کلیم احمدعاجزؔ :فکروفن پرایک نظر

کلیم احمدعاجزؔ :فکروفن پرایک نظر
ڈاکٹرزاہدحسین ندوی
(مولاناحبیب الرحمن خاں شیروانی لائبریری ،معہددارالعلوم ندوۃ العلماء،لکھنؤ)

تاریخ عالم میں انسانوں کے ہاتھوں پیداکردہ انسانی مصائب وآلام ،ظلم وسفاکیت اورقہرسامانی کی بھی ایک طویل داستان رہی ہے،انگریزوں کے پنجۂ استبدادسے ہندوستان کی آزادی سے کچھ قبل ہی ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان منافرت ومخاصمت اورعصبیت وعداوت کاایسامنظرنامہ تیارکیا گیا جو برصغیرہندوپاک میں ایک سرخ آندھی کاپیش خیمہ ثابت ہوا،بغض وعناداورنفرت وعداوت کایہ ایساسموم وصرصرتھاجس نے آن کی آن میں بے شمار سرسبزوشاداب گلستانوں کوخاکسترکرکے رکھ دیا،انہی اجڑے گلستانوں کی یادگارایک ’’شاخ نہال غم ‘‘بادسموم کے آتشیں جھونکوں کی زدمیں آنے سے بچ گئی، کیونکہ اسے کہانی سناناتھی اپنے چمنستان محبت کے تاراج کئے جانے کی ،اسے رودادبیان کرناتھی آتش وخون کی گرم بازاری ،اورانسانی شقاوت وسنگ دلی کی سیاہ کاری کی،اسے داستان رقم کرناتھی انسانی ظرف وضمیرکے بدلتے رنگ وروپ اوراس کی ظلمت وتباہ کاری کی، اسے پیغام دیناتھانوع انسانی کواس کے مقام ومرتبے کی معرفت وشناخت کا،اسے احساس جگاناتھامحبت وانسانیت کی لازوال قدروں کی تب وتاب اورروح پروربہاروں کا،وہ’’شاخ نہال غم‘‘ معروف وممتازشاعرکلیم احمدعاجزؔ کی ذات وشخصیت ہے۔
کلیم عاجزؔ کی پوری شاعری عزم واستقلال ،بلندنظری وعلوہمتی،حمیت وخودداری ،اخوت ومحبت ،غم خواری وغم گساری ،جذبہ تعمیروبہبودانسانیت اور عظمت کرداروعمل کے اعلی ترین پیغاما ت کی تابناک مرقع ہے ۔
شاعر کاضبط وتحمل ،اس کی عالی ظرفی وبلندنگاہی اوراخلاص ومروت نے اس کی زندگی کے المیہ اورغم واندوہ کے امنڈتے ہوئے جذبات کوانسانی فلاح وبہبود، اس کی خیرطلبی وخیراندیشی اورانسانیت سازی وانسان نوازی میں تبدیل کردیاہے،اس کادل دردمندحالات ووقت کے پیچ وخم کودرست کرنے اورزمانہ کے گیسوئے برہم کوآراستہ کرنے میں پورے عزم کے ساتھ مصروف عمل نظرآتاہے۔
شاعرکواپنامتاع غم اس لئے عزیزترہے کہ یہی وہ قوت ،وہ توانائی اوروہ تحریک ہے جونہ صرف انسانیت کی چارہ سازی اورمسیحائی کرسکتی ہے بلکہ زندگیوں میں عہدآفریں انقلاب پیداکرسکتی ہے،دوغزلوں کے کچھ اشعارملاحظہ ہوں:
غم دل ہی غم دوراں غم جانانہ بنتا ہے
یہی غم شعر بنتا ہے یہی افسانہ بنتا ہے
اسی سے گرمیِ دار و رسن ہے انقلابوں میں
بہاروں میں یہی زلف وقد جانانہ بنتا ہے
سروں کے خُم صراحی گردنوں کی جام زخموں کے
مہیا جب یہ ہولیتے ہیں تب میخانہ بنتاہے
بگڑتاکیاہے پروانے کا جل کر خاک ہونے میں
کہ پھرپروانے ہی کی خاک سے پروانہ بنتاہے
نگاہ کم سے میری چاک دامانی کومت دیکھو
ہزاروں ہوشیاروں میں کوئی دیوانہ بنتاہے
بڑا سرمایہ ہے سب کچھ لٹادینامحبت میں
فقیرانہ لباس آتے ہی دل شاہانہ بنتاہے
میرے ہی دونوں ہاتھ آتے ہیں کام ان کے سنورنے میں
دکھاتاہے کوئی آئینہ کوئی شانہ بنتاہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب تک ہم اہل درد پکارے نہ جائیں گے
گیسو تیرے کسی سے سنوارے نہ جائیں گے
بازی وفاکی ہارکے پیارے نہ جائیں گے
کیادن ترے ستم کے گزارے نہ جائیں گے
ٹھہرے ہوئے ہیں پلکوں پہ آنسو اسی لئے
بے روشنی کئے یہ ستارے نہ جائیں گے
دریائے غم میں پانی اگرچہ ڈباؤہے
ہم ڈوبنے کے ڈر سے کنارے نہ جائیں گے
یہ شہسوار وقت ہیں اتنا نشے میں چور
گرجائیں گے اگریہ اتارے نہ جائیں گے
پوچھے نہیں ہے آج جنہیں کوئی دیکھنا
کل یہ کہاں کہاں سے پکارے نہ جائیں گے
کرتے رہو کلیمؔ اشاروں میں گفتگو
جب تک غزل رہے گی اشارے نہ جائیں گے
شاعرکی فراخ دلی ،کشادہ قلبی اورمحبت ومروت کادائرہ صرف دوستوں اورعام انسانوں تک محدودنہیں،بلکہ اپنے دشمنوں ،جفاکاروں اورزخم پہونچانے والوں کی بہی خواہی کاجذبہ بھی اس کے دل میں موجزن ہے اوراپنے فیضان محبت ومروت سے انہیں بھی محروم نہیں رکھناچاہتا،اوران کی زندگی کوبھی روشن وآراستہ دیکھناچاہتاہے،اشعارملاحظہ ہوں:
نہ اہل بت کدہ چاہیں نہ ارباب حرم چاہیں
زمانے میں جسے کوئی نہ چاہے اس کو ہم چاہیں
ہم ایسے سیرچشم اوروں سے کیاچشم کرم چاہیں
خدا توفیق دے توبس تجھ ہی کو اے صنم چاہیں
ستم کرلیں جہاں تک تیرے ارباب ستم چاہیں
جوتوچاہے ہے ہم سے اے زمانہ کیسے ہم چاہیں
جنوں جب چاہتاہے راہ پیدا کر ہی لیتاہے
وہ ڈالیں گیسوؤں میں اپنے جتناپیچ وخم چاہیں
بہت دیکھاہے دل اہل کرم کا ہم فقیروں نے
فقیروں کابھی دل دیکھیں اگر اہل کرم چاہیں
ابھی توجس طرح وہ چاہتے ہیں دن گزرتے ہیں
وہ دن آئے کہ دن ہم یوں گزاریں جیسے ہم چاہیں
۔۔۔
گو ستم نے تیرے ہرایک طرح مجھے ناامیدبنادیا
یہ میری وفاکاکمال ہے کہ نباہ کرکے دکھادیا
کوئی بزم ہوکوئی انجمن یہ شعاراپناقدیم ہے
جہان روشنی کی کمی ملی وہیں اک چراغ جلادیا
تجھے اب بھی میرے خلوص کانہ یقین آئے توکیاکروں
ترے گیسوؤں کوسنوارکے تجھے آئینہ بھی دکھادیا
خودی وخودداری،خوداعتمادی وخودانحصاری انسانیت کی آبرواوراس کاناموس ہے ،یہ سلامت ہے تواس کاخوش آئندمستقبل سلامت ہے،کلیم عاجزکے یہاں یوں تویہ پیغام عام ہے ،بالخصوص نوجوان نسلوں کے پس منظرمیں،پیاربھرے اسلوب میں یہ اشعارملاحظہ ہوں:
غرض کسی سے نہ اے دوستوں کبھو رکھیو
بس اپنے ہاتھ یہاں اپنی آبرو رکھیو
زمانہ سنگ سہی آئینہ کی خو رکھیو
جودل میں رکھیو وہی سب کے روبرو رکھیو
نہ کیجیو کہیں توہین اپنے چلوکی
کسی سے مت ہوس ساغر و سبو رکھیو
چراغ گھر میں میسر نہیں رہے نہ سہی
جلائے دل میں مگر شمع آرزو رکھیو
زبان درد بہت کم سمجھنے والے ہیں
یہاں نہ ہرکس وناکس سے گفتگو رکھیو
اڑانہ دیجیو سب غم کی رنگ رلیوں میں
بچاکے دل کے پیالے میں کچھ لہو رکھیو
یہی بچائے گی شمشیر وقت سے عاجزؔ
ہماری بات قریب رگ گلو رکھیو
۔۔۔
گلوں سے راہ رکھیو،رسم رکھیو،رابطہ رکھیو
مگران بے وفاؤں سے نہ امیدوفا رکھیو
کچھ انداز خرد رکھیوجنوں کی کچھ ادا رکھیو
نظر ہوشیار رکھیو دل کو دیوانہ بنا رکھیو
اسے لوٹیں گے سب لیکن اسے کوئی نہ لوٹے گا
نہ رکھیوجیب میں کچھ دل میں لیکن حوصلہ رکھیو
نہ جانے کون کتنی پیاس میں کس وقت آجائے
ہمیشہ اپنے میخانے کادروازہ کھلارکھیو
یہ ماناہم نے کہ نازک بہت ہے دل کاآئینہ
مگراس آئینہ کوٹوٹنے سے مت بچارکھیو
اندھیرے اورہوں گے روشنی لوگ اورمانگیں گے
چراغ فکر وفن جتنے جلا سکیو جلا رکھیو
کلیم عاجزکے یہاں ایسی معیاری اورولولہ انگیزغزلوں کی کمی نہیں ہے جن میں شعری جمال وجلال کے ساتھ ندرت فکروخیال کاایک سیل رواں نظرآتاہے،بطورمثال دوغزلوں کے کچھ اشعارملاحظہ ہوں:
نظر کوآئینہ دل کو ترا شانہ بنادیں گے
تجھے ہم کیاسے کیااے زلف جانانہ بنادیں گے
ہمیں اچھاہے بن جائیں سراپاسرگذشت اپنی
نہیں تولوگ جوچاہیں گے افسانہ بنادیں گے
امیدایسی نہ تھی محفل کے ارباب بصیرت سے
گناہ شمع کوبھی جرم پروانہ بنادیں گے
ہمیں توفکردل سازی کی ہے دل ہے تودنیاہے
صنم پہلے بنادیں پھر صنم خانہ بنادیں گے
نہ اتناچھیڑکراے وقت دیوانہ بناہم کو
ہوئے دیوانے ہم توسب کودیوانہ بنادیں گے
نہ جانے کتنے دل بن جائیں گے ایک دل کے ٹکرے سے
وہ توڑیں آئینہ ہم آئینہ خانہ بنادیں گے
۔۔۔
تمہاری طرح زلفوں میں شکن ڈالے نہیں ہیں ہم
کہیں گے بات سیدھی پیچ وخم والے نہیں ہیں ہم
گلوں کی طرح ہم نے عمرکانٹوں میں گزاری ہے
ہیں اہل نازلیکن نازکے پالے نہیں ہیں ہم
ہماری وضع پر شمشیروالوں کو بھی حیرت ہے
بھرے ہیں زخم سے لیکن سپرڈالے نہیں ہیں ہم
ہمیں سے عشق کا معیار اونچاہے زمانے میں
حسیں وہ کیاہے جس کے چاہنے والے نہیں ہیں ہم
اسی محفل ہی پرکیا منحصرہے کوئی محفل ہو
چراغوں میں کہاں اپنا لہو ڈھالے نہیں ہیں ہم
تمہیں شعلہ بیاں شعلہ دہن ہو ایسامت سمجھو
زباں کھولیں توکم آتش کے پرَکالے نہیں ہیں ہم
خم میخانہ ہیں ہم ظرف والوں ہی سے ملتے ہیں
ہراک کے ہاتھ میں آجائیں وہ پیالے نہیں ہیں ہم
یہ شیخ وبرہمن ہم سے بگڑکرکیابنالیں گے
خداوالے ہیں ہم دیروحرم والے نہیں ہیں ہم
کلیم عاجزکی پوری شاعری اپنے عہدکی تاریخی دستاویزکی حیثیت رکھتی ہے ،اپنے زمانہ کے حالات وکوائف اوروقت کی رفتاروکردارکومجسم اورمتحرک تصویروں کی شکل میں پیش کرنے میں کلیم عاجزکوجوملکہ اورمہارت حاصل ہے وہ کہیں اورنظرنہیں آتی،اوران کایہ کمال فن آپ بیتی کوجگ بیتی اورجگ بیتی کوآپ بیتی بنادیتاہے،مخصوص زبان واسلوب میں کچھ غزلوں کے اشعارملاحظہ ہوں:
اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلوہو
روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلوہو
رکھناہے کہیں پاؤں تورکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلوہو
دیوانۂ گل قیدیِ زنجیر ہیں اورتم
کیاٹھاٹ سے گلشن کی ہوا کھائے چلو ہو
مئے میں کوئی خامی ہے نہ ساغرمیں کوئی کھوٹ
پینا نہیں آئے ہے توچھلکائے چلو ہو
ہم کچھ نہیں کہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا
تم کیاہوتمہیں سب سے کہلوائے چلو ہو
وہ شوخ ستمگر تو ستم ڈھائے چلے ہے
تم ہوکہ کلیمؔ اپنی غزل گائے چلو
۔۔۔۔۔۔
میرے ہی لہوپرگذر اوقات کرو ہو
مجھ ہی سے امیروں کی طرح بات کرو ہو
دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کوبھی تم مات کرو ہو
ہم خاک نشیں تم سخن آرائے سربام
پاس آکے ملو دورسے کیا بات کرو ہو
ہم کو جوملاہے وہ تمہیں سے توملاہے
ہم اوربھلادیں تمہیں کیا بات کرو ہو
یوں توکبھی منہ پھیرکے دیکھوبھی نہیں ہو
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجرپہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
بکنے بھی دوعاجزکو جو بولے ہے بکے ہے
دیوانہ ہے دیوانے سے کیابات کرو ہو
حالات ووقت کی ستم سازیوں کی بھرپورعکاسی طنزوتغزل کے رنگ وآہنگ میں ملاحظہ فرمائیں:
جداجب تک تری زلفوں سے پیچ وخم نہیں ہوں گے
ستم دنیامیں بڑھتے ہی رہیں گے کم نہیں ہوں گے
دلاسے ان کے جب دردآشنائے غم نہیں ہوں گے
نمک ہی ہوں گے دل کے زخم پرمرہم نہیں ہوں گے
بتان فتنہ گراس سرزمین پرکم نہیں ہوں گے
تمہارے جیسے لیکن فتنہ عالم نہیں ہوں گے
اگربڑھتا رہا یونہی یہ سودائے ستمگاری
تمہیں رسواسربازارہوگے ہم نہیں ہوں گے
جناب شیخ پرافسوس ہے ہم نے توسمجھا تھا
حرم کے رہنے والے ایسے نامحرم نہیں ہوں گے
ادھر آؤتمہاری زلف ہم آراستہ کردیں
جوگیسو ہم سنواریں گے کبھی برہم نہیں ہوں گے
اگرچہ عشق میں مرنے کاخطرہ ہی زیادہ ہے
مگرمرنے کے ڈرسے مرنے والے کم نہیں ہوں گے
سادگی وپرکاری،سہل ممتنع ،سحرکاری ومضمون آفرینی،کلیم عاجزکی شاعری کاخاص وصف ہے،سادہ وسلیس الفاظ میں معانی ومفہوم کا سمندرکوزہ میں میں ڈھل ڈھل کرسامنے آتاچلاجاتاہے،اشعارملاحظہ ہوں:
گذرکرنا یہاں آساں نہیں ہے
یہ دنیاکوچ�ۂجاناں نہیں ہے
محبت پرجسے ایماں نہیں ہے
فرشتہ ہوتوہوانساں نہیں ہے
یہی دیتاہے جینے کاسلیقہ
دل ناداں دل ناداں نہیں ہے
دلُ پردرد وچشمِ نم سلامت
یہ ساماں ہے توکم ساماں نہیں ہے
کہیں گے اورمکررہم کہیں گے
وفاتجھ میں نہیں ہے، ہاں نہیں ہے
ہراک مشکل کاحل دیوانگی ہے
مگردیوانگی آسان نہیں ہے
چمن میں گل ہی کم ہیں رنج یہ ہے
ملال تنگی داماں نہیں ہے
کلیم آخرنکالاجائے ہے کیوں
یہ اہل خانہ ہے مہمان نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔
منہ فقیروں سے نہ پھیرا چاہئے
یہ توپوچھا چاہیے کیاچاہئے
چاہ کا معیار اونچا چاہئے
جونہ چاہیں ان کو چاہا چاہئے
کون چاہے ہے کسی کوبے غرض
چاہنے والوں سے بھاگاچاہئے
چاہتے ہیں تیرے ہی دامن کی خیر
ہم ہیں دیوانے ہمیں کیاچاہئے
بے رخی بھی ناز بھی انداز بھی
چاہیے لیکن نہ اتنا چاہئے
کون اسے چاہے جسے چاہونہ تم
تم جسے چاہو اسے کیا چاہئے
ہم جو کہناچاہتے ہیں کیاکہیں
آپ کہہ لیجئے جوکہناچاہئے
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کاسلیقہ چاہیے
ماضی قریب کی تاریخی سچائیاں کس طنزیہ خوبی ،گھلاوٹ اورپیاربھرے اسلوب میں بیان کی جارہی ہیں ملاحظہ فرمائیں:
تم گل تھے ہم نکھار ابھی کل کی بات ہے
ہم سے تھی سب بہار ابھی کل کی بات ہے
بیگانہ سمجھو غیر کہو اجنبی کہو
اپنوں میں تھاشمار ابھی کل کی بات ہے
آج اپنے پاس سے ہمیں رکھتے ہو دور دور
ہم بِن نہ تھاقرار ابھی کل کی بات ہے
اترا رہے ہوآج پہن کرنئی قبا
دامن تھاتارتار ابھی کل کی بات ہے
آج اس قدر غرور،یہ انداز،یہ مزاج
پھرتے تھے میرخوار ابھی کل کی بات ہے
انجان بن کے پوچھتے ہوہے یہ کب کی بات
کل کی ہے بات یار ابھی کل کی بات ہے
سلاست وسادگی،اسلوب بیان کی دل کشی وسحرانگیزی اوررواں دواں الفاظ کے سیل سبک سیرکاایک منظربھی دیکھتے چلیں:
کلیم آئے بھی اپنا ہنر دکھابھی گئے
الاپ بھی گئے ،روبھی گئے، رلا بھی گئے
غزل بھی پڑھ گئے محفل کوسنسنابھی گئے
اک آگ لائے بھی،لے بھی گئے، لگابھی گئے
دل اپنا کھوکے مزا دل لگی کاپابھی گئے
بگاڑ بھی گئے کچھ بات کچھ بنابھی گئے
وہ چوٹ کھائی جگر پر کہ تلملابھی گئے
مگر تھے وضع کے پابند مسکرا بھی گئے
سناگئے کسی پردہ نشیں کا افسانہ
وہ شوخ پردہ نشیں کون ہے بتابھی گئے
وفا شعاروں کو کیا پوچھو ہو زمانہ ہوا
وہ چھوڑ بھی گئے بستی کو گھرجلا بھی گئے
زمانہ دنگ ہے عاجزؔ کہ اس زمانے میں
جوکہہ رہے تھے وہی کرکے ہم دکھابھی گئے
میرؔ کے عہدکی زبان ،غمناک لب ولہجہ اورپرسوزاسلوب کے پردہ میں بھی کلیم عاجزکے افکاروخیالات داخلی جذبات واحساسات کے حصارتک محدودنہیں رہتے بلکہ حالات وواقعات کوشعرکے قالب میں اس طرح ڈھالتے ہیں کہ غم دل اورغم دوراں کاامتیازباقی نہیں رہتااورشاعرکی آوازہردل کی آوازبن جاتی ہے،دوغزلوں کے کچھ اشعارملاحظہ ہوں :
بلاتے کیوں ہو عاجزؔ کو بلانا کیا مزا دے ہے
غزل کم بخت کچھ ایسی پڑھے ہے دل ہلادے ہے
محبت کیا بلاہے چین لینا ہی بھلادے ہے
ذرابھی آنکھ جھپکے ہے توبے تابی جگادے ہے
ترے ہاتھوں کی سرخی خودثبوت اس بات کادے ہے
کہ جوکہہ دے ہے دیوانہ وہ کرکے بھی دکھادے ہے
غضب کی فتنہ سازی آئے ہے اس فتنہ ساماں کو
شرارت خودکرے ہے اورہمیں تہمت لگادے ہے
میری بربادیوں کا ڈال کر الزام دنیاپر
وہ ظالم اپنے منھ پرہاتھ رکھ کرمسکرادے ہے
اب انسانوں کی بستی کایہ عالم ہے کہ مت پوچھو
لگے ہے آگ اک گھرمیں توہمسایہ ہوا دے ہے
کلیجہ تھام کرسنتے ہیں لیکن سن ہی لیتے ہیں
میرے یاروں کومیرے غم کی تلخی بھی مزادے ہے
۔۔۔
زخم دل کا وہ نظارہ ہے کہ جی جانے ہے
اتنا احسان تمہارا ہے کہ جی جانے ہے
دیکھنا پھرکہیں زلفیں نہ پریشان ہوجائیں
اتنا مشکل سے سنوراہے کہ جی جانے ہے
مہرباں حال پہ ہیں آپ ہمارے جب سے
تب سے وہ حال ہماراہے کہ جی جانے ہے
یہ حسیں دور جسے موسم گل کہتے ہیں
ایسا رو رو کے گزارا ہے کہ جی جانے ہے
یوں توجی جان کادشمن ہے وہ ظالم پھربھی
ایساجی جان سے پیاراہے کہ جی جانے ہے
کبھی گزرے ہیں چمن سے توگلوں نے عاجزؔ
اس محبت سے پکاراہے کہ جی جانے ہے
شاعرکی قادرالکلامی اورزبان پرگرفت کایہ عالم ہے کہ پہلے مصرعہ میں استعمال ہونے والے لفظوں کے الٹ پھیرسے دوسرامصرعہ یوں مرتب ہوتاہے کہ چونکادینے والی معنویت اورنیامفہوم ومضمون سامنے آجاتاہے ،یہ ایک خاص صنعت ہے جوکلیم عاجزکی شاعری میں نظرآتی ہے،بطورمثال چنداشعارملاحظہ ہوں:
بہت دیکھاہے دل اہل کرم کا ہم فقیروں نے
فقیروں کابھی دل دیکھیں اگر اہل کرم چاہیں
ابھی توجس طرح وہ چاہتے ہیں دن گزرتے ہیں
وہ دن آئے کہ دن ہم یوں گزاریں جیسے ہم چاہیں
۔۔۔
کون اسے چاہے جسے چاہو نہ تم
تم جسے چاہو اسے کیا چاہیے
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہیے
۔۔۔
انہیں اپنے بھی لگتے ہیں پرائے
پرایا بھی ہمیں اپنالگے ہے
بغیر اس بے وفاسے جی لگائے
جو سچ پوچھو تو جی کس کالگے ہے
یوں توجی جان کادشمن ہے وہ ظالم پھربھی
ایساجی جان سے پیاراہے کہ جی جانے ہے
ہم کچھ نہیں کہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا
تم کیاہوتمہیں سب سے کہلوائے چلو ہو
کلیم عاجزکی شخصیت کی ترجمانی کرنے والے چنداشعارملاحظہ ہوں:
جوابِ ظلم دیتی جارہی ہے اپنی مظلومی
اُدھر تلوار رنگیں ہے اِدھررنگیں کفن ہم ہیں
۔۔۔۔۔۔
دل پرُدرد وچشمِ نم سلامت
یہ ساماں ہے توکم ساماں نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔
چلائے جاؤ تم شمشیر ہم بھی
دکھائیں گے تمہیں جوہر غزل کے
۔۔۔
وہ جفاشعاروستم ادا ،تو سخن طراز وغزل سرا
وہ تمام کانٹے اگائیں گے توتمام پھول کھلائے جا
۔۔۔
انہیں بازوپہ اپنے نازہے ہم کو قلم پرہے
وہ شمشیرآئے لے کرہم غزل لے کرچلے آئے
۔۔۔
حقیقتوں کاجلال دیں گے صداقتوں کاجمال دیں گے
تجھے بھی ہم اے غم زمانہ غزل کے سانچے میں ڈھال دیں گے
۔۔۔
توجفامیں مست ہے روزوشب میں کفن بدوش غزل بلب
تیرے رعب حسن سے چپ ہیں سب میں بھی چپ رہوں تومزاہے کیا
۔۔۔
نکل آئے گا کوئی کوہکن بھی
کلیجہ اس کا پتھر ہے تو کیا ہے
زیرنظرمضمون میں کلیم عاجزؔ کے پہلے مجموعۂ کلام اورکچھ دوسرے مجموعۂ کلام سے استفادہ کیاگیاہے،بقیہ مجموعوں سے استفادہ نہیں کیاگیاہے،دنیائے شاعری کے اس کوہکن نے کتنی سنگلاخ وادیوں سے جوئے شیرکے دھارے بہائے ہیں دیکھناباقی ہے۔
*****
ولادت:۱۹۲۶ء ؁ قصبہ تیلہاڑا،ضلع پٹنہ،بہار،وفات:۵ا/فروری ۲۰۱۵ء ؁

ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے