ترکی کے مردآہن اورعالم اسلام کے قائدمنتظر رجب طیب اردگان۔ایک تعارف


مولانامنورسلطان ندویMSnadvi
استاذ:دارالعلوم ندوۃ العلما ء لکھنؤ
ترکی کے موجودہ وزیراعظم رجب طیب اردگان نہ صرف ترکی بلکہ عالم اسلام کے بیباک اورمثالی قائدکی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ،نجم الدین اربکان کے لائے ہوئے اسلامی انقلاب کے مشن کوبڑی حکمت عملی سے آگے بڑھارہے ہیں،تین مدت سے ترکی کی سربراہی آپ کے ہاتھ میں ہے،آپ کی قیادت عالم اسلام میں رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے، آپ نے ترکی کی ہمہ جہت ترقی اوردینی رجحان کوواپس لانے میں جوکارہائے انجام دیئے ہیں وہ یقیناتاریخ میں سہرے حرفوں میں لکھے جانے کے مستحق ہیں،ترکی کے علاوہ بھی آپ نے متعددایسے اقدامات کئے ہیں جس نے آپ کوعالم اسلام کاہیروبنادیا، متعددعرب صحافیوں نے آپ کو قائد منتظرتک قراردیاہے۔
رجب طیب اردگان خاندانی طورپردینی پس منظررکھتے ہیں،وہ ایک دینی مدرسہ کے تربیت یافتہ ہیں،۲۶فروری ۱۹۵۴ء کواسطنبول میں کے ایک غریب گھرانہ میں آنکھیں کھولی،ابتدائی تعلیم ایک دینی مدرسہ ’امام خطیب‘میں حاصل کی،اس کے بعدجامعہ مرمرہ کے شعبہ کلیۃ الاقتصادوالاعمال میں زیرتعلیم رہے۔
تقریباسترکے دہے میں نجم الدین اربکان کی قیادت میں قائم پارٹی حزب الخلاص الوطنی سے اپنی سیاسی زندگی کاآغازکیا،۱۹۸۰ء میں اس پارٹی پرپابندی عائدکی گئی،اس کے بعداربکان صاحب نے اپنے رفقاء کے ذریعہ رفاہ پارٹی قائم کی،جس میں اردگان صاحب بھی شریک تھے،چنانچہ ۱۹۹۴ء کے الیکشن میں آپ اسطنبول کے میئرکے امیدواربنے،اورکامیابی حاصل کی،اس الیکشن میں رفاہ پارٹی نے خاصی سیٹیں حاصل کیں تھی،بطورمیئرآپ نے اسطنبول کی ترقی کے لئے جوکارہائے نمایاں انجام دئے وہ ہمیشہ تاریخ میں سنہرے حرفوں میں لکھاجائے گا،آپ نے اپنی کوششوں کو اسطنبول کوایک سیاحتی شہرمیں تبدیل کردیا ۔
۱۹۹۸ء میں ایک بارپھرآپ پابند سلاسل کئے گئے،اورنہ صرف سرکاری کاموں سے روکے گئے بلکہ عام انتخاب میں حصہ لینابھی آپ کے لئے ممنوع قرارپایا،اس فیصلہ کی وجہ صرف یہ تھی کہ آپ نے ایک مجمع کوخطاب کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا تھا :
مآذننارماحناوالمصلوناجنودنا
لیکن یہ پابندیاں بھی آپ کے قدم کوآگے بڑھنے سے نہیں روک سکیں،بلکہ ان مسائل سے حوصلہ پاکرآپ مزیدپیش قدمی کرتے رہے،چنانچہ آپ نے اپنے رفقاء کے ساتھ جن میں عبداللہ غول بھی شامل تھے،۲۰۰۱ء میں انصاف وترقی پارٹی قائم کی۔
۲۰۰۱ء کے انتخاب میں عدالت وترقی پارٹی کوکامیابی حاصل ہوئی،لیکن جیل میں ہونے کی وجہ سے آپ حکومت کے سربراہ نہیں بن سکے،چنانچہ عبداللہ گل نے اس ذمہ داری کوسنبھالا،البتہ ۲۰۰۳ء میں پابندی ختم ہونے کے بعدملک کے وزیراعظم ہوئے،آپ نے بحیثیت وزیراعظم ترکی کوسیاسی واقتصاری اورسماجی استحکام عطاکیا، ارمن اوریونان سے مصالحت کی،عراق وشام سے روابط مضبوط کئے،متعددعرب ممالک کے درمیان سرحدی پابندیاں ختم کیں،اسی طرح متعددممالک کے ساتھ اقتصادی وسیاسی اورسماجی روابط بڑھائے اورترقی کی راہیں واکیں،اس طرح ۲۰۰۹ء تک اسطنبول یورپ کی ثقافتی راجدھانی میں تبدیل ہوگیا،آپ کے کارناموں میں ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے کردوں کے شہروں اوردیہاتوں کے کردی نام رکھنے کی اجازت دی جوکہ قانونا ممنوع تھا،اسی طرح انہیں کردی زبان میں تقریرکی اجازت دی۔
فلسطین کے ساتھ اسرائیل کی زیادتی اورمتعددبین الاقوامی معاہدات کی خلاف ورزی کے تناظرمیں اسرائیل کے تئیں اردگان کاموقف بڑاسخت ہے،۲۰۰۸ء میں غزہ پٹی پراسرائیل کے حملہ کے خلاف اردگان کی حکومت نے اپنے قدیم حلیف اسرائیل کے خلاف سخت ردعمل کااظہارکیا،ترکی کااحتجاج یہیں پرنہیں رکابلکہ اس حملہ کے فوری بعدڈاؤس عالمی اقتصادی فورم میں اسرائلی صدرشمعون بیریزکے جواب کے لئے وقت نہیں دئے جانے پرآپ نے فورم کے اجلاس کابائیکاٹ کیااوراسٹیج چھوڑدیا،آپ کے ان اقدامات نے عالم اسلام کی طرف ذبردست خراج تحسین وصول کیا، آپ کی واپسی پرلاکھوں افرادنے استقبال کیا،حماس نے اس واقعہ پرتبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ ان کایہ قدم عرب حکمرانوں کے لئے لائق اتباع ہے۔
۲۳نومبر۲۰۱۱ء میں آپ انقرہ کے ایک عوامی جلسہ میں کردی علویوں ساتھ ہوئی حکومت کی زیادتی کے لئے معافی مانگی،کردستان کی طرف سے اس عمل کی بڑی پذیرائی ہوئی۔
۳۱مئی ۲۰۱۰ء کومحصورغزہ پٹی کے لئے امدادی سامان لے کرجانے والے آزادبیڑے پراسرائیل کے حملہ اوراس کے نتیجہ میں ۹ترک شہری کی ہلاکت کے بعدایک بارپھراردگان عالم عرب میں ہیروبن کرابھرے،اورعوام سے لے کرحکومتوں اور ذرائع ابلاغ نے ترکی اورترک رہنما اردگان کے فلسطین کے مسئلہ میں ٹھوس موقف کوسراہااورانہیں قائدمنتظرقراردیا۔
اکتوبر۲۰۰۹ء میں پاکستان کے دورہ کے موقعہ پرآپ کوپاکستان کے اعلی ترین اعزازنشان پاکستان سے نوازاگیا،آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو۲۰۱۰ء کے فیصل ایوارڈسے نوازاگیا،اسی طرح نومبر۲۰۱۰ء میں قذافی ایوارڈبرائے انسانی حقوق سے سرفرازکیاگیا، اس کے علاوہ جامعہ ام القری سمیت متعددیونیورسیٹیوں سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری اوراورمختلف ملکوں کی اعزازی شہریت سے نوازے گئے ہیں۔
آپ اپنے پیش رونجم الدین اربکان کے نقش قدم پرگامزن ہیں،اورپوری دانشمندی اوردوراندیشی کے ساتھ ترکی کواسلامی نظام کی طرف لانے میں کامیابی حاصل کررہے ہیں،اربکان صاحب کی طرح آپ بھی ٹکراؤکی راہ سے گریزاں رہتے ہیں،آپ کی اسلام دوستی اورترکی نظام کوبدلنے کوشش جگ ظاہرہے اس کے بعدبھی ترکی کے حالات کے تناظرمیں آپ نے صاف اعلان کیاکہ ان کی پارٹی جمہوری نظام کے ڈھانچہ کی پوری حفاظت کرے گی،اورترکی کی فوج سے ٹکراؤنہیں رکھے گی،آپ نے کہاکہ ہم جس متمدن معاشرہ کے قیام کاخاکہ اتاترک نے بنایاتھااس مقصدکے حصول کے لئے ہماری سیاست اورہماری سرگرمی واضح ہے،البتہ یہ عمل ہم اس اسلامی اخلاق کی بنیادپرکریں گے جس کوترکی کی ۹۹فیصدعوام مانتی ہے،اسی طرح ترکی کے سابق صدراحمدنجت سیریزکے ایک اعتراض کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ اسلام پسندوں کوبھی ترکی پرحکومت کاحق ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے