مولانا امين الدين شجاع الدين ایک نامورادیب و صحافی


مولانا امين الدين شجاع الدين
ایک نامورادیب و صحافی
آپ۵۵ ۱۹ميں بھيونڈی ،بمبئی کے ايک تعليم يافتہ خاندان ميں پيدا ہوئے ، رئيس ہائی اسکول بھيونڈی اورکسی اردوميڈيم کالج سے عصری تعليم حاصل پائی،اس کے بعد دينی تعليم کے لئے دارالعلوم ندوة العلماءکی طرف رخ کيا،چندسال رہ کريہاں کے اساتذہ سے اپنی علمی تشنگی بجھاتے رہے،پھرمولانا محمد سالم صاحب کے ايماءپرکچھ وقت دارالعلوم ديوبند(وقف)ميں بھی گزارا،اس طرح آپ نے دونوں سرچشموں سے کسب فيض کيا،دينی معلومات اچھے خاصے عالم کی طرح پختہ تھی، اور خاص بات يہ کہ اسلام کے مکمل دين،مکمل نظام زندگی اور”اسلام ہی واحدحل “پرکلی اعتماداورقلبی اطمينان تھا۔
صحافت کوآپ نے اپنی فکروعمل کاميدان بنايا،ماہنامہ ہدايت جئے پور،بانگ درا وبانگ حراءشباب اسلام لکھنو،پندرہ روزہ تعميرحيات ندوة العلماءاور ندائے ملت لکھنوسے باضابط وابستہ رہے،ان کے علاوہ سہ روزہ دعوت،جديد عمل،آگ اورديگرروزناموں ميں آپ کی تحريريں قارئين کی فکر و نظر ميں اضافہ کاسامان فراہم کرتی رہيں، لکھنوجرنلسٹ ايسوسی ايشن کے رکن رہے،اس کے ترجمان ”شرم جيوی “ميں بھی آپ لکھتے تھے،ادھر ايک عرصہ سے دارالعلوم ندوة العلماءميں انگريزی کے استاد کی حيثيت سے تدريس کی خدمت انجام دے رہے تھے۔
آپ کے قلم ميں بلا کا جادوتھا،قلم ہاتھ ميں ليتے توکاغذی کے پيرہن پرخوبصورت نقش ونگاربناتے چلے جاتے،اسلوب اتناشگفتہ،دلآويز اور موثر تھا کہ وہ قاری کے ذہن کوپوری طرح اپنے حصارميں لے ليتا، قلم ميں صداقت کے ساتھ فقاہت اورحکمت بھی تھی ، قلب اور ضميرکومخاطب کرناخوب جانتے تھے ،بقول پروفيسرمحسن عثمانی ندوی”مطالعہ کی وسعت سے امين الدين شجاع الدين کا قلم ابرنوبہاراورعطرمشک بہاربن گيا ہے“۔
آپ کے اداريوں،پہلا صفحہ،آخری صفحہ جيسے مضامين ”نقوش فکروعمل “کے نام سے شائع ہوئے، ”ملنے کے نہيں ناياب ہيں ہم “ميں وفيات سے متعلق مضامين جمع ہوئے،يہ دونوں مجموعے بہت پسند کئے گئے،آپ کے ذريعہ لئے گئے انٹرويوز کا مجموعہ ”روبرو“پريس جانے کئے بالکل تيارتھی،آخری پروف اور سيٹنگ کا مرحلہ بھی مکمل ہوچکا تھا کہ آپ کی طبيعت خراب ہوئی،ہاسپيٹل ميں داخل کئے گئے اور پھرمرض بڑھتاگيا جوں جوں دوا کی،تيمارداروں نے علاج ومعالجہ ميں کوئی کسرنہيں چھوڑی،ڈاکٹربھی اپنی سی کوشش کرتے رہے ، مگر قدرت کے فيصلہ کوکون ٹال سکتا ہے،چنانچہ ۷جون 2012کی شب آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی اور بعد عصر گنج شہيداں قبرستان ڈالی گنج ميں پيوند خاک ہوئے،يوں اپنے خاص عنوان ’ملنے کے نہيں ناياب ہيں ہم‘کے خود ہی مستحق ٹھہرے۔
اب يہ احساس ہميشہ کے لئے سوہان روح بنا رہے گا کہ کاش مولانا ايک نظراس کتاب کومطبوعہ شکل ميں ديکھ ليتے!مگر ع ”اے بساآزرو کہ خاک شدہ“آپ کے انتقال کے بعداخبارات ميں جس کثرت سے مضامين شائع ہوئے اوربانگ حراءنے خصوصی نمبرنکال کر جس طرح اپنے محسن کوخراج عقيدت پيش کيا اس سے عند اللہ وعند الناس آپ کی مقبوليت کا اندازہ ہوتا ، آپ ہم سے جداہوگئے، مگرآپ کے قلم کا فيض جاری وساری رہے گا۔
آپ کی تحریریں اہل زبان اور اہل دانش دونوں سے خراج تحسین وصول کرچکی ہیں، پروفیسر محسن عثمانی ندوی، پروفیسر ابوالکلام قاسمی اور ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے جس انداز سے آپ کی تحریر کو سراہا ہے وہ آپ کے لئے سند کا درجہ رکھتی ہے، ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی لکھتے ہیں
....اس میں فکر کی توانائی بھی ہے، راز درون میخانہ کے محرم کی شناخت بھی ہے، دل مردہ کا مرثیہ بھی ہے اور اسے دوبارہ زندہ کرنے کی دعوت بھی ہے۔ اس میں آہ بیتابانہ بھی ہے نگاہ مومنانہ بھی، ادائے قلندرانہ بھی، جلوئہ مستانہ بھی، زندگی کے عام حالات اور مسائل کا افسانہ بھی، عمر بھر ملت کے لئے، اپني دین، اپنی تہذیب اور اپنی زبان کی حفاظت اور بقا کے غم میں تڑپتے رہنے والے بزرگوں کی فغان صبح گاہی اور دعائے نیم شبی کے سائے میں بے خوف وبے لوث جرات رندانہ بھی اور خود مصنف امين الدین شجاع الدین کے قلب ونظر کا فکری امتیاز اور ان کے قلم کا انداز بے باکانہ بھی ہے۔
اور پروفیسر ابوالکلام قاسمی (علی گڑھ) یوں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں
....ایسا لگتا ہے کہ ان کا علمی دائرہ کار خاصا وسیع ہے۔ وہ قرآن وحدیث کی بنیادی تعلیمات کو زیادہ دل نشین انداز میں بیان کرنے کی خاطر مشرقی اور مغربی ادبیات سے بھی استفادہ کرتے ہیں منطقی و ثقافتی رویوں کو بھی زیر بحث لاتے ہیں، اپنے گرد وپیش سے بھی مثالیں پیش کرتے ہیں، اور مجموعی طور پر ایک ایسے فکر ونکتہ رس دانش ورکا کردار ادا کرتے ہیں جس نے اپنے زمانے کے تقاضوں پر بھی غور وخوض کیا ہے، دین کو صرف دین ہی نہیں دنیا اور اہل دنیا کے نقطئہ نظر سے بھی دیکھا ہے اور قاری کی نفسیاتی تربیت پر بھی توجہ صرف کی ہے .... امین الدین شجاع الدین ایک ایسے ادیب اور صحافی ہیں جن کے اندر وسیع القلبی بھی ہے، نفسیات شناسی بھی اور اپنے مدعا کو بغیر کسی اغلاق کے شفاف انداز میں بیان کردینے کی اہلیت بھی، ان کی زبان شستہ، اسلوب بیان دل نشیں اور طریق اظہار دانش ورانہ ہے۔ وہ مشکل سے مشکل مسئلے کو سہل گفتاری سے ااشنا کرنے کا ہنر جانتے ہیں، اسی باعث ان کے مضامین کے ابتدائی جملے ہی اتنے جاذب توجہ ہوتے ہیں کہ پورا مضمون پڑھ لینا ناگزیر محسوس ہونے لگتا ہے-

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے