مولانا نذرالحفیظ ندوی ازہری ۔ کتاب زندگی کے چندورق

 مولانا نذرالحفیظ ندوی ازہری
کتاب زندگی کے چندورق
منورسلطان ندوی
استاذمحترم مولانانذرالحفیظ ندوی ازہری ۔ادام اللہ ظلہ۔ کاتعلق شمالی بہارکے ایک مردم خیزقصبہ ململ سے ہے ،جوعلم وتہذیب کے اعتبارسے پورے صوبہ میں شہرت رکھتا ہے،یہاں ہردورمیں بلندپایہ شخصیات پیداہوئی ہیں،اس سرزمین کے تعارف کے لئے اتناہی کافی ہے کہ مولاناابوالکلام آزادکے رفیق اورالہلال کے سب ایڈیٹرمولانانورالہدی نورکاتعلق بھی اسی قصبہ سے ہے، مولانانورالہدی نوراورمولانانذرالحفیظ ندوی ازہری جیسی شخصیات پر نہ صرف اس قصبہ کو بلکہ پورے صوبہ کوبجاطورپرفخرونازہے،ایسی ہی شخصیات کی وجہ سے بہاراورخصوصاململ کوغیرمعمولی وقارواعتبارحاصل ہے۔
خاندانی پس منظر
۱۹۳۹ء ؁ میں مولانانے ایسے خاندان میں آنکھیں کھولیں جودینی تعلیم میں ممتازرہاہے ،والدمحترم حضرت مولاناقاری عبدالحفیظ ۔رحمۃ اللہ علیہ ۔ایک مؤقرعالم دین اوربزرگ شخصیت تھے،انہوں نے مدرسہ عزیزیہ بہارشریف کے علاوہ جونپوراورالہ آبادکے علمی مراکزمیں تعلیم حاصل کی،فراغت کے بعد عمرکا بڑاحصہ پرتاپ گڑھ میں گزارا ،جہاں ایک دینی مدرسہ کافیۃ العلوم میں ۱۹۳۱ء ؁ سے ۱۹۸۵ء ؁ تک تدریس اورانتظام وانصرام کے فرائض انجام دیتے رہے،یہاں نامورشخصیت اورمشہوربزرگ عارف باللہ حضرت مولانامحمداحمدپرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ سے آپ کے خاص مراسم تھے،احسان وسلوک کی راہیں انہی کے ذریعہ آپ نے طے کیں،اورپھراس میدان میں اتناآگے بڑھے کہ اجازت وخلافت سے سرفرازہوئے،حضرت مولانامحمداحمدپرتاپ گڑھی مولاناعبدالحفیظ صاحبؒ کی دعوت پر تین باران کے آبائی وطن ململ بھی تشریف لے گئے،آپ پرتاپ گڑھ کے مذکورہ مدرسہ میں خدمات انجام دینے کے ساتھ حضرت والاکے ساتھ بھی رہتے ،ان کے اصلاحی دوروں میں ساتھ ہوتے،آپ نے حضرت کے ساتھ اعظم گڑھ،جونپور،احمدآبادودیگرعلاقوں کادورہ کیا۔
آپ کاتعلق ملک کے نامورعالم دین اورامارت شرعیہ بہارکے بانی حضرت مولاناابوالمحاسن سجادرحمۃ اللہ سے بھی تھا،امارت شرعیہ کے قیام سے متعلق جواجلاس منعقدہوااس میں آپ شریک ہوئے،اورمولاناابوالمحاسن سجادؒ کی خواہش پربہارکے مختلف علاقوں کادورہ بھی کیا،اسی طرح مولانامنت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ سے بھی خاص تعلق تھا،ان کے ساتھ متعددبارململ تشریف لائے۔
شاعری میں آپ کوبڑادرک تھا،حافظ تخلص تھا،آپ کے اشعارکوآپ کے قابل فخرفرزند حضرت مولانانذرالحفیظ ندوی دامت برکاتہم نے مرتب کیاہے ،یہ مجموعہ کلام ’حافظ‘کے نام سے اشاعت کے مرحلہ میں ہے،مولاناعبدالحفیظ حافظؔ کاانتقال ۱۹۹۲ء ؁ میں ہوا ۔(مولاناعبدالحفیظ حافظ ؔ کے بارے میں تفصیلی معلومات آپ کے مجموعہ کلام ’کلام حافظ ‘میں درج ہے)
دادیہالی خاندان کے ساتھ مولاناکانانیہالی خاندان بھی دینداری میں میں معروف رہاہے،آپ کے نانامحترم کانام ملاسراج الدین ؒ ہے ،جو جہاناآباد کے علاقہ میں عرصہ تک تدریسی خدمت انجام دیتے رہے،آپ حضرت مولانامحمدعلی مونگیری ؒ سے بیعت تھے۔
تعلیم وتربیت
مولانانذالحفیظ ندوی دامت برکاتہم کی پیدائش توململ میں ہوئی لیکن پرورش وپرداخت پرتاپ گڑھ میں ہوئی،پچپن کازمانہ یہیں گزرا،یہیں والد محترم کے پاس حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی،اس کے بعددینی تعلیم کے لئے دارالعلوم ندوۃ العلماء کارخ کیا،یہاں عربی اول میں آپ کاداخلہ ہوا، ۱۹۶۲ء ؁ میں عالمیت اور۱۹۶۴ء ؁ میں فضیلت کی سندلی،یہاں کے اساتذہ میں مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندویؒ ،شیخ التفسیرمولانامحمداویس نگرامی ندویؒ ، مولاناابوالعرفان خاں ندویؒ ،مولاناایوب اعظمی ؒ ،مولانااسحق سندیلوی ؒ ،مولاناعبدالحفیظ بلیاویؒ ، مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی دامت برکاتہم، اور مفتی محمدظہورندوی مدظلہ جیسے اساطین علم وفن شامل ہیں،حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی ؒ سے آپ کو بخاری شریف کے چندابواب پڑھنے کابھی شرف حاصل ہے۔
تعلیم کی تکمیل کے بعدمادرعلمی میں خدمت انجام دینے کا موقع ملا،اوریہیں سے بحیثیت استاذآپ نے زندگی کادوسراسفرشروع کیا،اس درمیان ۱۹۷۵ء میں آپ کواعلی تعلیم کے لئے مصرجانے کاموقع ملا،چنانچہ آپ مصرتشریف لے گئے ،وہاں کلیۃ التربیۃ ،عین شمس یونیورسیٹی قاہرہ سے بی ایڈاور۱۹۸۲ء میں جامعہ ازہرسے عربی ادب وتنقیدمیں ایم اے کی ڈگری حاصل کی،ایم اے کے لئے آپ نے ’’الزمخشری کاتباًوشاعراً‘‘کے موضوع پراپناتحقیقی مقالہ (تھیسیس) لکھا،اس کے بعدپی ایچ ڈی میں داخلہ لیا،لیکن مشرف کے بیرون ملک چلے جانے کی وجہ سے اس کی تکمیل نہ ہوسکی،اورآپ کومجبوراًقاہرہ ریڈیو میں ملازمت اختیارکرنی پڑی،اس کے بعد۱۹۸۲ء ؁ملک واپس آئے اورمادرعلمی میں سابقہ مشغولیت شروع کی۔
تدریسی خدمات
دارالعلوم ندوۃ العلماء میں آپ کی تدریس کازمانہ ۱۹۶۴ء ؁ تا۱۹۷۵ء ؁ اورپھر۱۹۸۲ء ؁سے تاحال پرمحیط ہے،اس طویل مدت میں بلامبالغہ ہزاروں تشنگان علوم نے آپ سے سیرابی حاصل کی،مولاناسیدسلمان حسینی ندوی،مولاناسجادنعمانی ندوی جیسے متعدداصحاب علم۔جن کی قابلیت ولیاقت کاشہرہ پوری دنیامیں مسلم ہے ۔وہ آپ سے تلمذکاشرف رکھتے ہیں،آپ کے شاگردوں کی بڑی تعداددین وعلم کی خدمت میں مصروف ہے ،فی الوقت آپ دارالعلوم کے شعبہ عربی کلیۃ اللغۃ العربیہ وآدابہاکے عمیدیعنی ڈین آف فیکلٹی ہیں،معلمین کی تربیت میں آپ کوکمال حاصل ہے،تدریب المعلمین کے موضوع پر محاضرات کے لئے آپ پورے ملک میں مدعوکئے جاتے ہیں۔
علمی خدمات
جامعہ ازہرمصرمیں ایم اے کے لئے آپ نے جوتحقیقی مقالہ تحریرکیاتھاوہ مصرسے ہی’’ الزمخشری کاتباًوشاعراً‘‘کے عنوان سے شائع ہوچکاہے، عربی میں آپ کی دوسری کتاب’’ ابوالحسن علی الحسنی ندوی کاتباًومفکراً‘‘ہے جولکھنؤسے شائع ہوئی ہے،آپ کی مقبول زمانہ کتاب ’مغربی میڈیااوراس کے اثرات ‘ ہے جواپنے موضوع پرمنفردکتاب اورعلمی دستاویزہے،کتاب کی مقبولیت کااندازہ صرف اس سے لگایاجاسکتاہے کہ اب تک اس کاترجمہ عربی،انگریزی ، ملیالم،بنگلہ وغیرہ مختلف زبانوں میں ہوچکاہے، ہندوستان سے اردوکے پانچ اورپاکستان سے دوایڈیشن شائع ہوچکے ہیں،عربی میں یہ’’الاعلام الغربی وتاثیرہ فی المجتمع‘‘ کے نام سے ابوظہی سے اورانگریزی میں Western Media and its impect on societyکے نام سے لکھنؤسے شائع ہوئی ہے،بنگلہ کے دوایڈیشن شائع ہوئے ہیں،ترجمان القرآن،روزنامہ جنگ پاکستان اورہندوستان کے متعدد اخبارات ورسائل میں اس کتاب کی بڑی تحسین کی گئی اور بلندالفاظ میں اس کاتعارف کرایاگیا،ہم یہاں صرف دوتبصرے نقل کرنے پراکتفاء کرتے ہیں:
’’اس کتاب میں مغربی میڈیاسے متعلق چونکادینے والے انکشافات ہیں ،بلاشبہ یہ محض ایک کتاب نہیں بلکہ ایک تاریخی وعلمی دستاویزہے‘‘
کتاب مصنف کی باخبری،زمانہ شناسی،صحت معلومات ووسعت مطالعہ ،بلندپایہ علمی وتحقیقی ذوق اورتحلیل وتجزیہ کی بھرپورصلاحیت کے ساتھ اعتدال فکرونظرکی آئینہ دارہے‘‘(ماخوذازکتاب بیک ٹائٹل)
آپ نے حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی ؒ کے بعض مضامین کاترجمہ بھی کیاہے،نیزحضرت مولانارحمۃ اللہ کی خواہش پرآپ کی متعددکتابوں پرمقدمہ یاتعارف لکھنے کاشرف بھی حاصل رہاہے،اسی طرح حضرت مولاناؒ کے جانشیں حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی دامت برکاتہم اورحضرت مولاناسیدمحمدواضح رشیدحسنی ندوی کی بعض کتابوں پربھی آپ کی تحریریں بطورمقدمہ یابطور تعارف شامل ہیں، یہ باتیں ان بزرگوں کے مکمل اعتمادکی علامت اوران کے افکاروخیالات کی صحیح ترجمانی کی سندہیں۔
کتابوں کے علاوہ آپ کابڑاعلمی سرمایہ مقالات کی شکل میں ہے،عربی واردومیں ادبی مقالات اورعالم اسلام سے متعلق مضامین قدرکی نگاہوں سے پڑھے جاتے ہیں۔
صحافتی سرگرمیاں
صحافت آپ کی دلچسپی کاخاص موضوع ہے،مصرکے زمانہ قیام میں ریڈیومصرسے وابستگی سے اس صلاحیت میں مزیدجلاء پیداہوئی،عالمی حالات اورخصوصاعالم اسلام سے متعلق امورپرآپ کی بڑی گہری نظرہے،ان موضوع پرآپ کے تجزئے اورآپ کی رائے بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے،آپ ندوۃ العلماء کے اردوترجمان پندرہ روزہ تعمیرحیات کے مدیرمسؤل رہ چکے ہیں،اس کے علاوہ ندائے ملت ،الرائداورکاروان ادب کے ادارتی رکن رہے ہیں۔
رابطہ ادب اسلامی
اسلامی ادب کے فروغ کے لئے مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ نے عالمی سطح پررابطہ ادب اسلامی داغ بیل ڈالی تھی، برصغیر ہندوپاک کادفترندوۃ العلماء میں قائم ہے ،جس کے زیراہتمام ادبی سیمینارمنعقدہوتے ہیں اورکاروان ادب کے نام سے ادبی رسالہ شائع ہوتاہے، آپ ان سرگرمیوں میں نہ صرف شریک رہتے ہیں بلکہ اس کے خاص کارکنان میں ہیں،اوراس کی فکری ترجمانی کے ساتھ انتظامی امورمیں بھی ذمہ داروں کی معاونت کرتے ہیں۔
دوعظیم شخصیات سے تعلق خاص
مولانامحترم کی شخصیت کی تشکیل میں دواہم شخصیات کاکردارنمایاں نظرآتاہے،اول مشہوربزرگ مولانامحمداحمدپرتاب گڑھی ؒ جوزمانہ طفولیت سے ہی آپ کے لئے باپ کی طرح شفیق تھے، آپ نے گویاان کی آغوش میں تربیت پائی،مولاناآپ کوعزیزوں کی طرح چاہتے تھے، اورآپ کوبھی مولاناسے پے پناہ انس تھا،ربط وتعلق اورشفقت ومحبت کے واضح اثرات آپ کی زندگی میں محسوس کئے جاسکتے ہیں،خلوص وللہیت،تعلق مع اللہ ،اذکاروتلاوت کی کثرت اورورع وتقوی کی صفت اسی تعلق کانتیجہ ہے،دوسری شخصیت جن سے آپ کووالہانہ تعلق بلکہ عشق سا تھاوہ مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی کی ذات گرامی ہے،جوآپ کے استاذبھی تھے اورمربی بھی،حضرت سے آپ کاتعلق بڑاقریبی رہاہے،آپ کونہ صرف مولاناکے قریب رہنے اورسفروحضر میں رفیق بننے کاشرف حاصل تھابلکہ حضرت کے خطوط کاجواب دینے اورحضرت کی علمی وتصنیفی کاموں میں معاونت کاشرف بھی آپ کوحاصل رہاہے،حضرت مولاناؒ بھی آپ کوبہت عزیزرکھتے تھے،اور بے تکلفی اورمحبت سے آپ کو’’ نذر‘‘کہتے تھے،اورکبھی چنددن ملاقات نہ ہوتواپنے خاص اندازفرماتے ’’نذر نظرنہیں آتے ہو‘‘،عشاء بعدحضرت کی مجلس منعقدہوتی تھی،ان مجالس کی گفتگوکے آپ امین ہیں،کاش آپ ان مجالس کومرتب فرمادیتے تواہل علم ونظرکے لئے بڑاچشم کشاسرمایہ ہوتا،حضرت کے اعتمادوتعلق کایہ حال تھاکہ متعددمواقع پرحضرت نے آپ کواپنی نمائندگی وترجمانی کے لئے منتخب کیا،یہ بات مولاناکے لئے اعزازبھی ہے اورفخربھی۔
بیرونی اسفار
تعلیم کے سلسلہ میں مصرکے قیام کے علاوہ آپ نے بیرونی ممالک کے متعددعلمی اسفا رکئے ہیں،حضرت مولاناؒ کی رفاقت میں بھی کئی بیرونی اسفارہوئے ،آپ نے متعددانٹرنیشنل سیمیناروں میں شرکت کی اورمقالہ پیش کیا،آپ نے دوبارمصرکے رابطۃ الجامعات الاسلامیۃ میں حضرت مولاناؒ کی نمائندگی کی،اسی طرح ملیشیامیں منعقدہونے والے رابطۃ الادب الاسلامی العالمیۃ کے تین سیمیناراورترکی کے مجلس الامناء کے سیمنارمیں شرکت کی،اس علاوہ قطر،سعودی عرب اور ترکی وغیرہ ممالک کامعددبارسفرکیا،یہ اسفارعلمی اوردینی مقاصدکے تحت ہوئے ہیں۔
ایوارڈواعزاز
مصرکے زمانہ قیام میں ایک عالمی مسابقہ القرآن کاانعقادہواتھا،آپ نے اس مسابقہ میں شرکت کی اوراول انعام کے مستحق قرارپائے،یہ انعام حج بیت اللہ کی شکل میں تھا،آپ اس عظیم نعمت سے سرفرازہوئے،اس انعام کوآپ اپنی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ تصورکرتے ہیں ۔
۲۰۰۲ء ؁ میں حکومت ہندنے عربی زبان کی مہارت کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈسے سرفرازکیاجواس وقت کے صدرجمہوریہ اے پی جے عبدالکلام صاحب ؒ کے ہاتھوں ملا،اس موقع پرآپ نے صدرمحترم سے ملتے ہوئے ندوہ کاتعارف کرایااورانہیں ندوہ آنے کی دعوت بھی دی۔
نومبر۲۰۰۵ء ؁ میں آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کے وطن کے اہل دانش اوروہاں کے نوجوان فضلاء کی جانب سے مجاہدآزادی محمدشفیع بیرسٹرکے نام سے موسوم ’شفیع بیرسٹرایوارڈ‘سے نوازاگیا۔
امتیازی صفات
اللہ تعالی نے آپ کوبڑی خوبیوں سے نوازاہے،گفتگومیں دعوتی اندازجہاں آپ کاامتیازہے وہیں تحریرمیں تجزیاتی اسلوب آپ کی پہچان ہے، اخلاص وتوکل ، تواضع،بزرگانہ شفقت،وقار ،شرافت نفس،اور سنجیدگی ومتانت کے ساتھ بے مثال ظرافت آپ کے خصوصی اوصاف ہیں، یہ اوصاف طبقہ علماء کے لئے لائق اتباع ہیں۔
بطور’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘یہ آپ کی زندگی اور آپ کی متنوع خدمات کی چندجھلکیاں ہیں،بلاشبہ آپ کی زندگی بے شمارخوبیوں کاگنجینہ ہے، آپ نمونہ سلف ہیں،علماء کے لئے مثال اورآئیڈیل ہیں،آپ اپنی خوبیوں اورخدمات کی وجہ سے تاریخ میں یادرکھے جائیں گے۔
مولاناکے مضامین ومقالات کومرتب کرنے کی ضرورت
مولاناکے مضامین بڑی تعدادمیں تعمیرحیات اوردیگررسائل کی فائلوں میں دبے ہوئے ہیں،ان مضامین کوجمع کیاجائے توعالم اسلام کے اہم فکری حوادث ومسائل کی تاریخ مرتب کرنے میں بڑی مددملے گی،یہ تاریخ نصف صدی سے زائدعرصہ پرمحیط ہے،ان مضامین کو سامنے رکھ کرمولاناکے افکارکاتجزیہ کیاجاسکتاہے،ان تحریروں کووجودمیں آئے ایک عرصہ گزرچکااورمولانانے مضمون لکھتے وقت جن امکانات کی جانب اشارے کئے تھے یاجن حقائق کی نشاندہی کی تھی، ان کے مضمرات بھی پوری طرح دنیاکے سامنے آچکے ہیں،اس لئے اب ان تحریروں کاآسانی سے تجزیہ کیاجاسکتاہے،اورانہیں تاریخ کے ترازومیں بآسانی پرکھاجاسکتاہے،ندوی فضلاء کی یہ بھی ایک ذمہ داری ہے ، مولاناکے شاگردوں میں کوئی اس جانب توجہ دے توایک بڑاکام ہوجائے گا،اسی طرح ادب وسیرت سے متعلق مولاناکے جومقالات ہیں ،انہیں بھی جمع کیاجاناچاہیے تاکہ یہ اہم علمی وادبی سرمایہ بھی قابل استفادہ بن جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے