فتاوي ندوة العلماجلد دوم-سوم-ايك تعارف

فتاوی ندوۃ العلماء جلددوم وسوم ۔ایک مختصرتعارف
منورسلطان ندوی(رفیق علمی دارالافتاء ومرتب فتاوی )
برصغیرہندوپاک میں فتاوی نویسی کی تاریخ بہت پرانی ہے،عموماشاہ عبدالعزیزؒ محدث دہلوی (م:۱۱۶۹ھ)کے فتاوی عزیزی کوفتاوی کاپہلامجموعہ قراردیاجاتا ہے، جو فارسی زبان میں ہے،اس کے بعدفتاوی کے مجموعوں کاایک تسلسل ہے،ان میں زیادہ ترفتاوی انفرادی اورشخصی نوعیت کے ہیں،۱۸۵۷ء کے بعد جب تعلیمی ادارے قائم ہوئے توان اداروں کے زیراہتمام دارالافتاء کے ذریعہ اجتماعی فتاوی کاسلسلہ شروع شروع ہوا،دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء،مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور،امارت شرعیہ وغیرہ کے دارالافتاء اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں،۱۳۰۴ھ میں دیوبنددارالافتاء کاقیام عمل میں آیا،تحریک ندوۃ العلماء کے قیام کے بعد۱۳۱۳ھ میں ندوہ کے تحت دارالافتاء قائم ہوا،جبکہ مدرسہ مظاہرعلوم میں دارالافتاء کاقیام ۱۳۳۸ھ میں ہوا،اس طرح دیکھاجائے توندوہ کادارالافتاء دیوبندکے بعدہندوستان کاسب سے قدیم دارالافتاء ہے،جواپنی پربہارزندگی کی سوسے زیادہ بہاریں دیکھ چکاہے،اس طویل عرصہ تک فتاوی نویسی کاتسلسل تاریخی طورپرخودایک ریکارڈہے۔
ندوہ میں فتاوی نویسی کاکام استاذالاساتذہ مولانالطف اللہ علی گڑھی کی سرپرستی میں شروع ہوا،آپ کے بعدآپ کے لائق وفائق شاگرد مولانا عبداللطیف رحمانی، مولانا شبلی فقیہ جیراجپوری،مولانامفتی سعیدندوی ،اورمولاناناصرعلی ندوی جیسے اصحاب علم وفن اورماہرین فقہ وفتاوی کی خدمات اس دارالافتاء کوحاصل رہی ہیں، ادھر تقریبا نصف صدی سے مولانامفتی محمدظہورندوی فتاوی نویسی کے نازک اوراہم ترین کام کوانجام دے رہیں ،آپ کے فتاوی مختصر،مگرفقہی بصیرت کے حامل ہوتے ہیں،آپ کی علالت کے پیش نظرادھرچندسالوں سے مولانانیازاحمدندوی جوحدیث وفقہ کی تدریس میں امتیازرکھتے ہیں فتوی نویسی اورخصوصاتصویب کی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں،آپ کی نگرانی میں مفتیان کرام کی ایک ٹیم فتاوی نویسی کاکام انجام دیتی ہے۔
۲۰۰۵ء میں فتاوی کی ترتیب وتحقیق کی سعادت میرے حصہ میں آئی،میں نے فتاوی ہندیہ کی ترتیب کے مطابق فتاوی ندوۃ العلماء کی ترتیب اورتحقیق کاکام شروع کیا،الحمدللہ ترتیب وتحقیق کے بعدنظرثانی کے مراحل سے گزرکرفتاوی کی پہلی جلد۲۰۱۲ء میں منظرعام پرآئی،جسے اہل علم کی طرف سے پذیرائی حاصل ہوئی،ماہنامہ معارف اوردیگررسائل وجرائدمیں ندوۃ العلماء کی اس کاوش کی تحسین کی گئی،اس کی مقبولیت کااندازہ اس سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ ایک سال سے کم عرصہ میں جلداول کاپہلاایڈیشن ختم ہوگیا،اوراب فتاوی کی دوسری اورتیسری جلدقارئین کے حوالہ کی جارہی ہے۔
دارالافتاء سے جاری شدہ فتاوی کے تعدادبلامبالغہ لاکھوں میں ہے،البتہ جوسرمایہ دارالافتاء میں محفوظ ہے اس سے مکررات کوحذف کرکے موضوعاتی ترتیب سے یہ جلدیں تیارہورہی ہیں،پہلی جلدعلم اورطہارت کے مسائل پرمشتمل تھی،دوسری اورتیسری جلد میں نمازکے مسائل آئے ہیں،دوسری جلدمیں گیارہ ابواب اور ۵۲۸ مسائل ہیں،جبکہ تیسری جلدمیں صلاۃ سے متعلق پندرہ ابواب اور۶۲۳مسائل ہیں،ان جلدوں کی نظرثانی خودمفتی محمدظہورندوی صاحب نے فرمائی ہے،دونوں جلدیں جہاں حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کی بصیرت افروزمقدمات سے مزین ہیں وہیں مفتی محمدظہورندوی صاحب کے پیش لفظ کی تحریریں بہت قیمتی ہیں،مفتی صاحب نے دوسری جلدمیں فتاوی کی ضرورت اورعہدنبوی سے دورحاضرتک فتاوی کے تسلسل کوبیان کیاہے،جبکہ تیسری جلدمیں فتاوی نویسی کے لئے فنی مہارت کے ساتھ احتیاط،ورع وتقوی اورعنداللہ جوابدہی کومفتی کے لئے ضروری قراردیاہے،اس طرح مقدمہ اورپیش لفظ کی تحریریں بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
ندوۃ العلماء کے فتاوی کئی لحاظ سے ممتاز ہیں،جن میں سب سے اہم فکر اور اظہاررائے میں اعتدال اور میانہ روی ہے، جو تحریک ندوہ کا امتیاز رہا ہے۔ چنانچہ یہ رنگ ان فتاوی میں پوری طرح نمایاں نظرآتاہے،عقائد کاباب توشایداس سلسلہ کا شاہکار ہے ، دوسرے مکاتب فکرپرحکم لگانے میں اس قدراحتیاط کم ہی فتاوی میں ملے گی،اس اعتدال کی ایک جھلک امامت سے متعلق فتاوی میں بھی نظرآتی ہے،مصلیان اگرامام صاحب سے ناراض ہوں توامام کی ہرچھوٹی بڑی بات کوموضوع بناتے ہیں اوراس کے بارے میں فتوی طلب کرتے ہیں،ایسے مسائل میں یہاں بہت احتیاط برتی جاتی ہے،ساتھ امام کی حیثیت نمایاں کی جاتی ہے ،جدیدمسائل پررائے قائم کرنے میں بھی احتیاط کیاجاتاہے،اورپورے غوروفکرکے بعدہی جواب دیاجاتاہے۔
اس طرح بلاشبہ کہاجاسکتاہے کہ فتاوی کی یہ جلدیں فقہ وفتاوی کے سرمایہ میں اہم اضافہ ہیں،اوراس سے ندوۃ العلماء میں فقہ وفتاوی کی خدمات کی نئی جہت سامنے آئے گی۔
نوٹ:فتاوی یہ جلدیں مجلس صحافت ونشریات ندوۃ العلماء کے علاوہ اکثربڑے بکڈپوپردستیاب ہے۔
(یہ تحریرفتاوی کے رسم اجراء کی تقریب میں پیش کی گئی)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے