۹۶)
مجھے کمزورلوگوں میں تلاش کرو،ان کمزوروں کی وجہ سے ہی تمہاری مددکی جاتی ہے اورتمہیں رزق دیا جاتاہے۔
اوردوسری بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے لئے اسی طبقہ کاانتخاب فرمایا،آپ ﷺکواسی زمرہ میں رہناپسندتھا،زندگی میں بھی اورمرنے کے بعدبھی، آپ نے دعافرمائی:
اللہم احینی مسکیناوامتنی مسکیناواحشرنی فی زمرۃ المساکین یوم القیامۃ۔(سنن الترمذی،کتاب الزہد،باب ماجاء ان فقراء المہاجرین یدخلون الجنۃ قبل اغنیاء ہم،حدیث نمبر:۲۵۲۶)
اے اللہ!مجھے مسکین کی حالت میں زندہ رکھ،مسکین کی حالت میں موت دے اورقیامت کے دن مساکین کی جماعت میں دوبارہ جمع فرما۔
اسلامی تعلیمات میں ان کمزورافرادمیں سے ہرایک سے متعلق مستقل ابواب ہیں،جہاں ان کے حقوق وفرائض کی تفصیلات موجودہیں،رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں بھی ان فرادکے حوالہ سے بہترین نمونے موجودہیں،سیرت کے یہ واقعات ایک طرف اس بات کی پختہ دلیل ہیں کہ اسلامی تعلیمات متمدن دنیاکے قوانین کی طرح نظریاتی نہیں ہیں بلکہ عملی ہیں،رسول اللہ ﷺ اورصحابہ نے ان تعلیمات کوعملی شکل میں دنیاکے سامنے پیش کردیاہے، جوتاریخ میں محفوظ ہیں،وہیں دوسری طرف یہ واقعات مسلمانوں کوآئینہ دکھاتے ہیں ،اوران نمونوں کی روشنی میں اپنے کرداروعمل کامحاسبہ کرنے کامطالبہ کرتے ہیں۔
اسلام میں سن رسیدہ اورمعذورافرادکوجوحقوق حاصل ہوتے ہیں ان سب کوایک لفظ میں سمیٹاجائے تووہ لفظ ’احترام ‘ہوگا،احترام جہاں انسانی برتاؤاورسلوک وتعامل کی علامت ہے وہیں مذکورہ افرادکے تئیں احساسات وجذبات کاغمازبھی،اوران کے حقوق کے احساس کامظہربھی،اس طرح احترام کے مفہوم کامعنوی دائرہ بہت وسیع ہے،رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں کمزورافراداورخصوصامذکورافرادکے تئیں حسن سلوک کی متعددشکلیں نظرآتی ہیں، ذیل کی سطروں میں سن رسیدہ اورمعذورافرادکے حوالہ سے رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ کے چندنمونے پیش کئے جاتے ہیں تاکہ ان افرادکے تئیں اسلامی حقوق اوررسول اللہ ﷺ کے برتاؤکاایک نقشہ سامنے آئے۔
سن رسیدہ افرادکااحترام اوران کے ساتھ نرمی کامعاملہ کرنا
سن رسیدہ افرادقابل احترام ہیں اوران کے ساتھ نرمی کامعاملہ کرناچاہیے،یہی تعلیم آپ ﷺ نے امت کودی،آپ نے خاص طورپرنوجوانوں کواس حسن سلوک پرآمادہ کیا،آپ نے ارشادفرمایا:
مااکرم شاب شیخا لسنہ الاقیض اللہ لہ من یکرمہ عند سنہ(سنن الترمذی،باب ماجاء فی اجلال الکبیر،حدیث نمبر:۱۹۴۵)
جونوجوان کسی بوڑھے کاکبرسنی کی وجہ سے اکرام کرتاہے اللہ تعالی اس کے لئے کسی ایسے آدمی کومتعین فرمائیں گے جواس نوجوان کااس کے بڑھاپے میں اکرام کرے گا۔
اس روایت میں رسول اللہ ﷺ نے نوجوانوں کومتوجہ فرمایاہے،اس روایت میں اس عمل کے بدلے طول عمرکی بشارت ہے اوراس بات کی صراحت بھی کہ جب وہ بڑھاپے کوپہونچیں گے توانہیں ایسے افرادملیں گے جوان کااکرام کریں گے،یہاں یہ بات بھی واضح ہے کہ روایت میں شیخ کالفظ مطلق آیاہے ، لہذااس سے مرادتمام سن رسیدہ افرادہیں خواہ ان کاتعلق کسی بھی ملک سے ہو، وہ گورے ہوں یاکالے اورخواہ وہ کسی بھی مذہب کے ہوں۔
سن رسیدہ افرادکے احترام کی اتنی اہمیت ہے کہ ان کے احترام کواللہ کے احترام سے تعبیرکیاگیاہے،حضرت ابوموسی اشعری سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
ان من اجلال اللہ اکرام ذی الشیبۃ المسلم وحامل القرآن غیر الغالی فیہ والجافی عنہ واکرام ذی السلطان المسقط۔(سنن ابی داؤد، باب فی تنزیل الناس منازلہم،حدیث نمبر:۴۲۰۳)
اس روایت میں مخلوق کی تکریم وتعظیم کوخالق کی تعظیم قراردیاگیاہے،اوراس تکریم کاسبب کبرسنی بتایاگیاہے،لہذاہرآدمی کے لئے ضروری ہے کہ جہاں یہ سبب نظرآئے اس کااحترام کرے۔
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ بوڑھے شخص کوحامل قرآن،اورعادل بادشاہ کے ساتھ ذکرکیاگیاہے،گویابوڑھے کااحترام حامل قرآن اورمنصف بادشاہ کے احترام کی طرح ہے۔
ان ارشادات کے بعد رسول اللہ ﷺ کی عملی زندگی پرایک نظرڈالیں تویہاں ایسی متعددمثالیں ملتی ہیں جوبوڑھوں کے احترام اوران کے ساتھ حسن سلوک کابہترین نمونہ ہیں،چندواقعات درج کئے جاتے ہیں:
عتبہ کی باتوں کاانگیزکرنااوران کے ساتھ نرم رویہ اختیارکرنا
عتبہ مشرکین مکہ کے روساء میں سے تھے،اورسن رسیدہ تھے،وہ آپ کے پاس تشریف لائے اوربڑی تفصیل سے باتیں کیں،آپ ﷺ نے ادباًخاموشی اختیارکرلی،جب عتبہ نے یہ اخلاق دیکھاتواصل موضوع پرآئے اوراپنامدعارکھا،اورمسلسل اس بارے میں گفتگوکرتے رہے،ان کی باتوں میں تعریض اور تشنیع بھی تھی،اورہتک عزت بھی،لیکن آ پ ﷺ بوڑھاپے کے احترام میں ساری باتیں صبروسکون کے ساتھ سنتے رہے،اورجب عتبہ اپنی طولانی بیان سے فارغ ہوئے توآپ نے پورے ادب کے ساتھ فرمایا:افرغت یااباالولید،قال نعم،قال اسمع منی،قال افعل،فقراعلیہ النبی سورۃ فصلت۔ (السیرۃ النبویہ ج۱،ص:۵۰۴)
حضرت ابوبکرصدیق کے والدابوقحافہ کی توقیروتعظیم
فتح مکہ کے دن جب رسول اللہ ﷺ مسجدحرام میں تشریف لائے توحضرت ابوبکرصدیق اپنے والدمعظم کولے کرآپ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے، تاکہ آپ ﷺ سے تعارف کرائیں ،ہوسکتاہے وہ اسلام قبول کرلیں،رسول اللہ ﷺ نے جب ان کوآتے دیکھاتوفرمایا:اپنے بوڑھے والدکو گھرمیں ہی رہنے دیتے ،میں خودان سے ملنے آتا،پھرآپ نے ابوقحافہ کواپنے سامنے بٹھایااوران کااکرام کیا،اس کے بعدان کے سینہ پرہاتھ پھیرااورفرمایا:اسلام قبول کرلیجئے، انہوں نے اسلام قبول کرلیا،ابوقحافہ کے سرکے بال بہت زیادہ سفیدہوچکے تھے،چنانچہ آپ نے کمال تلطف کے ساتھ فرمایا:ان کے بال ثغامہ کی طرح سفیدہوگئے ہیں،اس کی سفیدی کوبدل دو۔(السیرۃ النبویۃ،ج۳،ص:۳۵۸)
رسول اللہ ﷺ کی حیثیت فاتح کی تھی اورحضرت ابوقحافہ بوڑھے تھے،اورتقریبابیس سال تاخیرسے اسلام قبول کررہے تھے،اس کے باوجودرسول اللہ ﷺ نے ان کااتنااحترام کیا،اور ان سے ان کے گھرجاکرملنے کی خواہش کااظہارکیا،آپ ﷺ کے نزدیک بوڑھوں کی یہی قدرومنزلت تھی۔
ایک بوڑھے مسلمان کی قیدسے رہائی کے لئے آپ کی کوشش
جنگ بدرمیں عمروبن ابوسفیان بن حرب قیدکئے گئے،وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس قیدمیں تھے،چنانچہ ابوسفیان سے کہاگیاکہ اپنے بیٹے عمروکافدیہ ادا کرو اور انہیں قیدسے آزادکرالو،انہوں نے کہاخون اورمال دونوں میرے ہی ذمہ لازم ہوگا،ان لوگوں نے حنظلہ کوبھی قتل کردیاہے اوراب ہم عمروکافدیہ بھی دیں، وہ لوگ جب بہتر سمجھیں گے خودہی آزادکردیں گے،اسی موقع پرجب کہ وہ مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس قیدتھے،ایک بوڑھے مسلمان جن کانام سعدبن نعمان تھا،عمرہ کی نیت سے مکہ کے لئے روانہ ہوئے،حالانکہ غزوہ بدرکے بعدحالات بہت کشیدہ تھے،انہیں اندازہ نہیں تھاکہ مکہ والے انہیں گرفتار کرلیں گے،اس وقت صورت حال یہ تھی کہ مکہ آنے والاکوئی مسلمان قریش کی ایذارسانی سے محفوظ نہیں تھا،چنانچہ جب سعدبن نعمان مکہ پہونچے تو ابوسفیان بن حرب ان پر ٹوٹ پڑے اورانہیں عمروکے بدلے گرفتارکرلیا،عمروبن عوف کے لڑکے رسول اللہ ﷺ سے ملنے مدینہ روانہ ہوئے،انہوں نے اس واقعہ کی اطلاع دی اوریہ مطالبہ رکھاکہ سعدبن نعمان کے بدلے عمروکوآزادکردیں،تب ہی وہ سعدبن نعمان کوآزادکریں گے،چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کیا اور فوراً عمرو کو آزاد کردیا، یہ لوگ عمروکولے کرابوسفیان کے پاس پہونچے ،چنانچہ انہوں نے بوڑھے مسلمان کوآزادکردیا۔(سبل الہدی والرشاد، ج۴، ص:۷۰ )
سن رسیدہ افرادکے لئے راستہ اورمجلس میں وسعت
سن رسیدہ افرادکے احترام اوراورتوقیرکے بارے میں رسول اللہ ﷺ کاایک اسوہ یہ بھی ہے کہ راستہ اورمجلس میں ان کے لئے وسعت پیداکی جائے گی، حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ایک بوڑھاشخص رسول اللہ ﷺ سے ملنے آیا،لوگوں نے ان کوراستہ نہیں دیا،یہ دیکھ کرآپ ﷺ نے فرمایا:
لیس منامن لم یرحم صغیرناویوقرکبیرنا۔(سنن الترمذی،کتاب البروالصلۃ،باب ماجاء فی رحمۃ الصبیان،حدیث نمبر:۲۰۴۳)
ان کے جذبات واحساسات کااحترام
رسول اللہ ﷺ نے امت کومعذورافرادکے اکرام واحترام کی جوتعلیم دی ہے اس میں ان کے احساسات وجذبات کااحترام بھی داخل ہے،یعنی ان کے جذبات کوٹھیس نہ پہونچایاجائے،آپ ﷺ کی زندگی میں اس کابھی نمونہ ملتاہے،صحیح مسلم کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ ابوسفیان کاگزرسلمان،صہیب،بلال کے پاس سے ہوا،انہوں نے کہا:خداکی قسم !اللہ کی تلواریں ابھی دشمن خداکی گردنوں میں پیوست نہیں ہوئی ہیں،راوی کہتے ہیں یہ سن کرحضرت ابوبکرصدیق نے ان سے کہاکہ تم لوگ ایسی باتیں قریش کے سردارکے بارے میں کہتے ہو،پھروہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اوریہ واقعہ نقل کیا،آپ ﷺ نے فرمایا:اے ابوبکرتم نے ان لوگوں کوناراض کردیا،چنانچہ حضرت ابوبکران کے پاس پہونچے اورکہااے میرے بھائیوں کیامیں نے تم کوناراض کردیا، انہوں نے جواب دیانہیں میرے بھائی،اللہ تمہاری مغفرت فرمائے۔ (صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ،باب من فضائل سلمان وصہیب وبلال،حدیث نمبر:۶۵۶۸)
معذوروں کااکرام
اسلام کانظریہ یہ ہے کہ معذورافرادکی حیثیت محض اس لئے کم نہیں ہوجاتی کہ وہ معذورہیں،بلکہ ان کی صلاحیت کااحترام کیاجائے گا،ان کی خوبیوں کی قدرکی جائے گی،اوروہ اپنی صلاحیت کے لحاظ سے سماج میں مقام پائیں گے۔
حضرت عبداللہ ابن مکتوم ایک جلیل القدرصحابی ہیں،وہ بصارت سے محروم تھے،رسول اللہ ﷺ نے انہیں موذن بنایا،امامت کامنصب عطاکیااورسب سے بڑھ کر اپنی نیابت کامنصب عطافرمایا،حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن مکتوم کومدینہ میں دومرتبہ اپنانائب مقررفرمایا،وہ لوگوں کی امامت کرتے تھے،حالانکہ وہ نابیناتھے۔(مسنداحمدبن حنبل ج۳،ص:۱۹۲،شعیب الارناؤط نے اس کی سندکوحسن کہاہے)
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رسول اللہ ﷺ کے موذن تھے،حالانکہ وہ نابیناتھے۔(سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ،باب الاذان للاعمی،حدیث نمبر:۵۳۵)
اسی طرح عتبان بن مالک صحابی رسول ہیں ،وہ بھی بصارت سے محروم تھے،اوراپنی قوم کی امامت کرتے تھے۔(صحیح البخاری،کتاب الصلاۃ،باب الرخصۃ فی المطروالعلۃ ان یصلی فی رحلہ،حدیث نمبر:۶۳۶)
صحابی رسول عمروبن جموح کے پاؤں میں لنگ تھا،آپ ﷺ ان کایہ کہہ کر اکرام فرماتے:’سیدکم الابیض الجعدعمروبن الجموح‘(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم،ج۱۴،ص:۱۵۵)جنگ احدمیں ان کی شہادت ہوئی،رسول اللہ جب ان کے پاس سے گزرے توفرمایا:میں دیکھ رہاہوں کہ تم اپنے صحیح پیرکے ساتھ جنت میں چل رہے ہو۔(مسنداحمدبن حنبل، ج۵، ص:۲۹۹ )
رسول اللہ ﷺ کی تربیت کانتیجہ تھاکہ مدنی معاشرہ میں معذوروں کوقدرکی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا،لوگ ان پراعتمادکرتے تھے،اورانہیں امانت داراورقابل بھروسہ تصورکرتے تھے۔
زہری سعیدبن المسیب کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ مسلمان جب جنگوں میں جاتے تومعذوروں کوگھروں میں چھوڑجاتے تھے،اوراپنے گھروں کی چابیاں ان کے حوالہ کرجاتے ،اوران سے کہہ جاتے کہ تم جوکچھ کھاناچاہوہمارے گھروں سے کھاسکتے ہو،ہم نے تمہارے لئے مباح کردیاہے۔ (التفسیرالکبیر، رازی، ج۲۴،ص:۳۱،السنن الکبری،بیہقی،کتاب الصداق،باب نسخ الضیق فی الاکل من مال،حدیث نمبر:۱۴۹۹۵)
عزت واکرام کے مواقع پرسن رسیدہ افرادکوترجیح دینا
سن رسیدہ افرادکے احترام کاتقاضہ یہ ہے کہ انہیں عزت واکرام کے مواقع پردوسروں سے آگے رکھاجائے،انہیں آگے رکھنے کاحکم خود اللہ عزوجل کی جانب سے ہے،آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ جبرئیل نے مجھے حکم دیاکہ میں بڑوں کوآگے رکھوں:
امرنی جبرئیل ان اقدم الاکابر۔(کتاب الفوائد(الغیلانیات)باب آداب النبی ﷺ واخلاقہ وماکان یستحب من الطعام،ج۱،ص:۶۸۷)
عزت وتکریم کے مواقع پربھی سن رسیدہ افرادکوترجیح دینے کاعام حکم ہے،آپ ﷺ نے حکم دیاکہ پانی پلانے میں پہلے سن رسیدہ کودیاجائے،آپ نے فرمایا: ابدؤابالکبراء اوقال بالاکابر۔(مسندابویعلی ج۲،ص:۶۳۸)
اسی طرح امامت کے لئے سن رسیدہ فردکوترجیح دینے کاحکم ہے،حضرت مالک بن حویرث بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
فاذاحضرت الصلاۃ فلیوذن لکم احدکم ولیومکم اکبرکم۔(صحیح البخاری،کتاب الاذان،باب اذا استووافی القراء ۃ فلیومہم اکبرہم،حدیث نمبر: ۵۹۵)
حضرت عبداللہ بن عمربیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ مسواک کررہے ہیں،پاس میں آپ کے دوصحابہ موجودتھے، آپ نے ان دونوں میں سے جوبڑے تھے ان کومسواک عنایت فرمایا اور فرمایا کہ حضرت جبرئیل نے مجھے حکم دیاہے کہ میں بڑے کودوں۔(السنن الکبری للبیقہی،کتاب الطہارۃ،باب دفع السواک الی الاکبر،حدیث نمبر:۱۷۵)
حضرت سہل بن سعدبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کوپانی پیش کیاگیا،آپ کے دائیں جانب ایک بچہ تھااوربائیں جانب بوڑھے افرادتھے،آپ نے بچہ سے کہاکہ تم مجھے اجازت دوتومیں بائیں جانب بیٹھے بوڑھوں کوپانی دوں،بچہ نے کہااے اللہ کے رسول میں اپنے حصہ میں کسی کوترجیح نہیں دے سکتا، چنانچہ آپ ﷺ نے انہی کے ہاتھ پرپانی رکھ دیا۔(صحیح البخاری،کتاب الاشربہ،باب ہل یستاذن الرجل من عن یمینہ فی الشراب لیعطی الاکبر،حدیث نمبر:۵۶۲۰)
معذورافرادکے ساتھ ہمدردی
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ایک خاتون جن کے دماغ میں خلل تھا،انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیاکہ مجھے آپ سے کچھ کام ہے،آپ نے فرمایا اے فلاں کی والدہ! بتاؤکس طرف چلوں تاکہ میں تمہاری ضرورت پوری کرسکوں،آپ اس کے ساتھ بعض راستوں میں گئے یہاں تک کہ ان کی ضرورت پوری ہوگئی۔(صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب قرب النبی ﷺ من الناس وتبرکہم بہ ،حدیث نمبر:۶۱۸۹)
یہ روایت آپ کے حلم،تواضع اورمعذوروں کی ضرورت پوری ہونے تک برداشت کرنے کی ایک مثال ہے،اس روایت کی شرح میں امام نووی لکھتے ہیں:
فی ہذہ الاحادیث بیان بروزہ ﷺ للناس وقربہ منہم لیصل اہل الحقوق حقوقہم ۔۔۔وفیہاصبرہ علی المشقۃ فی نفسہ لمصلحۃ المسلمین واجابتہامن سال حاجۃ۔شرح نووی ج۱۵،ص:۸۲)
ان روایات میں آپ ﷺ کالوگوں کے لئے نکلنے اوران سے قریب ہونے کاذکرہے تاکہ حق والے اپنے حقوق حاصل کرسکیں۔۔۔اوران میں مسلمانوں کی مصلحت کی خاطرمشقت کوبرداشت کرنااورضرورت مندوں کی ضرورت کوپوراکرنابھی ثابت ہے۔
مذکورہ روایت صاف طورپرحاکم پرمعذورں کی نگہ داشت کی ذمہ داری واجب ہونے ان ضرورتوں کی تکمیل کاانتظام کرنے پردلالت کرتی ہے،یہ نگہ داشت صحت اورسماجی ،معاشی اورنفسیاتی ہراعتبارسے ہوگی۔
سن رسیدہ افرادکی طرح معذورافرادکی نگہ داشت اوردیکھ بھال متعلقہ سماج اورحکومت کی ذمہ داری ہے،اسلامی تاریخ میں اس کی نظیریں ملتی ہیں، حضرت عمربن عبدالعزیزنے باضابطہ معذورافرادکی مردم شماری کرائی ،اورپھرمعذورافرادکی خدمت کے لئے خادم متعین فرمائے۔(سیرت عمربن عبدالعزیز، ابن جوزی،ص:۱۳۰)
اوراسی نقش قدم پرچلتے ہوئے اموی خلیفہ ولیدبن عبدالملک نے خاص معذوروں کے لئے اسپتال قائم کئے،جہاں اطباء اورخدام متعین تھے،جنہیں تنخواہیں ملتی تھی،اوران معذوروں کے لئے بھی وظائف متعین تھے۔(البدایہ والنہایہ ،ابن کثیر،ج۹،ص:۱۸۶)
معذوروں کی دیکھ بھال کی کچھ شکلیں اس طرح ہیں:
معذوروں کے لئے شریفانہ زندگی کی فراہمی
ان کے لئے علاج اورمطلوبہ طبی تحقیقات کاانتظام
ان کی حیثیت اورصلاحیت کے مطابق ان کی شادی اوران کی تعلیم کاانتظام
ان کے لئے ایسے افرادکی تقرری جوان کی دیکھ بھال کرسکیں اوران کی خدمت کرسکیں(رعایۃ الرسول للضعفاء،ص:۱۸)
معذورافراد کی ضروریات پہلے پوری کی جائیں
جہاں اسلام نے یہ نظام بنایاکہ معذوروں کی پوری نگہ داشت کومتعین کیااوران کی ضروریات کی تکمیل کیسے ہوگی اس کومتعین کیاوہیں یہ بھی طے کیاکہ اس طبقہ کے سارے کام ترجیحی طورپرہوں گے،اوران کی ضروریات تندرستوں کے مقابلہ میں پہلے پوری کی جائیں گی،اس بارے میں مشہورصحابی رسول حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کاواقعہ مشہورہے،کہ وہ شریعت کی کوئی بات پوچھنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے،اس وقت روساء اورقوم کے بااثر افرادوہاں بیٹھے تھے،اوررسول اللہ ﷺ انہیں اسلام کی جانب راغب کررہے تھے،جس کی وجہ سے عبداللہ بن مکتوم کی جانب سے بے توجہی رہی،گرچہ انہوں نے بصارت سے محرومی کی وجہ سے اس کیفیت کونہیں دیکھا،لیکن اللہ تعالی کویہ بات پسندنہیں آئی ،چنانچہ آیت’ عبس وتولی ان جاء ہ الاعمی‘ نازل ہوئی اوررسول اللہ ﷺ کی سرزنش کی گئی،اس کے بعدجب بھی یہ صحابی تشریف لاتے توآپ خوشی خوشی ان سے ملتے ،ان کے لئے چادربچھاتے اور فرماتے :مرحبابمن عاتبنی فیہ ربی۔(التفسیرالکبیرج۳۱،ص:۵۰)
گفتگومیں بڑوں کاخیال
سن رسیدہ افرادکے احترام کاایک مظہریہ بھی ہے کہ جب مجلس میں بڑے موجودہوں توانہیں گفتگوکاموقع دیاجائے،اس تعلیم سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ گفتگوشروع کرنے اورڈائیلاگ کاآغازکرنے کاحق بھی سن رسیدہ کوہے،رافع بن خدیج اورسہل بن ابی حتمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سہل اورمحیصہ بن مسعودخیبرآئے،کھجورکے بارے میں ان دونوں کااختلاف ہوگیا،اورعبداللہ بن سہل کاقتل ہوگیا،چنانچہ عبدالرحمن بن سہل اورمسعودکے دو لڑکے حویصیہ اورمحیصہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضرہوئے اوراپنے بھائی کے بارے میں گفتگوکی،عبدالرحمن جوچھوٹے تھے انہوں نے گفتگوشروع کی، آپ نے ان سے فرمایا:کبرالکبر۔(صحیح البخاری،کتاب الادب باب اکرام الکبیر،حدیث نمبر:۵۶۷۷)
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کی تربیت اس طرح فرمائی تھی کہ صحابہ کرام اپنے بڑوں کی موجودگی میں کوئی بات کرنے سے احتیاط کرتے تھے،حضرت عبداللہ بن عمربیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ صحابہ سے دریافت کیاکہ مسلمان کی مثال کس درخت سی دی گئی ہے،میرے دل میں خیال آیاکہ وہ کھجورکادرخت ہے،لیکن مجھے بتائے ہوئے اچھانہیں لگاکیونکہ اس مجلس میں حضرت ابوبکراورحضرت عمرجیسے افرادبیٹھے تھے۔(صحیح بخاری،کتاب الجنائز، باب این یقوم الامام من المیت للصلاۃ،حدیث نمبر:۲۲۸۱)
باجماعت نمازمیں بوڑھوں کی رعایت
رسول اللہ ﷺ حاجت مندوں اورسن رسیدہ افرادکااتناخیال فرماتے کہ نمازجیسی اہم ترین عبادت کوان کی دشواری کی وجہ سے مختصرفرمادیتے،حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نمازمیں بچوں کے رونے کی آوازسنتے توچھوٹی سورتیں پڑھتے اورنمازکومختصرفرمادیتے۔(صحیح مسلم،کتاب الصلاۃ،باب امرالائمۃ بتخفیف الصلاۃ فی تمام،حدیث نمبر:۴۷۰)
آپ ﷺ سن رسیدہ اورحاجت مندوں کی موجودگی میں طویل جماعت پسندنہیں فرماتے بلکہ اس بارے میں سخت اندازمیں ناراضگی کا اظہار فرمایا، ابومسعودبیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی رسول اللہ کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول !میں صبح کی نمازمیں اس لئے حاضرنہیں پاتاکہ فلاں شخص لمبی نمازپڑھاتے ہیں،راوی کہتے ہیں کہ میں نے کبھی کسی گفتگومیں اس دن سے زیادہ غصہ نہیں دیکھا،آپ نے فرمایا:
ان منکم منفرین فایکم ماصلی بالناس فلیتجوزفان فیہم الضعیف والسقیم وذاالحاجۃ۔(صحیح البخاری،کتاب الاذان،باب تخفیف الامام فی القیام واتمام الرکوع والسجود،حدیث نمبر:۷۰۲)
بوڑھے والدین کے ساتھ حسن سلوک کاخصوصی حکم
بوڑھے اورسن رسیدہ افرادماں باپ بھی ہوسکتے ہیں اورقریبی رشتہ داربھی اورمعاشرہ کے دوسرے افرادبھی،یوں توہرطرح کے بوڑھوں کی دیکھ بھال کاحکم ہے،لیکن بوڑھے ماں باپ کے بارے میں خصوصی ہدایات ہیں،والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں روایتیں کثرت سے ہیں،یہاں صرف چندروایات پراکتفاکرتے ہیں،حضرت ابوہریرہ نقل کرتے ہیں کہ ایک صحابی رسول اللہ کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیااے اللہ کے رسول!میرے حسن سلوک کازیادہ مستحق کون ہے؟آپ نے فرمایاتمہاری ماں،انہوں نے دریافت کیااس کے بعدکون؟آپ فرمایاتمہاری ماں،انہوں نے تیسری بارسوال کیا اس کے بعدکون؟آپ نے فرمایاتمہاری ماں،اورچوتھی باراسی سوال کے جواب میں آپ نے فرمایاتمہارے باپ۔(صحیح البخاری،کتاب الادب،باب من احق الناس بحسن الصحبۃ،حدیث نمبر:۵۶۲۶)
حضرت عبداللہ بن عمروبیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی رسول اللہ کے پاس حاضرہوئے اورعرض کیا:میں جہادمیں جاناچاہتاہوں ،آپ نے پوچھا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں،انہوں نے جواب دیا،ہاں،آپ نے فرمایا:ففیہمافجاہد۔(صحیح البخاری،کتاب الادب،باب لایجاہدالاباذن الابوین، حدیث نمبر: ۵۶۲۷)
پچپن سے ہی بڑوں کے اکرام کی تعلیم
رسول اللہ ﷺ نے امت کویہ اخلاق سکھایاکہ بچے بڑوں کوسلام کریں گے،تاکہ ان کے ذہنوں میں بڑوں کی عزت کانقش بیٹھے،دوسری جانب بوڑھوں کو معاشرہ میں اپنی عزت اورلوگوں کے دلوں میں ان کے لئے محبت کااحساس ہو،حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے ارشادفرمایا:
یسلم الصغیرعلی الکبیر والمارعلی القاعد والقلیل علی الکثیر۔(صحیح البخاری،باب تسلیم القلیل علی الکثیر،حدیث نمبر:۵۷۶۳)
معذوروں کے ساتھ عفوودرگزرکامعاملہ
رسول اللہ ﷺ کی رحمت جاہل معذوروں کومعاف کرنے کی شکل میں بھی ظاہر ہوتی ہے،آپ ایسے لوگوں کی گستاخیوں کومعاف فرمادیتے تھے،اس طبقہ کے سفہاء کے ساتھ نرمی سے پیش آتے تھے،شوال ۳ہجری مطابق اپریل ۶۲۴ء کوجب رسول اللہ ﷺ اپنے لشکرکے ساتھ احدکے لئے عازم سفرتھے،اورایک منافق نابیناشخص کے باغ سے گزرنے کاارادہ فرمایاتووہ آپ کو نعوذباللہ سب وشتم کرنے لگااورہتک عزت کے درپے ہوا،یہاں تک کہ اس نے اپنے ہاتھ میں ایک مٹھی مٹی لی اورکہنے لگاکہ اگرمیں آپ پریہ مٹی دال سکتاتوڈال دیتا،یہ دیکھ کرصحابہ لپکے تاکہ اس گستاخی پراس کی گردن اڑادیں،لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کوانگیزفرمایااورپھرارشادفرمایا:دعوہ فہذالاعمی اعمی القلب اعمی البصر۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،ج۳،ص:۵۷)
رسول اللہ ﷺ نے اس منافق کی معذوری کی وجہ سے اس کی حرکت سے صرف نظرکیا،ورنہ صحابہ توجنگ کے لئے پابہ رکاب تھے ہی،اورحالات بھی کشیدہ تھے، اس کے باوجودہ رسول اللہ ﷺ نے معذوری کالحاظ کرتے ہوئے مسلمانوں کوکسی اقدام سے منع فرمایا۔
معذوروں کی عیادت اوران سے ملاقات
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پرجوحقوق عائدہوتے ہیں ان میں ایک مریضوں کی عیادت بھی ہے،آپ ﷺ نے خاص طورپرمریضوں کی عیادت کاحکم دیاہے،فرمایا:
عودوامرضاکم اتبعواالجنائزتذکرکم الآخرۃ(السنن الکبری ،بیہقی،کتاب الجنائز،باب الامربعیادۃ المریض،حدیث نمبر:۶۸۱۷) مریضوں کی عیادت کرناخودآپ ﷺ کے معمولات میں شامل ہے،سہل بن حنیف اپنے والدکے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺ کامعمول تھاکہ:
کان رسول اللہ ﷺ یاتی ضعفاء المسلمین ویزورہم ویعودمرضاہم ویشہدجنائزہم۔(المستدرک علی الصحیحین،کتاب التفسیر،تفسیرسورہ ق،حدیث نمبر: ۳۷۳۵)
آپ کمزورمسلمانوں کے پاس تشریف لے جاتے،ان سے ملتے،ان کے مریضوں کی عیادت کرتے،اوران کے جنازہ میں شریک ہوتے۔
مریضوں کی عیادت کامقصدان کی غم خواری کرنااوران کادل بہلاناہوتاہے تاکہ ان کی پریشانیوں کابوجھ ہلکاہو،ظاہرہے اس ہمدردی اورغمواری کے زیادہ مستحق معذورافرادہوتے ہیں،۔
معذوروں کی دلجوئی
رسول اللہ ﷺ ایسے افرادسے ملنے جایاکرتے تھے، ان کے دل کوخوش کرنے کی کوشش کرتے،ان میں اعتماداورحوصلہ پیداکرتے،اوراس طرح انہیں خوشی دیتے،اوران کی خوشی کے لئے ان کی خواہشوں کونہ صرف قبول فرماتے بلکہ ان کے لئے پریشانیاں بھی انگیزفرماتے،حضرت عتبان بن مالک بدری صحابی ہیں،آنکھ سے معذور ہیں،انہوں نے اپنی اس خواہش کااظہارکیاکہ رسول اللہ ﷺ ان کے گھرتشریف لائیں اورکسی جگہ نمازپڑھ دیں تاکہ وہ اس جگہ کو نمازکے لئے متعین کرلیں،آپ ﷺ نے ان کی خوشی کے لئے اس با ت کوقبول فرمالیا،صحیح بخاری کی روایت ہے کہ عتبان بن مالک رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا:اے اللہ کے رسول!کبھی تاریکی ہوتی ہے،کبھی بارش ہوتی ہے،میں بصارت سے محروم ہوں،آپ میرے گھرکے کسی حصہ میں نماز پڑھ دیجئے تاکہ میں اس جگہ کواپنے لئے نمازگاہ بنالوں،آپ نے فرمایا:سافعل انشاء اللہ ،پھردوسرے دن آپ ﷺ حضرت ابوبکرصدیق کے ساتھ ان کے گھرتشریف لائے اورپوچھاکہ کس جگہ نمازپڑھاناچاہتے ہیں ،پھراس جگہ آپ نے نمازپڑھی۔ (صحیح البخاری،کتاب الصلاۃ،باب الرخصۃ فی المطر والعلۃ ان یصلی فی رحلہ،حدیث نمبر:۶۳۶)
معذوروں کے لئے دعاکرنا
رسول اللہ ﷺ کاایک معمول یہ بھی تھاکہ آپ معذوروں اورپریشان حالوں کے لئے دعافرماتے تھے،تاکہ انہیں سکون ملے اورپریشانیاں جھیلنے کاحوصلہ پیداہو، ایک نابیناصحابی حاضرخدمت ہوئے اورعرض کیااے اللہ کے رسول ہمارے لئے دعافرمادیجئے کہ اللہ تعالی ہمیں صحت سے نوازے،آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:اگرتم چاہوتواس دعاکوموخرکردیں یہ تمہارے لئے بہترہے،اوراگرچاہوتودعاکردیں،انہوں نے جواب دیامیرے لئے دعاکیجئے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں دعاسکھائی،اوردعاکاطریقہ بھی سکھایا۔(سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب اللہم انی اسئلک ،حدیث نمبر:۳۹۲۷)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب آپ کسی مریض کی عیادت فرماتے یاکوئی مریض آپ کے پاس لایاجاتاتوآپ یہ دعاء پڑھتے تھے:
اذہب الباس رب الناس اشف وانت الشافی لاشفاء الاشفائک شفاء لایغادرسقما۔(صحیح البخاری،کتاب المرضی باب دعاء العائدللمریض،حدیث نمبر:۵۶۵۷)
معذوروں اورسن رسیدہ افرادسے تمسخرکی ممانعت
اکثرمعاشروں میں معذوراورسن رسیدہ افرادتفریح کاذریعہ ہوتے ہیں،ان کامذاق اڑایاجاتاہے،ان سے دل لگی کی جاتی ہے،اورانہیں پریشان کرکے خوشی محسو س کی جاتی ہے،جس کی وجہ سے معذورافرادبیک وقت دوطرح کے عذاب سے دوچارہوتے ہیں،ایک لوگوں سے دوری ومہجوری اوردوسرے تمسخرواستہزاء ، اسلام اس طرزعمل کوسخت ناپسندکرتاہے،کیونکہ یہ احترام کے خلاف ہے،اسلام عام انسان کے ساتھ بھی تمسخرواستہزء کوحرام قراردیتاہے ،چہ جائیکہ معذورافراد کے ساتھ،اس لئے ایسے افرادکے ساتھ استہزاء وتمسخر بدرجہ اولی حرام اورسخت گناہ کی بات ہے:
یاایہاالذین آمنوالایسخرقوم من قوم عسی ان یکونواخیرامنہم۔(سورہ حجرات :۱۱)
اسلام کاشعارتویہ ہے :لاتظہرالشماتۃ لاخیک فیرحمہ اللہ ویبتلیک۔(سنن الترمذی،کتاب صفۃ القیامۃ،باب النہی عن اظہارالشماتۃ،حدیث نمبر:۲۶۹۴)
رسول اللہ ﷺ نے سن رسیدہ افرادکے ساتھ استہزاء سے منع فرمایاہے:حضرت ابوامامہ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سن رسیدہ افرادکے بارے میں ارشادفرمایا:
ثلاث لایستخف بہم الامنافق:ذوالشیبۃ فی الاسلام وذوالعلم وامام مقسط۔(طبرانی)
تین طرح کے افرادایسے ہیں کہ کوئی منافق ہی ان کے ساتھ استہزاء کرسکتاہے،اول سن رسیدہ مسلمان،دوسرے اہل علم اورتیسرے عادل بادشاہ۔
استہزاء میں بدتمیزی،ناشائستہ القاب سے نوازنا،تفریح کرنااورہرایسی بات جن سے ان کوتکلیف پہونچتی ہوشامل ہے۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے اندھوں کوگمراہ کرنے ،ان کوتکلیف پہونچانے سے سختی کے ساتھ منع فرمایاہے،آپ ﷺ نے ارشادفرمایا:
ملعون من کمہ اعمی عن الطریق۔(مسنداحمدبن حنبل ج۱،ص:۲۱۷)
اسی طرح آپ نے فرمایا:لعن اللہ من کمہ اعمی عن السبیل۔ (مسنداحمدبن حنبل ج۱،ص:۳۱۷)
زہیربن حرب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ قریش کے کچھ نوجوان حضرت عائشہ کے پاس آئے،اس وقت آپ منی میں تھیں،وہ سب ہنس رہے تھے ، حضرت عائشہؓ نے دریافت کیاتم لوگ کس وجہ سے ہنس رہے ہو،انہوں نے جواب دیا،ایک آدمی خیمہ کی رسی پرگرپڑا،جس کی وجہ سے ہوسکتاہے کہ اس کی گردن ٹوٹ گئی ہویااس کی آنکھ ضائع ہوگئی ہو،حضرت عائشہ نے فرمایاہنسومت،میں نے رسول اللہ ﷺ سے فرماتے ہوئے سناہے کہ:
مامن مسلم یشاک شوکۃ فمافوقہاالاکتبت لہ بہادرجۃ ومحیت عنہ بھاخطیءۃ۔(صحیح مسلم،کتاب البروالصلۃ،باب ثواب المومن فیمایصیبہ من مرض اوحزن اونحو ذلک،حدیث نمبر:۶۷۲۶)
جولوگ خلقی عیوب کوتمسخرکاذریعہ بناتے ہیں،اوراس کی وجہ سے اس کی تنقیص کرتے ہیں، ان کے لئے سخت وعیدیں ہیں،معذورافرادوالدکے درجہ میں ہوں گے یابھائی کے درجہ میں یالڑکے کے درجہ میں،اللہ تعالی نے انہیں آزمائش میں ڈالاہے،وہ خاموش واعظ ہیں،اللہ کی قدرت کے مجسم گواہ ہیں،نہ کہ تفریح اوردل لگی کاذریعہ۔ (رعایۃ الرسول للضعفاء،ص:۲۳)
سن رسیدہ اورمعذورافرادکے لئے شرعی مسائل میں تخفیف
اسلامی تعلیمات میں سن رسیدہ اورمعذورافرادکوجواہمیت حاصل ہے ان کاایک مظہریہ بھی ہے کہ بہت سے شرعی مسائل میں ان کے لئے تخفیف رکھی گئی ہے ، مثلا:
سن رسیدہ اورمعذورافرادکھڑے ہوکرنمازپڑھنے پرقادر نہ ہوں توبیٹھ کرنمازپڑھ سکتے ہیں،اوربیٹھ کربھی پڑھنے پرقادرنہ ہوں تولیٹ کرپڑھ سکتے ہیں۔
اگرایسے افرادروزہ رکھنے پرقادر نہ ہوں تو ان کے لئے افطارکرنے کی اجازت ہے۔
سن رسیدہ اورمعذورسفرحج پرقادرنہ ہوں توان کی جانب سے دوسرے افرادکوحج کرنے کی اجازت ہے۔
معذورافرادجہادسے مستثنی ہیں، حضرت زیدبن ثابت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مجھے یہ آیت لکھوارہے تھے ’لایستوی القاعدون من المومنین والمجاہدون فی سبیل اللہ ‘ اسی وقت حضرت عبداللہ بن مکتوم تشریف لائے،انہوں کے کہااے اللہ کے رسول !اگرمیں جہادکرنے پرقادرہوتاتوضرورجہادمیں شریک ہوتا،حالانکہ وہ نابیناتھے،چنانچہ اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ پروحی نازل فرمائی،اور’غیراولی الضرر‘نازل ہوئی۔(صحیح البخاری،کتاب الجہاد،باب قول اللہ ’لایستوی القاعدون من المومنین غیراولی الضرر،حدیث نمبر:۲۸۳۲)
اسی طرح اللہ تعالی کاارشادہے:
لیس علی الاعمی حرج ولاعلی الاعرج حرج ولاعلی المریض حرج ومن یطع اللہ ورسولہ یدخلہ جنات تجری من تحتہاالانہارومن یتول یعذبہ عذاباالیما۔(سورہ فتح:۱۷)
خلاص�ۂبحث:
سن رسیدہ اورمعذور افرادکے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں:
۱۔سن رسیدہ اورمعذورافراد کاہرطرح احترام کیاجائے اورسماج میں انہیں بہترمقام دیاجائے۔
۲۔ان کے جذبات واحساسات کوبھی ٹھیس پہونچانے سے گریزکیاجائے ۔
۳۔رسیدہ اورمعذوافرادکی دیکھ بھال کی جائے ،صحت کے اعتبارسے،اورنفسیاتی ،عقلی،معاشرتی ہراعتبار سے۔
۴۔ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادپرحل کیاجائے اوران کی ضروریات کوپورا کیا جائے۔
۵۔ان کی جہالت ونادانی کوانگیزکیاجائے۔
۶۔سن رسیدہ اورمعذوروں کی عیادت کرنا،اوران سے ملنا،ان کے لئے دعائیں کرنا۔
۷۔ان کے ساتھ تمسخرواستہزاء کابرتاؤنہ کرنا۔
۸۔ان کی گوشہ نشینی کوختم کرنااورانہیں معاشرہ کاحصہ بنانا۔
۹۔شرعی احکام میں ان کی معذوری کی رعایت کرنا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے