اسلام کانظام طلاق


اسلام کانظام طلاق

منورسلطان ندوی
(رفیق علمی دارالافتاء،دارالعلوم ندوۃ العلماء،لکھنؤ)
مذہب اسلام کی سب سے بڑی خوبی اوراس کاسب سے بڑاامتیازیہ ہے کہ اس کی تعلیمات انسانی ذہن کاتیارکردہ نہیں ،اورنہ ہی یہ زمانہ کے تجربات کانتیجہ ہیں بلکہ یہ تعلیمات ہیں اس ذات برحق کی جس نے یہ کائنات بنائی،جس نے انسانوں کوپیداکیااوراس کے لئے تمامترسہولتیں پیداکیں، انسان کوپیداکرنے والاانسان کے مزاج اورمذاق اس کی ضرورتوں سے زیادہ واقف ہے،جس نے دنیاکانظام بنایااسی ذات برحق نے دنیامیں انسان کے رہنے کا طریقہ بھی بتایا،انہی کے بتائے ہوئے طریقہائے زندگی کے آخری ایڈیشن کانام ’شریعت محمدی ‘ہے،رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ بعثت کی تکمیل ہوگئی،اوریہ شریعت ہمیشہ ہمیش کے لئے انسانی رہنمائی کے لئے باقی رہے گی،انسان کی کامیابی وکامرانی شریعت کے اتباع میں مضمرہے۔
اسلامی شریعت کااصل مصدروسرچشمہ قرآن وحدیث ہے،اورپھران دونوں مصادرکی روشنی میں اجماع اورقیاس کاوجودہوتاہے،انسانی زندگی کے تمام مسائل انہی چاروں مصادرسے ماخوذہیں،زندگی کے مختلف ابواب سے متعلق جواحکامات دئے گئے ہیں ان میں بعض منصوص ہیں،آیات بھی اورآحادیث بھی،ان منصوص مسائل میں انسانی عقل وفکرکاکوئی دخل نہیں ہے،مثلانمازکے اوقات،نمازکی رکعات،زکوۃ کی مقداروغیرہ،اوربہت سے مسائل ایسے ہیں جن سے متعلق قرآن وحدیث میں نص توموجودہے،مگروہ صریح نہیں ہے ،ایسے مسائل میں صحابہ کرام،خلفاء راشدین،کبارتابعین اور پھر ائمہ مجتہدین نصوص اوراجتہادکے اصول وضوابط کی روشنی میں اجتہادکرکے مسائل مستنبط کرتے ہیں،زندگی کے تمام ابواب مثلا عبادات،معاملات،عائلی مسائل،مالی مسائل،جنایات وغیرہ کے احکام انہی دوطرح کے مسائل پرمشتمل ہیں۔
اسلامی شریعت میں عائلی مسائل مثلانکاح وطلاق ،عدت،نفقہ،حضانت ،اورمیراث و وصیت وغیرہ کا پورانظام موجودہے،ان میں سے ہرباب سے متعلق کلی اورجزئی تمام مسائل متعین ہیں،اورسارے احکامات خدائی احکامات ہیں،اس لئے یہ انسانی مصالح اوران کی ضروریات کے مکمل مطابق ہیں،یہی سب سے بہترنظام حیات ہے، اس سے بہترتوکیااس کے مقابلہ میں انسانی فکرکاتخلیق کردہ کوئی نظام یاازم ہوبھی نہیں سکتاہے۔
شریعت میں جہاں نکاح کاپورانظام بتایاگیاوہیں میاں بیوی کے درمیان نزاع اوراختلافات کودورکرنے کاطریقہ بھی بتایاگیاہے،نکاح کے ذریعہ دواجنبی ایک رشتہ میں بندھ جاتے ہیں اورایک ہوجاتے ہیں،پھردونوں کے مابین اکثراچھی ہم آہنگی ہوجاتی ہے ،اوردونوں خوشی خوشی ایک ساتھ رہتے ہیں،اورکبھی ایسابھی ہوتاہے کہ مزاج کے فرق،اوردیگراسباب کی بناء پرہم آہنگی نہیں ہوپاتی،جس کے نتیجہ میں دونوں کے مابین ایک خلیج حائل ہونے لگتی ہے،کبھی ایک دوسرے کو سمجھانے،خاندان کے بڑوں کے سمجھانے یاایک دوسرے کے تئیں نرم پڑنے کی صورت میں یہ اختلافات ختم ہوجاتے ہیں اورکبھی یہ اختلافات مزیدبڑھ جاتے ہیں،یہاں تک دونوں کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے،دوافرادکی لڑائی میں پوراخاندان متاثرہونے لگتاہے،ان ناخوش گوار صورتوں اورپیچیدہ عائلی مسائل کے حل کاطریقہ بھی قرآن نے بیان کیاہے۔
میاں بیوی کے درمیان باہمی نزاع کودورکرنے کاقرآنی طریقہ
زوجین کے درمیان درآنے والے اختلافات اورشقاق کودورکرنے کاجوطریقہ قرآن میں بتایاگیاہے ان کواپناناچاہیے،اوران مراحل کوپوراکرنے کے بعدہی طلاق کافیصلہ کرناچاہیے،آپسی معاملات کوسلجھانے کاطریقہ درج ذیل ہے:
۱۔بیوی کے ساتھ حسن سلوک:قرآن میں بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم باربار آیاہے:
عاشروہن بالمعروف(سورہ نساء:۱۹)
ترجمہ:اوربہنوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزربسرکیاکرو۔ 
شوہربیوی کے ساتھ حسن سلوک کرے تو بہت سے مسائل یاتوپیداہی نہیں ہوتے یاپیداہونے کے بعدحل ہوجاتے ہیں،عورتیں شوہریاسسرال کی بعض ناگوارباتوں کوشوہرکے حسن سلوک کی وجہ گوارکرلیتی ہیں۔ 
۲۔میاں بیوی ایک دوسرے سے متعلق تکلیف کوبرداشت کریں:قرآن میں صبرکرنے اورباہم نزاع کی صورت میں برداشت کرنے اورانگیزکرنے کاحکم ہے اوربتایاگیاہے کہ ہوسکتاہے کہ اگرتمہیں کوئی ایک چیزبری لگی تودوسری چیزاچھی لگے گی:
عاشروہن بالمعرو ف فان کرہتموہن فعسی ان تکرہوا شیئاویجعل اللہ فیہ خیراکثیرا(سورہ نساء:۱۹)
ترجمہ:بیویوں کے درمیان خوش اسلوبی سے گزربسرکیاکرو،اگروہ تمہیں ناپسندہوں توعجب کیاکہ تم ایک شئی کوناپسندکرواوراللہ تعالی اس کے اندرکوئی بڑی بھلائی رکھ دے۔
صحیح مسلم کی روایت ہے:لایفرک مومن مومنۃ ان کرہ منہاخلقارضی منہااخری(صحیح مسلم)
۳۔میاں بیوی ایک دوسرے کوسمجھائیں،اس طرح بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
۴۔بسترالگ کرکے اعراض کرنا:اگرافہام وتفہیم سے باہمی اختلافات دورنہ ہوں توحکم ہے کہ مرداپنابسترالگ کرلیں، اس طرح اعراض کرنے کی صورت میں سمجھداربیوی مسائل پرغورکرنے پرمجبورہوگی،اورشوہرکی شکایات کودورکرنے کی کوشش کرے گی۔
۵۔معمولی تادیب:اس کے بعدبھی کام نہ چلے اوربیوی کی نادانی اورجہل بڑھتاجائے تومعمولی اندازسے مارنے کابھی حکم ہے،احادیث میں مارنے کاطریقہ بھی بتایاگیاہے۔
ان اقدام کے بعداگرمصالحت ہوجاتی ہے تومردوں کوحکم ہے کہ اب کوئی الزام عورت کونہ دیں بلکہ خوشی خوشی ساتھ رہیں،ارشادہے:
واللاتی تخافون نشوزہن فعظوہن واہجروہن فی المضاجع واضربوہن فان اطعنکم فلاتبغواعلیہن سبیلاان اللہ کان علیاکبیرا(سورہ نساء:۳۴)
ترجمہ:اورجوعورتیں ایسی ہوں کہ تم ان کی سرکشی کوعلم رکھتے ہوتوانہیں نصیحت کرواورانہیں خواب گاہوں میں تنہاچھوڑدو،اورانہیں مارو،پھراگروہ تمہیاری اطاعت کرنے لگیں توان کے خلاف بہانے نہ ڈھونڈو،بے شک اللہ بڑاہی رفعت والابڑاہی عظمت والاہے۔
۶۔دونوں خاندان کے کچھ افرادجمع ہوں اورمسئلہ کوحل کرنے کی کوشش کریں:ان مراحل کے بعدبھی اگرمسائل حل نہ ہوں توآگے حکم ہے کہ دونوں طرف کے ذی ہوش اورمعاملہ فہم افرادجمع ہوں اورمیاں بیوی کی باتیں سن کرجومناسب سمجھیں فیصلہ کریں،اللہ تعالی فرماتے ہیں اگردونوں حکم مصالحت کرنا چاہیں گے توضروراللہ تعالی انہیں مصالحت کی توفیق عطافرمائے گا:
وان خفتم شقاق بینہمافابعثواحکمامن اہلہ وحکمامن اہلہاان یریدااصلاحایوفق اللہ بینہماان اللہ کان علیماخبیرا(سورہ نساء:۳۵) 
ترجمہ:اوراگرتمہیں دونوں کے درمیان کشمکش کاعلم ہوتوتم ایک حکَم مردکے خاندان سے اورایک حکم عورت کے خاندان سے مقررکرو،اگردونوں کی نیت اصلاح حال کی ہوتواللہ دونوں کے درمیان موافقت پیداکردے گا،بے شک اللہ بڑاہی علم رکھنے والااورہرطرح سے باخبرہے۔
ان مراحل سے گزرنے کے بعدبھی اگرآپسی ناچاقی باقی رہے تواب شوہرکوایک طلاق رجعی دینے کااختیارہوگا۔
یہاں یہ واضح رہے کہ میان بیوی کی آپسی ناچاقی کودورکرنے کی جومذکورہ ہدایات قرآن نے دی ہیں یہ اختیاری ہیں،لزومی نہیں،یعنی اگرکوئی ان مراحل کے بغیرطلاق دے دیتاہے توطلاق واقع ہوجائے گی،البتہ مذکورہ ہدایات پرعمل نہ کرنے کاگنہ گارہوگا۔
طلاق کی حیثیت
طلاق کی مشروعیت ضرورتاہوئی ہے،ورنہ اللہ تعالی کے نزدیک یہ بہت ہی ناپسندیدہ عمل ہے،رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
ابغض الحلال الی اللہ تعالی الطلاق۔(سنن ابی داؤد،کتاب الطلاق،باب فی کراہیۃ الطلاق،حدیث نمبر:۲۱۸۰)
اللہ تعالی کوحلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندطلاق ہے۔
جائزچیزوں میں سب سے ناپسندیدہ اوراللہ تعالی کوغصہ دلاوالی چیزطلاق ہے،آپ ﷺ نے فرمایا:مااحل اللہ شیئاابغض الیہ من الطلاق۔(سنن ابی داؤ،کتاب الطلاق،باب فی کراہیۃ الطلاق،حدیث نمبر:۲۱۷۹،المستدرک علی الصحیحین،کتاب الطلاق،ج۲،ص:۲۱۴،حدیث نمبر:۲۷۹۴)
ایک روایت میں طلاق کے بارے میں بڑاسخت لفظ آیاہے،روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
تزوجواولاتطلقوافان الطلاق یہتزلہ عرش الرحمن۔(الفوائدالمجموعہ لاحادیث الموضوعۃ،ج۱،ص:۱۳۹)
نکاح کرو،طلاق نہ دیاکرو،کیونکہ طلاق سے اللہ رب العزت کاعرش ہل جاتاہے۔
اس روایت کومحدثین نے ضعیف کہاہے۔(حوالہ سابق)
طلاق کی تعریف
نکاح کے ذریعہ میاں بیوی کے درمیان جورشتہ وجودمیں آتاہے اس کوختم کرنے کانام طلاق ہے،رفع قیدالنکاح حالااومآلا بلفظ مخصوص(الفتاوی الہندیۃ،ج۱،ص:۳۴۸)
طلاق کی مشروعیت کی دلیل 
قرآن کی متعددآیات سے طلاق کامشروع ہونامعلوم ہوتاہے،مثلا:
الطلاق مرتان فامساک اوتسریح باحسان،(سورہ بقرہ:۲۲۹)
ترجمہ:طلاق تودوہی بارہے،اس کے بعدیاتورکھ لیناہے قاعدہ کے مطابق یاخوش اسلوبی کے ساتھ چھوڑدیناہے۔
یاایہاالنبی اذاطلقتم النساء فطلقوہن لعدتہن(سورہ طلاق :۱)
ترجمہ:اے نبی! جب ت اپنی عورتوں کودینے لگوجن کے خلوت ہوچکی ہے توان کوعدت سے پہلے طلاق دو۔
احادیث میں اس موضوع پرکثرت سے روایتیں موجودہیں،مثلاحضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی زوجہ کوطلاق دیاتوحضرت عمرنے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا،آپ ﷺ نے فرمایا:مرہ فلیراجعہاثم یطلقہااذاطہرت۔۔۔(صحیح البخاری،کتاب الطلاق،باب قولہ یاایہاالنبی اذاطلقتم النساء،حدیث نمبر:۵۲۵۱)
تمام مسلمان طلاق کے مشروع ہونے کے قائل ہیں،علامہ ابن قدامہ نے طلاق کے جائزہونے پرمسلمانوں کااجماع نقل کیا (المغنی، ج۷، ص:۹۶)
انسانی عقل کاتقاضہ بھی یہی ہے کہ طلاق ہو،کیونکہ شوہروبیوی کے درمیان جب ہم آہنگی نہ ہو،اورنکاح کے رشتہ کوباقی رکھناممکن نہ ہو،ایسی صورت میں نکاح کی بنیادپر بیوی کوروکے رکھناجس کے ساتھ رہناممکن نہ ہو،نکاح کے مقصدکوختم کرناہے،اوران مصالح کوضائع کرناہے جن کے تکمیل کی خاطرنکاح کی مشروعیت ہوئی ہے۔
طلاق کی حکمت
اللہ تعالی نے اہم مقاصدکی تکمیل کے لئے نکاح کومشروع فرمایاہے،اوریہ حقیقت ہے کہ نکاح سے جومقاصدمطلوب ہیں وہ اسی صورت میں پورے ہوسکتے ہیں جب شوہروبیوی کے درمیان اچھے تعلقات ہوں،حسن معاشرت ہو، باہم محبت ومودت ہو،ایک دوسرے کے لئے ہمدردی ہو،شریعت میں حسن معاشرت کی بڑی تاکیدکی ہے،متعددآیات میں اس کاحکم آیاہے،اوران تمام چیزوں سے بچنے کی تاکیدفرمائی گئی ہے جن کی بنیادپریہ رشتہ کمزورہوتاہے یاٹوٹتاہے،لیکن ان سب کے باوجوداگرمیان بیوی میں نباہ کی صورت نہیں ہو،دونوں کاساتھ رہنامشکل ہوجائے، شوہراپنی بیوی کی اصلاح سے عاجزہویابیوی اپنے شوہرکوسمجھانے سے قاصرہوجائے،ایسی صورت میں شریعت نے میاں بیوی کوتاریکی میں بھٹکنے کے لئے نہیں چھوڑاہے بلکہ ان کی رہنمائی کی ہے،اوردونوں کے مسائل کاحل پیش کیاہے،اسی حل کانام طلاق ہے،گویاطلاق کی مشروعیت میاں بیوی کے درمیان اس منافرت کوختم کرنے کے لئے ہے،جس کادوسراکوئی حل نہیں ہے۔ 
ایسانہیں ہے کہ اسلام میں طلاق کوئی پسندیدہ بات ہو،بلکہ یہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے،لیکن اس کے باوجوداس کی مشروعیت رشتہ ازدواج کے لئے بطورعلاج کے ہے،میاں بیوی کے درمیان پیش آنے والے ناقابل حل مسائل کاخاتمہ اسی کے ذریعہ ممکن ہے،اگرطلاق نہ ہوتومیاں بیوی کے درمیان کی منافرت سے نہ صرف دونوں کی زندگی جہنم بنے گی بلکہ پوراخاندان اس آگ میں جلے گا۔
طلاق ایک معتدل حل ہے،اس طورپراگرکسی وجہ سے شوہرکوبیوی پسندنہیں ہے یااس کے ساتھ نباہ مشکل ہے،ایسی صور ت میں اگرطلاق کاراستہ نہ ہوتوپھرمردایسی عورت پرظلم کے پہاڑتوڑے گا،اوراسے اپنے راستے سے ہٹانے کے لئے شرعی حدودسے آگے بڑھ جائے گا،اس لئے نکاح کے رشتہ کوختم کرنے کے لئے کوئی راستہ ضروری ہے،اوراسی راستہ کانام طلاق ہے۔
طلاق کاحکم
طلاق دینے کی مختلف صورتیں ہیں،ہرصورت میں طلاق دیناگناہ نہیں ہے،بلکہ بعض صورتوں میں طلاق دیناہی واجب ہوجاتاہے،فقہاء نے حکم کے اعتبارسے طلاق کی پانچ قسمیں کی ہیں:واجب،مستحب،مباح،حرام،مکروہ،فقہ کی اکثرکتابوں میں اس کاذکر ہے:
۱۔واجب:جب بیوی کے حقوق کی ادائیگی ممکن نہ ہو،مثلاشوہرنامردہو،بیوی فاحشہ ہو،اسی طرح جب دونوں حکم مصالحت کی کوشش میں طلاق کوہی بہترحل قراردیں،ان صورتوں میں طلاق دیناواجب ہوجاتاہے۔
۲۔مستحب:جب بیوی احکام خدواندی کی تعمیل میں کوتاہی کرے،مثلا نمازچھوڑتی ہو،یاعورت کی زبان یاعمل سے مردکوتکلیف پہونچتی ہو،یاآپسی نزاع کی وجہ سے عورت طلاق کامطالبہ کرے،ان صورتوں میں طلاق دینامستحب ہے۔
۳۔مباح:جب طلاق دینے کی ضرورت ہومثلاعورت بداخلاق ہو،شوہرکے ساتھ اچھابرتاؤنہ کرتی ہو،شوہرسے محبت نہیں کرتی ہو،ان صورتوں میں طلاق دینا مباح ہے۔
۴۔حرام:طلاق دینے کے بعدعورت کے گناہ میں ملوث ہونے کایقین ہو،یاوہ دوسرانکاح نہ کرسکتی ہو،اسی طرح شریعت میں بتائے ہوئے طریقہ کے خلاف طریقہ سے طلاق دینا،مثلاناپاکی کے ایام میں طلاق دینا،ایک ساتھ تین طلاق دینا،ان صورتوں میں طلاق دیناحرام ہے،طلاق توواقع ہوجائے گی،البتہ شوہرگنہ گارہوگا۔
۵۔مکروہ:بلاضرورت طلاق دیناجس سے عورت کونقصان پہونچنے کااندیشہ ہو۔(الموسوعۃ الفقہیۃ،ج۹،ص:۲۹)
طلاق اصلامباح ہے یامکروہ؟
فقہاء کے مابین اس بارے میں اختلاف رائے پایاجاتاہے کہ طلاق دینااصلامباح ہے یامکروہ،فقہاء احناف میں امام سرخسی اورعلامہ حصکفی کی رائے یہ ہے کہ یہ مباح ہے،جبکہ علامہ کاسانی ،علامہ ابن ہمام اورفتاوی ہندیہ میں مذکوررائے یہ ہے کہ طلاق دینااصلامکروہ ہے،ضرورتاجائزہے۔(الفتاوی الہندیہ،ج۱،ص:۳۴۸) 
طلاق دینے کاطریقہ
شریعت نے جب طلاق کومشروع کیاہے تواس کاطریقہ بھی متعین کیاہے تاکہ طلاق عورت کے لئے باعث رحمت ہو،باعث زحمت نہیں،اس لئے شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق طلاق کوطلاق سنت اوراس کے برعکس طلاق کوطلاق بدعت کہاجاتاہے،اس اعتبارسے طلاق کی درج ذیل تین قسمیں ہیں:
طلاق احسن:طلاق دینے کاسب سے بہترطریقہ یہ ہے کہ شوہراپنی بیوی کوایک طلاق رجعی دے،ایسی پاکی کی حالت میں جس میں اس سے تعلق قائم نہ کیاہو۔
طلاق حسن:ہرمہینہ میں پاکی کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے،اسی طرح تین مہینوں تک کرے ۔
اس طرح سنت کے مطابق طلاق دینے کے تین شرائط ہیں:
۱۔معقول ضرورت کی بنیادپرطلاق دے۔
۲۔ایسی پاکی کی مدت میں طلاق دے جب تعلق قائم نہ کیاہو۔
۳۔الگ الگ طلاق دے،ایک ساتھ طلاق نہ دے۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ،ص:۶۹۲۰)
طلاق بدعت:ان دوطریقوں کے علاوہ طلاق کی تمام شکلوں کو طلاق بدعت کہتے ہیں،مثلا ناپاکی(حیض یانفاس)کی مدت میں طلاق دینا،پاکی کی حالت میں طلاق دیناجب بیوی سے تعلق قائم کرچکاہو،ایک ساتھ دویاتین طلاق دینا ، ایک ہی پاکی کی مدت دویاتین طلاق دینا،ان صورتوں میں طلاق توواقع ہوجاتی ہے،البتہ طلاق دینے والاگنہ گارہوتاہے۔
حضرت عمرکے صاحب زادے عبداللہ بن عمرنے اپنی اہلیہ کوناپاکی کی حالت میں طلاق دی تھی یہ خبر سن کررسول اللہ ﷺ بہت غصہ ہوئے(صحیح البخاری)کیونکہ ناپاکی کے زمانہ میں طلاق دینے کی وجہ سے عورت کی عدت لمبی ہوجاتی ہے۔
محمودبن لبیدبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کواطلاع ملی کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دی تھیں توآپ ﷺ غصہ سے کھڑے ہوگئے اورفرمایا’’ایلعب بکتاب اللہ عزوجل وانابین اظہرکم‘‘(کیاکتاب اللہ کے کھلواڑکیاجائے گاحالانکہ میں تمہارے درمیان موجودہوں)آپ کے غصہ کودیکھ کرایک صحابی نے عرض کیااے اللہ کے رسول کیامیں اس کی گردن نہ اڑادوں۔ (سنن النسائی،کتا ب الطلاق،باب الثلاث المجموعۃ ومافیہ من التغلیظ،حدیث نمبر:۳۴۱۴)
تین طلاق
تین طلاق اگرتین ایسے پاکی کے ایام میں دیا جب تعلق قائم نہ کیاہو،تویہ طلاق حسن ہے،جمہورائمہ کے نزدیک اس سے تین طلاق واقع ہوتی ہے۔
تین طلاق کی ایک شکل یہ ہے کہ کوئی ایک ہی ساتھ تین طلاق دے یاایک ہی طہرمیں تین طلاق دے،ایسی صورت کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے:
۱۔اکثرصحابہ،خلفاء راشدین اورائمہ اربعہ کے نزدیک اس سے تین واقع ہوتی ہے۔
۲۔علامہ ابن تیمیہؒ ،ان کے شاگرعلامہ ابن قیمؒ ،اسحق بن راہویہؒ اورشیعوں کے فرقہ زیدیہ کے نزدیک ایک طلاق واقع ہوگی۔
۳۔شیعوں کے فرقہ امامیہ کے نزدیک ایسی صور ت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ،ص:۶۹۲۸)
طلاق کے طریقہ سے صاف واضح ہوتاہے کہ اسلام میں الگ الگ پاکی کی مد ت میں طلاق دینے کاحکم ہے ،نیزیہ بھی شرط ہے کہ جس پاکی کی مدت میں تعلق نہ قائم کیاہو،تاکہ مردمیں رجوع کرنے کی چاہت باقی رہے،اور ہرمرحلہ میں سوچنے اورغوروفکرکرنے کاموقع ملے،اسی طرح عورت کے لئے بھی اپنی اصلاح کرنے کی مہلت ہو،اگرعورت کی اصلاح ہوجاتی ہے توپھرمزیدطلاق کی ضرورت باقی نہیں رہے گی،اورایک طلاق کے بعدبھی اصلاح نہ ہوتو دوسرے مہینہ دوسری طلاق دینے کی گنجائش ہوگی۔
عدت کانفقہ
طلاق کے بعدعدت گزارناواجب ہے،حمل نہ ہونے کی صورت میں عدت تین ماہ اورحمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک عدت ہے،اس پوری مدت کانفقہ شوہرپرواجب ہے،ارشادہے:وان کن اولات حمل فانفقواعلیہن حتی یضعن حملہن (سورہ طلاق:۶)
ترجمہ:اگروہ مطلقہ عورتیں حمل والیاں ہوں توحمل پیداہونے تک ان کاخرچ دو۔
عدت کے بعدعورت کانفقہ
عدت کے بعدجب عورت نکاح سے آزادہوجائے توسب سے بہتریہ ہے کہ وہ کسی مردسے نکاح کرلے،شریعت میں دوسری شادی کی بڑی تاکیدآئی ہے،ہمارے معاشرہ میں اس کارواج بہت کم ہے،اگرایسی عورت کی دوسری شادی ہوجائے تواس کی پوری ذمہ داری دوسرے شوہرپرعائد ہوگی۔
دوسری شادی نہ ہونے کی صورت میں لڑکی کے والدین ،اولاد،بھائی،چچااوراس طرح دوسرے رشتہ داروں پراس کانفقہ واجب ہے،اوریہ شرعالازم ہے،اگرکسی عورت کے یہ نسبی رشتہ دارنہ ہوں تواصلاتواصلایہ حکوت وقت کی ذمہ داری ہے کہ ایسی عورتوں کی کفالت سرکاری خزانہ سے کی جائے،لیکن ہندوستان میں فی الحال بظاہریہ مشکل ہے اس لئے مسلم سماج کی ذمہ داری ہے کہ ایسی عورتوں کی کفالت کاانتظام کرے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے